Al-Qurtubi - Al-Anfaal : 32
وَ اِذْ قَالُوا اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ
وَاِذْ : اور جب قَالُوا : وہ کہنے لگے اللّٰهُمَّ : اے اللہ اِنْ : اگر كَانَ : ہے هٰذَا : یہ هُوَ : یہ الْحَقَّ : حق مِنْ : سے عِنْدِكَ : تیری طرف فَاَمْطِرْ : تو برسا عَلَيْنَا : ہم پر حِجَارَةً : پتھر سے مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان اَوِ : یا ائْتِنَا : لے آ ہم پر بِعَذَابٍ : عذاب اَلِيْمٍ : دردناک
اور جن انہوں نے کہا کہ اے خدا اگر یہ (قرآن) تیری طرف سے برحق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا کوئی اور تکلیف دینے والا عذاب بھیج۔
آیت نمبر : 32 قراء نے الحق کو کان کی خبر ہونے کی بنا پر منصوب پڑھا ہے اور درمیان میں ھو ضمیر فصل ہے۔ اور آیت : ھو الحق مرفوع بھی جائز ہے۔ آیت : من عندک ( تیری طرف سے) زجاج نے کہا ہے : مین کسی کو نہیں جانتا جس نے اس کے ساتھ پڑھا ہو۔ اور اس کے جائز ہونے میں علماء نحو کے ددمیان کوئی اختلاف نہیں، لیکن قراءت سنت ہے اور اس میں صرف قرات مرضیہ کے ساتھ ہی پڑھا جائے گا۔ اس بارے میں بھی اختلاف ہے کہ یہ قول کس نے کیا ہے ؟ پس حضرت مجاہد اور ابن جبیر نے کہا ہے : یہ کہنے والا نضر بن حارث تھا۔ حجرت انس بن مالک ؓ نے بیان کیا : یہ کہنے والا ابو جہل ہے (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، سورة انفال، جلد 2، صفحہ 669 ) ۔ اسے بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ پھر یہ کہنا بھی جائز ہے کہ انہوں نے یہ قول اس شبہ کی بنا پر کیا ہو جو ان کے سینوں میں موجود تھا یا عناد کی وجہ سے کہا اور لوگوں کو یہ وہمدلانے کے لیے کہا کہ وہ صاحب بصیرت ہیں، پھر بدر کے دن ان پر وہ عذاب اترا جس کی انہوں نے دعا مانگی۔ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ کو یہودیوں میں سے ایک آدمی ملا تو اس یہودی نے کہا : آپ کن میں سے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : میں قریش میں سے ہیوں۔ تو اس نے پوچھا : آپ اس قوم میں سے ہیں جنہوں نے یہ کہا تھا : آیت : اللھم ان کان ھذا ھوالحق من عندک الآیہ تو انہیں کیا تھا کہ وہ کہ کہہ دیتے : ان کان ھذا ھو الھق من عندک فاھدنا لہ ! ( اگر یہ تیری جانب سے حق ہے تو ہمیں ان کی طرف ہدایت عطا فرما) بلاشبہ وہ جاہل قوم تھے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : اے اسرائیل ! تو اس قوم میں سے ہے جن کے پاؤں اس سمندر کی تری سے خشک نہیں ہوئے جس میں فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا گیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کی قوم کو نجات عطا فرمائی گئی۔ یہاں تک کہ وہ کہنے لگا : اجعل لنا الھا کما لھم الھۃ ( الاعراف : 138) ( ہمارے لیے بھی ایسا الہ بنا دو جیسے ان کے الہ ہیں) تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں فرمایا : آیت : انکم قوم تجھلون (الاعراف) (بلاشبہ تم جاہل قوم) تو یہودی نے خاموشی سے سر جھکا دیا۔
Top