Al-Qurtubi - Al-An'aam : 99
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً١ۚ فَاَخْرَجْنَا بِهٖ نَبَاتَ كُلِّ شَیْءٍ فَاَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُّخْرِجُ مِنْهُ حَبًّا مُّتَرَاكِبًا١ۚ وَ مِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِهَا قِنْوَانٌ دَانِیَةٌ وَّ جَنّٰتٍ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّ الزَّیْتُوْنَ وَ الرُّمَّانَ مُشْتَبِهًا وَّ غَیْرَ مُتَشَابِهٍ١ؕ اُنْظُرُوْۤا اِلٰى ثَمَرِهٖۤ اِذَاۤ اَثْمَرَ وَ یَنْعِهٖ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكُمْ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ
وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْٓ : وہ جو۔ جس اَنْزَلَ : اتارا مِنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان مَآءً : پانی فَاَخْرَجْنَا : پھر ہم نے نکالی بِهٖ : اس سے نَبَاتَ : اگنے والی كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز فَاَخْرَجْنَا : پھر ہم نے نکالی مِنْهُ : اس سے خَضِرًا : سبزی نُّخْرِجُ : ہم نکالتے ہیں مِنْهُ : اس سے حَبًّا : دانے مُّتَرَاكِبًا : ایک پر ایک چڑھا ہوا وَمِنَ : اور النَّخْلِ : کھجور مِنْ : سے طَلْعِهَا : گابھا قِنْوَانٌ : خوشے دَانِيَةٌ : جھکے ہوئے وَّجَنّٰتٍ : اور باغات مِّنْ اَعْنَابٍ : انگور کے وَّالزَّيْتُوْنَ : اور زیتون وَالرُّمَّانَ : اور انار مُشْتَبِهًا : ملتے جلتے وَّغَيْرَ مُتَشَابِهٍ : اور نہیں بھی ملتے اُنْظُرُوْٓا : دیکھو اِلٰى : طرف ثَمَرِهٖٓ : اس کا پھل اِذَآ : جب اَثْمَرَ : پھلتا ہے وَيَنْعِهٖ : اور اس کا پکنا اِنَّ : بیشک فِيْ : میں ذٰلِكُمْ : اس لَاٰيٰتٍ : نشانیاں لِّقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يُّؤْمِنُوْنَ : ایمان رکھتے ہیں
اور وہی تو ہے جو آسمان سے مینہ برستا ہے۔ پھر ہم ہی (جو مینہ برساتے ہیں) اس سے ہر طرح کی روئیدگی اگاتے ہیں پھر اس میں سے سبز سبز کونپلیں نکالتے ہیں اور ان کونپلوں میں سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے دانے نکالتے ہیں اور کھجور کے گابھے میں سے لٹکتے ہوئے گچھے اور انگوروں کے باغ اور زیتون اور انار جو ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں اور نہیں بھی ملتے۔ یہ چیزوں جب پھلتی ہیں تو ان کے پھلوں پر اور (جب پکتی ہیں تو) انکے پکنے پر نظر کرو۔ ان میں ان لوگوں کے لئے جو ایمان لاتے ہیں (قدرت خدا کی بہت سی) نشانیاں ہیں۔
آیت نمبر 99 اس میں سات مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1۔ قولہ تعالیٰ آیت : وھو الذی انزل من السماء مآء اور وہی ہے جس نے بادل سے بارش نازل فرمائی۔ آیت : فاخرجنا بہ نبات کل شیء یعنی اس کے ذریعے ہم نے اگنے والی چیزوں کی ہر قسم ہم نے نکالی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : ہر حیوان کا رزق ہم نے نکالا۔ آیت فاخرجنا منہ خضرا اخفش نے کہا ہے : یعنی اخضر ( یعنی پھر ہم نے اس سے سبزہ نکالا) جیسا کہ عرب کہتے ہیں : ارینھا نمرہ ارکھا مطرہ (پھیکھڑے بادل بارش ضرور برساتے ہیں) اور الخضر سے مراد سبزیوں کی ہریالی ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے بیان فرمایا : اس سے مراد گندم، جو، سفید جو، مکئی، چاول اور عام قسم کے دانے ہیں۔ آیت : نخرج منہ حبا متراکبا یعنی ان میں سے بعض بعض پر چڑھے ہوتے ہیں جیسے سٹہ ہوتا ہے۔ مسئلہ نمبر 2۔ قولہ تعالیٰ : آیت : ومن النخل من طلعھا قنوان دانیۃ یہ مبتدا اور خبر ہیں۔ فراء نے غیر قرآن میں ماقبل پر عطف کرتے ہوئے آیت : قنوان دانیۃ پڑھنا جائز قرار دیا ہے۔ سیبویہ نے کہا ہے : عربوں میں سے بعض کہتے ہیں : قنوان۔ فراء نے کہا ہے : یہ بنی قیس کی لغت ہے۔ اور اہل حجاز کہتے ہیں : قنوان اور بنی تمیم کہتے ہیں : قنیان پھر واحد میں ان تمام کا اتفاق ہے۔ اور وہ کہتے ہیں : قنو اور قنو کھجور کا گابھا شگوفہ پھوٹنے سے پہلے بند ہوتا ہے۔ اور اغریض ( شگوفہ) کو بھی طلع (گابھا) کا نام دے دیا جاتا ہے۔ اور طلع وہ ہے جو کھجور کا خوشہ دکھائی دیتا ہے۔ قنوان، قنو کی جمع ہے اور اس کا تثنیہ قنوان ہے جیسے صنوا اور صنوان ہے ( یہ نون کے کسرہ کے ساتھ ہے) ۔ اور اس کے جمع بھی تثنیہ کے وزن پر آئی ہے۔ جوہری وغیرہ نے کہا ہے : تثنیہ صنوان ہے اور جمع صنوان ہے (یعنی اس میں نون مرفوع ہے) اور القنو کا معنی ہے خوشہ۔ اور اس کی جمع القنوان اور الاقناء ہے، جیسے اس قول میں ہے : طویلۃ الاقناء والاثاکل کسی اور نے کہا ہے : اقناء جمع قلت ہے۔ مہدوی نے کہا ہے : ابن ہرمز نے قنوان قاف کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے اور ان سے قاف کا ضمہ بھی مروی ہے اور فتحہ کی صورت میں یہ جمع غیر مکسر کا اسم ہے، یہ قائم مقام رکب کے ہے سیبویہ کے نزدیک، اور قائم مقام باقر اور حامل کے ہے۔ کیونکہ فعلان جمع کی امثلہ میں سے نہیں ہے اور قاف کو ضمہ اس بنا پر دیا گیا ہے کہ یہ قنو کی جمع ہے اور اس کا معنی خوشہ ہے یعنی العذق عین کے کسرہ کے ساتھ اور یہی کباسہ ہوتا ہے اور یہی عنقود النخلہ ( کھجوروں کا گچھا) ہے اور العذق عین کے فتحہ کے ساتھ نفس کھجور کو کہتے ہیں (مراد کھجور کا پھل دار درخت ہے) ۔ اور یہ قول بھی ہے کہ قنوان کا معنی کھجور کے درخت کا گوند بھی ہے۔ دانیۃ یعنی قریب۔ جنہیں کھڑے ہونے والا اور بیٹھنے والا سبھی حاصل کرسکتے ہیں۔ حضرت ابن عباس اور حضرت براء بن عازب ؓ وغیرہما سے یہ مروی ہے۔ زجاج نے کہا ہے : ان میں سے کچھ قریب ہیں اور کچھ بعید ہیں۔ اور اسے کلام سے حذف کردیا گیا ہے۔ اور اسی کی مثل آیت : سرابیل تقیکم الحر (النحل : 81) بھی ہے۔ اور خاص طور پر قریب کا ذکر کیا ہے، کیونکہ آیت میں مقصود اپنی قدرت کا ذکر اور نعمت کا ساتھ احسان جتلانا ہے اور احسان اسی میں ہوتا ہے جو قریب ہو اور اکثر اسے حاصل کیا جاسکتا ہو۔ مسئلہ نمبر 3۔ قولہ تعالیٰ آیت : وجنٰت من اعناب یعنی ہم نے باغات پیدا کیے۔ محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ اور اعمش رحمۃ اللہ علیھم نے وجنٰت رفع کے ساتھ پڑھا ہے اور حضرت عاصم (رح) کی قرات میں سے صحیح یہی ہے اور ابو عبید اور ابو حاتم نے اس قرات کا انکار کیا ہے، حتی کہ ابو حاتم نے کہا ہے : یہ محال ہے، کیونکہ کھجوروں کے باغات نہیں ہوتے۔ نحاس نے کہا : قرأت جائز ہے اور تاویل اس طور پر نہیں ہے، بلکہ مبتداء ہونے کی بنا پر اسے رفع دیا گیا ہے اور خبر محذوف ہے ( تقدیر عبارت ہے) ولھم جنات ( اور ان کے لیے باغات ہیں) جیسا کہ قراء کی ایک جماعت نے آیت : وحور عین ( الواقعہ) پڑھا ہے۔ اور اس کی مثل کو سیبویہ، کسائی اور فراء نے جائز قرار دیا ہے۔ اور اس کی مثالیں کثیر ہیں۔ اور اسی بنا پر وحورا عینا بھی ہے اسے سیبویہ نے بیان کیا ہے اور یہ شعر بھی بیان کیا ہے : جئنی بمثل بنی بدر لقومھم أو مثل اسرۃ منظور بن سیار اور کہا گیا ہے : تقدیر کلام ہے آیت : وجنت من اعناب، اخرجنا ھا (یعنی انگور کے باغات ہم نے پیدا کیے) یہ اسی طرح ہے جیسے تمہارا یہ قول ہے : اکرمت عبداللہ واخوہ، ای واخوہ اکرمت ایضا ( یعنی میں نے عبداللہ کی تکریم کی اور اس کے بھائی کی بھی ہم نے تکریم کی) اور رہے زیتون اور رمان کے الفاظ تو ان میں بالاجماع نصب کے سوا کوئی اعراب جائز نہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : وجنت رفع کے ساتھ قنوان پر لفظ معطوف ہے، اگرچہ معنی میں یہ اس کی جنس میں سے نہیں ہے۔ آیت والزیتون والرمان مشتبھاوغیر متشابی یعنی وہ پتوں میں ایک دوسرے مشابہ ہیں، یعنی زیتون کے پتے تمام ٹہنی پر ہونے اور اپنے حجم کے اعتبار سے انار کے پتوں کے ساتھ مشابہت رکھتے ہیں لیکن ذائقے میں وہ ان جیسے نہیں ہیں۔ حضرت قتادہ وغیرہ سے یہ مروی ہے۔ ابن جریج نے کہا ہے : وہ دیکھنے میں ایک جسیے ہیں اور ذائقے میں ایک جسیے نہیں ہیں، جیسا کہ دو انار اپنے رنگ میں ایک جیسے ہوتے ہیں اور اپنے ذائقے میں مختلف ہوتے ہیں۔ انار اور زیتون کا خاص طور پر ذکر اس لیے کیا گیا ہے، کیونکہ یہ دونوں ان ( عربوں) کے قریب تھے اور یہ دونوں ان کے نزدیک ذی قدر تھے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی طرح ہے : آیت : افلا ینظرون الی الابل کیف خلقت (الغاشیہ) اس میں انہیں اونٹ کی طرف دیکھنے کی دعوت دی کیونکہ یہ ایسا جانور ہے جس کی پہچان وہ سب سے زیادہ رکھتے تھے۔ مسئلہ نمبر 4۔ قولہ تعالیٰ آیت : انظروا الی ثمرہ اذا اثمر یعنی تم عبرت کی نظر سے دیکھو نہ کہ ایسی نظر سے جو غور و فکر سے خالی ہو۔ اور ثمر لغت میں درخت چننے کو کہتے ہیں۔ حمزہ اور کسائی نے ثمرہ ثا اور میم کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے اور باقیوں نے دونوں میں فتحہ پڑھا ہے اور یہ ثمرۃ کی جمع ہے۔ جیسا کہ بقرۃ اور بقر، شجرۃ اور شجر ہے۔ حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے : ثمر سے مراد مال کی مختلف اقسام ہیں۔ اور تمر سے مراد کھجور کا پھل ہے گویا حضرت مجاہد (رح) کے قول کے مطابق معنی یہ ہوگا۔ دیکھو ان مالوں کی طرف جن سے پھل حاصل ہوتا ہے۔ ثمر ثا اور م دونوں کے ضمہ کے ساتھ ثمار کی جمع ہے اور اس سے مراد پھل دار مال ہے۔ اور اعمش سے ثمرہ ثاء کے ضمہ اور میم کے سکون کے ساتھ مروی ہے۔ ضمہ کو ثقیل ہونے کی وجہ سے تخفیف کے لیے حذف کردیا گیا ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ ثمر ثمرۃ کی جمع ہو جیسا کہ بدنۃ اور بدن ہے۔ اور یہ بھی جائز ہے کی ثمر جمع الجمع ہو، پس آپ کہیں گے : ثمرۃ وثمار وثمر جیسا کہ حمار اور حمر ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ وہ ثمرۃ کی جمع ہو جیسا کہ خشبۃ کی جمع خشب ہے نہ کہ جمع الجمع ہو۔ مسئلہ نمبر 5 قولہ تعالیٰ : آیت وینعی محمد بن سمیقع نے یعانعہ پڑھا ہے اور ابن محیصن اور ابن ابی اسحاق نے وینعہ یا کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ فراء نے کہا ہے : یہ بعض اہل نجد کی لغت ہے کہا جاتا ہے : ینع الثمر (پھل پک گی) ینع اور الثمریانع۔ اینع یونع (والتمر مونع) ۔ اس کا معنی ہے پھل کا پک جانا۔ ینع اور اینع تب کہا جاتا ہے جب پھل پک جائے اور اسے پالیا جائے۔ حجاج نے اپنے خطبہ میں کہا تھا : اری رؤسا قد اینعت وحان قطافھا ( میں بعض سروں کو دیھ رہا ہوں وہ پک چکے ہیں اور انہیں توڑنے کا وقت آپہنچا ہے) ۔ ابن الانباری نے کہا ہے : الینع یانع کی جمع ہے، جیسا کہ راکب اور رکب اور تاجرو تجر ہیں۔ مراد بہت زیادہ پکنے والا پھل ہے اور فراء نے کہا ہے : اینع، ینع کی نسبت زیادہ استعمال ہوتا ہے اور اس کا معنی ہے احمر (سرخ) اور اسی سے وہ بھی ہے جو حدیث ملاعنہ میں مروی ہے : ان ولدتہ احمرج مثل الینعۃ (اگر اس نے بچے کو پکے ہوئے پھل کی مانند سرخ جنا) اور یہی خرزہ حمراء ( سرخ پتھر) ہے۔ کہا جاتا ہے : یہ عقیق ہے یا اس کی کوئی قسم ہے۔ پس یہ آیت اس کے لیے دلیل ہے جس نے تدبر کیا اور قلب و نظر کے ساتھ دیکھا اور خوب نظر و فکر کرتے ہوئے دیکھے کہ تبدیلیوں کے لیے کسی تبدیلی لانے والے کا ہونا ضرور ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : آیت : انظروا الی ثمری اذا اثمر وینعہ پس تم اسے دیکھتے ہو کہ یہ پہلے طلع ( گابھا) ہے پھر جب گابھا پھٹ گیا تو یہ اغریض (شگوفہ) ہوگیا۔ اور اغریض کو ضحک کا نام بھی دیا جاتا ہے، پھر اس کے بعد بلح پھر سباب، پھر جدال جب کہ یہ سبز ہو اور گول ہو اس سے پہلے کہ یہ سخت ہو، پھر جب یہ بڑح جائے تو بسر، پھر جب سرخ ہوجائے تو زہو کہلاتی ہے۔ کہا جاتا ہے : ازھی یزھی، پھر جب اس میں پکنے کی علامات ظاہر ہونے لگیں تو یہ موکت کہلاتی۔ اور اگر یہ آثار ذنب (پیچھے) کی جانب سے ظاہر ہوں تو یہ مننب کہلاتی ہے اور یہ تذنوب ہے پھر جب نرم ہوجائے تو یہ ثعدہ کہلاتی ہے اور جب یہ نصف پک جائے تو اس کا نام مجزعۃ ہے اور جب دو تہائی تک پک جائے تو یہ حلقانہ کہلاتی ہے اور جب یہ ساری پک جائے تو یہ منسبۃ کہلاتی ہے۔ کہا جاتا ہے : رطب منسبت، پھر جب یہ خشک ہوجاتی ہے تو تمر بن جاتی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اسے ایک حالت سے دوسرے حالت کی طرف منتقل کر کے، اس میں تغیر اور تبدیلی لا کر اور عدم سے اسے وجود عطا کر کے اپنی وحدانیت اور قدرت کاملہ پر متنبہ کیا ہے اور یہ کہ اسے بنانے والا قادر اور عالم ہے۔ اور یہ دوبارہ اٹھائے جانے کے جواز پر دلیل ہے۔ اس طرح کہ وہ نباتات کو خشک ہونے کے بعد پھر وجود اور تازگی عطا فرماتا ہے۔ جوہری نے کہا ہے : ینع الثمر یبنع وینع ینعا وینعا وینوعا اس کا معنی ہے پھل پک گیا۔ مسلہ نمبر 6 ابن عربی نے کہا ہے کہ امام مالک (رح) نے فرمایا : اچھی طرح پکنا وہ ہوتا ہے جو بغیر فساد کے ہو اور اس میں نقش (کانٹوں کے ساتھ سوراخ کرنا) نہ ہو۔ امام مالک (رح) نے کہا : نقش یہ ہے کہ اہل بصرہ پھل میں سوراخ کرتے تھے تاکہ اسے پکایاجائے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ پھل میں اس طرح سوراخ کردیا جائے کہ اس میں ہوا تیزی سے داخل ہونے لگے پس اس طرح وہ جلدی پک جاتا ہے۔ قرآن کریم میں اس طرح پکنا مراد نہیں ہے۔ اور نہ ہی وہ مراد ہے جس کے ساتھ رسول اللہ ﷺ نے بیع کو مربوط کیا ہے، بلکہ اس سے مراد ایسا پکنا ہے جو باذات ہو اور بغیر کسی حیلہ کے ہو۔ اور انجیروا کے بعض شہروں میں جو ( آب و ہوا کے اعتبار سے) ٹھنڈے ہیں، ان میں وہ پکتا نہیں یہاں تک کہ ان کے منہ میں ایک لکڑی سے داخل کی جاتی ہے درآنحالی کی اسے تیل لگایا ہوتا ہے، پس جب وہ پک جاتا ہے تو اس کی بیع حلال ہوتی ہے، کیونکہ ایسا ہوا کی ضرورت کے تحت کیا جاتا ہے اور اہل شہر کی یہ عادت اور رواج ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو وہ بروقت اچھے طریقہ سے پک کر تیار نہیں ہوتا۔ میں (مفسر) کہتا ہوں یہ ایسا پکنا ہے جس پر کھجوروں کی بیع کا جائز ہونا موقوف ہوتا ہے اور اسی کے سبب وہ کھانے کے قابل ہوتی ہیں اور وہ آفت کے سبب ضائع ہونے سے محفوظ ہوتی ہیں اور یہ ثریا (ستارہ) کے طلوع کے وقت ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ایک عادت جاریہ قرار دیا ہے اور اسے اپنے علم وقدرت کے ساتھ محکم کردیا ہے۔ معلیٰ بن اسد نے وہیب سے، انہوں نے عسل بن سفیان سے، انہوں نے حضرت عطا سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” جب صبح کے وقت ثریا طلوع ہوتا ہے تو اہل علاقہ سے آفت کو اٹھا لیا جاتا ہے “۔ اور ثریا ستارہ ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں اور اس کا طلوع مئی کے مہینے کی گیارہ راتیں گزرنے کے بعد صبح کے وقت ہوتا ہے۔ اور بخاری میں ہے اور مجھے خارجہ بن زید بن ثابت نے خبر دی ہے کہ حضرت زید بن ثابت ؓ اپنی زمین کا پھل نہیں بیچتے تھے یہاں تک کہ ثریا طلوع ہوجاتا اور زردی سرخی سے واضح اور طاہر ہوجاتی۔ مسئلہ نمبر 7 جنہوں نے پھلوں میں آفات کو ساقط کیا ہے انہوں نے ان آثار سے اور ان کی مثل ارشادات نبویہ سے استدلال کیا ہے جن میں آپ ﷺ نے پھلوں کی بیع کرنے سے منع فرمایا ہے یہاں تک کہ ان کے پکنے کی صلاحیت ظاہر ہوجائے۔ اور پھلوں کی بیع کرنے سے آپ نے منع فرمایا ہے یہاں تک کہ ان سے آفت اور ہلاکت کے آثار ختم ہوجائیں۔ عثمان بن سراقہ نے بیان کیا ہے : میں نے حضرت ابن عمر ؓ سے پوچھا : ایسا کب ہوتا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا : جب ثریا طلوع ہوتا ہے (مسند امام احمد، حدیث نمبر 5012) ۔ امام شافعی (رح) نے کہا ہے : میرے نزدیک یہ ثابت نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے آفات کے وضع اور ساقط کرنے کا حکم دیا ہو اور اگر میرے نزدیک ثابت ہوتا تو میں اسے نہ چھوڑتا، وہ اصل اور بنیاد جس پر اجماع ہے وہ یہ ہے کہ جس کسی نے کوئی ایسی شی خریدی جس کی بیع اور اس پر قبضہ جائز ہوتا ہے تو اس کی آفت اور بیماری اسی کے لیے ہوگئی، فرمایا : اگر میں آفات کو ساقط کرنے کا قائل ہوتا تو اس قلیل و کثیر مقدار میں ساقط کردیتا۔ اور یہی قول امام ثوری اور اہل کوفہ کا ہے۔ امام مالک اور اکثر اہل مدینہ نے اس کی وضع کا موقف اختیار کیا ہے، کیونکہ حضرت جابر ؓ سے حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آفات کی وضع کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔ اسے مسلم نے نقل کیا ہے۔ اور اسی کے مطابق حضرت عمر بن عبدالعزیز فرماتے تھے۔ اور یہی امام احمد بن حنبل (رح) اور تمام اصحاب حدیث کا قول ہے۔ اور اہل ظاہر نے عموم حدیث کی بنا پر خریدی ہوئی شی سے اسے ساقط کیا ہے چاہے اس کی مقدار قلیل ہو یا کثیر۔ مگر امام مالک (رح) اور آپ کے اصحاب نے تب اس کا اعتبار کیا ہے جب آفت پھل کی تہائی یا اس سے زیادہ مقدار کو پہنچ جائے اور جو آفت تہائی سے کم مقدار میں ہو اسے انہوں نے لغو قرار دیا ہے اور اسے تابع قرار دیا ہے، کیونکہ کوئی پھل اپنی خوبی میں قلیل عذر سے خالی نہیں ہوتا اور اپنی تھوڑی مقدار میں فساد اور عیب پڑنے سے محفوظ نہیں ہوتا۔ اصبغ اور اشہب پھل کی طرف نہیں دیکھتے تھے بلکہ قیمت کی طرف دیکھتے تھے۔ جب قیمت تہائی یا زیادہ مقدار کو پہنچ جاتی تو وہ اس سے ساقط کردیتے۔ اور ابن قاسم کے نزدیک تو آفت کو دور کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اور اسی بنا پر یہ ہے کہ سرقہ (چوری) آفت نہیں ہوگئی۔ اور اسی طرح امام محمد (رح) کی کتاب میں ہے اور کتاب میں یہ بھی ہے کہ وہ آفت ہے اور یہ ابن القاسم سے مروی ہے اور ان کے اصحاب اور لوگوں نے ان کی مخالفت کی ہے اور مطرف اور ابن الماجشون نے کہا ہے : آسمان سے پھلوں کو زیادہ تری (بارش) یا سردی یا خشکی یا گرمی یا آدمی کے اختیار اور عمل کے بغیر درختوں کا ٹوٹنا ( یعنی آندھی اور طوفان کے سبب) لاحق ہوتا ہے وہ آفت ہے، البتہ خشکی کے بارے میں اختلاف ہے۔ اور ابن القاسم کی روایت میں ہے کہ وہ بھی آفت ہے۔ اور سبزیوں کے بارے میں صحیح قول یہ ہے کہ وہ بھی پھلوں کی طرح ہیں ( اور ان میں بھی آفت کا اعتبار ہوتا ہے) ۔ جس کسی نے پھل کے پکنے کی صلاحیت ظاہر ہونے سے پہلے اسے بیچ دیا اس شرط پر کہ وہ اسے باقی رہنے دے گا تو اس کی بیع فسخ کردی جائے گی اور مردود ہوگی، کیونکہ اس سے منع کیا گیا ہے، اور اس لیلے کہ یہ باطل طریقے سے مال کھانے کے مترادف ہے، کیونکہ حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے :” تیرا کیا خیال ہے اگر اللہ تعالیٰ پھل کو روک لے تو کیونکر تم میں سے کوئی اپنے بھائی کا مال بغیر حق کے لے سکتا ہے ؟ “۔ یہ جمہور کا قول ہے، اسے امام اعظم ابوحنیفہ (رح) اور آپ کے اصحاب نے صحیح قرار دیا ہے اور نہی کی کراہیت پر محمول کیا ہے۔ اور جمہور نے پھل کی صلاحیت ظاہر ہونے سے پہلے اس کی بیع کو اس شرط پر جائز قرار دیا ہے کہ اسے توڑ لیا جائے۔ اور امام ثوری اور ابن لیلیٰ نے اس سے منع کیا ہے اور انہوں نے اس بارے میں موجود یہی سے استدلال کیا ہے اور جمہور نے اسے قیاس جلی کے ساتھ خاص کیا ہے، کیونکہ اس میں مبیع معلوم ہے اور حالت عقد میں اس پر قبضہ صحیح ہوتا ہے پس اس کی بیع بھی دیگر بیچی جانے والی چیزوں کی طرح صحیح ہوگی۔
Top