Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 115
قَالُوْا یٰمُوْسٰۤى اِمَّاۤ اَنْ تُلْقِیَ وَ اِمَّاۤ اَنْ نَّكُوْنَ نَحْنُ الْمُلْقِیْنَ
قَالُوْا : وہ بولے يٰمُوْسٰٓي : اے موسیٰ اِمَّآ : یا اَنْ : یہ کہ تُلْقِيَ : تو ڈال وَاِمَّآ : اور یاد (ورنہ) اَنْ : یہ کہ نَّكُوْنَ : ہوں نَحْنُ : ہم الْمُلْقِيْنَ : ڈالنے والے
جب فریقین روز مقرر پر جمع ہوئے تو جادوگروں نے کہا کہ موسیٰ یا تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں
آیت نمبر : 115۔ 117 وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ادب سے پیش آئے تو یہی ان کے ایمان کا سبب بن گیا اور ان کسائی اور فراء کے نزدیک محل نصب میں ہے، معنی یہ ہے اما ان تفعل الالقائ ( یا آپ ڈالیں) اور اسی کی مثل شاعر کا یہ قول بھی ہے : قالوا الرکوب فقلنا تلک عادتنا قال القو فراء نے کہا ہے : کلام میں حذف ہے اور معنی یہ ہے : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو کہا بلاشبہ تم ہر گز اپنے رب پر غالب نہیں آسکو گے اور تم ہر گز اس کی آیات اور نشانیوں کو باطل نہیں کرسکو گے۔ اور یہ قرآن کریم کے اس معجزہ میں سے ہے کہ اس کی مثل لوگوں کا کلام نہیں ہو سکتا اور نہ وہ اس پر قادر ہو سکتے ہیں کہ قرآن کریم کے تھوڑے الفاظ بہت زیادہ معانی کو متمضن ہوتے ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ تہدید اور ڈراوا ہے، یعنی تم پہلے ڈالو، پس تم اس ذلت اور رسوائی کو دیکھ لو گے جو تم پر طاری ہوگی، کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے یہ جائز نہیں کہ آپ انہیں جادو کا حکم دیں۔ اور یہ قول بھی ہے کہ آپ نے انہیں یہ حکم اس لیے دیا تاکہ ان کا جھوٹ اور ان کی ملمع سازی ظاہر ہوجائے گی۔ آیت : فلما القوا پس جب انہوں نے رسیاں اور عصا ڈالے۔ آیت : سحروا اعین الناس یعنی انہوں نے انہیں وہم میں ڈال دیا اور آنکھوں کو صحیح ادراک کرنے سے بدل دیا، ایسی شے کے ساتھ جس سے ایسی ملمع سازی کا وہم دلایا جاتا ہے جو شعوذہ اور خفۃ الید کے قائم مقام ہوتی ہے، جیسا کہ سورة البقرہ میں اس کا بیان گزر چکا ہے۔ اور عظیم کا معنی ہے وہ ان کے نزدیک بڑا تھا، کیونکہ وہ کثیر تھا لیکن وہ فی الحقیقت بڑا نہ تھا۔ ابن زید نے کہا (معالم التنزیل، جلد 2، صفحہ 521) ہے : اجتماع اسکندریہ میں تھا اور سانپ کی دم بحرہ کے پر تک پہنچی ہوئی تھی۔ اور کسی اور نے کہا ہے : اژدہا نے منہ کھولا اور وہ انہیں نگلنے لگا جو رسیاں اور عصا انہوں نے ڈالے تھے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : جو رسیاں انہوں نے ڈالی تھیں وہ چمڑے کی تھیں اور ان میں پارہ بھرا ہوا تھا پس انہوں نے حرکت کی اور وہ کہنے لگے یہ سانپ ہیں۔ حفص نے تلقف لام کے سکون اور تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے اور اسل یلقف یلقف کا مضارع بنایا ہے۔ نحاس نے کہا ہے : اس قراءت پر تلقف بھی جائز ہے، کیونکہ یہ لقف سے ہے۔ اور باقیوں نے تشدید اور لام کو فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے اور انہوں نے اسے تلقف کا مضارع بنایا ہے اور یہ (اصل میں) تتلقف ہے۔ کہا جاتا ہے : لقفت الشی وتلقفتہ جب تو کسی کو پکڑ لے یا اسے نگل لے۔ تلقف اور تلقم اور تلھم تمام کا ایک معنی ہے۔ ابو حاتم نے کہا ہے : مجھے بعض قراتوں میں تلقم میم اور تشدید کے ساتھ کی خبر پہنچی ہے۔ شاعر نے کہا ہے : انت عصا موسیٰ التی لم تزل تلقم ما یاف کہ الساحر (تفسیر ماوردی، جلد 2، صفحہ 246 ) اور تلقف بھی روایت کیا جاتا ہے۔ ما یافکون یعنی اسے جو ان کا جھوٹ تھا، کیونکہ وہ رسیاں لے کر آئے اور انہوں نے ان میں پارہ بھر دیا یہاں تک کہ وہ حرتک کرنے لگیں۔
Top