Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-An'aam : 99
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً١ۚ فَاَخْرَجْنَا بِهٖ نَبَاتَ كُلِّ شَیْءٍ فَاَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُّخْرِجُ مِنْهُ حَبًّا مُّتَرَاكِبًا١ۚ وَ مِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِهَا قِنْوَانٌ دَانِیَةٌ وَّ جَنّٰتٍ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّ الزَّیْتُوْنَ وَ الرُّمَّانَ مُشْتَبِهًا وَّ غَیْرَ مُتَشَابِهٍ١ؕ اُنْظُرُوْۤا اِلٰى ثَمَرِهٖۤ اِذَاۤ اَثْمَرَ وَ یَنْعِهٖ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكُمْ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ
وَهُوَ
: اور وہی
الَّذِيْٓ
: وہ جو۔ جس
اَنْزَلَ
: اتارا
مِنَ
: سے
السَّمَآءِ
: آسمان
مَآءً
: پانی
فَاَخْرَجْنَا
: پھر ہم نے نکالی
بِهٖ
: اس سے
نَبَاتَ
: اگنے والی
كُلِّ شَيْءٍ
: ہر چیز
فَاَخْرَجْنَا
: پھر ہم نے نکالی
مِنْهُ
: اس سے
خَضِرًا
: سبزی
نُّخْرِجُ
: ہم نکالتے ہیں
مِنْهُ
: اس سے
حَبًّا
: دانے
مُّتَرَاكِبًا
: ایک پر ایک چڑھا ہوا
وَمِنَ
: اور
النَّخْلِ
: کھجور
مِنْ
: سے
طَلْعِهَا
: گابھا
قِنْوَانٌ
: خوشے
دَانِيَةٌ
: جھکے ہوئے
وَّجَنّٰتٍ
: اور باغات
مِّنْ اَعْنَابٍ
: انگور کے
وَّالزَّيْتُوْنَ
: اور زیتون
وَالرُّمَّانَ
: اور انار
مُشْتَبِهًا
: ملتے جلتے
وَّغَيْرَ مُتَشَابِهٍ
: اور نہیں بھی ملتے
اُنْظُرُوْٓا
: دیکھو
اِلٰى
: طرف
ثَمَرِهٖٓ
: اس کا پھل
اِذَآ
: جب
اَثْمَرَ
: پھلتا ہے
وَيَنْعِهٖ
: اور اس کا پکنا
اِنَّ
: بیشک
فِيْ
: میں
ذٰلِكُمْ
: اس
لَاٰيٰتٍ
: نشانیاں
لِّقَوْمٍ
: لوگوں کے لیے
يُّؤْمِنُوْنَ
: ایمان رکھتے ہیں
اور وہی تو ہے جو آسمان سے مینہ برستا ہے۔ پھر ہم ہی (جو مینہ برساتے ہیں) اس سے ہر طرح کی روئیدگی اگاتے ہیں پھر اس میں سے سبز سبز کونپلیں نکالتے ہیں اور ان کونپلوں میں سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے دانے نکالتے ہیں اور کھجور کے گابھے میں سے لٹکتے ہوئے گچھے اور انگوروں کے باغ اور زیتون اور انار جو ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں اور نہیں بھی ملتے۔ یہ چیزوں جب پھلتی ہیں تو ان کے پھلوں پر اور (جب پکتی ہیں تو) انکے پکنے پر نظر کرو۔ ان میں ان لوگوں کے لئے جو ایمان لاتے ہیں (قدرت خدا کی بہت سی) نشانیاں ہیں۔
آیت نمبر
99
اس میں سات مسائل ہیں : مسئلہ نمبر
1
