Al-Qurtubi - At-Tawba : 107
وَ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّ كُفْرًا وَّ تَفْرِیْقًۢا بَیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ مِنْ قَبْلُ١ؕ وَ لَیَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَاۤ اِلَّا الْحُسْنٰى١ؕ وَ اللّٰهُ یَشْهَدُ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اتَّخَذُوْا : انہوں نے بنائی مَسْجِدًا : مسجد ضِرَارًا : نقصان پہنچانے کو وَّكُفْرًا : اور کفر کے لیے وَّتَفْرِيْقًۢا : اور پھوٹ ڈالنے کو بَيْنَ : درمیان الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) وَاِرْصَادًا : اور گھات کی جگہ بنانے کے لیے لِّمَنْ : اس کے واسطے جو حَارَبَ : اس نے جنگ کی اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول مِنْ : سے قَبْلُ : پہلے وَلَيَحْلِفُنَّ : اور وہ البتہ قسمیں کھائیں گے اِنْ : نہیں اَرَدْنَآ : ہم نے چاہا اِلَّا : مگر (صرف) الْحُسْنٰى : بھلائی وَاللّٰهُ : اور اللہ يَشْهَدُ : گواہی دیتا ہے اِنَّھُمْ : وہ یقیناً لَكٰذِبُوْنَ : جھوٹے ہیں
اور (ان میں ایسے بھی ہیں) جنہوں نے اس غرض سے مسجد بنائی ہے کہ ضرر پہنچائیں اور کفر کریں اور مومنوں میں تفرقہ ڈالیں۔ اور جو لوگ خدا اور اس کے رسول سے پہلے جنگ کرچکے ہیں ان کے لئے گھات کی جگہ بنائیں اور قسمیں کھائیں گے کہ ہمارا مقصود تو صرف بھلائی تھی مگر خدا گواہی دیتا ہے کہ یہ جھُوٹے ہیں۔
آیت نمبر : 107۔ اس آیت میں دس مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” والذین اتخذوا مسجدا “۔ یہ کلام معطوف ہے، یعنی ومنھم الذین اتخذوا مسجدا “۔ (اور ان میں سے وہ ہیں جنہوں نے مسجد بنائی) اس میں جملہ کا عطف جملہ پر کیا گیا ہے۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ یہ مبتدا ہونے کے سبب مرفوع ہو اور خبر محذوف ہو مثلا انھم یعذبون “۔ (بےشک وہ عذاب دئیے جائیں گے) یا اسی کی مثل کوئی اور۔ اور جنہوں نے بغیر واؤ کے (آیت) ” الذین “ پڑھا ہے اور یہ اہل مدینہ کی قراءت ہے تو یہ ان کے نزدیک مبتدا ہونے کے سبب مرفوع ہے۔ اور خبر لا تقم ہے تقدیر کلام ہے : ” الذین اتخذوا مسجد لا تقم فیہ ابدا، ای لا تقم فی مسجدھم (جنہوں نے مسجد بنائی آپ ان کی مسجد میں (نماز کے لیے) کبھی کھڑے نہ ہوں) یہ کسائی نے کہا ہے۔ اور نحاس نے کہا ہے : مبتدا کی خبر یہ ہوگی۔ (آیت) ” لا یزال بنیانھم الذی بنوا ریبۃ فی قلوبھم “۔ (التوبہ : 110) (ہمیشہ ان کی یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے کھٹکتی رہے گی ان کے دلوں میں) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ خبر (آیت) ” یعذبون “ ہے جیسا کہ پہلے بھی گزر چکا ہے۔ روایت کیا گیا ہے یہ آیت ابو عامر راہب کے بارے میں نازل ہوئی، کیونکہ وہ قیصر کے پاس گیا اور عیسائی ہوگیا اور قیصر نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ عنقریب انکے پاس آئے گا، پس انہوں نے مل کر مسجد ضرار بنائی اور وہ اس میں اس کے آنے کا انتظار کرنے لگے۔ یہ حضرت ابن عباس، مجاہدرحمۃ اللہ علیہم اور قتادہ رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین وغیرہ نے کہا ہے اور اس کا واقعہ سورة الاعراف میں گزر چکا ہے۔ اور اہل تفسیر نے کہا ہے : بیشک عمروبن عوف ؓ نے مسجد قبا بنائی اور انہوں نے حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کی طرف پیغام بھیجا کہ آپ ان کے پاس تشریف لائیں چناچہ آپ ﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور اس میں نماز ادا فرمائی، پس ان کے بھائیوں بنو غنم بن عوف نے ان کے ساتھ حسد کیا اور یہ کہا : ہم مسجد بنائیں گے اور ہم حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کو بلا بھیجیں گے اور آپ ہمارے پاس تشریف لائیں گے تاکہ آپ ہمیں اس طرح نماز پڑھائیں جیسا کہ آپ ﷺ نے ہمارے بھائیوں کی مسجد میں نماز پڑھائی اور اس میں ابو عامر نماز پڑھے گا جب وہ شام سے آئے گا، چناچہ وہ حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کے پاس اس وقت حاضر ہوئے جب کہ آپ تبوک کی طرف جانے کی تیاری فرما رہے تھے، اور انہوں نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ تحقیق ہم نے صاحب حاجت، بیمار سخت آندھی والی رات وغیرہ کے لیے ایک مسجد تعمیر کی ہے، اور ہم چاہتے ہیں کہ آپ اس میں ہمیں نماز پڑھائیں اور برکت کے لیے دعا فرمائیں۔ تو حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ نے فرمایا : ” بلاشبہ اب میں سفر پر جانے لگا ہوں اور انتہائی مشغول حالت میں ہوں پس اگر ہم واپس آئے تو ہم تمہارے پاس آئیں گے اور تمہیں اس میں نماز پڑھائیں گے “ (1) جب حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ تبوک سے واپس تشریف لائے تو وہ آپ کے پاس آئے درآنحالیکہ وہ اس کے کام سے فارغ ہوچکے تھے اور انہوں نے اس میں جمعہ، ہفتہ اور اتوار کی نمازیں پڑھ لی تھیں، تو حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ نے اپنی قمیص منگائی تاکہ آپ اسے پہنیں اور آپ ان کے پاس جائیں تو اتنے میں آپ پر مسجد ضرار کے خبر کے بارے قرآن کریم نازل ہوا پھر حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ نے مالک بن دخشم، معن بن عدی، عامر بن سکن اور حضرت حمزہ ؓ کے قاتل وحشی کو بلایا، اور انہیں فرمایا ” جاؤ اس مسجد کی طرف اس کے بنانے والے ظالم ہیں اور تم اسے گرا دو اور اسے جلا کر راکھ کر دو “ (1) (اسباب النزول، صفحہ 136) پس وہ بڑی تیز رفتاری کے ساتھ نکلے اور مالک بن دخشم نے اپنے گھر سے آگ کا انگارہ لیا اور اٹھے پھر مسجد کو جلا دیا اور اسے گرا دیا اور جنہوں نے اسے بنایا تھا وہ بارہ آدمی تھے : خذام بن خالد یہ بنی عبید بن زید سے تھا اور یہ بنی عمرو بن عوف میں سے ایک تھا اور اس کے گھر سے مسجد ضرار (کی جگہ) نکالی گئی، معتب بن قشیر، ابو حبیبہ بن الازعر، عبادا بن حنیف یہ سہل بن حنیف کا بھائی تھا جو بنی عمرو بن عوف میں سے تھا، جاریہ بن عامر اور اس کے دو بیٹے مجمع اور زید ابنا جاریہ، نبتل بن حارث، بحزج، بجاد بن عثمان، ودیعہ بن ثابت اور ثعلبہ بن حاطب کا ذکر بھی بن میں کیا گیا ہے۔ (2) (تفسیر طبری، جلد 11، صفحہ 29) ابو عمر بن عبدالبر نے کہا ہے : یہ محل نظر ہے، کیونکہ یہ بدر میں حاضر تھا، اور عکرمہ نے کہا ہے : حضرت عمر بن خطاب ؓ نے ان میں سے ایک آدمی سے پوچھا تو نے اس مسجد میں کیا مدد کی تھی ؟ تو اس نے کہا : میں نے اس میں ایک ستون کی ساتھ مدد کی۔ تو آپ نے فرمایا : اس کے بارے تجھے بشارت ہو ! جہنم کی آگ کا ایک ستون تیری گردن میں ہوگا۔ مسئلہ نمبر : (2) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ضرارا “۔ یہ مصدر مفعول من اجلہ ہے۔ (آیت) ” وکفرا وتفریقا بین المؤمنین وارصادا “۔ یہ سارا معطوف ہے۔ اور اہل تاویل نے کہا ہے : ضرار بالمسجد (مسجد کے ساتھ نقصان پہنچانے کے لیے) نہ کہ للمسجدضرار) (مسجد کو نقصان پہنچانے کے لیے) بلاشبہ یہ نقصان مسجد بنانے والوں کو ہوا (3) (احکام القرآن، جلد 2، صفحہ 1012) اور دارقطنی نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” کوئی نقصان نہیں اور کوئی نقصان پہنچانے والا نہیں جس نے کسی کو نقصان اور ضرر پہنچایا اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اسے ضرر اور نقصان پہنچائے گا اور جس نے کسی کو تنگ کیا اللہ تعالیٰ اسے اس پر شاق پہنچائے گا “۔ (4) (سنن دارقطنی، کتاب الحدود، جلد 4، صفحہ 228) بعض علماء نے کہا ہے۔ ضرر وہ ہے جس کے سبب تجھے منفعت حاصل ہو اور اس میں تیرے پڑوسی کے لیے نقصان ہو، اور ضرار وہ ہے جس میں تیرے لیے منفعت نہ ہو اور تیرے پڑوسی کے لیے اس میں نقصان ہو۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : دونوں ایک معنی میں ہیں، تاکید کی بنا پر دونوں کے ساتھ اکٹھی کلام کی گئی ہے۔ مسئلہ نمبر : (3) ہمارے علماء نے کہا ہے : یہ جائز نہیں ہے کہ ایک مسجد کے پہلو میں دوسری مسجد بنائی جائے اور اسے گرا دینا واجب ہے اور اس کو بنانے سے روکنا لازم ہے تاکہ پہلی مسجد والے پھر نہ جائیں کہ وہ اس حال میں باقی رہ جائے کہ دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ ہو، مگر یہ کہ محلہ بڑا ہو اور اس کے باسیوں کے لیے ایک مسجد کافی نہ ہو تو اس وقت دوسری مسجد، بنائی جاسکتی ہے۔ اور اسی طرح انہوں نے کہا ہے : یہ مناسب نہیں کہ ایک شہر میں دو یا تین جامع مساجد بنائی جائیں، دوسری کو روکنا واجب ہے اور جس نے اس میں جمعہ کی نماز پڑھی تو وہ جائز نہ ہوگی۔ تحقیق : حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ نے مسجد ضرار کو جلانے کا حکم ارشاد فرمایا تھا اور اسے گرا دیا تھا۔ علامہ طبری نے شقیق سے بیان کیا ہے کہ وہ آئے تاکہ مسجد بنی غاضرہ میں نماز پڑھیں تو انہوں نے نماز کو پایا کہ وہ فوت ہوچکی ہے (یعنی اس کا وقت گزر چکا ہے) تو آپ کو کہا گیا کہ بنی فلان کی مسجد میں اس کے بعد نماز نہ پڑھیں۔ تو آپ نے فرمایا : میں اس میں نماز پڑھنا پسند نہیں کرتا، کیونکہ ضرر پہنچانے کی نیت سے بنائی گئی ہے۔ (1) (تفسیر طبری، جلد 11، صفحہ 33) ہمارے علماء نے کہا ہے : ہر وہ مسجد جو ضرر پہنچانے یا ریاکاری اور شہرت کی خاطر بنائی جائے تو وہ مسجد ضرار کے حکم میں ہے اس میں نماز جائز نہ ہوگی۔ اور نقاش نے کہا ہے : اس سے یہ لازم آتا ہے کہ آدمی کینسہ (عیسائیوں کی عبادت گاہ) اور اس طرح کے دیگر مقامات میں نماز نہ پڑھے کیونکہ اسے شر کے ارادہ پر بنایا گیا ہے۔ میں مفسر کہتا ہوں : اس سے یہ لازم نہیں آتا، کیونکہ گرجا گھر کی تعمیر سے کسی دوسرے کو نقصان پہنچانے کا ارادہ نہیں ہوتا، اگرچہ اس کی اصل بنیاد شر پر ہے، عیسائیوں نے کینسہ اور یہودیوں نے بیعہ (یہودیوں کا عبادت خانہ) بنایا وہ جگہ ہے جس میں وہ اپنے زعم کے مطابق عبادت کرتے ہیں جیسا کہ ہمارے لیے مسجد ہے، پس یہ دونوں الگ الگ ہیں۔ تحقیق علماء نے اس پر اجماع کیا ہے کہ کسی نے کنیسہ یا بیعہ میں پاک جگہ پر نماز پڑھی اس کی نماز جائز گی اور ادا ہوجائے گی، اور امام بخاری (رح) نے ذکر کیا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ بیعہ میں نماز پڑھ لیتے تھے، جب اس میں بت اور تصاویر وغیرہ نہ ہوتیں۔ (2) (صحیح بخاری، کتاب الصلوۃ، جلد 1، صفحہ 62) اور ابو داؤد نے حضرت عثمان بن ابی العاص ؓ سے ذکر کیا ہے کہ حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ نے انہیں حکم ارشاد فرمایا کہ وہ طابف میں مسجد بنائیں جہاں ان کے بت تھے۔ (3) (سنن ابی داؤد، باب فی بناء المساجد، حدیث نمبر 380، ضیاء القرآن پبلی کیشنز۔ سنن ابن ماجہ، باب این یجوز بناء المساجد، حدیث نمبر 734، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) مسئلہ نمبر : (4) علماء نے کہا ہے : بیشک جو کوئی ظالم کا امام ہو اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جائے گی، مگر یہ کہ اس کا عذر ظاہر ہوجائے یا وہ توبہ کرلے، کیونکہ وہ بنی عمرو بن عوف جنہوں نے مسجد قبا بنائی انہوں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے ان کے زمانہ خلافت میں پوچھا کہ آپ مجمع بن جاریہ کو اجازت عطا فرمائیں کہ وہ انہیں ان کی مسجد میں نماز پڑھائیں، تو آپ نے فرمایا : نہیں اور نہ یہ کوئی معین اور خاص انعام ہے ! کیا یہ مسجد ضرار کا امام نہیں رہا۔ تو مجمع نے آپ کو عرض کی : اے امیرالمؤمنین ! آپ میرے بارے میں جلدی نہ کیجئے، قسم بخدا ! میں نے اس میں نماز پڑھی اور میں اسے نہیں جانتا تھا جو انہوں نے اس بارے میں (اپنے ذہنوں میں) چھپا رکھا تھا، اگر میں جانتا ہوتا تو میں انہیں اس میں نماز نہ پڑھاتا، میں ایک قرآن پڑھنے والا بچہ تھا اور وہ شیوخ تھے، تحقیق انہوں نے اپنی جاہلیت پر ہی زندگی گزاری اور وہ قرآن میں سے کوئی شے نہ پڑھتے تھے، سو میں نے انہیں نماز پڑھائی اور میں یہ گمان نہیں کرتا کہ میں نے کوئی گناہ کیا ہے اور نہ میں اس کے بارے جانتا ہوں جو ان کے دلوں میں تھا، تب حضرت عمر ؓ نے انہیں معذور قرار دیا اور اسے تسلیم کیا اور انہیں مسجد قبا میں نماز کے بارے حکم ارشاد فرمایا۔ (1) (تفسیر بغوی، جلد 2، صفحہ 327) مسئلہ نمبر : (5) ہمارے علمائرحمۃ اللہ علیہمنے کہا ہے : جب وہ مسجد جو عبادت کے لیے بنائی جاتی ہے اور شریعت نے اس کے بنانے پر برانگیختہ کیا ہے اور کہا ہے :” جس نے اللہ کے لیے مسجد بنائی اگرچہ وہ اس گڑھے کی مانند ہو جو کو نج نے انڈے دینے کے لیے بنایا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا “۔ اسے گرا دیا جائے گا اور اکھیڑ دیا جائے گا جب کہ اس میں دوسروں کے لیے ضرر اور نقصان ہو، تو پھر اس کے سوا کے لیے تیرا کیا خیال ہے، بلکہ وہ زیادہ اس لائق ہے کہ اسے زائل کیا جائے اور گرا دیا جائے یہاں تک کہ پرانی کسی چیز کے لیے ضرر اور نقصان نہ ہو، اور یہ اس کی طرح ہے جس نے تنور کے علاوہ روٹیاں پکانے کی جگہ یا چکی بنائی یا کنواں کھودا یا اس کے علاوہ کوئی ایسی شے بنائی جس کے سبب ضرر اور نقصان کسی دوسری شے کو پہنچ سکتا ہے، تو اس بارے ضابطہ یہ ہے کہ جس کسی نے اپنے بھائی کو ضرر اور نقصان میں ڈال دیا تو اسے منع کیا جائے گا، اور اگر اس نے اپنے بھائی کو نقصان میں ڈالا ایسے فعل کے ساتھ جو فعل اس نے اپنے مال میں کیا تھا اور اس نے اپنے پڑوسی کو نقصان پہنچایا تو پھر اس کے کام کی طرف دیکھا جائے گا، پس اگر اسے چھوڑنا فاعل کے لیے زیادہ نقصان دہ ہو اس ضرر سے جو اسے کرنے سے ہے تو پھر دونوں نقصانوں اور ضرروں میں سے بڑے اور اعظم کو ختم کردیا جائے گا اور ان دونوں میں سے اعظم اصول میں حرمت ہے، اس کی مثال یہ ہے کہ کسی آدمی نے اپنے گھر میں روشن دان کھولا وہ اس سے اپنے بھائی کے گھر جھانکتا ہو اور اس میں اس کے اہل و عیال ہوں اور عورتوں کی حالت اپنے گھروں میں یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے بعض کپڑے اپنے کام کاج کے وقت اتار دیتی ہیں، اور انہیں کھول دیتی ہیں اور یہ بھی معلوم ہے کہ شرمگاہوں (عورتوں) پر جھانکنا حرام ہے اور اس بارے میں نہی وارد ہے، پس شرمگاہوں (یعنی عورتوں) پر جھانکنے کی حرمت کی وجہ سے علماء نے یہ رائے دی ہے کہ وہ کھلے دروازہ کو بند کردیں اور اس روشن دان کو جو اس نے کھولا بلاشبہ اس کے کھولنے میں اس کے لیے منفعت اور راحت ہے اور اسے بند کرنے میں اس کا ضرر اور نقصان ہے لیکن انہوں (علمائ) نے دو ضرروں میں سے بڑے کو ختم کرنے کا قصد کیا ہے، کیونکہ ان دو میں سے ایک کو ختم کرنے سے کوئی چارہ کار نہیں اور اس باب میں حکم اسی طرح ہے، بخلاف امام شافعی (رح) اور ان کے جنہوں نے یہ قول کیا ہے۔ اصحاب شافعی (رح) نے کہا ہے : اگر کسی آدمی نے اپنی مملوکہ زمین میں کنواں کھودا اور دوسرے نے اپنی ملکیتی زمین میں کنواں کھودا کہ وہ اس میں پہلے کنوئیں کا پانی چرالے تو یہ جائز ہے، کیونکہ ان دونوں میں سے ہر ایک نے اپنی ملکیت میں کنواں کھودا کہ وہ اس میں پہلے کنوئیں کا پانی چرا لے تو یہ جائز ہے، کیونکہ ان دونوں میں سے ہر ایک نے اپنی ملکیت میں کنواں کھودا ہے لہذا اسے منع نہیں کیا جائے گا، اور اس کی مثال ان کے نزدیک یہ ہے : اگر کسی نے اپنے پڑوسی کے کنوئیں کے پہلو میں (بیت الخلاء کا) گڑا کھودا جو اس کے پانی کو خراب اور فاسد کر دے تو اس کے لیے اسے منع کرنا جائز نہیں، کیونکہ اس نے اپنی تصرف کیا ہے، حالانکہ قرآن وسنت دونوں اس قول کو رد کرتے ہیں۔ وباللہ التوفیق۔ اور اس باب میں ضرر کی دوسری وجہ یہ ہے جس سے علماء نے منع کیا ہے (وہ یہ ہے) مثلا تنور کا دھواں، حمام کا دھواں، گندم وغیرہ دانے گاہنے کا گردوغبار، وہ کیڑے جو کھلی زمین میں پھیلی ہوئی لید اور گوبر میں پیدا ہوتے ہیں اور جو بھی ضرر اس قسم کا ہو تو جونہی اس کا ضرر ظاہر ہو اور اس کے پھیلنے اور بڑھنے کا خدشہ ہو تو اسے ختم کردیا جائے گا۔ اور رہا وہ جو تھوڑے سے وقت کے لیے ہو مثلا کپڑے جھاڑنا اور دروازوں پر پڑا ہوا گردوغبار جھاڑنا، کیونکہ یہ ان میں سے ہے جس سے لوگوں کو کوئی چارہ کار نہیں۔ اور یہ ان میں سے بھی نہیں ہے جس کے ساتھ کوئی شے لازم ہوتی ہو، پس اس کی مثل سے روکنے میں ضرر کی نفی تھوڑی دیر اس پر صبر کرنے سے اعظم اور بڑی ہے، اور ایک پڑوسی کے لیے اپنے پڑوسی کے ساتھ آداب معاشرت میں سے یہ ہے کہ وہ اس کی اذیت رسانی پر اتنا صبر کرے جس پر وہ قدرت رکھتا ہے، جیسا کہ اس پر یہ لازم ہے کہ وہ اسے اذیت نہ دے اور اس کے ساتھ حسن سلوک کرے۔ مسئلہ نمبر : (6) اور اس باب میں داخل ہونے والے مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ ہے جسے اسماعیل بن ابی اویس نے امام مالک (رح) سے ذکر کیا ہے کہ ان سے ایک عورت کے بارے میں پوچھا گیا جسے جنوں میں سے کسی نے مس کیا ہو، پس جب اس کا خاوند اس کے پاس آتا ہے اور وہ جنبی ہوجائے یا وہ اس کے قریب ہو تو اس کے سبب وہ حملہ شدید ہوجاتا ہے (یعنی جن کی تکلیف اور اذیت بڑھ جاتی ہے) تو امام مالک (رح) نے فرمایا : میں یہ رائے نہیں رکھتا کہ وہ اس کے قریب جائے، بلکہ تو حاکم وقت کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اس آدمی اور اس کی عورت کے درمیان حائل ہوجائے۔ مسئلہ نمبر : (7) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وکفرا “۔ جب ان کا اعتقاد یہ تھا کہ نہ مسجد قبا کی کوئی حرمت ہے اور نہ ہی حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کی مسجد کی (کوئی تکریم ہے) تو کیا وہ اس اعتقاد کے ساتھ کافر نہیں ہوئے ؟ (1) (احکام القرآن، جلد 2، صفحہ 1012) یہ علامہ ابن عربی (رح) نے کہا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : (آیت) ” وکفرا “۔ یعنی حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کے ساتھ اور اس دین کے ساتھ جو آپ لے کر آئے (کفر کرتے ہوئے انہوں نے مسجد بنائی) یہ علامہ قشیری وغیرہ نے کہا ہے۔ مسئلہ نمبر : (8) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وتفریقا بین المؤمنین “۔ ان کی جماعت اس کے ساتھ تفرقہ ڈال رہی ہے تاکہ لوگ حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ سے پیچھے رہ جائیں۔ اور یہ اس بات پر تیری راہنمائی کرتی ہے کہ جماعت قائم کرنے سے سب سے بڑا مقصد اور واضح اور ظاہر غرض تالیف قلوب ہے اور اطاعت پر کلام کرنا ہے اور ایک دینی فعل کے ساتھ عزت و حرمت کو لانا ہے۔ تاکہ باہم ملنے سے انس و محبت واقع ہوجائے اور دل حسد اور کینے کی میل سے صاف ہوجائیں (2) (احکام القرآن، جلد 2، صفحہ 1013) مسئلہ نمبر : (9) امام مالک (رح) نے اس آیت سے یہ مسئلہ سمجھا اور کہا : ایک مسجد میں دو اماموں کے ساتھ دو جماعتیں نہیں ہو سکتیں، یہ نظریہ تمام علماء کے خلاف ہے۔ امام شافعی (رح) سے بھی منع کا حکم مروی ہے کیونکہ یہ ایک کلمہ کو متفرق کرنا ہے اور جماعت کی حکمت کو باطل کرنا ہے اور یہ اس قول کا ذریعہ اور سبب ہے جو جماعت سے الگ ہونے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس کے لیے عذر ہو پس تو وہ اپنی جماعت کا اہتمام کرلے اور اپنا امام آگے کرلے نتیجۃ اختلاف پیدا ہوجائے گا اور نظام باطل ہوجائے گا اور یہ چیز ان پر مخفی ہے۔ علامہ ابن عربی (رح) نے کہا ہے : یہی نظریہ ہے جس کی یہ شان ان کے ساتھ ہے اور یہ حکمت میں ان سے زیادہ ثابت قدم رکھنے والا ہے اور شریعت کی قطعیت کے بارے زیادہ آگاہ کرنے والا ہے (3) (احکام القرآن، جلد 2، صفحہ 1013) مسئلہ نمبر : (10) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وارصادا لمن حارب اللہ ورسولہ “۔ اس میں مراد ابو عامر راہب ہے (1) اسے راہب کا نام اس لیے دیا گیا ہے کیونکہ وہ عبادت گزار تھا اور علم کی تلاش میں لگا رہتا تھا پھر وہ حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کی دعوت کا انکار کرتے ہوئے قنسرین میں حالت کفر میں مرگیا۔ اس نے حضور حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کو کہا تھا : میں جو قوم بھی تمہارے ساتھ قتال کرتے ہوئے پاؤں گا تو میں ان کے ساتھ مل کر تمہارے ساتھ قتال کروں گا، پس وہ غزوہ حنین تک لگا تار آپ کے خلاف جنگ لڑتا رہا، اور جب بنو ہوازن شکست سے دو چار ہوئے تو وہ روم کی طرف نکل گیا اور عیسائی ہوگیا اور اس نے منافقوں کی طرف پیغام بھیجا تو طاقت اور ہتھیاروں میں سے جتنی استطاعت رکھتے ہو اس کے مطابق تیاری کرو اور ایک مسجد بناؤ کیونکہ میں قیصر کی طرف جا رہا ہوں اور میں رومیوں کے ایک لشکر کے ساتھ آؤں گا اور میں یقینا حضرت محمد ﷺ کو مدینہ طیبہ سے نکال دوں گا، چناچہ انہوں نے مسجد ضرار بنائی (2) ۔ اور یہ ابو عامر حضرت حنظلہ غسیل الملائکہ ؓ کا والد ہے۔ اور الارصاد کا معنی ہے انتظار کرنا، آپ کہتے ہیں : ارصدت کذا جب تو کام کے بارے اسے تیار کرے اس کا انتظار کرتے ہوئے، ابو زید نے کہا ہے : کہا جاتا ہے : رصدتہ وارصدتہ فی الخیر (یعنی یہ دونوں فعل مجرد اور مزید فیہ، خیر اور بھلائی کے کاموں کے لیے بولے جاتے ہیں) اور شر کے بارے میں ارصدت لہ بولا جاتا ہے۔ اور ابن اعرابی نے کہا ہے : صرف ارصدت کہا جاتا ہے اور اس کا معنی ارتقبت (میں نے انتظار کیا) ہے (3) اور قول باری تعالیٰ : (آیت) ” من قبل “ کا معنی ہے مسجد ضرار بنانے سے پہلے۔ (آیت) ” ولیحلفن ان اردنا الا الحسنی “۔ یعنی ہم نے اسے بنانے سے سوائے نیکی اور خیر کے کوئی ارادہ نہیں کیا۔ اور وہ مسلمانوں کے ساتھ نرمی اور دوستی کرتا ہے جیسا کہ انہوں نے بیماروں اور حاجت مندوں کا ذکر کیا اور یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ افعال مقصود اور ارادوں کے ساتھ مختلف ہوجاتے ہیں، اسی لیے فرمایا : (آیت) ” ولیحلفن ان اردنا الا الحسنی، وہ اللہ یشھد انھم لکذبون “۔ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے خبث باطن کو جانتا ہے اور جس پر وہ قسم کھا رہے ہیں اس میں ان کے جھوٹا ہونے کو بھی جانتا ہے۔
Top