Al-Qurtubi - An-Naba : 14
وَّ اَنْزَلْنَا مِنَ الْمُعْصِرٰتِ مَآءً ثَجَّاجًاۙ
وَّاَنْزَلْنَا : اور نازل کیا ہم نے مِنَ الْمُعْصِرٰتِ : بادلوں سے مَآءً : پانی ثَجَّاجًا : بکثرت
اور نچڑتے بادلوں سے موسلا دھار مینہ برسایا
وانزلنا من المعصرات ماء ثجاجا۔ مجاہد اور قتادہ نے کہا، معصرات سے مراد ہوائیں ہیں یہ حضرت ابن عباس کی رائے ہے گویا وہ بادلوں کو نچوڑتی ہیں حضرت ابن عباس نے یہ بھی کہا، اس سے مراد بادل ہیں سفیان، ربیع، ابوالعالیہ اور ضحاک نے کہا، اس سے مراد وہ بادل ہیں جو پانی کی صورت میں نچڑتے ہیں ابھی تک انہوں نے بارش نہیں برسائی ہوتی جس طرح امراہ معصرۃ اس عورت کو کہتے ہیں جس کے حیض کے وقت قریب ہو اور ابھی اسے حیض نہ آئے، ابوالنجم نے کہا ،۔ تمشی الھوینی مائلا خمارھا، قد اعصرت او قد دنا اعصارھا۔ وہ نرمی سے چلتی ہے جبکہ اس کی اوڑھنی ایک طرف جھکی ہوتی ہے اسے حیض آچکا ہے یاحیض آنے کا وقت قریب ہے۔ ہواؤں کو معصرات کہتے ہیں باب یوں چلایا جاتا ہے، اعصرت الری، تعصراعصارا، جب وہ غبار اڑائے، یہی اعصار ہے بادلوں کو معصرات کہتے ہیں کیونکہ وہ بارش برساتے ہیں قتادہ نے کہا، المعصرات سے مراد آسمان ہے، نحاس نے کہا، یہ صحیح اقوال ہیں وہ ہوائیں جو بارش کو لائیں انہیں معصرات کہتے ہیں وہ ہوائیں جو بادلوں سے ملتی ہیں اور بارش ہوتی ہے انہیں معصرات کہتے ہیں بارش ہوا سے اسی طرح نازل ہوتی ہے یہ بھی جائز ہے کہ تمام اقوال کا مفہوم ایک ہی ہو، معنی یہ ہے ہم نے ہواؤں سے تیز بہتا ہوا پانی نازل کیا، صحیح ترین قول یہ ہے کہ معصرات سے مراد بادل ہے معروف بھی یہی ہے کہ بارش بادلوں سے ہوتی ہے اگر الفاظ بالمعصرات ہوتے تو معنی ہوا کرنا بہتر ہوتا، صحاح میں ہے، معصرات سے مراد بادل ہیں جن کو بارش کے ساتھ نچوڑا جاتا ہے، اعصر القوم ان پر بارش ہوئی اسی وجہ سے بعض نے یہ قرات کی وفیہ یعصرون۔ المعصر سے مراد وہ بچی ہے جسے پہلی دفعہ حیض آئے یہ جملہ بولا جاتا ہے، قداعصر گویا وہ جوانی کی عمر میں داخل ہوگئی، راجز نے کہا، جاریۃ بسفوان دارھا، تمشی الھوینی ساقطا خمارھا، قد اعصرت اوقددنا اعصارھا۔ نوجوان بچی جس کا گھر سفوان کے مقام پر ہے وہ آہستہ آہستہ چلتی ہے جب کہ اس کی اوڑھنی گری ہوئی ہے اسے حیض آچکا ہے یا اس کے حیض کے آنے کا وقت قریب ہوچکا ہے۔ اس کی جمع معاصر آتی ہے یہ جملہ بولا جاتا ہے، وہ حیض کے قریب ہیں کیونکہ بچی میں اعصار کی حیثیت وہی ہے جس طرح مراھق، (قریب البلوغ) بچے کی ہوتی ہے۔ میں نے ابوغوث اعرابی سے یہ بات سنی، دوسرے علماء نے کہا، معصر سے مراد وہ بادل ہیں جو بارش برسانے کے وقت کو پہنچ چکا ہو، یہ جملہ بولا جاتا ہے، اجن الزرع فھو مجن، یعنی کسی کو چھپانے کے قابل ہوگئی اسی طرح بادل جب بارش برسانے والا ہوجائے تو اسے کہتے ہیں، اعصر، مبرد نے کہا، سحاب، معصر پانی کو روکنے والا یعنی اس سے تھوڑی تھوڑی چیز نچوڑی جاتی ہے اسی سے عصر ہے اس پناہ گاہ کو کہتے ہیں جس کی پناہ لی جاتی ہے۔ عصرہ جب اسے ضمہ کے ساتھ پڑھا جائے تو اسے بھی پناہ گاہ کہتے ہیں سورة یوسف میں یہی بحث پہلے گزرچکی ہے اسی سے معصر کا لفظ ہے جو اس بچی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو بلوغ کی عمر کو پہنچے کیونکہ اسے گھر میں محبوس کردیا جاتا ہے تو گھر کو عصر کہتے ہیں حضرت ابن عبار اور عکرمہ کی قرات میں بالمعصرات ہے۔ مصاحف میں من المعصرات ہے۔ حضرت ابی بن کعب، حسن بصری، ابن جبیر، زید بن اسلم اور مقاتل بن حیان نے کہا، من المعصرات یعنی آسمانوں سے۔ ماء ثجاجا جو پے درپے بہے، حضرت ابن عباس مجاہد اور دوسرے علماء سے مروی ہے، یہ جملہ بولا جاتا ہے، ثججت دمہ فانااثجہ ثجا۔ میں نے اس کے خون کو بہایا، قد ثج الدم یثج ثجوجا۔ خون بہا، اسی طرح پانی ہے یہ فعل لازم بھی استعمال ہوتا ہے اور متعدی بھی استعمال ہوتا ہے، آیت میں ثجاج سے مراد بہنا ہے، زجاج نے کہا، اس کا معنی صباب ہے بہت زیادہ بہانے والایہ متعدی ہے گویا وہ اپنے نفس کو بہاتا ہے عبید بن ابرض نے کہا : فثج اعلاہ ثم ارتج اسفلہ۔ اس کے اوپروالے حصہ کو بہایا پھر اس کے نیچے والاحصہ میں اضطراب پیدا ہوا۔ حدیث نبوی میں ہے کہ نبی کریم سے حج مبرور کے بارے میں سوال کیا گیا فرمایا، العج والثج۔ عج کا معنی تلبیہ کے ساتھ آواز کو بلند کرنا اور ثج کا معنی خون بہانا اور قربانیوں کو ذبح کرنا۔ ابن زید نے کہا، ثجاجا کثیرا معنی ایک ہی ہے۔
Top