Al-Qurtubi - Al-Anfaal : 56
اَلَّذِیْنَ عٰهَدْتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَهُمْ فِیْ كُلِّ مَرَّةٍ وَّ هُمْ لَا یَتَّقُوْنَ
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو عٰهَدْتَّ : تم نے معاہدہ کیا مِنْهُمْ : ان سے ثُمَّ : پھر يَنْقُضُوْنَ : توڑ دیتے ہیں عَهْدَهُمْ : اپنا معاہدہ فِيْ : میں كُلِّ مَرَّةٍ : ہر بار وَّهُمْ : اور وہ لَا يَتَّقُوْنَ : ڈرتے نہیں
جن لوگوں سے تم نے (صلح کا) عہد کیا ہے پھر وہ ہر بار اپنے عہد کو توڑ ڈالتے ہیں اور (خدا سے) نہیں ڈرتے۔
مسئلہ نمبر 2 ۔ علامہ ابن عربی (رح) نے کہا ہے : اگر یہ کہا جائے کہ خیانت کے خوب کے ساتھ معاہدہ توڑنا کیسے جائز ہو سکتا ہے، حالانکہ خوف ظن ہے جس کے ساتھ یقین نہیں ہے، تو عہد کا یقین خیانت کے ظن کے ساتھ کیسے ساقط ہو سکتا ہے ؟ تو اس کا جواب دو اعتبار سے ہے : ان میں سے ایک یہ ہے کہ خوف کبھی یقین کے معنی میں آتا ہے، جیسا کہ رجائ) امید) علم (یقین) کے معنی میں ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشار فرمایا : مالکم لاترجون اللہ وقار۔ ( نوح) تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم پرواہ نہیں کرتے اللہ کی عظمت و جلال کی) اور دوسری وجہ یہ ہے کہ جب خیانت کے آثار ظاہر ہوجائیں اور اس کے دلائل ثابت ہوجائیں، تو معاہدہ کو توڑنا واجب ہوجاتا ہے تاکہ اس پر سرکشی کرنے والا ہلاکت میں نہ واقع کر دے اور اس حالت میں ضرورۃ یقین کو ساقط کرنا جائز ہے (1) اور رہی یہ صورت کہ جب یقینی علم حاصل ہوجائے تو پھر وہ ان کے پاس معاہدہ توڑنے کی اطلاع سے مستغنی ہوجاتا ہے، تحقیق حضور نبی مکرم ﷺ فتح مکہ کے سال اہل مکہ کی طرف چل پڑے، جب ان کی طرف سے معاہدہ توڑنے کی خبر مشہور ہوگئی، بغیر اس کے کہ آپ انہیں معاہدہ توڑنے کی اطلاع کرتے۔ النبذ کا معنی پھیکنا ( الرمی) اور چھوڑنا ( الرفض) ہے۔ اوازہری نے کہا ہے : اس کا معنی ہے جب تو کسی قوم کے ساتھ معاہدہ کرے تو تجھے ان کے بارے میں معاہدہ توڑنے کا علم ہوجائے تو معاہد تورنے سے پہلے ان پر حملہ نہ کر، یہاں تک کہ تو ان سے ملے اس حال میں کہ تع معاہدہ اور باہمی وعدہ توڑ چکا ہو، تاکہ وہ معاہدہ توڑنے کے علم میں برابر ہوجائیں، پھر ان پر حملہ کر دے، نحاس نے کہا ہے : یہ قرآن کریم کی ان آیات میں سے ہے جس کی مثل الفاظ کے اعتبار سے مختصر اور معافی کے اعتبار سے کثیر کلام میں نہیں پائی جاتی۔ اور اس کا معنی ہے : اگر تمہیں اس قوم کے بارے میں خیانت کا اندیشہ ہو کہ جس قوم اور تمہارے درمیان معاہدہ ہو تو ان کا معاہدہ توڑ دو ، یعنی انہیں کہ دو تحقیق میں نے تمہارا عہد توڑ دیا ہے اور میں تمہارے ساتھ جنگ کروں گا، تاکہ انہیں اس کا علم ہوجائے پس وہ تمہارے ساتھ علم میں برابر ہوجائیں گے اور تم ان سے قتال نہ کرو اس حال میں کہ تمہارے اور ان کے درمیان معاہدہ ہو اور وہ تمہارے ساتھ یقین رکھتے ہوں، کیونکہ یہ خیانت اور غدر ( دھوکہ) ہوجائے گا۔ پیر اسے اللہ تعالیٰ نے اپنے قول کے ساتھ بیان کیا : ان اللہ لا یحب الخابین میں ( مفسر) کہتا ہوں : معاہدہ توڑنے کے بارے میں جو ازہری اور نحاس نے ذکر کیا ہے کہ اس کے ٹوٹنے کا علم ہونا چاہے فتح مکہ کے بارے میں حضور بنی مکرم ﷺ کا فعل اسے رد کرتا ہے، کیونکہ انہوں نے جب معاہدہ توڑا تو پھر آپ ﷺ ان کی طرف متوجہ نہیں ہوئے بلکہ فرمایا : الھم اقطاع خبر نا عنھم (2) اے اللہ ! ان کی جانب سے خبر کو یقین بنا دے) اور ان پر حملہ کردیا۔ اور یہ بھی آیت کا معنی ہے، کیونکہ ان کی طرف سے عہد توڑنے کے بارے میں ( اطلاع ہونا) اور اس کا علم رکھتے ہوئے عہد کو توڑدینا ان کی طرف سے عہد توڑنا ہی ہے اور ان کے ساتھ یہ مساوات اور عدل ہے، البتہ ان کی جانب سے علم نہ ہونے کے باوجود عہد کو توڑنا ہی ہے اور ان کے ساتھ یہ مساوات اور عدل ہے، البتہ ان کی جانب سے علم نہ ہونے کے باوجود عہد کو توڑنا نہ یہ حلال ہے اور نہ ہی جائز۔ ترمذی اور ابودائود نے سلیم بن عامر سے روایت نقل کی ہے انہوں نے کہا : حضرت امیر معاویہ ؓ اور رومیوں کے درمیان معاہدہ تھا اور آپ ان کے شہروں کی طرف چلتے رہے تاکہ قریب ہوجائیں یہاں تک کہ جب معاہدہ ( کی مدت) ختم ہوگئی تو ان پر حملہ کردیا، تو اتنے میں گھوڑے یا ترکی گھوڑے پر سوار ہو کر ایک آدمی آیا وہ کہنے لگا : اللہ اکبر، اللہ اکبر (وعدہ وفا کرو، خیانت نہ کرو) پس انہوں نے اسے دیکھا تو ہو حضرت عمر و بن عنبسہ ؓ تھے۔ پس حضرت امیر معاویہ ؓ نے انہیں اپنی طرف بلا بھیجا اور ان سے استفسار کیا تو انہوں نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ” وہ آدمی جس کے اور اس کی قوم کے درمیان معاہدہ ہو تو وہ گرہ کو نہ مضبوط کرے اور نہ اسے کھولے یہاں تک کہ اس کی مدت گزر جائے یا برابری کی بنیاد پر ان سے وعدہ توڑنے “ (1) ۔ پس حضرت معاویہ ؓ لوگوں کے ساتھ واپس لوٹ گئے، ترمذی نے کہا ہے : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور اس میں السواء کا معنی اور اعتدال ہے۔ اور راجر کا قول ہے : فاضرب وجوہ الغدر الاعدائ حتی یجیبوک الی السواء اس میں سواء کا لفظ مساوات کے معنی میں ہے۔ اور کسائی نے کہا ہے : سوا کا معنی عدل ہے اور کبھی یہ بمعنی وسط ( درمیان) بھی ہوتا ہے اور اس معنی میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : فی سواء لجحیم۔ ( الصافات) ( جہنم کے وسط میں) اور اسی معنی میں حسان کا قول ہے : یا ویح اصحاب البنی ورھطہ بعد المغیب فی سوائ الملحد فراء نے کہا ہے : اور کہا جاتا ہے فاتبذ الیھم علی سوائٍ پس اعلانیہ ان سے وعدہ توڑ دو نہ کہ سرا۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ امام مسلم نے حضرت بو سعید خدری ؓ سے روایت نقل کی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” قیامت کے دن ہر خیانت کرنے والے کے لیے جھنڈا ہوگا وہ اس کے لیے اس کی خیانت اور وعدہ خلافی کی مقدار سے بلند کیا جائے گا اور امیر عام ( سلطان وقت) سے بڑھ کر خیانت کرنے والا کوئی نہ ہوگا “ (2) ہمارے علماء رحمتہ اللہ علیہم نے کہا ہے : امام وقت کے حق میں غدر اور خیانت کسی دوسرے کے مقابلے میں زیادہ اور فحش ترین ہے کیونکہ اس میں فساد اور بگاڑ زیادہ ہوتا ہے، کیونکہ جب یہ خیانت کریں اور ان کی طرف سے یہ معلوم ہوجائے اور وہ معاہدہ نہ توڑیں تو پھر دشمن کو ان کے کسی عہد اور صلح پر اعتماد اور امن نہیں ہوگا، نتیجہ اس کی قوت و طاقت سخت اور مضبوط ہوجائے گی اور اکا ضررو نقصان بڑھ جائے گا اور یہ دین میں داخل ہونے سے متنفر کر دے گا اور ائمہ مسلمین کی مذمت کا موجب ہوگا۔ لیکن جب دشمن کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ ہو تو پھر چاہے کہ اس کے خلاف ہر حیلہ استعمال کرے اور ہر چال اس پر آزمائے اور اس پر حضور نبی مکرم ﷺ کا یہ ارشاد ابھارتا ہے : الحرب خدعۃ (1) ( تو جنگ توحیلہ اور چال ہے) اور علماء نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے کہ معاہدہ توڑنے والے امام کی معیت میں جہاد کیا جائے گا ؟ تو اس بارے دو قول ہیں : اکثر نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اس کی معیت میں قتال نہیں کیا جائیگا، بخلاف خائن ( خیانت کرنے والا) اور فاسق کے۔ اور بعض نے کہا کہ اس کے ساتھ مل کر جہاد کیا جائے گا۔ یہ دونوں قول ہمارے مذہب میں ہیں۔
Top