Al-Qurtubi - Al-Anfaal : 67
مَا كَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّكُوْنَ لَهٗۤ اَسْرٰى حَتّٰى یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ١ؕ تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا١ۖۗ وَ اللّٰهُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَةَ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
مَا كَانَ : نہیں ہے لِنَبِيٍّ : کسی نبی کے لیے اَنْ : کہ يَّكُوْنَ : ہوں لَهٗٓ : اس کے اَسْرٰي : قیدی حَتّٰي : جب تک يُثْخِنَ : خونریزی کرلے فِي : میں الْاَرْضِ : زمین تُرِيْدُوْنَ : تم چاہتے ہو عَرَضَ : مال الدُّنْيَا : دنیا وَاللّٰهُ : اور اللہ يُرِيْدُ : چاہتا ہے الْاٰخِرَةَ : آخرت وَاللّٰهُ : اور اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
پیغمبر کو شایان نہیں کہ اس کے قبضے میں قیدی رہیں جب تک (کافروں کو قتل کر کے) زمین میں کثرت سے خون (نہ) بہا دے۔ تم لوگ دنیا کے مال کے طالب ہو۔ اور خدا آخرت (کی بھلائی) چاہتا ہے۔ اور خدا غالب حکمت والا ہے۔
اس میں پانچ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1۔ قولہ تعالیٰ : اسری یہ اسیر کی جمع ہے، جیسے قتیل کی جمع قتلی اور جریح کی جمع جرحی ہے اور اسیر کی جمع میں اسری (ہمزہ کے ضمہ کے ساتھ) اور اساری (ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ) بھی کہا جاتا ہے۔ اور یہ علیہ کے ساتھ نہیں ہے (مراد الف مقصورہ ہے) وہ قیدی کو چمڑے کی رسی کے ساتھ باندھ دیتے تھے اور وہ اسار کہلاتا ہے۔ اور پھر ہر پکڑے جانے والے کو اسیر کا نام دیا گیا اگرچہ اسے نہ بھی باندھا جائے۔ اعشی نے کہا ہے : وقیدنی الشعر فی بیتہ کما قید الاسرات الحمارا اور یہ سورة بقرہ میں گزر چکا ہے۔ اور ابو عمرو بن علاء نے کہا ہے : الاسری وہ قیدی ہیں جو اس وقت باندھیں نہ جائیں جب وہ پکڑے جاتے ہیں، اور الاساری وہ ہیں جنہیں رسی وغیرہ کے ساتھ باندھا جائے۔ ابو حاتم نے اسے بیان کیا ہے انہوں نے یہ عربوں سے سنا ہے۔ مسیلہ نمبر 2۔ یہ آیت بدر کے دن نازل ہوئی اور اس میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے حضور بنی مکرم ﷺ کے اصحاب کو عتاب کیا گیا ہے۔ اور معنی یہ ہے : تمہارے لیے مناسب نہیں کہ تم ایسا فعل کرو جو واجب قرار دے کہ نبی کریم ﷺ کے لیے غلبہ سے پہلے قیدی ہوں۔ اور ان کے لیے یہ خبر اس ارشاد کے ساتھ ہے : تریدون عرض الدنیا (تم دنیاکا سامان چاہتے ہو) اور حضور نبی مکرم ﷺ نے جنگ کے وقت مردوں کو باقی رکھنے کے بارے میں کوئی حکم نہیں دیا اور نہ کبھی آپ نے سامان دنیا کا ارادہ کیا، بلا شبہ جمہور جنگ کرنے والوں نے یہ فعل کیا۔ پس زجرو تو بیخ اور عتاب اس کے سبب سے متوجہ ہے جس نے فدیہ لینے کے بارے میں حضور نبی مکرم ﷺ کو مشورہ دیا۔ یہ اکثر مفسرین کو قول ہے اور یہی وہ قول ہے جس کے سوا کوئی قول صحیح نہیں ہے۔ حضور نبی مکرم ﷺ کا ذکر آیت میں اس وقت آیا جس وقت آپ نے اس سے منع نہیں فرمایا جب آپ نے اسے عریش سے دیکھا جب کہ حضرت سعد بن معاذ، حضرت عمربن خطاب اور حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ نے اسے ناپسند کیا، لیکن آپ ﷺ کو معاملے کے اچانک آنے اور مدد و نصرت کے نازل ہونے نے اس سے مشغول رکھا اور آپ ﷺ نے باقی رکھنے کے بارے نہی ترک کردی، یہی وجہ ہے کہ جب یہ آیات بازل ہوئیں تو آپ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ رونے لگے۔ واللہ اعلم۔ مسلم (رح) نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کی حدیث روایت کی ہے اور اس کا پہلا حصہ سورة آل عمران میں گزر چکا ہے اور یہ اس کی تکمیل ہے۔ ابوز میل نے بیان کیا ہے : حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : جب مسلمانوں نے قیدیوں کو قید کرلیا تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر ؓ کو فرمایا : ” ان قیدیوں کے بارے میں تم کیا رائے رکھتے ہو ؟ “ تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ وہ عمر اد اور خاندان کے لوگ ہیں۔ میری رائے تو یہ ہے کہ آپ ان سے فدیہ لے لیں، وہ ہمارے لیے کفار کے خلاف قوت و طاقت کا باعث ہوگا اور یہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اسلام قبول کرنے کی ہدایت عطا فرمادے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” اے ابن الخطاب تو کیا رائے رکھتا ہے “ ؟ میں نے عرض کی : قسم بخدا ! یا رسول اللہ ! ﷺ میں وہ رائے نہیں رکھتا جو ابوبکر صدیق ؓ کی رائے ہے، بلکہ میری رائے تو یہ ہے کہ آپ ہمیں اختیار اور قدرت دیں تو ہم ان کی گردنیں ماردیں، پس آپ حضرت علی ؓ کو عقیل کے بارے اختیار دیں کہ وہ اس کی گردن مار دیں اور مجھے فلاں (جو حضرت عمر ؓ کی طرف منسوب آدمی) پر قدرت دیں تو میں اس کی گردن ماردوں، کیونکہ یہ کفار کے ائمہ اور ان کے سردار ہیں۔ پس رسول اللہ ﷺ نے اسے پسند کیا جو ابوبکر صدیق ؓ نے کہا اور اسے پسند نہ فرمایا جو میں نے کہا۔ جب دوسرا دن آیا تو میں حاضر خدمت ہوا تو اچانک دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ دونوں بیٹھے رو رہے تھے۔ تو میں عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ ، مجھے بھی بتایئے کون سی وجہ سے آپ اور آپ کے ساتھی رو رہے ہیں۔ پس اگر میں نے رونے کو پالیا تو میں بھی رولوں گا، اور اگر میں نے رونا نہ پایا تو تم دونوں کے رونے کی وجہ سے رونے کی شکل بنا لوں گا۔ تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” میں اس وجہ سے ور رہا ہوں جو تمہارے ساتھیوں نے مجھ پر فدیہ لینے کی رائے پیش کی تحقیق مجھ پر ان کا عذاب اس درخت سے بھی قریب تر پیش کیا گیا ہے “ (1) ۔ (مراد وہ درخت ہے جو اس وقت حضور نبی کریم ﷺ کے بالکل قریب تھا) اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ماکان لنبی ان یکون لہ اسری حتی یثخن فی الا رض اس ارشاد تک فکلو امما غنمتم حللا یبا تک نازل فرمائی۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے مال غنیمت کو حلال قرار دیا۔ یزید بن ہارون نے بیان کیا ہے کہ ہمیں یحییٰ نے خبر دی ہے انہوں نے کہا ہمیں ابو معاویہ نے اعمش سے انہوں نے عمرو بن مرہ سے انہوں نے ابو عبیدہ سے اور انہوں نے عبداللہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا : جب غزوہ بدر ہوا اور قیدی لوئے گئے تو ان میں عباس بھی تھے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” تم ان قیدیوں کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہو ؟ “ تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ یہ آپ کی قوم ہے اور آپ کے اہل ہیں، آپ انہیں باقی رہنے دیجئے شاید اللہ تعالیٰ انہیں توبہ کی تو فیق عطا فرما دے۔ اور حضرت عمر ؓ نے عرض کی : انہوں نے آپ کی تکذیب کی ہے اور انہوں نے آپ کو (شہر سے) نکالا ہے اور انہوں نے آپ کے ساتھ جنگ کی ہے۔ انہیں آگے لایئے اور ان کی گردنیں مار دیجئے (یعنی انہیں قتل کر دیجئے) اور حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ نے کہا : کیثر لکڑیوں (ایندھن) والی وادی دیکھیے اور اسے ان پر بھڑکا دیجئے۔ تو عباس نے کہا درآنحا لی کہ وہ یہ سن رہے تھے : تم نے قطع رحمی کی ہے۔ راوی کہتے ہیں : پس رسول اللہ ﷺ (اندر) داخل ہوگئے اور آپ نے انہیں کسی قسم کا جواب نہ دیا۔ تو لوگوں نے کہا : آپ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے قول کے مطابق عمل کریں گے۔ اور کچھ لوگوں نے کہا : آپ عمر ؓ کا قول لے لیں گے اور بعض لوگوں نے کہا : آپ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضہ اللہ عنہ کے قول کے مطابق عمل کریں گے۔ پھر رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے اور فرمایا : ” بیشک اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں بعض لوگوں کے دلوں کو نرم کردیا ہے یہاں تک کہ وہ دودھ سے زیادہ نرم ہوگئے ہیں اور اس نے بعض لوگوں کے دلوں کو سخت کردیا ہے یہاں تک کہ وہ پتھر سے زیادہ سخت ہوگئے ہیں۔ اے ابوبکر ! تیری مثال حضرت ابرہیم (علیہ السلام) کی مثل ہے انہوں نے کہا تھا : فمن تبعنی فانہ منی ومن عصانی مانک غفور رحیم۔ (ابراہیم) (پس جو کوئی میرے پیچھے چلا تو وہ سیرا ہوگا اور جس نے سیری نافرمانی کی (تو اس کا معاملہ تیرے سپرد ہے) بیشک تو غفور رحیم ہے) اے ابوبکر ! تیری مثال حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی مثل ہے جب انہوں نے کہا : ان تعذبھم فانھم عبادک و ان تغفر لھم فانک انت العزیز الحکیم۔ (المائدہ) ( اگر تو عذاب دے انہیں تو وہ بندے ہیں تیرے اور اگر تو بخش دے ان کو تو بلا شبہ تو ہی سب پر غالب ہے (اور) بڑا دانا ہے) اور اے عمر ! تیری مثال حضرت نوح (علیہ السلام) کی مثل ہے جب کہ انہوں نے کہا : رب لا تذر علی الارض من الکفرین دیارا۔ (نوح) ( اے میرے رب نہ چھوڑ روئے زمین پر کافروں میں سے کسی کو بستا ہوا) اور اے عمر ! تیری مثال حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی مثل ہے جب انہوں نے کہا : ربنا اطمس علی اموالھم واشدد علی قلوبھم فلا یومنوا حتی یروا العذاب الالیم۔ (یونس) ( اے ہمارے رب ! برباد کر دے ان کے مالوں کو اور سخت کر دے ان کے دلوں کو تاکہ وہ نہ ایمان لے آئیں جب تک نہ دیکھ لیں دردناک عذاب کو) تم عیال دار ہو تو کوئی بھی فریہ یا قتل کیے جانے کے بغیر نہیں چھوٹے گا “۔ تو عبداللہ نے کہا : سوائے سہیل بن بیضاء کے کیونکہ میں نے اسے اسلام کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے۔ پس رسول اللہ ﷺ خاموش ہوگئے۔ فرمایا : میں نے اپنے آپ کو اس دن سے بڑھ کر خوفزدہ نہیں دیکھا کہ مجھ پر آسمان سے پتھر گرنے لگیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں : ماکان لنبی ان یکون لہ اسری حتی یثخن فی الارض، الی آخرالایتین (الا نفال) (1) اور ایک روایت میں ہے، پس رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” بیشک قریب ہے کہ ہمیں ابن خطاب کی مخالفت میں عذاب آپہنچے اور اگر عذاب نازل ہوا تو سوائے عمر کے کسی کو نہ چھوڑے گا “ ابو دائود نے حضرت عمر ؓ سے روایت بیان کی ہے انہوں نے بیان کیا : جب بدر کا دن تھا اور رسول اللہ ﷺ نے فدیہ لے لیا، تو اللہ تعالیٰ نے ماکان لنبی ان یکون لہ اسری حتی یثخن فی الارض، تا قولہ لمسکم فہا اخذتم (یعنی تم نے فدیہ لیا) عذاب عظیم۔ (الانفال) تک دو آیتیں نازل فرمائیں۔ بعدازاں غنائم کو حلال کیا۔ اور علامہ قثیری نے ذکر کیا ہے کہ حضرت سعد بن معاذ ؓ نے بیان کیا : یا رسول اللہ ! ﷺ بیشک ہمارا مشرکین کے ساتھ یہ پہلا معرکہ ہے پس غلبہ پانا میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے۔ اور الائخان کا معنی ہے کثرت سے قتل کرنا۔ یہ حضرت مجاہد وغیرہ سے مروی ہے۔ یعنی وہ مشرکوں کو قتل کرنے میں مبالغہ کریں۔ عرب کہتے ہیں : اثخن فلان فی ھذا الا مر یعنی فلاں نے اس کام میں مبالغہ کیا۔ اور بعض نے کہا ہے : یہاں تک کہ آپ غلبہ پالیں اور اس کے ساتھ انہیں قتل کریں۔ اور نفضل نے شعر کہا ہے : تصلی الضحی ما دھرھا بتعبد وقد اثخنت فرعون فی کفرہ کفرا اور یہ بھی کہا گیا ہے : حتی یثخنیہاں تک کہ آپ قدرت پالیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ الاثخان سے مراد قوت اور شدت ہے پس اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ بدر کے وہ قیدی جن سے فدیہ لیا گیا انہیں قتل کرنا ان کے فدیہ سے اولیٰ اور بہتر تھا۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے بیان فرمایا : یہ بدر کا دن تھا اور اس دن مسلمان قلیل تھے، پس جب یہ بڑھ گئے اور ان کی سلطنت مضبوط اور مستحکم ہوگئی تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قیدیوں کے بارے میں یہ فرمان نازل کیا : فاما منابعدو اما فدآئ (محمد : 4) (بعد ازاں یا تو احسان کرکے ان کو رہا کر دو یا ان سے فدیہ لو) جیسا کہ اس کا بیان سورة القتال میں آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ ؁ تحقیق کیا گیا ہے : بیشک انہیں عتاب کیا گیا کیونکہ واقعہ بدر بہت عظیم واقعہ تھا اور صنا دید قریش، ان کے اشراف، ان کے سرداروں اور ان کے مالون میں قتل، قید کیے جانے اور ان کا مالک بننے کے اعتبار سے یہ بہت بڑاتصرف تھا۔ اور یہ تمام کا تمام ہی انتہائی عظیم واقعہ تھا، پس ان کا حق یہ تھا کہ وہ وحی الہٰی کا انتظار کرتے اور جلدی نہ کرتے، لیکن جب انہوں نے جلدی کی اور انہوں نے انتظار نہ یا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر اس انداز سے توجہ فرمائی۔ واللہ اعلم مسئلہ نمبر 3۔ طبری وغیرہ نے بیان کیا ہے کہ رسوال اللہ ﷺ نے لوگوں کو فرمایا : اگر تم چاہو تو قیدیوں کا فدیہ لے لو اور تم میں سے ان کی تعداد کے برابر ستر افراد جنگ میں شہید کردیئے جائیں گے اور اگر تم چاہو تو انہیں قتل کردیا جائے اور تم سلامت رہو “ لوگوں نے عرض کی : ہم فدیہ لے لیتے ہیں اور یم میں سے ستر آدمی شہید ہوجائیں گے (1) ۔ اور عبدبن حمید نے اپنی سند کے ساتھ بیان کیا ہے کہ حضرت جبریل امین (علیہ السلام) لوگوں کو اس طرح کا اختیار دینے کے بارے پیغام لے کر حضور نبی مکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوئے (2) ۔ اس بارے میں گفتگو سورة آل عمران میں گزر چکی ہے۔ اور عبیدہ سلمانی نے کہا ہے : انہوں نے دونوں اختیا طلب کیے (یعنی دونوں کی انہوں نے خواہش کی فدیہ اور شہادت) پس ان میں سے ستر آدمی غزوئہ احد میں شہید کردیئے گئے۔ اور یہاں اشکال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے۔ مسئلہ نمبر 4۔ اشکال میں یہ کہا جاتا ہے کہ جب اختیار دیا گیا تو پھر لمسکم کو قول کے ساتھ زجرو تو بیخ کیونکر واقع ہوئی ’ تو جواب یہ ہے کہ پہلے ان کے فدیہ لینے کی حرص کی وجہ سے زجروتوبیخ واقع ہوئی اور پھر اس کے بعد اختیار دیا گیا۔ اور اس پر حضرت مقداد کا قول دلالت کرتا ہے جو انہوں نے اس وقت کہا جب رسول اللہ ﷺ نے عقبہ بن ابی معیط کو قتل کرنے کے بارے حکم دیا۔ یا رسول اللہ ! ﷺ یہ میرا قیدی ہے۔ اور حضرت مصعب بن عمیر جن کے بھائی کو قیدی بنایا گیا تھا۔ انہوں نے کہا : اس پر اپنا ہاتھ مضبوط کرلو، کیونکہ اس کی ماں خوشحال ہے۔ علاوہ ازیں بھی واقعات ہیں جو ان کے فدیہ لینے پر ان کی حرص کی دلیل ہیں۔ پس جب قیدی حاصل ہوگئے اور انہیں مدینہ طیبہ کی طرف چلا یا گیا اور رسول اللہ ﷺ نے نضر اور عقبہ وغیرہ کو قتل کا حکم نافذ فرمایا اور ان تمام پر سخت یہونے لگی تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے تخییر کا فرمان نازل ہوا۔ تو اس وقت رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب سے مشورہ کیا ‘ پس حضرت عمر ؓ قتل کے بارے میں اپنی پہلی رائے پر ہی قائم رہے۔ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی رائے کی طرف مائل ہوئے۔ یہ دونوں آراء تخییر کے بعد اجتہاد ہے۔ اس لیے اس کے بعد اس بارے میں کوئی سخت یا ناراضگی کا حکم نازل نہیں ہوا۔ واللہ اعلم مسئلہ نمبر 5 ۔ ابن وہب نے کہا ہے : امام مالک نے بیان کیا ہے کہ بدر کے قیدی مشرک تھے ‘ پس اللہ تعالیٰ نے یہ فرمان نازل فرمایا : ماکان لنبی ان یکون لہ اسری حتی یثخن فی الارض وہ اس وقت مشرک تھے انہوں نے فدیہ دیا اور واپس لوٹ گئے اور اگر وہ مسلمان ہوتے تو یقیناً وہیں ٹھہر جاتے اور واپس لوٹ کر نہ جاتے۔ ان میں سے جو قتل کیے گئے ان کی تعداد چوالیس تھی ‘ اور انہیں کی مثل قیدی بنائے گئے۔ اور شہداء کی تعداد کم تھی۔ اور عمر وبن علاء نے بیان کیا ہے : بیشک مقتول ستر تھے اور اتنے ہی قیدمی تھے۔ اور اسی طرح حضرت ابن عباس او ابن مسیب ؓ نے کہا ہے۔ اور یہی صحیح ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں بھی ہے ‘ پس اس دن ستر قتل کردیئے گئے اور ستر قیدی بنا لیے گئے۔ اور بیہقی نے ذکر کیا ہے انہوں نے بیان کیا : پس قیدی لائے گئے اور ان پر شقران مولیٰ رسول اللہ ﷺ مقرر تھے اور وہ انچاس آدمی تھے جو گنے گئے او دذراصل وہ ستر تھے ‘ اسی پر اجماع ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ علامہ ابن عربی (رح) نے کہا ہے : بیشک امام مالک (رح) نے بیان کیا ” اور وہ مشرک تھے “ کیونکہ مفسرین نے روایت کیا ہے کہ عباس نے حضور نبی مکرم ﷺ سے کہا : بلاشبہ میں مسلمان ہوں۔ اور ایک روایت میں ہے کہ قیدیوں نے حضور نبی مکرم ﷺ سے کہا : ہم آپ کے ساتھ ایمان لائے۔ اس سب کو امام مالک (رح) نے ضعیف قراردیا ہے اور اس کے بطلان پر استدلال اس روایت سے کیا ہے جس میں ان کے واپس لوٹنیکا ذکر ہے اور اس پر مستنر اد یہ ہے کہ انہوں نے احد کے میدان میں پھر آپ ﷺ سے جنگ لڑی (1) ۔ ابو عمر بن عبد البر نے کہا ہے : حضرت عباس ؓ کے اسلام لانے کے وقت میں علماء کے مابین اختلاف ہے۔ پس کہا گیا ہے کہ وہ غزوہ بدر سے پہلے اسلام لائے ‘ اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا :” جو کوئی عباس سے ملے تو وہ انہیں قتل نہ کرے کیونکہ انہیں مجبوراً نکالا گیا ہے “۔ اور حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غزوئہ بدر کے دن فرمایا :” بیشک بنی ہاشم وغیرہ کے کچھ لوگ بالجبر نکالے گئے ہیں ہمیں انہیں قتل کرنے کی ضرورت نہیں پس تم میں سے کسی کا بنی ہاشم کے کسی فرد سے آمنا سامنا ہوجائے تو وہ اسے قتل نہ کرے اور جو ابو البختری سے ملے وہ اسے قتل نہ کرے اور جس کا سامنا عباس سے ہوجائے تو چاہیی کہ وہ اسے قتل نہ کرے کیونکہ انہیں با لا کراہ نکال کرلیا گیا ہے “۔ اور آگے حدیث ذکر کی۔ اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ وہ اس وقت اسلام لائے جب بدر کے دن قیدی بنائے گئے۔ اور یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ وہ غزوئہ خیبر کے سال اسلام لائے اور وہ رسول اللہ ﷺ کے لیے مشرکین کی خبریں لکھتے تھے اور وہ ہجرت کرنا پسند کرتے تھے پس رسول اللہ ﷺ نے ان کی طرف ما : أمکث بمکۃ فمقا مک بھا أنفع لنا (2) (تم مکہ میں ہی رہو پس تمہارا وہاں رہنا ہمارے لیے زیادہ نفع بخش ہے)
Top