Al-Qurtubi - Al-Anfaal : 61
وَ اِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَ تَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
وَاِنْ : اور اگر جَنَحُوْا : وہ جھکیں لِلسَّلْمِ : صلح کی طرف فَاجْنَحْ : تو صلح کرلو لَهَا : اس کی طرف وَتَوَكَّلْ : اور بھروسہ رکھو عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ اِنَّهٗ : بیشک هُوَ : وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
اور اگر یہ لوگ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کی طرف مائل ہوجاؤ اور خدا پر بھروسہ رکھو۔ کچھ شک نہیں کہ وہ سب کچھ سنتا (اور) جانتا ہے۔
( آیت نمبر 61) اس میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر 1: قولہ تعالیٰ : وان جنحوا للسلم فاجنح لھا اس میں لھا فرمایا ہے کیونکہ السلم مونث ہے، اور جائز ہے کہ تانیث فعلتہ کے لیے ہو۔ اور جنوح کا معنی مائل ہونا ہے۔ وہ فرماتا ہے : اگر وہ مائل ہوں۔ یعنی وہ جن کے عہد توڑنے کا علم آپ کو ہوا۔ صلح کی طرف، تو پھر آپ بھی صلح کی طرف مائل ہوجائے۔ اور جنع الرجل الی الآخر کا معنی ہے آدمی دوسرے کی طرف مائل ہوا۔ اور اسی وجہ سے پسلیوں کو جو انح کہا گیا ہے، کیونکہ وہ انتڑویوں پر جھکی ہوئی ہیں۔ (1) اور جنعت الابل ( یہ تب کہا جاتا ہے) جب چال میں اونٹ کی گردن جھک جائے اور ذوا لرمہ نے کہا ہے : اذ مات فوق الرحل احییت روحہ بذکراک والعیس المراسل جنح اور نابغہ نے کہا ہے : جو انح قد ایقن ان قبیلہ اذا ما التقی الجمان اول غالب مراد پرندہ ہے۔ اور جنح اللیل جب رات آئے اور اپنا اندھیرا زمین پر پھیلا دے۔ اور السلم والسلام دونوں کا معنی صلح ہے۔ اعمش، ابو بکر، ابن محیصن اور مفضل نے سین کو کسرہ کے ساتھ للسلم پڑھا ہے۔ اور باقیوں نے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور اس کا مکمل معنی سورة بقرہ میں پہلے گزر چکا ہے۔ اور کبھی السلام بمعنی التسلیم ہوتا ہے۔ اور جمہور نے نون کے فتحہ کے ساتھ فاجنح پڑھا ہے اور یہ بنی تمیم کی لغت ہے۔ اشہب عقیلی نے نون کے ضمہ کے ساتھ فاجنح پڑھا ہے اور یہ قیس کی لغت ہے۔ ابن جنی نے کہا ہے : یہی لغت قیاس کے مطابق ہے۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ اس آیت میں یہ اختلاف کیا گیا ہے، کیا یہ منسوخ ہے یا نہیں ؟ حضرت قتادہ اور عکرمہ رحمتہ اللہ علیہا نے کہا ہے : اسے فاقتلوا المشرکین حیث و جد تموھم ( التوبۃ :5) نے منسوخ کردیا ہے۔ وقاتلوا المشرکین کافۃ ( توبہ :36) اور ان دونوں نے کہا ہے : ہر قسم کی صلح کی برات منسوخ ہوچکی ہے یہاں تک کہ وہ کہہ دیں لا الہ الا اللہ۔ ( یعنی باہمی صلح کے معاہدوں کی ذمہ داری منسوخ ہوچکی ہے کہاں تک کہ وہ کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہوجائیں) حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : اس کا ناسخ فلاتھنو وتدعوا الی اسلم ( محمد :35) ہے۔ اور یہ کہا گیا ہے کہ یہ منسوخ نہیں ہے، بلکہ اہل جزیہ سے جزیہ قبول کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ تحقیق رسول اللہ ﷺ کے اصحاب نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کے زمانہ میں اور آپ کے بعد آنے والے بہت سے ائمہ نے بلا وعجم میں سے بہت سے شہروں کی صلح اس بنا پر کی کہ ان سے جزیہ وصول کرلیا اور انہیں ان کے شہروں میں ہی رہنے دیا ‘ حالانکہ وہ انہیں مکمل ختم کرنے پر قادر تھے۔ اور اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے اہل بلاد میں سے کثیر کے ساتھ اس مال پر صلح کی جو وہ آپ کو ادا کرتے تھے۔ ان میں سے خیبر بھی ہے ‘ کہ آپ ﷺ نے غلبہ کے بعد وہاں کے باسیوں کو اس شرط پر وہیں رہنے دیا کہ وہ کام کرتے رہیں اور پیداوار کا نصف ادا کریں۔ ابن اسحاق نے کہا : حضرت مجاہد رحمۃ اللہ نے فرمایا : اس آیت سے بنی قریظہ مراد لیے گئے ہیں ‘ کیونکہ ان سے جزیہ قبول کیا جاتا تھا۔ اور رہے مشرک تو ان سے کوئی شی قبول نہیں کی جائے گی۔ اور سدی اور ابن زید رحمۃ اللہ علیہما نے کہا ہے : آیت کا معنی یہ ہے کہ اگر وہ آپ کو صلح کی دعوت دیں تو آپ ان کی دعوت قبول کرلیں اور اس میں کوئی نسخ نہیں ہے۔ علامہ ابن عربی (رح) نے کہا ہے : اسی وجہ سے اس کا جواب مختلف ہوتا رہا (1) ‘ اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : فلاتھنوا وتدھوا الی السلم وانتم الاعلون واللہ معکم (محمد :35) (اے فرزندان اسلام ! ) ہمت مت ہارو اور (کفار کو) صلح کی دعوت مت دو تم ہی غالب آئو گے۔ اور اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہے) پس جب مسلمان عزت وقوت میں طاقتور ‘ متعدد جماعتوں میں اور انتہائی مضبوط ہوں تو پھر کوئی صلح نہیں ہے۔ جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے : فلا صلح حت تطعن الخیل بالقنا و تضرب با لبیض الرقاق الجہاجم اور اگر مسلمانوں کے لیے صلح میں مصلحت ہو کسی ایسے نفع کے سبب جسے وہ اس کے ساتھ حاصل کرسکتے ہوں یا کسی ضرر اور نقصان کے سبب جسے وہ اس کے ساتھ دو کرسکتے ہوں ‘ تو پھر کوئی حرج نہیں ہے کہ مسلمان اس کی ابتداء کریں جب انہیں اس کی ضرورت ہو۔ تحقیق رسول اللہ ﷺ نے کچھ شرائط پر اہل خیبر سے صلح کی پھر انہوں نے ان شرائط کو توڑ دیا تو آپ ﷺ نے ان یک صلح کو ختم کردیا۔ اور آپ ﷺ سے کیا ہوا عہد توڑدیا۔ اور خلفاء اور صحابہ کرام ؓ اس راستے پر چلتے رہے ہیں جسے ہم نے مشروع قرار دیا ہے اور ان وجوہ اور اسباب کے ساتھ عمل کرتے رہے ہیں جن کی شرح اور وضاحت ہم نے کی ہے۔ علامہ قشیری نے کہا ہے : جب مسلمانوں کے پاس قوت اور طاقت ہو تو پھر چاہیے کہ صلح ایک سال تک نہ پہنچے (یعنی صلح کی مدت سال سے کم ہو) اور جب قوت و طاقت کفار کے پاس ہو تو پھر دس برس تک باہم صلح کرنا جائز ہے اور اس سے زیادہ جائز نہیں۔ تحقیق رسول اللہ ﷺ نے اہل مکہ کے ساتھ دس سال کے لیے صلح کی۔ ابن منذر نے کہا ہے : علماء کا اس مدت کے بارے اختلاف ہے جو رسول اللہ ﷺ اور اہل مکہ کے درمیان حدیبیہ کے ساتھ مقرر ہوئی۔ پس حضرت عروہ نے کہا : وہ چار سال تھی۔ ابن جریج نے کہا : وہ مدت تین سال تھی۔ اور ابن اسحاق نے کہا ہے : وہ دس سال کا عرصہ تھا۔ (1) امام شافعی (رح) نے کہا ہے : مشرکین کے ساتھ دس سال سے زیادہ عرصہ کے لیے صلح کرنا جائز نہیں ہے ‘ جیسا کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے حدیبیہ کے سال کیا۔ پس اگر مشرکوں سے اس سے زیادہ عرصہ کے لیے صلح کی گئی تو وہ ٹوٹ جائے گی ‘ کیونکہ دراصل مشرکین کو قتل کرنا فرض ہے یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں یا جزیہ ادا کریں۔ ابن حبیب نے امام مالک (رح) سے بیان کیا ہے : مشرکین کے ساتھ صلح کرنا جائز ہے ایک سال کے لیے ‘ دو سال کے لیے ‘ تین سال کے لیے اور غیر معینہ مدت کے لیے۔ مہلب نے کہا ہے : بیشک حضور نبی مکرم ﷺ نے ان کے ساتھ یہ ایسا معاہدہ کیا جس میں بظاہر مسلمانوں کی کمزوری کا اظہار تھا۔ اور اس کا سبب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی ناقہ کو مکہ مکرمہ سے روک دیا ‘ جس وقت آپ نے مکہ مکرمہ کی طرف منہ کیا تو وہ بیٹھ گئی۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا : جسھا حابس الفیل (اسے ہاتھی کو روکنے والے نے روک دیا ہے) اسے امام بخاری (رح) نے مسور بن مخرمہ کی حدیث سے نقل کیا ہے۔ اور یہ مشرکین سے بغیر کسی ایسے مال کے جو ان سے لیاجائے گا صلح اور امن قائم کرنے کے جواز پر دلیل ہے ‘ جب کہ امام وقت اس میں مصلحت اور بہتری دیکھے۔ اور مسلمانوں کی حاجت کے وقت ایس مال کے عوض عقد صلح کرنا بھی جائز ہے جسے وہ دشمن کے لیے خرچ کریں گے ‘ کیونکہ حضور نبی مکرم ﷺ نے جنگ احزاب کے وقت عینیہ بن حصن فزاری اور حارث بن عوف المری کو اس شرط پر قریش سے علیحدہ ہوجانے کو کہا تھا کہ آپ ان دونوں کو مدینہ طیبہ کی کھجوروں کا تیسرا حصہ عطا کریں گے (2) اور وہ دونوں بنی غطفان کو ساتھ لے کر واپس پھرے اور انہوں نے قریش کو رسوا اور ذلیل کیا۔ اور اپنی قوم کو ساتھ لے کر واپس لوٹ گئے۔ اور یہ گفتگو انہیں بہلانے پھسلانے کی تھی یہ معاہدہ نہ تھا۔ پس جب رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں کو دیکھا کہ وہ دونوں مائل ہیں اور راضی ہیں تو پھر آپ ﷺ نے حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ ؓ سے مشورہ کیا ‘ تو ان دونوں عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ یہ ایسا امر ہے جسے آپ پسند کرتے ہیں تو ہم آپ کی خوشنودی کے لیے یہ کریں گے یا یہ ایسی شے ہے جس کے بارے اللہ تعلایٰ ن آپ کو حکم دیا ہے تو ہم اسے سنتے ہیں اور اطاعت کرتے ہیں۔ یا یہ ایسا امر ہے جسے آپ ہمارے لیے کر رہے ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا :” بلکہ یہ ایسا امر (معاملہض ہے جسے میں تمہارے لیے کرہا ہوں کیونکہ عربوں نے ایک معاہدہ کے تحت تمہارا قصد کیا ہے “ تب حضرت سعد بن معاذ ؓ نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ قسم بخدا ! م اور وہ مشرک قوم تھے اور بتوں کی پوجا کرتے تھے ‘ نہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے اور نہ اسے پہچانتے تھے اور انہوں نے کبھی یہ طمع نہیں کیا کہ وہ ہم سے پھل حاصل کریں ‘ مگر خرید کر یا بطور مہمان کے (ہم نے انہیں پیش کیا) اس وقت تو اللہ تعالیٰ نے اسلام کے سبب ہمیں عزت و تکریم عطا فرمائی ہے ‘ اس نے ہمیں اس کی طرف رہنمائی اور ہدایت عطا فرمائی ہے اور اس نے آپ کے سبب ہمیں معزز بنا دیا ہے۔ ہم انہیں اپنے اموال دیں ! قسم بخدا ! تلوار کے سو اہم انہیں کچھ نہیں دیں گے ‘ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ فرمادے۔ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے اس طرح تفسیر کی گئی ہے فرمایا : انتم و ذاک اور عیینہ اور حارث کو فرمایا :” تم دونوں چلے جائو تمہارے لیے ہمارے پاس سوائے تلوار کے سوا کچھ نہیں “۔ اور حضرت سعد ؓ نے صحیفہ پایا اور اس میں لا الہ الا اللہ کی شہادت نہیں تھی تو آپ نے اسے مٹا دیا۔
Top