Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 165
فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖۤ اَنْجَیْنَا الَّذِیْنَ یَنْهَوْنَ عَنِ السُّوْٓءِ وَ اَخَذْنَا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍۭ بَئِیْسٍۭ بِمَا كَانُوْا یَفْسُقُوْنَ
فَلَمَّا : پھر جب نَسُوْا : وہ بھول گئے مَا : جو ذُكِّرُوْا بِهٖٓ : انہیں سمجھائی گئی تھی اَنْجَيْنَا : ہم نے بچا لیا الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يَنْهَوْنَ : منع کرتے تھے عَنِ السُّوْٓءِ : برائی سے وَاَخَذْنَا : اور ہم نے پکڑ لیا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے ظَلَمُوْا : ظلم کیا بِعَذَابٍ : عذاب بَئِيْسٍ : برا بِمَا : کیونکہ كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ : نافرمانی کرتے تھے
جب انہوں نے ان باتوں کو فراموش کردیا جن کی ان کو نصیحت کی گئی تھی تو جو لوگ برائی سے منع کرتے تھے ان کو ہم نے نجات دی اور جو ظلم کرتے تھے ان کو برے عذاب میں پکڑ لیا۔ کہ نافرمانی کئے جاتے تھے۔
آیت نمبر : 165 نسیان کا اطلاق بھولنے والاے پر ہوتا ہے۔ اور عامد کا اطلاق ترک کرنے والے پر، کیونک اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : فلما نسوا ما ذکروا بہ یعنی انہوں نے اسے بالا رادہ ترک کر یا۔ اور اس معنی میں یہ ارشاد گرامی ہے : نسو اللہ فنسیھم (التوبہ : 67) ( انہوں نے بھلا دیا اللہ کو تو ان نے بھی فراموش کردیا ہے انہیں) اور بعذاب بئیس کا معنی ہے شدید عذاب۔ اور اس میں گیارہ قرائتیں ہیں : (1) ابو عمرو، حمزہ اور کسائی کی قراءت فعیل کے وزن پر بئیس ہے (زاد المسیر، جلد 2، صفحہ 213) (2) اہل مکہ کی قراءت بئیس با کے کسرہ کے ساتھ ہے اور وزن ایک ہی ہے ( 3) اہل مدینہ کی قراءت بیس ہے یعنی با مسکور ہے اس کے بعد یاء ساکن ہے (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 869) اور اس کے بعد سین تنوین مکسور کے ساتھ ہے اور اس میں دو قول ہیں : کسائی نے کہا ہے : اس میں اصل بییس ہے ہمزہ میں تخفیف کی گئی ہے دو یا جمع ہوئی ہیں ان میں سے ایک کو حذف کردیا گیا ہے اور پہلے حرف کو کسرہ دیا گیا ہے، جیسے کہا جاتا ہے : رغیف اور شھید۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : مراد بئس فعل کے وزن پر ہے، پھر پہلے حرف کو کسرہ سے دیا گیا، ہمزہ میں تخفیف کی گئی اور کسرہ کو حذف کردیا گیا، جیسے کہا جاتا ہے : رحم ورحم (4) حسن کی قراءت میں با مکسور اس کے بعد ہمزہ ساکن اور اس کے بعد سین مفتوح ہے (5) ابو عبدالرحمن مقری نے بئیس با کو مفتوح، ہمزہ کو مکسور اور سین کو تنوین مکسور کے ساتھ پڑھا ہے (6) یعقوب القاری نے کہا ہے کہ بعض قراء سے بعذاب بئیس بھی مروی ہے یعنی با مفتوح، ہمزہ مکسور اور سین مفتوح ہے (7) اعمش کی قراءت فیعل کے وزن پر بیئس ہے اور ان سے بیائس، فیعل کے وزن پر بھی مروی ہے۔ اور آپ سے بئیس با مفتوح، ہمزہ مشدد مکسور اور سین تمام میں تنوین مکسور کے ساتھ مروی ہے۔ مراد اعمش کی قراءت ہے۔ (10) نصر بن عاصم کی قراءت بعذاب بئیس ہے یعنی با مفتوح اور یا مشدد بغیر ہمزہ کے ہے۔ یعقوب القاری نے کہا ہے کہ بعض قراء سے بئیس مروی ہے یعنی ب مکسور ہے اس کے بعد ہمزہ ساکن ہے اور اس کے بعد یا مفتوح ہے۔ پس یہ گیارہ قرائتیں ہیں جنہیں نحاس نے ذکر کیا ہے۔ علی بن سلیمان نے کہا ہے : عرب کہتے ہیںٰ : جاء ببنات بیس یعنی وہ ردی شے لے کر آیا، پس بعذاب بئس کا معنی ہواب عذاب ردی۔ اور رہی حسن کی قراءت تو ابو حاتم کا گمان ہے کہ اس کی کوئی وجہ نہیں، انہوں نے کہا : کیونکہ یہ نہیں کہا جاتامررت برجل بئس، بلکہ کہا جاتا ہے : بئس الرجل یابئس رجلا۔ نحاس نے کہا ہے : یہ ابو حاتم کے کلام سے مرود ہے، نحویوں نے بیان کیا ہے : ان فعلت کذا او کذا فبھا ونتمت ( اگر تو نے اس طرح کیا تو بہتر ہے اور اچھا ہے) وہ مراد یہ لیتے ہیں فبھا و نعمت الخصلۃ ( یعنی خصلت اچھی ہے) اور حسن کی قراءت پر تقدیر کلام یہ ہوگی : بعذاب بئس العذاب۔
Top