Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 8
وَ الْوَزْنُ یَوْمَئِذِ اِ۟لْحَقُّ١ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
وَالْوَزْنُ : اور وزن يَوْمَئِذِ : اس دن الْحَقُّ : حق فَمَنْ : تو جس ثَقُلَتْ : بھاری ہوئے مَوَازِيْنُهٗ : میزان (نیکیوں کے وزن فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی هُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : فلاح پانے والے
اور اس روز (اعمال کا) تلنا برحق ہے تو جن لوگوں کے (عملوں کے) وزن بھاری ہونگے وہ تو نجات پانے والے ہیں۔
قولہ تعالیٰ : والوزن یومئذا لحق یہ مبتدا اور خبر ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ الحق صفت ہو اور خبر یومئذ ہو اور یہ بھی جائز ہے الحق مصدر کی بنا پر منصوب ہو۔ اور وزن سے مراد میزان ( ترازو) کے ساتھ بندوں کے اعمال کا وزن کرنا ہے۔ حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا : بندوں کے صحائف اعمال کا وزن کیا جائے گا اور یہی صحیح ہے اور اسی کے بارے حدیث میں ہے جو آگے آرہی ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : میزان سے مراد وہ کتاب ہے جس میں مخلوق کے اعمال درج ہیں۔ اور حضرت مجاہد (رح) نے فرمایا : میزان سے مرادنیکیوں اور گناہوں کا عیاں ہونا ہے۔ اور آپ سے حضرت ضحاک اور اعمش سے یہ بھی مروی ہے کہ وزن اور میزان عدل اور قضا ( عدل و انصاف سے فیصلہ کرنا) کے معنی میں ہیں اور وزن کا ذکر بطور ضرب المثل ہے، جیسا کہ آپ کہتے ہیں : ھذا الکلام فی وزن ھذا وفی وزانہ یعنی یہ کلام اس کے مساوی اور ہم پلہ ہے اگرچہ وہاں کوئی وزن نہیں۔ زجاج نے کہا ہے : لغت اور زبان کے اعتبار سے یہ جائز ہے اور اولیٰ اور بہتر یہ ہے کہ اس کی اتباع اور پیروی کی جائے جو ان صحیح احادیث میں ہے جو میزان کے ذکر میں وارد ہیں۔ علامہ قشیری نے کہا ہے : اس بارے میں انہوں نے جو کہا خوب کہا کہ اگر میزان کو اس ( مذکورہ معنی) پر محمول کیا جائے تو پھر چاہیے کہ پل صراط کو دین حق ( کے معنی) پر محمول کیا جائے، جنت اور دوزخ اس معنی پر جوار واح پر صادق آتا ہے نہ کہ اجسام پر اور شاطین اور جنات کو اخلاق مذمومہ پر اور ملائکہ کو قوائے محمودہ کے معنی پر محمول کیا جائے، حالانکہ امت کا دور اول میں اس پر اجماع ہوچکا ہے کہ یہ تمام الفاظ بغیر کسی تاویل کے اپنے ظاہر معنی پر محمول ہیں۔ اور تاویل نہ ہونے پر اجماع ہے تو پھر ظاہر معنی مراد لینا واجب ہے اور یہ ظواہر ہی نصوص ہوگئے۔ ابن فورک نے کہا ہے : معتزلہ نے اس بنا پر میزان کا انکار کیا ہے کہ اعراض کا وزن کرنا محال ہے، کیونکہ وہ بالذات قائم ہی نہیں ہوتے۔ اور متکلمین میں سے بعض کہتے ہیں : بیشک اللہ تعالیٰ اعراض کو اجسام میں بدل دے گا اور وہ قیامت کے دن ان کا وزن کرے گا۔ اور یہ ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے اور صحیح یہ ہے کہ موازین ان کتابوں کے سبب بوجھل اور بھاری ہوں گے جن میں اعمال لکھے ہوئے ہیں اور انہیں کے سبب خفیف اور ہلکے ہوں گے۔ اور حدیث طیبہ میں وہ مروی ہے جو اس کو ثابت کرتا ہے اور وہ اس طرح مروی ہے کہ بعض لوگوں کا میزان ( ترازو) قریب ہے کہ نیکیوں کا پلڑا ہلکا ہوجائے پھر اس میں کا غز کا ایک ٹکڑا رکھا جائے گا جس پر لا الہ الا اللہ لکھا ہوگا تو وہ بھاری ہوجائے گا، تو اس سے معلوم ہوا کہ کہ ان کتابوں کے وزن کی طرف راجع ہے جن میں اعمال لکھے ہوئے ہیں نہ کہ نفس اعمال کی طرف اور یہ کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ میزان کو ہلکا کر دے گا جب چاہے گا اور بھاری کر دے گا جب ارادہ فرمائے گا اس شے کے ساتھ جو ان صحف میں سے اس کے پلڑوں میں رکھی جائے گی جن میں اعمال درج ہیں۔ اور صحیح مسلم میں صفوان بن محرز سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ ایک آدمی نے حضرت ابن عمر ؓ کو کہا : آپ نے کیا سنا ہے رسول اللہ ﷺ نجومی ( سرگوشی) کے بارے کیا فرماتے ہیں ؟ تو انہوں نے فرمایا : میں نے آپ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ” ایک مومن کو قیامت کے دن اپنے رب کے قریب کیا جائے گا یہاں تک کہ وہ اس پر اپنی رحمت کا پردہ ڈال دے گا اور اسے اس کے گناہوں کے بارے اقرار کرائے گا اور فرمائے گا : کیا تو ( اسے) پہچانتا ہے۔ تو وہ عرض کرے گا : اے میرے رب ! میں پہچانتا ہوں، تو رب کریم فرمائے گا : چونکہ میں نے اسے دنیا میں تجھ پر مخفی اور پوشیدہ رکھا ہے اور میں اسے آج بھی تیرے لیے معاف فرماتا ہوں، پس اسے اس کی نیکیوں کو صحیفہ عطا کردیا جائے گا۔ اور رہے کفار اور منافقین تو انہیں بھی مخلوق کے سامنے بلایا جائے گا کہ یہ وہ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ “ (صحیح مسلم، کتاب التوبۃ، جلد 2، صفحہ 360 ) ۔ پس آپ کا قول : فیعطی صحیفۃ حسناتہ یہ اس پر دلیل ہے کہ اعمال صحف میں لکھا جاتے ہیں اور ان کا وزن کیا جائے گا۔ اور ابن ماجہ نے حضرت عبداللہ بن عمر وؓ سے حدیث روایت کی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” قیامت کے دن میری امت کا ایک آدمی تمام مخلوق کے سامنے بلایا جائے گا اور اس پر ننانوے رجسٹر ( دفتر) کھل جائیں گے ان میں سے ہر رجسٹر حد نگاہ تک ہوگا، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا تو اس میں سے کسی کا انکار کرتا ہے ؟ تو وہ عرض کرے گا : اے میرے رب ! نہیں۔ پھر رب کریم فرمائے گا : کیا میرے کراما کاتبین فرشتوں نے تیرے ساتھ زیادتی کی ہے ؟ تو وہ عرض کرے گا : نہیں۔ پھر رب کریم فرمائے گا : کیا تیرا کوئی عذر ہے، کیا تیری کوئی نیکی ہے ؟ تو وہ آدمی ڈر جائے گا اور عرض کرے گا : نہیں۔ تو رب کریم فرمائے گا : ( کیوں نہیں) بلکہ ہمارے پاس تیری نیکیاں ہیں اور آج تجھ پر کوئی ظلم نہ ہوگا، پھر اس کے لیے کاغذکا ایک ٹکڑا نکالا جائے گا جس میں یہ لکھا ہوگا اشھد ان لا الہ الا اللہ وان محمدا عبدہ ورسولہ ( میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں) تو وہ پوچھے گا : اے میرے رب ! ان رجسٹروں کے ہوتے ہوئے اس کاغذ کے ٹکڑے کی کیا حیثیت ہے ؟ تو رب کریم فرمائے گا : بلاشبہ تجھ پر ظلم نہیں کیا جائے گا پس وہ کا پیاں ( اور رجسٹر) ترازو کے ایک پلڑے میں رکھی جائیں گی اور وہ کاغذ کا ٹکڑا دوسرے پلڑے میں رکھا جائے گا تو کا پیوں والا پلڑا ہلکا ہوجائے گا اور وہ گا غذ کا ٹکڑا بھاری ہوجائے گا “ (سنن ابن ماجہ، کتاب الزہد، جلد 1، صفحہ 328 ) ۔ ترمذی نے یہ الفاظ زائد نقل کیے ہیں : فلا یثقل مع اسم اللہ شی (جامع ترمذی، باب ما جاء فیمن یموت وھو یشھد ان لا اللہ الا اللہ، حدیث نمبر 2583، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) پس اللہ تعالیٰ کے نام سے کوئی شی بھاری نہیں ہو سکتی۔ اور فرمایا : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ اس بارے میں مزید بیان سورة الکہف اور سورة الانبیاء میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ قولہ تعالیٰ : آیت : فمن ثقلت موازینہ فاولئک ھم آیت نمبر۔ 9۔ 8 الی آخرہ۔۔ موازینہ یہ میزان کی جمع ہے اور اس کی اصل موزان ہے، واو ماقبل مکسور کو یا سے بدل دیا گیا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کہ بھی جائز ہے کہ وہاں ایک عامل کے لیے کئی میزان ہوں اور ہر میزان کے ساتھ ایک نوع کے اعمال کا وزن کیا جائے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ میزان ایک ہو اور اسے لفظ جمع کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہو، جیسے آپ کہتے ہیں : خرج فلان الی مکۃ علی البغال، اور خرج الی البصرۃ فی السفن۔ اور قرآن کریم میں ہے : آیت : کذبت قوم نوح المرسلین ( الشعرائ) اور کذبت عاد المرسلین (الشعرائ) اور بلاشبہ دو تاویلوں میں سے ایک کے مطابق وہ رسول ایک ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : الموازین، موزون کی جمع ہے، نہ کہ میزان کی اور موازین سے مراد وہ اعمال ہیں جن کا وزن کیا جائے گا۔ آیت : ومن خفت موازینہ اس کی تفسیر بھی مذکورہ تفسیر کی مثل ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : نیکیوں اور بدیوں کا وزن ایسے ترازو میں کیا جائے گا جس کی ایک لسان ( یعنی وہ حصہ جو تولتے وقت ہاتھ میں رہتا ہے) اور دو پلڑے ہیں، پس جہاں تک مومن کا تعلق ہے تو اس کے عمل کو انتہائی حسین صورت میں لایا جائے گا اور اسے ترازو کے پلڑے میں رکھ دیا جائے گا تو اس کی نیکیاں اس کی بدیوں پر غالب آجائیں گی اور اسی کے بارے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : فمن ثقلت موازینہ فاولئک ھم المفلحون، اور کافر کے عمل کو انتہائی قبیح صورت میں لایا جائے گا اور اسے ترازو کے پلڑے میں رکھ دیا جائے گا اور اس کا وزن ہلکا ہوجائے گا یہاں تک کہ وہ جہنم میں گر جائے گا۔ اور جس کی طرف حضرت ابن عباس ؓ نے اشارہ کیا ہے وہ اس کے قریب ہے جو یہ کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے اعمال میں سے ہر جز کا جوہر تخلیق فرمائے گا اور اسی جوہر کا وزن کیا جائے گا اور اسے ابن فورک وغیرہ نے رد کیا ہے۔ اور حدیث طیبہ میں ہے :” جب مومن کی نیکیاں کم ہوں گی تو رسول اللہ ﷺ انگلی کے پورے کی مثل کاغذ کا ٹکڑا نکالیں گے اور اسے میزان کے اس دائیں پلڑے میں ڈال دیں گے جس میں اس کی نیکیاں ہوں گی تو نیکیاں بڑھ جائیں گی ( یعنی یہ پلڑا بھاری ہوجائے گا) پس وہ بندہ مومن حضور نبی رحمت ﷺ کی بارگاہ میں عرض کرے گا : آپ پر میرے ماں باپ نثار ! آپ کا چہرہ مبارک کتنا حسین ہے اور آپ کے اخلاق کتنے خوبصورت ہیں ( یہ تو بتائیے) آپ کون ہیں ؟ تو آپ فرمائیں گے : ان محمد نبیک وھذہ صلواتک التی کنت تصلی علی قد وفیتک احوج ما تکون الیھا ( میں تیرا نبی محمد ﷺ ہوں اور یہ تیرا وہ درود پاک ہے جو مجھ پر تو پڑھتا تھا اور میں نے تیری وہ حاجت پوری کردی جس کا تو زیادہ حاجت مند تھا۔ اسے قشیری نے اپنی تفسیر میں ذکر کیا ہے (تفسیر کبیر، جلد 13، صفحہ 27) اور بیان کیا کہ یہ بطاقۃ ( با کے کسرہ کے ساتھ) کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے جس میں سامان ( متاع) کی تفصیل لکھی جائے یہ اہل مصر کی لغت کے مطابق ہے۔ اور ابن ماجہ نے کہا ہے کہ محمد بن یحییٰ نے بیان کیا کہ بطاقہ لکھی ہوئی پرچی (رقعہ) کو کہتے ہیں (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 4289، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور اہل مصر رقعۃ کو بطاقۃ کہتے ہیں۔ اور حضرت حذیفہ ؓ نے بیان کیا ہے : قیامت کے دن وزن کرنے والے حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) ہوں گے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا : یا جبریل زن بینھم فروسا من بعض علی بعض ( اے جبریل ! ان کے درمیان وزن کر اور بعض سے بعض کی طرف لوٹا دے) فرمایا : وہاں کوئی سونا اور چاندی نہ ہوگا۔ پس اگر ظالم کی نیکیاں ہوگی تو اس کی نیکیاں لے کر مظلوم کی طرف لوٹا دی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں نہ ہوئیں تو مظلوم کے گناہ لے کر ظالم پر ڈال دیئے جائیں گے۔ پس وہ آدمی لوٹے گا اور اس پر پہاڑ کی مثل ( بوجھ) ہوگا (تفسیر طبری، جلد 10، صفحہ 69 ) ۔ اور حضور نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے ” کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا : اے آدم ! میزان کے پاس کرسی کی جانت جاؤ اور اپنی اولاد کے ان اعمال کی طرف دیکھو جو تمہاری طرف اٹھائیں جائیں گے پس جس کی نیکی شر پر رائی کے دانہ کے برابر بھی بھاری ہوجائے گی تو اس کے لیے جنت ہے اور جس کا شر اس کی نیکی پر رائی کے دانہ کی مقدار بھاری ہوجائے گی تو اس کے لیے جہنم ہے یہاں تک کہ تو جان لے گا کہ میں ظالم کے سوا کسی کو عذاب نہیں دوں گا “۔
Top