Al-Qurtubi - Nooh : 17
وَ اللّٰهُ اَنْۢبَتَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًاۙ
وَاللّٰهُ : اور اللہ نے اَنْۢبَتَكُمْ : اگایا تم کو مِّنَ الْاَرْضِ : زمین سے نَبَاتًا : اگانا
اور خدا ہی نے تم کو زمین سے پیدا کیا ہے
یعنی حضرت آدم علیہ اسلام کو تمام روئے زمین سے پیدا کیا (6) یہ ابن جریج کا قول ہے۔ سورة الانعام اور البقرہ میں اس کی وضاحت گزر چکی ہے۔ خالد بن معدان نے کہا، انسان کو کیچڑ سے پیدا کیا، اسی وجہ سے موسم سرما میں دل نرم ہوجاتا ہے۔ نباتاً یہ مفعول مطلق ہے مگر فعل کا اپنا مصدر نہیں کیونکہ اس کا مصدر یوں آتا ہے۔ انبت انباتاً تو اسم جو نبات ہے اسے مصدر کی جگہ رکھا۔ اس کی وضاحت سورة آل عمران اور دوسری آیات میں گزر چکی ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ مصدر ہے جو معنی پر محمول ہے کیونکہ انبتکم کا معنی ہے تمہیں بنایا کہ تم نباتات اگاتے ہو، یہ خلیل اور زجاج نے کہا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : تمہارے لئے زمین سے نبات کو اگیا۔ اس عتبیر کی بنا پر نباتاً مصدر صریح کے طور پر منصوب ہے۔ پہلا قول زیادہ ظاہر ہے۔ ابن جریج نے کہا، تمہیں زمین میں چھوٹا ہونے کے بعد بڑا اور لمبا بنایا (7) ثم یعید کم فیھا جب تمہیں موت آئے گی تو دفن کرنے کے ساتھ تمہیں زمین میں لوٹا دے گا۔ ویخرجکم اخراجاً ۔ قیامت کے روز حساب و کتاب کے لئے دوبارہ زمین سے نکالے گا۔
Top