۔ قولہ تعالیٰ آیت : وھو الذی انزل من السماء مآء اور وہی ہے جس نے بادل سے بارش نازل فرمائی۔ آیت : فاخرجنا بہ نبات کل شیء یعنی اس کے ذریعے ہم نے اگنے والی چیزوں کی ہر قسم ہم نے نکالی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : ہر حیوان کا رزق ہم نے نکالا۔ آیت فاخرجنا منہ خضرا اخفش نے کہا ہے : یعنی اخضر ( یعنی پھر ہم نے اس سے سبزہ نکالا) جیسا کہ عرب کہتے ہیں : ارینھا نمرہ ارکھا مطرہ (پھیکھڑے بادل بارش ضرور برساتے ہیں) اور الخضر سے مراد سبزیوں کی ہریالی ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے بیان فرمایا : اس سے مراد گندم، جو، سفید جو، مکئی، چاول اور عام قسم کے دانے ہیں۔ آیت : نخرج منہ حبا متراکبا یعنی ان میں سے بعض بعض پر چڑھے ہوتے ہیں جیسے سٹہ ہوتا ہے۔ مسئلہ نمبر
2
۔ قولہ تعالیٰ : آیت : ومن النخل من طلعھا قنوان دانیۃ یہ مبتدا اور خبر ہیں۔ فراء نے غیر قرآن میں ماقبل پر عطف کرتے ہوئے آیت : قنوان دانیۃ پڑھنا جائز قرار دیا ہے۔ سیبویہ نے کہا ہے : عربوں میں سے بعض کہتے ہیں : قنوان۔ فراء نے کہا ہے : یہ بنی قیس کی لغت ہے۔ اور اہل حجاز کہتے ہیں : قنوان اور بنی تمیم کہتے ہیں : قنیان پھر واحد میں ان تمام کا اتفاق ہے۔ اور وہ کہتے ہیں : قنو اور قنو کھجور کا گابھا شگوفہ پھوٹنے سے پہلے بند ہوتا ہے۔ اور اغریض ( شگوفہ) کو بھی طلع (گابھا) کا نام دے دیا جاتا ہے۔ اور طلع وہ ہے جو کھجور کا خوشہ دکھائی دیتا ہے۔ قنوان، قنو کی جمع ہے اور اس کا تثنیہ قنوان ہے جیسے صنوا اور صنوان ہے ( یہ نون کے کسرہ کے ساتھ ہے) ۔ اور اس کے جمع بھی تثنیہ کے وزن پر آئی ہے۔ جوہری وغیرہ نے کہا ہے : تثنیہ صنوان ہے اور جمع صنوان ہے (یعنی اس میں نون مرفوع ہے) اور القنو کا معنی ہے خوشہ۔ اور اس کی جمع القنوان اور الاقناء ہے، جیسے اس قول میں ہے : طویلۃ الاقناء والاثاکل کسی اور نے کہا ہے : اقناء جمع قلت ہے۔ مہدوی نے کہا ہے : ابن ہرمز نے قنوان قاف کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے اور ان سے قاف کا ضمہ بھی مروی ہے اور فتحہ کی صورت میں یہ جمع غیر مکسر کا اسم ہے، یہ قائم مقام رکب کے ہے سیبویہ کے نزدیک، اور قائم مقام باقر اور حامل کے ہے۔ کیونکہ فعلان جمع کی امثلہ میں سے نہیں ہے اور قاف کو ضمہ اس بنا پر دیا گیا ہے کہ یہ قنو کی جمع ہے اور اس کا معنی خوشہ ہے یعنی العذق عین کے کسرہ کے ساتھ اور یہی کباسہ ہوتا ہے اور یہی عنقود النخلہ ( کھجوروں کا گچھا) ہے اور العذق عین کے فتحہ کے ساتھ نفس کھجور کو کہتے ہیں (مراد کھجور کا پھل دار درخت ہے) ۔ اور یہ قول بھی ہے کہ قنوان کا معنی کھجور کے درخت کا گوند بھی ہے۔ دانیۃ یعنی قریب۔ جنہیں کھڑے ہونے والا اور بیٹھنے والا سبھی حاصل کرسکتے ہیں۔ حضرت ابن عباس اور حضرت براء بن عازب ؓ وغیرہما سے یہ مروی ہے۔ زجاج نے کہا ہے : ان میں سے کچھ قریب ہیں اور کچھ بعید ہیں۔ اور اسے کلام سے حذف کردیا گیا ہے۔ اور اسی کی مثل آیت : سرابیل تقیکم الحر (النحل :
