Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 94
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَةٍ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّاۤ اَخَذْنَاۤ اَهْلَهَا بِالْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّهُمْ یَضَّرَّعُوْنَ
وَ : اور مَآ اَرْسَلْنَا : بھیجا ہم نے فِيْ : میں قَرْيَةٍ : کسی بستی مِّنْ نَّبِيٍّ : کوئی نبی اِلَّآ : مگر اَخَذْنَآ : ہم نے پکڑا اَهْلَهَا : وہاں کے لوگ بِالْبَاْسَآءِ : سختی میں وَالضَّرَّآءِ : اور تکلیف لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَضَّرَّعُوْنَ : عاجزی کریں
اور ہم نے کسی شہر میں کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر وہاں کے رہنے والوں کو جو ایمان نہ لائے دکھوں اور مصیبتوں میں مبتلا کیا تاکہ وہ عاجزی اور زاری کریں۔
قولہ تعالیٰ : آیت : وما ارسلنا فی قریۃ من نبی اس میں اضمار ہے اور وہ ہے فکذب اھلھا الا اخذنا ھم (اور نہ بھیجا ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی اس کے رہنے والوں نے تکذیب کی) مگر ہم نے انہیں سختی اور تکلیف میں مبتلا کردیا) ۔ آیت : بالباسآء والضراء لعلھم یضرعون اس کے بارے کلام پہلے گزر چکی ہے۔ آیت : ثم بدلنا مکان السیئۃ الحسنۃ یعنی پھر ہم نے ان کی تکلیف اور خشک سالی کو خوشحالی اور راحت کے ساتھ بدل دیا۔ حتی عفوا یہاں تک کہ وہ کثیر اور وافر ہوگئے (تفسیر ماوردی، جلد 2، صفحہ 242 ) ۔ یہ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے۔ اور ابن زید نے کہا ہے : ان کے مال ومنال اور اولاد بڑھ گئی (معالم التنزیل، جلد 2، صفحہ 513) ۔ اور عفا کا لفظ اضداد میں سے ہے۔ عفا کا معنی بڑھنا اور کثیر ہونا ہے۔ اور عفا کا معنی مٹ جانا اور ختم ہو جانا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اس نے انہیں شدت و تکلیف اور راحت و خوشحالی میں مبتلا کیا پس نہ انہوں نے روکا اور منع کیا اور نہ ہی شکر ادا کیا۔ آیت : وقالوا قد مس اباء نا الضراء والسراء ( اور کہنے لگے : بیشک (یونہی) پہنچا کرتی تھی ہمارے باپ دادا کو ( کبھی) تکلیف اور ( کبھی) راحت) اور ہم بھی انہیں کی مثل ہیں۔ آیت : فاخذنٰھم بغتۃ تو ہم نے انہیں اچانک پکڑ لیا تاکہ یہ ان کے لیے بہت زیادہ باعث حسرت ہوجائے۔
Top