Al-Qurtubi - Al-Anfaal : 2
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ
اِنَّمَا : درحقیقت الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) الَّذِيْنَ : وہ لوگ اِذَا : جب ذُكِرَ اللّٰهُ : ذکر کیا جائے اللہ وَجِلَتْ : ڈر جائیں قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَاِذَا : اور جب تُلِيَتْ : پڑھی جائیں عَلَيْهِمْ : ان پر اٰيٰتُهٗ : ان کی آیات زَادَتْهُمْ : وہ زیادہ کریں اِيْمَانًا : ایمان وَّ : اور عَلٰي رَبِّهِمْ : وہ اپنے رب پر يَتَوَكَّلُوْنَ : بھروسہ کرتے ہیں
مومن تو وہ ہے مہ جب خدا کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب انہیں اسکی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کا ایمان اور بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں۔
آیت نمبر : 2۔ 3۔ 4 قولہ تعالیٰ : آیت : انما المومنون۔۔ آیت کے آخر تک۔ یتوکلون۔ اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : 1 علماء نے کہا ہے : رسول اللہ ﷺ نے اس مال غنیمت کو تقسیم کرنے کا جو حکم ارشاد فرمایا ہے یہ آیت اس بارے میں آپ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری کو لازم پکڑنے پر برانگیختہ کرتی ہے۔ الوجل کا معنی خوف ہے۔ اس کے مضارع میں چار لغتیں ہیں : وجل، یوجل ویاجل وییجل وییجل، اسے سیبویہ نے بیان کیا ہے۔ اور مصدر وجل وجلا و موجلا بالفتح ہے۔ اور یہ جیم کے کسرہ کے ساتھ موجل ہو تو پھر اسم ظرف بنتا ہے۔ پس جنہوں نے کہا ہے : یا جل انہوں نے مضارع میں واو ما قبل مفتوح کو الف سے بدل دیا ہے اور قرآن کریم کی لغت واو کے ساتھ ہے۔ آیت : قالوا لا تو جل (الحجر : 53) اور جنہوں نے یا کے کسرہ کے ساتھ ییجل کہا ہے تو یہ بنی اسد کی لغت کے مطابق ہے، کیونکہ وہ کہتے ہیں : اناایجل، ونحن نیجل، وانت تیجل یہ تمام کلمات کسرہ کے ساتھ ہیں۔ اور جنہوں نے کہا ہے : ییجل تو ان کی بنا بھی اسی لغت پر ہے لیکن انہوں نے یا کو فتحہ دیا جیسے انہوں نے یعلم میں یا کو فتحہ دیا ہے اور یعلم میں یا کو کسرہ اس لیے نہیں دیا، کیونکہ انہوں نے یا پر کسرہ کو ثقیل سمجھا ہے، اور ییجل میں کسرہ دیا گیا ہے اس لیے کہ دو یاؤوں میں سے ایک نے دوسری کے سبب قوت پکڑ لی ہے۔ او اس سے امر کا صیغہ ایجل ہے ( یہ اصل میں اوجل تھا) اس میں واو ماقبل مسکور یا سے بدل گئی ہے۔ اور آپ کہتے ہیں : انی منہ لاوجل ( میں اس کے نسبت زیادہ خوفزدہ ہوں اس میں اوجل اسم تفضیل کا صیغہ ہے) اور مونث میں وجل نہیں کہا جائے گا، بلکہ مونث وجلۃ ہے۔ سفیان نے سدی سے قول باری تعالیٰ : آیت : الذین اذاذکر اللہ وجلت قلوبھم کے بارے میں روایب کیا ہے کہ انہوں نے کہا : جب اس نے ظلم ڈھانے کا ارادہ کیا تو اس کہا گیا : اللہ تعالیٰ سے ڈر، تو وہ رک گیا اور اس کا دل خوفزدہ ہوگیا۔ مسئلہ نمبر 2 : اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مومنین کا یہ وصف بیان کیا ہے کہ وہ اس کے ذکر کے وقت خوفزدہ ہوجاتے ہیں اور ان کے دل کا نپ جاتے ہیں۔ اور ایسا ان کی قوت ایمانی اور اپنے رب کی طرف توجہ اور رعایت کے اعتبار سے ہوتا ہے، گویا کہ وہ اپنے رب کے حضور حاضر ہیں۔ اور اس آیت کی مثل یہ آیت بھی ہے : آیت : وبشر المخبتین الذین اذا ذکر اللہ وجلت قلوبھم (الحج) اور ( اے محبوب ! مژدہ سنائیے تواضع کرنے والوں کو۔ وہ لوگ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈرنے لگتے ہیں) اور فرمایا : آیت : وتطمئن قلوبھم بذکر اللہ (الرعد : 28) ( اور مطمئن ہوتے ہیں جن کے دل ذکر الٰہی سے) پس یہ کمال معرفت اور وثوق قلب کی طرف راجع ہوتا ہے۔ اور وجل کا معنی اللہ تعالیٰ کے عذاب سے خوفزدہ ہوتا اور گھبرا جاتا ہے اس کے معنی میں کوئی تناقص نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں معنوں کو اپنے اس ارشاد میں جمع کردیا ہے : آیت : اللہ نزل احسن الحدیث کتبا متشابھا مثانی تقشعر منہ جلود الذین یخشون ربھم ثم تلین جلودھم وقلوبھم الی ذکر اللہ ( الزمر : 23) ( اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے نہایت عمدہ کلام یعنی وہ کتاب جس کی آیتیں ایک جیسی ہیں بار بار دہرائی جاتی ہیں اور کا نپنے لگتے ہیں اس کے ( پڑھنے) سے بدن ان کے جو ڈرتے ہیں اپنے پروردگار سے، پھر نرم ہوجاتے ہیں ان کے بدن اور ان کے دل اللہ کے ذکر کی طرف ) یعنی ان کے نفوس اللہ تعالیٰ پر یقین رکھنے کی حیثیت سے پر سکون ہوتے ہیں اگرچہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہتے ہیں یہ ان کی حالت ہوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھتے ہیں اور اس کے رعب و جلال اور اس کی سزا سے خوفزدہ رہتے ہیں، نہ کہ اس طرح جیسا کہ جاہل عوام اور حقیر بدعتی لوگ کرتے ہیں مثلا چیخ و پکار کرنا، شور مچانا اور ایسی آوازیں نکالنا جو گدھوں کے رینگنے کے مشابہ ہوتی ہیں۔ پس یہ صورت حال لاحق ہو اور وہ یہ گمان کرے کہ یہ وجد اور خشوع ہے تو اسے کہا جائے گا : تو اللہ تعالیٰ کی معرفت، اس کا خوف اور اس کی عظمت و جلال کی تعظیم کرنے میں رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام کی حالت اور کیفیت تک نہیں پہنچ سکتا۔ اس کے باوجود وعظ و نصیحت کے وقت ان کی حالت اللہ تعالیٰ کے بارے فہم اور اس کے خوف سے رونے کی ہوتی تھی۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر کے سماع اور اپنی کتاب کی تلاوت کے وقت اہل معرفت کے احوال بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے : آیت : واذا سمعوا ما انزل الی الرسول تری اعینھم تفیض من الدمع مما عرفوا من الحق یقولون ربنا امنا فاکتبنا مع الشھدین ( المائدہ) ( اور جب سنتے ہیں ( قرآن) جو اتارا گیا رسول کی طرف تو تو دیکھتے گا ان کی آنکھوں کو کہ چھلک رہی ہوتی ہیں آنسوؤں سے اس لیے کہ پہچان لیا انہوں نے حق کو، کہتے ہیں : اے ہمارے رب ! ہم ایمان لے آئے پس تو لکھ لے ہمیں ( اسلام کی صداقت کی) گواہی دینے والوں میں) پس یہ ان کی حالت کا بیان اور ان کے قول کی حکایت ہے۔ اور جو اس طرح نہیں تو وہ نہ ان کی ہدایت پر ہے اور نہ ان کے طریقہ پر۔ پس جو ان کا طریقہ اپنائے ہوئے ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اس پر چلتا رہے اور جو کوئی مجنونوں کے احوال اختیار کرے اور جنون تو ان کی اخس ترین حالت ہے۔ اور جنون ایک فن ہے۔ مسلم نے حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ لوگوں نے حضور نبی مکرم ﷺ سے سوالات کیے یہاں تک کہ انہوں نے آپ سے پوچھنے میں اصرار کیا، پس آپ ﷺ ایک دن باہر تشریف لائے اور منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا : سلونی لا تسالونی عن شی الا بینتہ لکم ما دمت فی مقامی ھذا (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، جلد 2، صفحہ 263) ( تم مجھ سے پوچھو تم کسی شے کے بارے مجھ سے سوال نہیں کرو گے مگر میں اسے تمہارے لیے بیان کروں گا جب تک میں اپنے اس مقام میں ہوں) پس جب لوگوں نے یہ سنا تو وہ خاموش ہوگئے اور آپ ﷺ کے سامنے کوئی بات پیش کرنے سے خوفزدہ ہوگئے۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں : پس میں نے دائیں بائیں مڑ کر دیکھا تو ہر انسان اپنا سر اپنے کپڑے میں لپیٹ کر رو رہا تھا۔ اور آگے حدیث ذکر کی۔ اور ترمذی نے حضرت عرباض بن ساریہ ؓ سے روایب بیان کی ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے۔ فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے ہمیں انتہائی بلیغ وعظ ارشاد فرمایا، اس کے سبب آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، اور دل کا نپ گئے۔ الحدیث وعظنا رسول اللہ ﷺ موعظۃ بلیغۃ ذرفت منھا العیون، ووجلت منھا القلوب آپ نے یہ نہیں فرمایا : زعقنا ولا رقصنا ولا زفنا ولا قمنا ( ہم شیخ و پکار کرنے لگے نہ یہ فرمایا کہ ہم رقص کرنے لگے، نہ یہ فرمایا کہ ہم اچھلنے کودنے لگے اور نہ یہ فرمایا کہ ہم اٹھ کھڑے ہوئے) مسئلہ نمبر 3 قولہ تعالیٰ : آیت : واذا تلیت علیھم ایتہ زادتھم ایمانا یعنی ان کی تصدیق میں اضافہ کردیتی ہیں، کیونکہ اس ساعت اور وقت کا ایمان گزشتہ کل کے ایمان سے زیادہ ہوتا ہے، پس جس نے دوسری اور تیسری بار تصدیق کی تو یقینا اس کی تصدیق سابقہ تصدیق سے زیادہ ہوگئی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد آیات اور دلائل کی کثرت کے سبب انشراح صدر میں زیادتی ہے۔ اور یہ معنی سورة آل عمران میں گزر چکا ہے : آیت : وعلی ربھم یتوکلون، توکل کا معنی بھی سورة آل عمران میں گزر چکا ہے : آیت : الذین یقیمون الصلوۃ ومما رزقنھم ینفقون اس کا بیان سورة البقرہ کے شروع میں گزر چکا ہے۔ آیت : اولئک ھم المومنون حق یعنی وہ جن کا ظاہر اور باطن ایمان میں برابر ہے۔ اور یہ اس پر دلیل ہے کہ ہر حق کی ایک حقیقت ہوتی ہے۔ تحقیق آپ ﷺ نے حضرت حارثہ ؓ کو ارشاد فرمایا : ان لکل حق حقیقۃ فما حقیقۃ ایمانک ؟ الحدیث ( بیشک ہر حق کی ایک حقیقت ہوتی ہے تیرے ایمان کی حقیقت کیا ہے ؟ ) کسی آدمی نے حضرت حسن (رح) سے سوال کیا : اے ابا سعید ! کیا آپ مومن ہیں ؟ تو آپ نے اسے فرمایا : ایمان دو قسم کے ہیں، پس اگر تو مجھ سے اللہ تعالیٰ ، ملائکہ، کتب، رسل علیہم السلام، جنت، دوبارہ زندی کیے جانے اور حساب پر ایمان کے بارے پوچھ رہا ہے تو میں یقینا مومن ہوں۔ اور اگر تو مجھ سے اس قول باری تعالیٰ : آیت : انما المومنون الذین اذا ذکر اللہ وجلت قلوبھم واذا تلیت علیھم ایتہ زادتھم ایمانا وعلی ربھم یتوکلون الذین یقیمون الصلوۃ ومما رزقنٰھم ینفقون اولئک ھم المومنون حقا کے بارے پوچھ رہا ہے تو قسم بخدا میں نہیں جانتا میں ان میں سے ہوں یا نہیں۔ ابوبکر واسطی (رح) نے کہا ہے : جو کوئی یہ کہے : انا مومن باللہ حقا ( میں یقینا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایمان لانے والا ہوں) تو اسے کہا جائے گا : حقیقت تو ( کسی شی کی) آگاہی، اطلاع اور احاطہ کی طرف اشارہ کرتی ہے، پس اس کے مفقود ہونے کی وجہ سے اس بارے میں اس کا دعویٰ باطل ہے۔ اور اس سے وہ اسی معنی کا ارادہ کر رہے ہیں جو اہل سنت نے بیان کیا ہے : بیشک مومن حقیقی وہ ہے جس کے لیے جنت کا فیصلہ کردیا گیا ہو، پس جو کوئی اللہ تعالیٰ کی مخفی حکمت میں سے اسے نہیں جانتا تو اس کا یہ دعوی کرنا کہ وہ حقیقۃ مومن ( انہ مومن حقا) ہے صحیح نہیں ہے)
Top