81
) بھی ہے۔ اور خاص طور پر قریب کا ذکر کیا ہے، کیونکہ آیت میں مقصود اپنی قدرت کا ذکر اور نعمت کا ساتھ احسان جتلانا ہے اور احسان اسی میں ہوتا ہے جو قریب ہو اور اکثر اسے حاصل کیا جاسکتا ہو۔ مسئلہ نمبر
3
۔ قولہ تعالیٰ آیت : وجنٰت من اعناب یعنی ہم نے باغات پیدا کیے۔ محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ اور اعمش رحمۃ اللہ علیھم نے وجنٰت رفع کے ساتھ پڑھا ہے اور حضرت عاصم (رح) کی قرات میں سے صحیح یہی ہے اور ابو عبید اور ابو حاتم نے اس قرات کا انکار کیا ہے، حتی کہ ابو حاتم نے کہا ہے : یہ محال ہے، کیونکہ کھجوروں کے باغات نہیں ہوتے۔ نحاس نے کہا : قرأت جائز ہے اور تاویل اس طور پر نہیں ہے، بلکہ مبتداء ہونے کی بنا پر اسے رفع دیا گیا ہے اور خبر محذوف ہے ( تقدیر عبارت ہے) ولھم جنات ( اور ان کے لیے باغات ہیں) جیسا کہ قراء کی ایک جماعت نے آیت : وحور عین ( الواقعہ) پڑھا ہے۔ اور اس کی مثل کو سیبویہ، کسائی اور فراء نے جائز قرار دیا ہے۔ اور اس کی مثالیں کثیر ہیں۔ اور اسی بنا پر وحورا عینا بھی ہے اسے سیبویہ نے بیان کیا ہے اور یہ شعر بھی بیان کیا ہے : جئنی بمثل بنی بدر لقومھم أو مثل اسرۃ منظور بن سیار اور کہا گیا ہے : تقدیر کلام ہے آیت : وجنت من اعناب، اخرجنا ھا (یعنی انگور کے باغات ہم نے پیدا کیے) یہ اسی طرح ہے جیسے تمہارا یہ قول ہے : اکرمت عبداللہ واخوہ، ای واخوہ اکرمت ایضا ( یعنی میں نے عبداللہ کی تکریم کی اور اس کے بھائی کی بھی ہم نے تکریم کی) اور رہے زیتون اور رمان کے الفاظ تو ان میں بالاجماع نصب کے سوا کوئی اعراب جائز نہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : وجنت رفع کے ساتھ قنوان پر لفظ معطوف ہے، اگرچہ معنی میں یہ اس کی جنس میں سے نہیں ہے۔ آیت والزیتون والرمان مشتبھاوغیر متشابی یعنی وہ پتوں میں ایک دوسرے مشابہ ہیں، یعنی زیتون کے پتے تمام ٹہنی پر ہونے اور اپنے حجم کے اعتبار سے انار کے پتوں کے ساتھ مشابہت رکھتے ہیں لیکن ذائقے میں وہ ان جیسے نہیں ہیں۔ حضرت قتادہ وغیرہ سے یہ مروی ہے۔ ابن جریج نے کہا ہے : وہ دیکھنے میں ایک جسیے ہیں اور ذائقے میں ایک جسیے نہیں ہیں، جیسا کہ دو انار اپنے رنگ میں ایک جیسے ہوتے ہیں اور اپنے ذائقے میں مختلف ہوتے ہیں۔ انار اور زیتون کا خاص طور پر ذکر اس لیے کیا گیا ہے، کیونکہ یہ دونوں ان ( عربوں) کے قریب تھے اور یہ دونوں ان کے نزدیک ذی قدر تھے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی طرح ہے : آیت : افلا ینظرون الی الابل کیف خلقت (الغاشیہ) اس میں انہیں اونٹ کی طرف دیکھنے کی دعوت دی کیونکہ یہ ایسا جانور ہے جس کی پہچان وہ سب سے زیادہ رکھتے تھے۔ مسئلہ نمبر
