Al-Qurtubi - Al-Anfaal : 20
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَ اَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَۚۖ   ۧ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اَطِيْعُوا : حکم مانو اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول وَلَا تَوَلَّوْا : اور مت پھرو عَنْهُ : اس سے وَاَنْتُمْ : اور جبکہ تم تَسْمَعُوْنَ : سنتے ہو
اے ایمان والو ! خدا اور اس کے رسول کے حکم پر چلو اور اس سے رو گردانی نہ کرو اور تم سنتے ہو۔
ّآیت نمبر : 20 قولہ تعالیٰ : آیت : یایھا الذین امنوا اطیعوا اللہ ورسولہ یہ خطاب تصدیق کرنے والے مومنین کو ہے۔ ان کی عظمت اور بزرگی کو ظاہر کرنے کے لیے انہیں منفرد خطاب فرمایا اور منافقین کو اس میں شامل نہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں از سر نو اپنی اور رسول معظم ﷺ کی اطاعت کا حکم ارشاد فرمایا اور انہیں اس سے روگردانی کرنے سے منع فرمایا : یہ جمہور کا قول ہے۔ اور ایک جماعت نے کہا ہے : اس آیت سے خطاب صرف منافقین کو ہے۔ اور معنی یہ ہے : اے وہ لوگو ! جو صرف اپنی زبانوں کے ساتھ ایمان لائے ہو۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : اگرچہ اس میں یہ احتمال ہو سکتا ہے لیکن یہ بہت ضعیف اور کمزور ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں جنہیں خطاب کیا ہے انہیں ایمان کے ساتھ متصف فرمایا ہے۔ اور ایمان تصدیق کا نام ہے اور منافقین کسی شے کے سبب تصدیق سے متصف نہیں۔ اور اس سے زیادہ بعید وہ ہے جس نے یہ کہا ہے کہ یہ خطاب بنی اسرائیل کو ہے، کیونکہ یہ قول تو آیت سے بالکل اجنبی ہے (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 513) ۔ قولہ تعالیٰ : آیت : ولا تولوا عنہ، التولی کا معنی اعراض کرنا ہے۔ اس میں عنہ فرمایا ہے۔ عنھما نہیں کہا، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہی ہے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کی طرح ہے : آیت : واللہ ورسولہ احق ان یرضوہ (التوبہ : 62) ( اس میں بھی ہ ضمیر واحد ذکر کی ہے۔ ھما تثنیہ ذکر نہیں کی) آیت : وانتم تسمعون یہ مبتدا اور خبر حال کی محل میں ہیں۔ اور معنی یہ ہے : حالانکہ تم سن رہے ہو وہ دلائل وبراہین جو قرآن کریم میں تم پر تلاوت کیے جاتے ہیں۔
Top