Al-Qurtubi - Al-Ghaashiya : 2
وُجُوْهٌ یَّوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌۙ
وُجُوْهٌ : کتنے منہ يَّوْمَئِذٍ : اس دن خَاشِعَةٌ : ذلیل و عاجز
اس روز بہت سے منہ (والے) ذلیل ہوں گے
وجوہ یومئذ خاشعیہ، عاملۃ الناصبہ۔ حضرت ابن عباس نے کہا رسول اللہ تک ان کی خبر نہیں پہنچی تھی تو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ان کے بارے میں آگاہ کردیا، یومئذ سے مراد یوم قیامت ہے۔ سفیان نے کہا، خاشعہ سے مراد عذاب کے ساتھ ذلیل کرنا ہے ہر کمزور پست ہمت عاجزی کرنے والا ہوتا ہے، یہ جملہ بولا جاتا ہے، خضع فی صلاتہ، جب اس نے نماز میں سرجھکایا اور عاجزی کا اظہار کیا، خشع الصورت آواز پست ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، وخشعت الاصوات للرحمن۔ طہ 108) اللہ تعالیٰ کے حضور آوازیں پست ہیں۔ وجوہ (چہروں) سے مراد اصحاب وجوہ ہیں قتاہ اور ابن زید نے کہا، آگ میں عاجز و ذلیل ہوں گی۔ اس سے مراد تمام کفار کے وجوہ ہیں یہ یحییٰ بن سلام کا قول ہے ایک قول یہ کیا گیا ہے اس سے مراد یہودونصاری کی وجوہ ہیں یہ حضرت ابن عباس کا قول ہے۔ وہ دنیا میں تھکے ماندے ہوں گے کیونکہ دارآخرت عمل کا مکان نہیں معنی یہ ہوگا وہ دنیا میں مشقت میں مبتلا، تھکے ماندے ہوں گے وہ آخرت میں ذلیل رسوا ہوں گے علماء لغت نے کہا، جب ایک آدمی لگاتار مصروف کار رہے تو کہتے ہیں، عمل الرجل عملا، وہ بادل جو لگاتار چمکتا رہے اسے کہتے ہیں، عمل السحاب عملا، ذا سحاب عمل، ہذلی نے کہا، حتی شاھا کلیل موھنا عمل، لگاتار کمزور بجلی رات کے ایک حصہ تک اسے ہانکتی رہی۔ ناصبۃ تھکے ماندے۔ نصب ینصب نصبا کا معنی ہے وہ تھک گیا انصبہ غیرہ۔ اسے کسی دوسرے نے تھکا دیا، ضحاک نے حضرت ابن عباس سے روایت نقل کی ہے، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو دنیا میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور کفر میں تھکادیا جیسے بت پرست اور اہل کتاب میں سے راہب وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ ان سے کسی چیز کو قبول نہیں فرماتا مگر جو اس کے لیے خالص ہوتا ہے، سعید نے قتادہ سے روایت نقل کی ہے کہ اس سے مراد ہے دنیا میں اس نے اللہ تعالیٰ کی طاعت سے تکبر کیا اللہ تعالیٰ نے اسے جہنم میں کام میں لگادیا اور اسے تھکایا کہ وہ بھاری بیڑیاں کھینچتے ہیں طوق اٹھاتے ہوئے وہ میدان محشر میں نن کے پاؤں کھڑے ہیں جس میں ایک دن کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہے کلبی نے کہا، انہیں منہ کے بل جہنم میں گھسیٹا جائے گا ان سے اور دوسرے علماء سے یہ بھی مروی ہے جہنم میں انہیں لوہے کے پہاڑ پر چڑھنے کا مکلف بنایا جائے گا تو وہ بیڑیوں اور طوقوں اور آگ میں داخل ہونے کی وجہ سے جو مشقت اٹھاتے ہیں اس سے زیادہ تھکیں گے وہ آگ میں یوں دھنس جائیں گے جس طرح اونٹ کیچڑ میں دھنس جاتا ہے اور وہ آگ کے پہاڑ پر چڑھیں گے اور اس سے نیچے اتریں گے اس کے علاوہ انہیں عزاب کا سامنا کرنا ہوگا حضرت ابن عباس نے کہا، ابن محصین، عیسیٰ ، حمید نے اور عبیدنے شہبل سے وہ ابن کثیر سے ناصبہ روایت کرتے ہیں کیونکہ یہ حال ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ اسے بطور مذمت منصوب پڑھا گیا ہے جبکہ باقی قراء نے اسے صفت کے اعتبار سے منصوب پڑھا ہے یا مبتدا مضمر ہے تو وقف خاشعۃ پر ہوگا، جس نے اسے آخرت پر تعبیر کیا ہے اس کے لیے جائز ہے کہ یہ وجوہ سے خبر کے بعد خبر ہو اس صورت میں خاشعہ پر وقف نہ کیا جائے گا ایک قول یہ کیا گیا ہے اس کا معنی ہے دنیا میں مصروف کار، آخرت میں تھکے ماندے اور زلیل ہوں گے۔ عکرمہ اور سدی نے کہا، دنیا میں وہ نافرمانیاں کرتے تھے، سعید بن جبیر اور زید بن اسلم نے کہا، وہ راہب ہیں جو گرجاگھروں میں رہتے تھے، یہ حضرت ابن عباس کا قول ہے ضحاک کی روایت بھی پہلے گزرچکی ہے حضرت حسن بصری سے مروی ہے، جب حضرت عمر بن خطاب شام آئے تو ایک بوڑھا (متقھل) پراگندہ حال راہب آپ کی خدمت میں حاضر ہوا جب حضرت عمر نے اسے دیکھاتو آپ رونے لگے اس نے پوچھا اے امیر المومنین کس چیز نے آپ کو رلایا ہے ؟ فرمایا اس مسکین نے ایک امر کو طلب کیا تو اسے نہ پایا ایک امید کی تو اس میں غلطی کی اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تلاوت کی وجوہ یومئذ خاشعہ، عاملۃ الناصبہ۔ کسائی نے کہا : تقھل کا معنی براحال ہے۔ رجل متقھل جس کا چمڑا خشک اور براحال ہو جس طرح متقحل ہے ابوعمرو نے کہا، تقھل کا معنی ضرورت کی شکایت کرنا ہے اور یہ شعر پڑھا۔ لعوا اذا لاقیتہ تقھلا۔ جب میں اسے ملاتو اس کا اخلاق برا اور حال بھی برا تھا۔ القھل کا معنی احسان کی ناشکری کرنا ہے، قد قھل یقھل قھلاجب اس نے بری تعریف کی، اقھل الرجل ایسے امر کا تکلف کیا جو اس کے نفس کو عیب دار بناتا ہے اور اس کی ذات کو آلودہ کردیتا ہے۔ انقھل کا منعی ہے کمزور ہونا اور اگر جانا، یہ جوہری کا نقطہ نظر ہے حضرت علی شیر خدا سے مروی ہے اس سے مراد اہل حروراء ہیں یعنی وہ خارجی ہیں رسول اللہ نے جن کے بارے میں ذکر کیا ہے فرمایا، تم اپنی نمازیں ان کی نمازوں کے مقابلہ میں، اپنے روزے ان کے روزوں کے مقابلہ میں اپنے اعمال ان کے اعمال کے مقابلہ میں حقیر جانو گے وہ دین سے یوں نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔
Top