Al-Qurtubi - Al-Haaqqa : 4
كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ وَ عَادٌۢ بِالْقَارِعَةِ
كَذَّبَتْ : جھٹلایا ثَمُوْدُ : ثمود نے وَعَادٌۢ : اور عاد نے بِالْقَارِعَةِ : کھڑکا دینے والی کو
کھڑکھڑانے والی (جس) کو ثمود اور عاد (دونوں) نے جھٹلایا
کذبت ثمود و عاد بالقارعۃ۔ ” ثمود اور عاد نے ٹکرا کر پاش پاش کرنے والی کو۔ “ جنہوں نے قیامت کو جھٹلایا اس کا ذکر فرمایا۔ قارعہ سے مراد قیامت ہے (2) اسے یہ نام اس لئے دیا کیونکہ یہ لوگ کو اپنی ہولناکیوں سے کھٹکھٹاتی ہے۔ یہ جملہ بولا جاتا ہے : اصابتھم قوارع الدھر انہیں حادثات زمانہ پہنچے۔ نعوذ باللہ من قوارع فلان ولواذعہ وقوارص لسانہ ہم فلاں کی طرف سے دی جانے والی مصیبتوں، آفتوں اور بدکلامیوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ ماگنتے ہیں۔ قوارص یہ قارضہ کی جمع ہے جس کا معنی تکلیف دہ حکم ہے۔ قوارع القرآن، اس سے مراد وہ آیات ہیں جو انسان، جنوں یا انسانوں سے خوفزدہ ہو کر پڑھتا ہے جس طرح آیت الکرسی، گویا یہ شیطان کو کھٹکھٹاتی ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے قارعہ یر قعہ سے ماخوذ ہے (3) یعنی وہ بعض لوگوں کو بلند اور بعض کو پست کردیتی ہے، یہ مبرد کا قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : قارعہ سے مراد ایسا عذاب ہے جو دنیا میں ان پر نازل ہوا۔ ان کا نبی انہیں اس بارے میں خبر دار کرتا تھا تو وہ اس نبی کی تکذیب کرتے تھے۔ قوم ثمود جو حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم تھی (4) ان کی بستیاں شام اور حجاز کے درمیان حجر کے مقام پر تھیں۔ محمد بن اسحاق نے کہا، یہ وادی قری ہے۔ یہ عبر تھے جہاں تک عاد کا تعلق ہے وہ حضرت ہود (علیہ السلام) کی قوم تھی۔ ان کی بستیاں احقاف کے علاقہ میں تھیں۔ احقاف سے مراد عمان سے لے کر حضرت موت تک کار یتلا علاقہ ہے اور پورا یمن مراد ہے۔ یہ عربی تھے، بڑے مضبوط جسم والے تھے، محمد بن اسحاق نے اس کا ذکر کیا۔ یہ بحث پہلے گزر چکی ہے۔
Top