Al-Qurtubi - Al-An'aam : 26
وَ هُمْ یَنْهَوْنَ عَنْهُ وَ یَنْئَوْنَ عَنْهُ١ۚ وَ اِنْ یُّهْلِكُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ
وَهُمْ : اور وہ يَنْهَوْنَ : روکتے ہیں عَنْهُ : اس سے وَيَنْئَوْنَ : اور بھاگتے ہیں عَنْهُ : اس سے وَاِنْ : اور نہیں يُّهْلِكُوْنَ : ہلاک کرتے ہیں اِلَّآ : مگر (صرف) اَنْفُسَهُمْ : اپنے آپ وَ : اور مَا يَشْعُرُوْنَ : وہ شعور نہیں رکھتے
وہ اس سے (اوروں کو بھی) روکتے ہیں اور خود بھی پرے رہتے ہیں۔ مگر (ان باتوں سے) اپنے آپ ہی کو ہلاک کرتے ہیں اور (اس سے) بیخبر ہیں
آیت نمبر 26 :۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : وھم ینھون عنہ وینعون عنہ، النھی کا معنی روکنا ہے اور النای کا معنی دور کرنا ہے۔ یہ تمام کفار کو شامل ہے یعنی وہ حضرت محمد ﷺ کی اتباع سے منع کرتے ہیں اور خودبھی دور بھاگتے ہیں۔ یہ حضرت ابن عباسؓ اور حسن سے مروی ہے۔ بعض نے فرمایا : یہ ابو طالب کے ساتھ خاص ہے، وہ حضرت محمد ﷺ کو اذیت دینے سے کفار کو منع کرتے تھے اور خود آپ پر ایمان لانے سے دور ہوتے تھے۔ یہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے۔ اہل سیرت نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ ایک دن کعبہ کی طرف نکلے اور نماز پڑھنے کا ارادہ کیا، جب نماز میں داخل ہوئے، ابوجہل لعنہ اللہ نے کہا : کون اس شخص کی طرف جائے گا اور اس کی نماز فاسد کرے گا ؟ ابن زبعری کھڑا ہوا، اس نے گوبر اور خون اٹھایا اور نبی کریم ﷺ پر ڈال دیا۔ نبی کریم ﷺ نماز چھور کر واپس آگئے، پھر آپ ابوطالب کے پاس گئے اور کہا : اے چچاجان ! کیا آپ نے نہیں دیکھاجو میرے ساتھ کیا گیا ؟ ابوطالب نے پوچھا : تمہارے ساتھ یہ کس نے کیا ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے کہا : عبداللہ بن زبعری نے۔ ابوطالب اٹھے، تلوار اپنے کندھے پر رکھی اور آپ کیساتھ چل پڑے حتی کہ لوگوں کے پاس آئے، جب لوگوں ابوطالب کو آتا ہوا دیکھا تو اٹھنے لگے۔ ابوطالب نے کہا : اللہ کی قسم ! اگر کوئی شخص اٹھا تو میں اسے اپنی تلوار سے اسے کاٹ کر رکھ دوں گا، وہ سب بیٹھ گئے حتی کہ ابوطالب نے ان کے قریب آئے، پھر کہا بیٹا ! تیرے ساتھ یہ کس نے کیا تھا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : عبداللہ بن زبعری نے۔ ابوطالب نے گوبر اور خون اٹھایا اور ان کے چہروں، داڑھیوں اور کپڑوں پر مل دیا اور انہیں بہت برا کہا۔ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی : آیت : وھم ینھون عنہ و ینعون عنہ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اے چچاجان ! تمہارے متعلق ایک آیت اتری ہے ابوطالب نے کہا : وہ کیا ہے ؟ فرمایا : تم قریش کو منع کرتے ہو کہ وہ مجھے اذیت دیں اور خود مجھ پر ایمان لانے سے انکار کرتے ہو۔ ابوطالب نے کہا : واللہ لن یصلوا الیک بجمعھم حتی اوسد فی التراب دفینا فاصدع بامرک ما علیک غضاضتہ وبشر بذالک وقر منک عیونا ودعوتنی و زعت انک ناصحی فلقد صدقت وکنت قیل امینا وعرضت دینا قد عرفت بانہ من خیر ادیان البریتہ دینا لولا الملامتہ اوجذار مسبتہ لو جدتنی سمحا بذالک یقینا لوگوں نے پوچھا : یارسول اللہ ! کیا آپ کی ابوطالب نے جو مدد کی ہے وہ اسے نفع دے گی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں اس سے اس وجہ سے بیڑیاں دور کی گئی ہیں اور انہیں شیاطین کے ساتھ جکڑا نہیں جائے گا اور انہیں سانپوں اور بچھوؤں والے کنویں میں نہیں ڈالاجائے گا، اس کا عذاب یہ ہے ان کے پاؤں میں آگ کے جوتے ہیں جن کی وجہ سے ان کے سر میں دماغ ابل رہا ہے اور یہ دوزخیوں میں آسان ترین عذاب والا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسول پر نازل فرمایا : آیت : فاصبر کما صبراولوا العزم من الرسل (الاحقاف : 35) صحیح مسلم میں ہے حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے اپنے چچا سے کہا : ـ" تم لا الہ الا اللہ پڑھو میں اس کی وجہ سے قیامت کے روز تمہارے لیے گواہی دؤں گا ـ" (1) صحیح مسلم، کتاب الایمان، جلد 1، صفحہ 40) انہوں نے کہا : اگر قریش مجھے عار نہ دلاتے کہ جزع نے مجھے پڑھنے پر مجبور کیا ہے تو میں اس کے ساتھ تمہاری آنکھیں ٹھنڈی کرتا، پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ آیت : انک لا تھدی من احببت ولکن اللہ یھدی من یشاء (القصص : 56 ) یہ لفظ الجذع ہیجس کا معنی ضعف اور کمزوری ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ فرمایا :" دوزخیوں میں کم ترین عذاب والا ابوطالب ہے، اسے آگ کے جوتے پہنائے گے ہیں جن سے ان کا دماغ ابل رہا ہے " (2) (ایضا، جلد 1، صفحہ 115) رہا عبداللہ بن زبعریتو وہ فتح مکہ کے سال اسلام لایا تھا اور بہت عمدہ اسلام لایا تھا اس نے رسول اللہ کی بارگاہ میں عذر پیش کیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کا عذر قبول فرمالیا۔ وہ عمدہ شاعر تھا، وہ نبی کریم ﷺ کی تعریف کرتا تھا اس کے رسول کی شان میں بہت اشعار ہیں جو ان کے حالت کفر کے اشعار کو نسخ کرتے ہیں۔ اس نے حضور ﷺ کی شان میں یہ اشعار کہے : منع الرقاد بلابل وھموم وللیل مغتلج الرواق بھیم مما اتالی ان احمد لامنی فیہ فمت کا ننی محموم یا خیر من حملت علی اوصالھا عیرانتہ سرح البدین غثوم انی لعتذرالیک من الذی اسدیت اذ انا فی الضلال اھیم ایام تامرنی باغوی خطتہ سھم و تامرنی بھا مخزوم و امد اسباب الردی ویقودنی امر الغواۃ و امرھم مشوم فالیوم آمن بالنبی محمد قلبی و مخصی ھذہ محروم مضت العداوۃ فانقصت اسبابھا واتت اوصر بیننا و حلوم فاغفر فدی لک والدای کلاھما زلنی فانک راحم مرحوم وعلیک من سمۃ الملیک علامتہ نور اغر و خاتم مختوم اعطاک بعد محبتہ برھانہ شرفا و برھان الائلہ عظیم ولقد شھدت بان دینک صادق حقا و انک فی العبادجسیم واللہ یشھد ان احمد مصطفیٰ مستقبل فی الصالحین کریم قرم علا بنیانہ من ہاشم فزع تمکن فی الدری و اروم بعض علماء نے فرمایا : ینئون عنہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو ہنستے تھے، وہ قرآن سے روکتے تھے اور ان سے دور بھاگتے تھے۔ یہ قتادہ سے مروی ہے۔ پہلے دو قولوں کی بنا پر عنہ کی ضمیر کا مرجع نبی کریم ﷺ کی ذات ہوگی اور قتادہ کے قول کی بنا پر ضمیر کا مرجع قرآن ہوگا۔ آیت : و ان یھلکون الا انفسھم، ان نافیتہ ہے یعنی وہ نہیں ہلاک کرتے مگر اپنے نفسوں کو کفر پر اصرار کرنے کے ساتھ اور جن کو روکتے ہیں اور ان کے بوجھ اٹھانے کے ساتھ۔
Top