Al-Qurtubi - At-Tawba : 108
لَا تَقُمْ فِیْهِ اَبَدًا١ؕ لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَى التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْهِ١ؕ فِیْهِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَهَّرُوْا١ؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُطَّهِّرِیْنَ
لَا تَقُمْ : آپ نہ کھڑے ہونا فِيْهِ : اس میں اَبَدًا : کبھی لَمَسْجِدٌ : بیشک وہ مسجد اُسِّسَ : بنیاد رکھی گئی عَلَي : پر التَّقْوٰى : تقوی مِنْ : سے اَوَّلِ : پہلے يَوْمٍ : دن اَحَقُّ : زیادہ لائق اَنْ : کہ تَقُوْمَ : آپ کھڑے ہوں فِيْهِ : اس میں فِيْهِ : اس میں رِجَالٌ : ایسے لوگ يُّحِبُّوْنَ : وہ چاہتے ہیں اَنْ : کہ يَّتَطَهَّرُوْا : وہ پاک رہیں وَاللّٰهُ : اور اللہ يُحِبُّ : محبوب رکھتا ہے الْمُطَّهِّرِيْنَ : پاک رہنے والے
تم اس (مسجد) میں کبھی (جا کر) کھڑے بھی نہ ہونا۔ البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے اس قابل ہے کہ اس میں جایا (اور نماز پڑھایا) کرو۔ اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنے کو پسند کرتے ہیں۔ اور خدا پاک رہنے والوں کو ہی پسند کرتا ہے۔
آیت نمبر : 108۔ اس آیت میں گیارہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” لا تقم فیہ ابدا، فیہ “۔ کی ضمیر کا مرجع مسجد ضرار ہے، یعنی آپ اس میں نماز کے لیے کبھی کھڑے نہ ہوں۔ اور کبھی نماز کو قیام سے تعبیر کیا جاتا ہے، کہا جاتا ہے : فلان یقوم اللیل، یعنی فلاں رات کے وقت نماز پڑھتا ہے۔ اور اسی طرح صحیح حدیث بھی ہے : من قام رمضان ایمانا واحتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ (1) (صحیح بخاری، کتاب الصوم، جلد 1، صفحہ 269) (جس نے رمضان المبارک میں ایمان اور اخلاص نیت کے ساتھ نماز پڑھی تو اس کے سابقہ گناہ بخش دیئے گئے) اسے امام بخاری (رح) نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے اور انہوں نے حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ سے روایت کیا ہے، آپ نے فرمایا۔ پس اسے ذکر کیا، تحقیق یہ بھی روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ اس راستے سے بھی نہ گزرتے تھے جس میں مسجد تھی اور اس کی جگہ کو کو ڑاکرکٹ ڈالنے کی جگہ بنانے کا حکم دے دیا کہ اس میں مردار، گندگیاں اور کوڑا پھینکا جائے گا۔ مسئلہ نمبر : (2) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ابدا “۔ یہ ظرف زمان ہے اور ظرف زمان کی دو قسمیں ہیں : ایک وہ ظرف جو مقدر اور معین ہے مثلا الیوم، اور دوسری ظرف مبہم ہے جیسے الحین اور الوقت اور ابدا بھی اسی قسم سے ہے اور اسی طرح دھر بھی ہے (2) (احکام القرآن، جلد 2، صفحہ 1014) اور یہاں ایک اصولی مسئلہ بیان کیا جاتا ہے اور وہ یہ کہ ابدا اگرچہ ظرف مبہم ہے اس میں عموم نہیں ہے لیکن جب یہ لانافیہ کے ساتھ متصل ہوا تو اس نے عموم کا فائدہ دیا، پس اگر فرماتا : (آیت) ” لا تقم “۔ تو یہ مطلق رکھنے میں کافی ہوتا ہے۔ اور جب فرمایا : ابدا تو گویا یہ فرمایا : فی وقت من الاوقات ولافی حین من الاحیان “۔ (یعنی اوقات میں سے کسی بھی وقت میں اس میں کھڑے نہ ہوں) رہا وہ نکرہ جو مثبت کلام میں ہو تو جب وہ کسی واقعہ کے بارے خبر ہو تو وہ عام نہیں ہوتا، تحقیق اہل لسان نے یہی سمجھا ہے، اور فقہائے اسلام نے اسی کے بارے فیصلہ کیا ہے پس انہوں نے کہا ہے : اگر کسی آدمی نے اپنی بیوی کو کہا : انت طالق ابداتو وہ ایک طلاق کے ساتھ مطلقہ ہوگی (3) (احکام القرآن، جلد 2، صفحہ 1014) مسئلہ نمبر : (3) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” لمسجد اسس علی التقوی “۔ یعنی اس کی دیواریں بنائی گئیں اور اس کی بنیادیں اٹھائیں گئیں تقوی پر۔ اور الاس کا معنی عمارت کی اصل اور بنیاد ہے اور اسی طرح اساس بھی ہے۔ اور الاسس اسی سے محصور ومقصور ہے۔ اور الاس کی جمع اساس ہے، جیسا کہ عس کی جمع اساس ہے، جیسا کہ عس کی جمع عساس ہے۔ اور الاساس کی جمع اسس ہے، مثلا قذال کی جمع قذل ہے۔ اور الاسس کی جمع اساس ہے، مثلا سبب کی جمع اسباب ہے، اور اسست الیناء تاسیسا (میں نے مضبوط عمارت بنائی) اور ان کا قول ہے : کان ذالک علی اس الدھر، و اس الدھر، و اس الدھر اس میں یہ تینوں لغات ہیں، یعنی وہ قدم الدھر اور وجہ الدہر پر ہے۔ اور قول باری تعالیٰ : (آیت) ” لمسجد “۔ میں لام قسم ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ لام ابتدا ہے، جیسے آپ کہتے ہیں : لزید احسن الناس فعلا (یعنی زید کام کرنے کے اعتبار سے لوگوں میں انتہائی حسین ہے) اور یہ (لام) تاکید کا تقاضا کرتا ہے۔ (آیت) ” اسس علی التقوی “۔ یہ لمسجد “۔ کی صفت ہے۔ احق یہ اس امبتدا کی خبر ہے جو لمسجد ہے اور یہاں تقوی کا معنی وہ خصلتیں ہیں جن کے ساتھ سزا سے بچا جاتا ہے اور یہ فعلی کے وزن پر وقیت سے ہے اور یہ پہلے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر : (4) اور علماء کا اس مسجد کے بارے میں اختلاف ہے جس کی بنیاد تقوی پر رکھی گئی ہے، پس ایک گروہ نے کہا ہے : وہ مسجد قبا ہے۔ یہ حضرت ابن عباس ؓ ، ضحاک، اور حسن رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے مروی ہے اور انہوں نے قول باری : (آیت) ” من اول یوم “۔ سے استدلال کیا ہے، اور مدینہ طیبہ میں پہلے دن مسجد قبا ہی بنائی گئی تھی، کیونکہ یہ حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کی مسجد سے پہلے بنائی گئی تھی، یہ حضرت ابن عمر اور ابن مسیب رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے کہا ہے (1) (احکام القرآن، جلد 2، صفحہ 214 اور امام مالک (رح) نے اس میں بیان کیا ہے جسے آپ سے ابن وہب، اشہب اور ابن قاسم نے روایت کیا ہے، اور ترمذی نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت نقل کی ہے : انہوں نے فرمایا : دو آدمی اس مسجد کے بارے جھگڑ پڑے جس کی بنیاد پہلے دن سے تقوی پر رکھی گئی، تو ایک آدمی نے کہا : وہ مسجد قبا ہے اور دوسرے نے کہا : وہ حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کی مسجد ہے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ھو مسجدی ھذی وہ میری یہ مسجد ہے (2) (جامع ترمذی، باب من سورة التوبۃ، حدیث نمبر 3024، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) امام ترمذی نے کہا ہے : یہ حدیث صحیح ہے۔ پہلا قول واقعہ کے زیادہ مناسب ہے، کیونکہ قول باری تعالیٰ : فیہ میں ظرف کی ضمیر رجال متطہرین کا تقاضا کرتی ہے پس وہ مسجد قبا ہے۔ اور اس پر دلیل حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث ہے انہوں نے فرمایا : یہ آیت اہل قبا کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ (آیت) ” فیہ رجال یحبون ان یتطھروا، واللہ یحب المطھرین “۔ فرمایا : وہ پانی کے ساتھ استنجا کرتے تھے پس ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ علامہ شعبی (رح) نے کہا ہے : وہ مسجد قباوالے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی (3) (جامع ترمذی، کتاب التفسیر، جلد 2، صفحہ 136) اور حضرت قتادہ (رح) نے کہا ہے : جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے اہل قبا کو فرمایا : ” شک اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے تمہاری پاکیزگی کی تعریف کرتے ہوئے تم پر احسان فرمایا ہے، تم کیا کرتے ہو “ ؟ انہوں نے عرض کی : بےہم بول وبراز کے اثر کو پانی کے ساتھ دھوتے ہیں (4) تفسیر طبری، جلد 11، صفحہ 36) اسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے، اور دارقطنی نے حضرت طلحہ بن نافع ؓ سے روایت کیا ہے انہوں نے کہا : مجھے حضرت ابو ایوب، حضرت جابر بن عبداللہ ؓ اور حضرت انس بن مالک انصاریوں رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے رسول اللہ ﷺ نے اس آیت (آیت) ” فیہ رجال یحبون ان یتطھروا، واللہ یحب المطھرین “۔ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : ” اے گروہ انصار ! بیشک اللہ تعالیٰ نے پاکیزگی اور طہارت کے بارے میں تمہاری بہت اچھی تعریف فرمائی ہے تمہاری یہ پاکیزگی کیسی ہے “ ؟ انہوں نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ ہم نماز کے لیے وضو کرتے ہیں اور جنابت کی حالت میں غسل کرتے ہیں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” کیا اس کے ساتھ کوئی اور بھی ہے ؟ “ تو انہوں نے عرض کی : اس کے سوا کوئی نہیں، بیشک ہم میں سے کوئی جب بول وبراز کے لیے نکلے تو وہ زیادہ پسند کرتا ہے کہ پانی کے ساتھ استنجا کرے، آپ ﷺ نے فرمایا ” وہ وہی ہے پس تم اسے لازم پکڑے رکھو “ (5) (سنن دارقطنی، کتاب الطھارۃ، جلد 1، صفحہ 62، سنن ابن ماجہ، باب الاستنجاء بالماء حدیث نمبر 348، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور یہ حدیث تقاضا کرتی ہے کہ آیت میں جس مسجد کا ذکر ہے وہ مسجد قبا ہے، مگر حضرت ابو سعید خدری ؓ کی حدیث میں حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ نے اس پر نص بیان کی ہے کہ وہ آپ کی مسجد ہے پس اس کے ساتھ کوئی نظر وفکر کا عمل نہیں ہے۔ اور ابو کریب نے بیان کیا ہے ہمیں ابو اسامہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا، ہمیں صالح بن حیان نے بیان کیا ہے انہوں نے کہا ہمیں عبداللہ بن بریدہ نے قول باری تعالیٰ : (آیت) ” فی بیوت اذن اللہ ان ترفع ویذکر فیھا اسمہ “۔ (النور : 36) بارے میں بیان کیا ہے آپ نے فرمایا : بیشک یہ چار مساجد ہیں جنہیں انبیاء (علیہم السلام) نے بنایا ہے، کعبہ معظمہ کو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہما السلام) نے اور بیت اریحا بیت المقدس کو حضرت داؤد اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) اور مدینہ طیبہ کی مسجد (مسجد نبوی) اور مسجد قباوہ ہیں جن کی بنیاد تقوی پر رکھی گئی ہے، ان دونوں کو رسول اللہ ﷺ نے بنایا ہے۔ مسئلہ نمبر : (5) (آیت) ” من اول یوم “۔ من نحویوں کے نزدیک یہ منذ کے مقابلے میں ہے، پس منذظرف زمان میں اور مکان میں من کے قائم مقام ہے، پس کہا گیا ہے : بیشک یہاں من کا معنی منذ کی مثل ہے اور تقدیر کلام ہے : منذ اول یوم ابتدی بنیانہ (پہلے دن سے اس کی بنیادوں کی ابتداء کی گئی) اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے من تاسیس اول الایام (پہلے دن کی بنیاد سے) پس یہ اس فعل کے مصدر پر داخل ہے جو اسس ہے، جیسا کہ شاعر نے کہا ہے : لمن الدیار بقنۃ الحجر اقوین من حجج ومن دھر (1) (زاد المسیر، جلد 3، صفحہ 378) یعنی من مرحجج ومن مردھر : اور جس نے اس طرف دعوت دی ہے وہ یہ ہے کہ علمائے نحو کا یہ اصول ہے کہ من کے ساتھ ازمان کو جر نہیں دی جائے گی، بلکہ ازمان کو منذ کے ساتھ جر دی جائے گی، آپ کہتے ہیں : مارایتہ منذ شھر اوسنۃ اویوم اور یہ نہیں کہہ سکتے : من شھر اور نہ من سنۃ اور نہ ہی من یوم کہہ سکتے ہیں پس جب کلام میں من واقع ہو اور اس کے پیچھے متصل زمانہ ہو تو وہاں کوئی مضمر لفظ مقدر مانا جائے گا جسے من کے ساتھ جر دی جاسکتی ہو، جیسا کہ ہم نے شعر کی تقدیر میں ذکر کیا ہے، ابن عطیہ نے کہا ہے : میرے نزدیک اچھا یہ ہے کہ یہ آیت تقدیر عبارت سے مستغنی ہو اور یہ کہ من لفظ اول کو جر دے رہا ہو، کیونکہ یہ البداء ۃ (ابتدائ) کے معنی میں ہے گویا کہ من مبتدا الایام کہا ہے۔ (2) (المحرر الوجیز، زیر آیت ہذہ) مسئلہ نمبر : (6) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” احق ان تقوم فیہ “۔ یعنی یہ بان تقوم ہے، پس یہ محل نصب میں ہے اور احق یہ حق سے افعل التفضیل کا صیغہ ہے اور افعل دو مشترک چیزوں کے درمیان داخل ہوتا ہے، اور ان دونوں میں سے ایک میں وہ مشترک معنی دوسرے کے مقابلہ میں زیادہ ہوتا ہے، پس مسجد ضرار اگرچہ باطل ہے اس میں کوئی حق نہیں ہے، لیکن یہ دونوں حق میں مشترک ہیں یا تو اسے بنانے والے کے اعتقاد کی وجہ سے یا اس کے اعتقاد کی وجہ سے جو یہ گمان کرتا ہے کہ مسجد ہونے کی وجہ سے اس میں قیام جائز ہے، لیکن دونوں اعتقادوں میں سے ایک اللہ تعالیٰ کے نزدیک باطنا باطل ہے۔ اور دوسرا ظاہرا اور باطنا حق ہے۔ اور اسی کی مثل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” اصحب الجنۃ یومئذ خیر مستقرا واحسن مقیلا “۔ (الفرقان) (اہل جنت کا اس دن اچھا ٹھکانا ہوگا اور دوپہر گزارنے کی جگہ بڑی آرام دہ ہوگی) اور یہ بات معلوم ہے کہ خیر اور اچھائی کو جہنم سے دور کردیا گیا ہے، لیکن یہ ہر فرقہ کے اس اعتقاد کے مطابق ہے کہ وہ خیر پر ہے اور اس کی طرف اس کا لوٹنا خیر ہے، کیونکہ ہر گروہ اس کے ساتھ خوش ہے جو اس کے پاس ہے۔ اور یہ العسل احلی من الخل (کہ شہد سرکے سے زیادہ شریں ہے) کے قبیل سے نہیں ہے، کیونکہ شہد اگرچہ میٹھا ہے پس ہر وہ شی جو ملائم ہو وہ میٹھی ہوتی ہے، کیا آپ جانتے نہیں ہیں کہ بعض لوگ سرکے کو شہد پر مقدم کرتے ہیں درآنحالیکہ مفرد کے مقابلے میں مفرد ہو اور کسی غیر کی طرف مضاف مضاف کے مقابلے میں ہو۔ مسئلہ نمبر : (7) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فیہ “۔ جنہوں نے کہا ہے کہ مسجد سے مسجد النبی ﷺ مراد لی جائے گی تو پھر (آیت) ” احق ان تقوم فیہ “۔ میں ہاضمیر اسی کی طرف لوٹ رہی ہے۔ اور (آیت) ” فیہ رجال “ میں بھی ضمیر اسی کے لیے ہے، اور جنہوں نے کہا ہے کہ اس سے مراد مسجد قبا ہے تو پھر فیہ میں ہا ضمیر اس کی طرف لوٹے گی۔ یہ اس اختلاف کی بنا پر ہے جو پہلے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر : (8) اس آیت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان کی تعریف بیان کی ہے جنہوں نے نظافت اور طہارت کو پسند کیا اور نظافت و پاکیزگی کو ترجیح دی اور یہ انسانی مروت ہے اور شرعی وظیفہ ہے۔ (1) (جامع ترمذی، کتاب الطہارۃ، جلد 1، صفحہ 5) ترمذی میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : تم اپنے خاوندوں کو کہو کہ وہ پانی کے ساتھ صفائی اور پاکیزگی حاصل کریں، کیونکہ میں ان سے شرم وحیا محسوس کرتی ہوں، فرمایا : یہ حدیث صحیح ہے (2) (جامع ترمذی، باب ما جاء فی الاستنجاء بالماء حدیث نمبر 19، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور یہ ثابت ہے کہ حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ اپنے ساتھ استنجاء کے لیے پانی لے جاتے تھے، پس آپ تخفیف اور خشک کرنے کے لیے پتھر استعمال کرتے تھے اور پاکیزگی اور طہارت کے لیے پانی (3) (احکام القرآن، جلد 2، صفحہ 1015) علامہ ابن عربی نے کہا ہے : قیروان کے علماء اپنے وضو کی جگہوں میں مٹی کے ڈھیلے رکھتے تھے ان کے ساتھ صفائی کرتے تھے پھر پانی کے ساتھ صفائی کرتے تھے پھر پانی کے ساتھ استنجا کرتے تھے۔ مسئلہ نمبر : (9) مخرج سے نکلنے والی نجاست کو صاف کرنا لازم ہے اور تمام بدن اور کپڑے کی نجاست میں تطہیر (یعنی اسے پاک کرنا) لازم ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس کے بندوں کے لیے پانی کے موجود ہونے اور نہ ہونے کی دونوں حالتوں میں رخصت ہے۔ اور اسی کے مطابق عام علماء نے کہا ہے، اور ابن حبیب نے اختلاف کیا ہے اور کہا ہے : پتھروں کا استعمال نہیں کیا جائے گا مگر صرف پانی نہ ہونے کی حالت میں (4) (احکام القرآن، جلد 2، صفحہ 1015) اور وہ اخبار جو پانی کے موجود ہونے کے باوجود پتھروں کے استعمال کے بارے میں ثابت ہیں وہ اسے رد کرتی ہیں۔ مسئلہ نمبر : (10) بدنوں اور کپڑوں سے نجاست زائل کرنے کے بارے میں علماء نے مابین اختلاف ہے، حالانکہ ان کا پسوؤں کے خون کی معافی اور اس سے تجاوز پر اجماع ہے جب تک کہ وہ انتہائی فحش اور زیادہ نہ ہو، نجاست کے ازالہ میں علماء کے تین اقوال ہیں : پہلا قول یہ ہے کہ وہ واجب فرض ہے، اس کی نماز جائز نہیں ہوتی جس نے ناپاک کپڑے میں نماز پڑھی چاہے وہ اس کے بارے جاننے والا ہو یا بھولنے والا یہ حضرت ابن عباس ؓ حسن اور ابن سیرین رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے مروی ہے اور یہی امام شافعی، امام احمد اور ابو ثوررحمۃ اللہ علیہمکا قول ہے، اور اسے ابن وہب نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے اور یہی قول ابو الفرج المالکی اور علامہ طبری کا ہے، مگر علامہ طبری نے کہا ہے : اگر نجاست درہم کی مقدار ہو تو وہ نماز کا اعادہ کرے، امام اعظم ابوحنیفہ (رح) اور امام ابو یوسفرحمۃ اللہ علیہمنے دبر کے حلقہ پر قیاس کرتے ہوئے درہم کی مقدار کی رعایت کرنے کا قول کیا ہے۔ اور ایک گروہ نے کہا ہے : کپڑوں اور بدنوں سے نجاست کو زائل کرنا سنت سے ثابت ہے، یعنی یہ وجوب سنت ہے فرض نہیں ہے، انہوں نے کہا ہے : جس نے نجس کپڑے کے ساتھ نماز پڑھی تو وہ وقت کے اندر نماز کا اعادہ کرے اور اگر وقت نکل گیا تو پھر اس پر کوئی شی نہیں ہے۔ یہ قول امام مالک اور ابو الفرج کے سوا آپ کے اصحاب کا ہے اور آپ سے ابن وہب کی ہدایت بھی ہے اور خون تھوڑا ہونے کی صورت میں امام مالک (رح) نے کہا ہے : اس سے نماز کا اعادہ نہیں کیا جائے گا نہ وقت میں اور نہ ہی وقت کے بعد اور بول وبراز میں سے تھوڑا بھی ہو تو نماز کا اعادہ کیا جائے گا۔ امام مالک (رح) کے مذہب میں سے یہ سب لیث کا قول ہے۔ اور ان سے ابن القاسم نے کہا ہے : یا دھونے کی حالت میں نجاست کو زائل کرنا واجب ہوتا ہے نہ کہ نسیان اور بھول کی حالت میں اور یہ ان کے مفردات میں سے ہے۔ اور پہلا قول زیادہ صحیح ہے ان شاء اللہ، کیونکہ حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے تو فرمایا : انھما لیعذبان وما یعذبان فی کبیر اما احدھما فکان یمشی بالنمیمۃ و امام الاخر فکان لا یستتر من بولہ الحدیث (1) (صحیح بخاری، کتاب الجنائر، جلد 1، صفحہ 182) (بےشک ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور انہیں کسی بڑے گناہ میں عذاب نہیں دیا جا رہا ان میں سے ایک چغلی کھاتا تھا اور دوسرا اپنے پیشاب سے نہ بچتا تھا) اسے بخاری اور مسلم دونوں نے روایت کیا ہے اور تیرے لیے یہی کافی ہے، اور عنقریب اس کا ذکر سورة سبحان میں آئے گا، انہوں نے کہا ہے : اور آدمی کو عذاب نہیں دیا جاتا مگر واجب ترک کرنے پر اور یہ بالکل ظاہر ہے۔ اور ابوبکر بن ابی شیبہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے اور انہوں نے حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ سے روایت بیان کی ہے آپ نے فرمایا : ” اکثر عذاب قبر پیشاب کی وجہ سے ہے “ (2) (سنن ابن ماجہ، کتاب الطھارۃ، جلد 1، صفحہ 29، ایضا، حدیث نمبر 341، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) دوسروں نے حضور نبی مکرم ومعظم ﷺ کے نماز میں اپنے نعلین مبارک اتارنے سے استدلال کیا ہے جب کہ حضرت جبرئیل امین (علیہ السلام) نے آپ کو مطلع کیا کہ ان میں قذر اور اذیت رساں شے لگی ہوئی ہے الحدیث۔ اسے ابو داؤد وغیرہ نے حضرت ابو سعید خدری ؓ کی حدیث سے روایت کیا ہے، اس کا ذکر عنقریب سورة طہ میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ، انہوں نے کہا : جب آپ ﷺ نے اس نماز کا اعادہ کیا جو آپ پڑھ چکے تھے تو یہ اس پر دلیل ہے اس کو زال کرنا سنت ہے اور آپ کی نماز صحیح ہے اور کامل نماز کے حصول کے لیے آدمی نماز کا اعادہ کرسکتا ہے جب تک وقت موجود ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (11) قاضی ابوبکربن عربی (رح) نے کہا ہے : اور رہا قلیل وکثیر کے درمیان فرق تو یہ بغلی درہم کی مقدار کے برابر ہے (یعنی بڑے دراہم وہ ہیں جن کی دینار کی گولائی کی مقدار کے برابرہو) اور اسے دبر کے حلقہ پر قیاس کیا گیا ہے۔ یہ دو وجہوں سے فاسد ہے : ان میں سے ایک یہ ہے کہ مقداریں قیاس سے ثابت نہیں ہوتیں لہذا یہ مقدار قبول نہیں کی جائے گی اور دوسری وجہ یہ ہے کہ دبر کے بارے میں اس میں جو تخفیف کی گئی ہے وہ ضرورت اور حاجت کے سبب رخصت ہے اور حاجت اور رخصتوں پر کسی کو قیاس نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ یہ قیاس سے خارج ہیں پس انہیں اس کی طرف لوٹایا جائے گا (3) (احکام القرآن، جلد 2، صفحہ 1016)
Top