4
۔ قولہ تعالیٰ آیت : انظروا الی ثمرہ اذا اثمر یعنی تم عبرت کی نظر سے دیکھو نہ کہ ایسی نظر سے جو غور و فکر سے خالی ہو۔ اور ثمر لغت میں درخت چننے کو کہتے ہیں۔ حمزہ اور کسائی نے ثمرہ ثا اور میم کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے اور باقیوں نے دونوں میں فتحہ پڑھا ہے اور یہ ثمرۃ کی جمع ہے۔ جیسا کہ بقرۃ اور بقر، شجرۃ اور شجر ہے۔ حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے : ثمر سے مراد مال کی مختلف اقسام ہیں۔ اور تمر سے مراد کھجور کا پھل ہے گویا حضرت مجاہد (رح) کے قول کے مطابق معنی یہ ہوگا۔ دیکھو ان مالوں کی طرف جن سے پھل حاصل ہوتا ہے۔ ثمر ثا اور م دونوں کے ضمہ کے ساتھ ثمار کی جمع ہے اور اس سے مراد پھل دار مال ہے۔ اور اعمش سے ثمرہ ثاء کے ضمہ اور میم کے سکون کے ساتھ مروی ہے۔ ضمہ کو ثقیل ہونے کی وجہ سے تخفیف کے لیے حذف کردیا گیا ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ ثمر ثمرۃ کی جمع ہو جیسا کہ بدنۃ اور بدن ہے۔ اور یہ بھی جائز ہے کی ثمر جمع الجمع ہو، پس آپ کہیں گے : ثمرۃ وثمار وثمر جیسا کہ حمار اور حمر ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ وہ ثمرۃ کی جمع ہو جیسا کہ خشبۃ کی جمع خشب ہے نہ کہ جمع الجمع ہو۔ مسئلہ نمبر
5
قولہ تعالیٰ : آیت وینعی محمد بن سمیقع نے یعانعہ پڑھا ہے اور ابن محیصن اور ابن ابی اسحاق نے وینعہ یا کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ فراء نے کہا ہے : یہ بعض اہل نجد کی لغت ہے کہا جاتا ہے : ینع الثمر (پھل پک گی) ینع اور الثمریانع۔ اینع یونع (والتمر مونع) ۔ اس کا معنی ہے پھل کا پک جانا۔ ینع اور اینع تب کہا جاتا ہے جب پھل پک جائے اور اسے پالیا جائے۔ حجاج نے اپنے خطبہ میں کہا تھا : اری رؤسا قد اینعت وحان قطافھا ( میں بعض سروں کو دیھ رہا ہوں وہ پک چکے ہیں اور انہیں توڑنے کا وقت آپہنچا ہے) ۔ ابن الانباری نے کہا ہے : الینع یانع کی جمع ہے، جیسا کہ راکب اور رکب اور تاجرو تجر ہیں۔ مراد بہت زیادہ پکنے والا پھل ہے اور فراء نے کہا ہے : اینع، ینع کی نسبت زیادہ استعمال ہوتا ہے اور اس کا معنی ہے احمر (سرخ) اور اسی سے وہ بھی ہے جو حدیث ملاعنہ میں مروی ہے : ان ولدتہ احمرج مثل الینعۃ (اگر اس نے بچے کو پکے ہوئے پھل کی مانند سرخ جنا) اور یہی خرزہ حمراء ( سرخ پتھر) ہے۔ کہا جاتا ہے : یہ عقیق ہے یا اس کی کوئی قسم ہے۔ پس یہ آیت اس کے لیے دلیل ہے جس نے تدبر کیا اور قلب و نظر کے ساتھ دیکھا اور خوب نظر و فکر کرتے ہوئے دیکھے کہ تبدیلیوں کے لیے کسی تبدیلی لانے والے کا ہونا ضرور ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : آیت : انظروا الی ثمری اذا اثمر وینعہ پس تم اسے دیکھتے ہو کہ یہ پہلے طلع ( گابھا) ہے پھر جب گابھا پھٹ گیا تو یہ اغریض (شگوفہ) ہوگیا۔ اور اغریض کو ضحک کا نام بھی دیا جاتا ہے، پھر اس کے بعد بلح پھر سباب، پھر جدال جب کہ یہ سبز ہو اور گول ہو اس سے پہلے کہ یہ سخت ہو، پھر جب یہ بڑح جائے تو بسر، پھر جب سرخ ہوجائے تو زہو کہلاتی ہے۔ کہا جاتا ہے : ازھی یزھی، پھر جب اس میں پکنے کی علامات ظاہر ہونے لگیں تو یہ موکت کہلاتی۔ اور اگر یہ آثار ذنب (پیچھے) کی جانب سے ظاہر ہوں تو یہ مننب کہلاتی ہے اور یہ تذنوب ہے پھر جب نرم ہوجائے تو یہ ثعدہ کہلاتی ہے اور جب یہ نصف پک جائے تو اس کا نام مجزعۃ ہے اور جب دو تہائی تک پک جائے تو یہ حلقانہ کہلاتی ہے اور جب یہ ساری پک جائے تو یہ منسبۃ کہلاتی ہے۔ کہا جاتا ہے : رطب منسبت، پھر جب یہ خشک ہوجاتی ہے تو تمر بن جاتی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اسے ایک حالت سے دوسرے حالت کی طرف منتقل کر کے، اس میں تغیر اور تبدیلی لا کر اور عدم سے اسے وجود عطا کر کے اپنی وحدانیت اور قدرت کاملہ پر متنبہ کیا ہے اور یہ کہ اسے بنانے والا قادر اور عالم ہے۔ اور یہ دوبارہ اٹھائے جانے کے جواز پر دلیل ہے۔ اس طرح کہ وہ نباتات کو خشک ہونے کے بعد پھر وجود اور تازگی عطا فرماتا ہے۔ جوہری نے کہا ہے : ینع الثمر یبنع وینع ینعا وینعا وینوعا اس کا معنی ہے پھل پک گیا۔ مسلہ نمبر
6
ابن عربی نے کہا ہے کہ امام مالک (رح) نے فرمایا : اچھی طرح پکنا وہ ہوتا ہے جو بغیر فساد کے ہو اور اس میں نقش (کانٹوں کے ساتھ سوراخ کرنا) نہ ہو۔ امام مالک (رح) نے کہا : نقش یہ ہے کہ اہل بصرہ پھل میں سوراخ کرتے تھے تاکہ اسے پکایاجائے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ پھل میں اس طرح سوراخ کردیا جائے کہ اس میں ہوا تیزی سے داخل ہونے لگے پس اس طرح وہ جلدی پک جاتا ہے۔ قرآن کریم میں اس طرح پکنا مراد نہیں ہے۔ اور نہ ہی وہ مراد ہے جس کے ساتھ رسول اللہ ﷺ نے بیع کو مربوط کیا ہے، بلکہ اس سے مراد ایسا پکنا ہے جو باذات ہو اور بغیر کسی حیلہ کے ہو۔ اور انجیروا کے بعض شہروں میں جو ( آب و ہوا کے اعتبار سے) ٹھنڈے ہیں، ان میں وہ پکتا نہیں یہاں تک کہ ان کے منہ میں ایک لکڑی سے داخل کی جاتی ہے درآنحالی کی اسے تیل لگایا ہوتا ہے، پس جب وہ پک جاتا ہے تو اس کی بیع حلال ہوتی ہے، کیونکہ ایسا ہوا کی ضرورت کے تحت کیا جاتا ہے اور اہل شہر کی یہ عادت اور رواج ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو وہ بروقت اچھے طریقہ سے پک کر تیار نہیں ہوتا۔ میں (مفسر) کہتا ہوں یہ ایسا پکنا ہے جس پر کھجوروں کی بیع کا جائز ہونا موقوف ہوتا ہے اور اسی کے سبب وہ کھانے کے قابل ہوتی ہیں اور وہ آفت کے سبب ضائع ہونے سے محفوظ ہوتی ہیں اور یہ ثریا (ستارہ) کے طلوع کے وقت ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ایک عادت جاریہ قرار دیا ہے اور اسے اپنے علم وقدرت کے ساتھ محکم کردیا ہے۔ معلیٰ بن اسد نے وہیب سے، انہوں نے عسل بن سفیان سے، انہوں نے حضرت عطا سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” جب صبح کے وقت ثریا طلوع ہوتا ہے تو اہل علاقہ سے آفت کو اٹھا لیا جاتا ہے “۔ اور ثریا ستارہ ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں اور اس کا طلوع مئی کے مہینے کی گیارہ راتیں گزرنے کے بعد صبح کے وقت ہوتا ہے۔ اور بخاری میں ہے اور مجھے خارجہ بن زید بن ثابت نے خبر دی ہے کہ حضرت زید بن ثابت ؓ اپنی زمین کا پھل نہیں بیچتے تھے یہاں تک کہ ثریا طلوع ہوجاتا اور زردی سرخی سے واضح اور طاہر ہوجاتی۔ مسئلہ نمبر
7
جنہوں نے پھلوں میں آفات کو ساقط کیا ہے انہوں نے ان آثار سے اور ان کی مثل ارشادات نبویہ سے استدلال کیا ہے جن میں آپ ﷺ نے پھلوں کی بیع کرنے سے منع فرمایا ہے یہاں تک کہ ان کے پکنے کی صلاحیت ظاہر ہوجائے۔ اور پھلوں کی بیع کرنے سے آپ نے منع فرمایا ہے یہاں تک کہ ان سے آفت اور ہلاکت کے آثار ختم ہوجائیں۔ عثمان بن سراقہ نے بیان کیا ہے : میں نے حضرت ابن عمر ؓ سے پوچھا : ایسا کب ہوتا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا : جب ثریا طلوع ہوتا ہے (مسند امام احمد، حدیث نمبر
5012
) ۔ امام شافعی (رح) نے کہا ہے : میرے نزدیک یہ ثابت نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے آفات کے وضع اور ساقط کرنے کا حکم دیا ہو اور اگر میرے نزدیک ثابت ہوتا تو میں اسے نہ چھوڑتا، وہ اصل اور بنیاد جس پر اجماع ہے وہ یہ ہے کہ جس کسی نے کوئی ایسی شی خریدی جس کی بیع اور اس پر قبضہ جائز ہوتا ہے تو اس کی آفت اور بیماری اسی کے لیے ہوگئی، فرمایا : اگر میں آفات کو ساقط کرنے کا قائل ہوتا تو اس قلیل و کثیر مقدار میں ساقط کردیتا۔ اور یہی قول امام ثوری اور اہل کوفہ کا ہے۔ امام مالک اور اکثر اہل مدینہ نے اس کی وضع کا موقف اختیار کیا ہے، کیونکہ حضرت جابر ؓ سے حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آفات کی وضع کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔ اسے مسلم نے نقل کیا ہے۔ اور اسی کے مطابق حضرت عمر بن عبدالعزیز فرماتے تھے۔ اور یہی امام احمد بن حنبل (رح) اور تمام اصحاب حدیث کا قول ہے۔ اور اہل ظاہر نے عموم حدیث کی بنا پر خریدی ہوئی شی سے اسے ساقط کیا ہے چاہے اس کی مقدار قلیل ہو یا کثیر۔ مگر امام مالک (رح) اور آپ کے اصحاب نے تب اس کا اعتبار کیا ہے جب آفت پھل کی تہائی یا اس سے زیادہ مقدار کو پہنچ جائے اور جو آفت تہائی سے کم مقدار میں ہو اسے انہوں نے لغو قرار دیا ہے اور اسے تابع قرار دیا ہے، کیونکہ کوئی پھل اپنی خوبی میں قلیل عذر سے خالی نہیں ہوتا اور اپنی تھوڑی مقدار میں فساد اور عیب پڑنے سے محفوظ نہیں ہوتا۔ اصبغ اور اشہب پھل کی طرف نہیں دیکھتے تھے بلکہ قیمت کی طرف دیکھتے تھے۔ جب قیمت تہائی یا زیادہ مقدار کو پہنچ جاتی تو وہ اس سے ساقط کردیتے۔ اور ابن قاسم کے نزدیک تو آفت کو دور کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اور اسی بنا پر یہ ہے کہ سرقہ (چوری) آفت نہیں ہوگئی۔ اور اسی طرح امام محمد (رح) کی کتاب میں ہے اور کتاب میں یہ بھی ہے کہ وہ آفت ہے اور یہ ابن القاسم سے مروی ہے اور ان کے اصحاب اور لوگوں نے ان کی مخالفت کی ہے اور مطرف اور ابن الماجشون نے کہا ہے : آسمان سے پھلوں کو زیادہ تری (بارش) یا سردی یا خشکی یا گرمی یا آدمی کے اختیار اور عمل کے بغیر درختوں کا ٹوٹنا ( یعنی آندھی اور طوفان کے سبب) لاحق ہوتا ہے وہ آفت ہے، البتہ خشکی کے بارے میں اختلاف ہے۔ اور ابن القاسم کی روایت میں ہے کہ وہ بھی آفت ہے۔ اور سبزیوں کے بارے میں صحیح قول یہ ہے کہ وہ بھی پھلوں کی طرح ہیں ( اور ان میں بھی آفت کا اعتبار ہوتا ہے) ۔ جس کسی نے پھل کے پکنے کی صلاحیت ظاہر ہونے سے پہلے اسے بیچ دیا اس شرط پر کہ وہ اسے باقی رہنے دے گا تو اس کی بیع فسخ کردی جائے گی اور مردود ہوگی، کیونکہ اس سے منع کیا گیا ہے، اور اس لیلے کہ یہ باطل طریقے سے مال کھانے کے مترادف ہے، کیونکہ حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے :” تیرا کیا خیال ہے اگر اللہ تعالیٰ پھل کو روک لے تو کیونکر تم میں سے کوئی اپنے بھائی کا مال بغیر حق کے لے سکتا ہے ؟ “۔ یہ جمہور کا قول ہے، اسے امام اعظم ابوحنیفہ (رح) اور آپ کے اصحاب نے صحیح قرار دیا ہے اور نہی کی کراہیت پر محمول کیا ہے۔ اور جمہور نے پھل کی صلاحیت ظاہر ہونے سے پہلے اس کی بیع کو اس شرط پر جائز قرار دیا ہے کہ اسے توڑ لیا جائے۔ اور امام ثوری اور ابن لیلیٰ نے اس سے منع کیا ہے اور انہوں نے اس بارے میں موجود یہی سے استدلال کیا ہے اور جمہور نے اسے قیاس جلی کے ساتھ خاص کیا ہے، کیونکہ اس میں مبیع معلوم ہے اور حالت عقد میں اس پر قبضہ صحیح ہوتا ہے پس اس کی بیع بھی دیگر بیچی جانے والی چیزوں کی طرح صحیح ہوگی۔
Top