Al-Qurtubi - Al-Anfaal : 21
وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ هُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ
وَلَا تَكُوْنُوْا : اور نہ ہوجاؤ كَالَّذِيْنَ : ان لوگوں کی طرح جو قَالُوْا : انہوں نے کہا سَمِعْنَا : ہم نے سنا وَهُمْ : حالانکہ وہ لَا يَسْمَعُوْنَ : وہ نہیں سنتے
اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کہتے ہیں کہ ہم نے (حکم خدا) سن لیا مگز (حقیقت میں) نہیں سنتے۔
آیت نمبر : 21۔ 22 قولہ تعالیٰ : آیت : ولاتکونوا کالذین قالوا سمعنا یعنی تم یہود یا منافقین یا مشرکین کی طرح نہ بن جانا۔ اور اس میں مراد کانوں سے سننا ہے۔ آیت : وھم لا یسمعون یعنی وہ اس میں تدبر نہیں کرتے جو وہ سنتے ہیں اور نہ وہ اس میں غور وفکر کرتے ہیں۔ پس وہ اس کی طرح ہیں جس نے کچھ نہیں سنا اور حق سے اعراض کرلیا۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو ان کی مثل ہونے سے منع فرمایا ہے۔ پس آیت اس پر دلیل ہے کہ مومن کا قول : سمعت واطعت ( میں نے سنا اور پیروی کی) اس میں کوئی فائدہ نہیں ہے جب تک اتشال فعل کی صورت میں اس پر اس کا اثر ظاہر نہ ہو۔ پس جب اس نے اوامر میں کوتاہی اور سستی برتی تو پھر وہ اس پر عمل پیرا نہ ہوا۔ اور اس نے نواہی پر اعتماد کیا اور ان کا ارتکاب کیا تو پھر اس کے نزدیک کون سی سمع ہے اور کون سے طاعت ہے، بلاشبہ اس وقت تو وہ اس منافق کے قائم مقام ہوجاتا ہے جو ایمان کو ظاہر کرتا ہے اور کفر کو چھپاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد : آیت : ولا تکونوا کالذین قالوا سمعنا وھم لا یسمعون سے مراد یہی ہے، یعنی یہ منافقین کے بارے ہے یا یہود کے بارے یا مشرکین کے بارے ہے، جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ بیشک کفار زمین پر چلنے والوں میں سے سب سے زیادہ شریر ہیں۔ اور بخاری میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے : آیت : ان شر الدوآب عند اللہ الصم البکم الذین لا یعقلون فرمایا : یہ بنی عبد الدار کے لوگ ہیں (تفسیر ابن عباس، سورة انفال، جلد 1، صفحہ 440 ) ۔ اور شر اصل میں اشر تھا کثرت استعمال کی وجہ سے ہمزہ وحذف کردیا گیا اسی طرح خیراصل میں اخیر تھا۔
Top