Al-Qurtubi - Nooh : 16
وَّ جَعَلَ الْقَمَرَ فِیْهِنَّ نُوْرًا وَّ جَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا
وَّجَعَلَ الْقَمَرَ : اور بنایا چاند کو فِيْهِنَّ : ان میں نُوْرًا : نور وَّجَعَلَ الشَّمْسَ : اور بنایا سورج کو سِرَاجًا : چراغ
اور چاند کو ان میں (زمین) کا نور بنایا ہے اور سورج کو چراغ ٹھیرایا ہے
وجعل القمر فیھن نوراً چاند کو دنیا کے آسمان میں نور بنا دیا (5) جس طرح کہا جاتا ہے : اتانی بنوتمیم و اتیت بنی تمیم مراد بنو تمیم کا بعض ہیں ایہ اخفش کا قول ہے۔ ابن کیسان نے کہا، جب ان آسمانوں میں سے ایک آسمان میں ہو تو وہ ان سب میں ہے۔ قطرب نے کہا، فیھن معھن کے معنی میں ہے، یہ کلبی کا قول ہے یعنی سورج اور چاند کو آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے ساتھ پیدا کیا۔ اکثر علماء لغت نے امراء القیس کیق ول میں فی کو مع کے معنی میں لیا ہے، ثلاثین شھرا فی ثلاثۃ احوال تین مہینے تین احوال کے ساتھ۔ نحاس نے کہا، میں نے ابو الحسن بن کیسان سے اس آیت کے بارے میں پوچھتا تو فرمایا : نحویوں کا جواب تو یہ ہے کہ جب چاند کو ان میں سے ایک میں بنایا تو اسے ان سب میں بنایا جس طرح تو کہتا ہے : اعصنی الثیاب المغلمۃ اگرچہ وہ کپڑا جس میں نشانات ہوں، وہ ایک ہی کیوں نہ ہ۔ دوسرا جواب یہ ہے : یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ چاند کا چہرہ آسمان کی طرف ہے۔ جب وہ آسمان کے اندر کی جانب ہے تو چاند آسمانوں سے متصل ہے۔ نوراً بل زمین کے لئے نور بنا دیا (1) یہ سدی کا قول ہے۔ عطا نے کہا : اہل آسمان اور اہل زمین کے لئے نور بنا دیا (2) حضرت ابن عباس اور حضتر ابن عمر نے کہا، اس کا چہرہ اہل زمین کو روشنی دیتا ہے اور اس کی پشت آسمان والوں کو روشن کرتی ہے۔ (3) وجعل الشمس سراجاً یعنی اہل زمین کے لئے مصباح بنا دیا تاکہ وہ اپنی ضروریات زندگی کے لئے امور سر انجام دے سکیں۔ اہل آسمان کو روشسنی دینے کے حوالے سے دو قول ہیں، ماوردی نے اسے بیان کیا ہے (4) قشیری نے حضرت ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ سورج کا چہرہ آسمان میں اور اس کی پشت زمین میں ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : معاملہ اس کے برعکس ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر سے پوچھا گیا : کیا وجہ ہے کبھی سورج ہمیں بھون کر رکھ دیتا ہے اور کبھی ہم پر ٹھنڈا ہوجاتا ہے (5) ؟ فرمایا : یہ چوتھے آسمان میں ہوتا اور موسم سرما میں ساتویں آسمان میں رحمن کے عرش کے پاس ہوتا ہے۔ اگر یہ آسمان دنیا میں ہوتا تو کوئی چیز قائم نہ رہتی (٭) واللہ اعلم بالصواب۔
Top