Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - At-Tawba : 2
فَسِیْحُوْا فِی الْاَرْضِ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ اعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ غَیْرُ مُعْجِزِی اللّٰهِ١ۙ وَ اَنَّ اللّٰهَ مُخْزِی الْكٰفِرِیْنَ
فَسِيْحُوْا
: پس چل پھر لو
فِي الْاَرْضِ
: زمین میں
اَرْبَعَةَ
: چار
اَشْهُرٍ
: مہینے
وَّاعْلَمُوْٓا
: اور جان لو
اَنَّكُمْ
: کہ تم
غَيْرُ
: نہیں
مُعْجِزِي اللّٰهِ
: اللہ کو عاجز کرنے والے
وَاَنَّ
: اور یہ کہ
اللّٰهَ
: اللہ
مُخْزِي
: رسوا کرنے والا
الْكٰفِرِيْنَ
: کافر (جمع)
تو (مشرکو تم) زمین میں چار مہینے چل پھر لو اور جان رکھو کہ تم خدا کو عاجز نہ کرسکو گے اور یہ بھی کہ خدا کافروں کو رسوا کرنے والا ہے۔
آیت نمبر
2
مسئلہ نمبر
2
۔ علماء نے تاجیل اور مہلت کی کیفیت میں اختلاف کیا ہے اور ان لوگوں کے بارے میں (اختلاف کیا ہے) جن سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرم ﷺ نے قطع تعلق کا اعلان کیا ہے۔ پس محمد بن اسحاق وغیرہ نے کہا ہے : یہ مشرکین کی دو قسمیں ہیں، ان میں سے ایک وہ ہے جن کے معاہدوں کی مدت چار ماہ سے کم تھی پس انہیں چار ماہ مکمل کرنے کی مہلت دی گئی اور دوسری وہ ہے جن کے معاہدہ کی کوئی معین اور محدود مدت نہ تھی پس اسے چار ماہ میں محصور کردیا تاکہ وہ اپنے آپ کو پابند کرلیں۔ پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول مکرم ﷺ اور مومنین کی طرف سے اعلان جنگ ہے، جہاں کوئی پایا گیا وہیں قتل کردیا جائے گا اور قیدی بنا لیا جائے گا مگر یہ کہ توبہ کرلے۔ اور اس مدت کی ابتداء حج اکبر کے دن سے ہے اور اس کا اختتام دس ربیع الاخر کو ہوگا۔ اور رہے وہ جن کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں تو ان کی مدت چار شہر حرام کے گزرنے تک ہے۔ اور وہ پچاس دن ہیں : بیس ذوالحجہ اور محرم سے ہیں۔ اور کلبی (رح) نے کہا ہے : بیشک یہ چار مہینے ان کے لیے تھے جن کے اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان معاہدہ چار ماہ سے کم تھا اور جن کا معاہدہ چار مہینوں سے زیادہ تھا تو وہ وہ ہیں جن کے بارے اللہ تعالیٰ نے اپنے ارشاد : فاتموا الیھم عھدھم الی مدتھم (توبہ :
4
) کے ساتھ حکم فرمایا کہ ان کا عہد مکمل کیا جائے۔ اور یہی موقف علامہ طبری وغیرہ نے اختیار کیا ہے۔ محمد اسحاق اور مجاہد رحمتہ اللہ علیہا وغیرہ نے ذکر کیا ہے کہ یہ آیت اہل مکہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اور وہ اس طرح کہ رسول اللہ ﷺ نے حدیبیہ کے سال قریش کے ساتھ صلح کی، اس شرط پر کہ دس سال تک جنگ نہیں ہوئی ہوگی، اس عرصہ میں لوگ پر امن رہیں گے۔ اور ایک دوسرے پر (حملہ وغیرہ کرنے) سے باز رہیں گے۔ پس بنو خذاعہ رسول اللہ ﷺ کے معاہدہ میں داخل ہو کر آپ کے حلیف ہوگئے اور بنو بکر قریش کے عہد میں داخل ہو کر ان کے حلیف بن گئے، پھر بنو بکر نے خزاعہ پر زیادتی کی اور انہوں نے اپناعہدہ توڑ دیا۔ اور اس کا سبب وہ دم تھا جو بتی بکر کا اسلام سے کچھ مدت پہلے خزاعہ پر لازم ہوا تھا (یعنی خزاعہ نے ان کا آدمی قتل تھا اور اس کا بدلہ ابھی باقی تھا) پس جب حدیبیہ کے مقام پر صلح واقع ہوگئی، تو لوگ آپس میں ایک دوسرے سے پر امن ہوگئے، تو بنو بکر میں سے بنو دیل نے اسے غنیمت جانا۔ اور یہی لوگ ہیں جن کا دم واجب تھا۔ یعنی انہوں نے اس فرصت اور خزاعہ کی غفلت سے فائدہ اٹھایا اور انہوں نے بنی اسود بن رزن کا بدلہ لینے کا ارادہ کیا اور یہی وہ ہیں جنہیں خزاعہ نہ قتل کیا تھا، پس نوفل بن معاویہ الدیلی ان لوگوں کے ہمراہ نکلا جنہوں نے بنی بکر بن عبد منات میں سے ان کی اتباع و پیروی کی (اور اس کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہوئے) یہاں تک کہ انہوں نے رات کے وقت خزاعہ پر حملہ کردیا اور وہ قتل ہوگئے اور قریش نے ہتھیاروں کے ساتھ بنی بکر کی معاونت کی اور قریش کی ایک جماعت نے تو بنفس نفیس ان کی مدد کی، پس خزاعہ نے شکست خوردہ حالت میں پناہ لی جیسا کہ یہ مشہور واقعہ لکھا ہوا ہے۔ پس یہ اس صلح کو توڑنا ہے جو حدیبیہ میں واقع ہوئی تھی، چناچہ عمروبن سالم، بدیل بن ورقاء الخزاعی کی ایک جماعت یہ سب لوگ رسول اللہ ﷺ سے مدد طلب کرنے کے لیے اس معاملہ میں جو انہیں بنو بکر اور قریش کی طرف سے پیش آیا۔ اور عمرو بن سالم نے اسے شعر کی صورت میں اس طرح کہا : یا رب انی ناشد محمدا حلف اء بینا واء بیہ الاتلدا اے میرے رب میں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اپنے اور ان عظیم آباد و اجداد کے درمیان قائم معاہدہ کو یاد دلاتا ہوں۔ کنت لنا اء با و کنا ولدا ثمت اسلمنا ولم تزع یدا آپ ہمارے لیے باپ ہیں اور ہم اولاد ہیں پھر ہم نے اسلام قبول کرلیا اور اپنا ہاتھ نہیں کھینچا۔ فانصر ھداک اللہ نصرا عتدا وادع عباد اللہ یاتوا مددا اللہ تعالیٰ آپ کی رہنمائی فرمائے آپ فو راً مدد فرمائیے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کو بلائیے کہ وہ مدد کو آئیں۔ فیھم رسول اللہ قد تجر دا ابیض مثل الشمس ینمو صعدا ان ( لشکر) میں رسول اللہ ﷺ ہوں جو مقام و مرتبہ میں منفرد اور یکتا ہیں مثل آفتاب روشن ہیں بلندیوں چڑھ رہے ہیں۔ ان سیم خسفا وجھہ تریدا فی فیلق کالبحر یجری مزیدا اگر ان پر زیادتی کی جائے تو ان کے چہرے کا رنگ بدل جاتا ہے ایسے عظیم لشکر میں جو سمندر کی جھاگ اچھالتے ہوئے چلتا ہے۔ ان قریشا اخلفوک الموعدا و نقضوا میثاتک الموکدا بے شک قریش نے آپ کے ساتھ وعدہ خلافی کی ہے اور انہوں نے آپ کے ساتھ کیا ہوا پختہ وعدہ توڑ دیا ہے۔ وزعموا ان لست تد عو احدا وھم اذل و اتل عد دا اور انہوں نے گمان کیا کہ آپ کسی کو نہیں بلائیں گے اور وہ خود ذلیل (کمزور) اور تعداد میں تھوڑے ہیں۔ ھم بیتونا بالوتیر ھجدا وقتلونا رکعا و سجدا انہوں نے وتیر کے مقام پر رات کے وقت حملہ کیا جب کہ ہم سوئے تھے یا نماز پڑھ رہے تھے اور انہوں نے ہمیں رکوع و سجود کرتے ہوئے (اسلام کی حالت میں) قتل کیا۔ پس رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” میں غالب نہیں آسکتا اگر میں بنی کعب کی مدد نہیں کرتا “۔ پھر آپ ﷺ نے بادل کی طرف دیکھا اور فرمایا :” بیشک یہ بھی بنی کعب کی مدد کے لیے رو رہا ہے “۔ بنی کعب سے مراد خزاعہ ہیں۔ اور رسول اللہ ﷺ نے بدیل بن ورقا اور ان کے ساتھیوں کو فرمایا :ـ” بیشک ابو سفیان عنقریب آئے گا تاکہ معاہدہ کو پختہ کرے اور صلح میں اضافہ کرے اور بخیر مقصد اور حاجت (حاصل کیے) واپس لوٹ جائے گا۔ “ قریش نے جو کیا وہ اس پر نادم اور شرمندہ ہوئے، پس ابو سفیان مدینہ کی طرف نکلا تاکہ معاہدہ کو برقرار رکھے اور صلح میں اضافہ کرے، لیکن وہ بغیر حاجت کے لوٹ آیا جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے خبر دی ہے۔ اور آپ کی یہ خبر معروف ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ نے مکہ مکرمہ کو فتح کرنے کی تیاری شروع کردی اور اللہ تعالیٰ نے اسے فتح فرمادیا۔ اور
8
ہجری میں ہوا۔ پس جب ہوازن میں فتح مکہ کی خبر پہنچی تو مالک بن عوف النصری نے انہیں جمع کیا، جیسا کہ غزوئہ حنین کے بارے میں مشہور معروف ہے۔ اور اس کا کچھ حصہ عنقریب آئے گا۔ اور کافروں کے خلاف مسلمانوں کو فتح و کامرانی اور مدد نصرت حاصل ہوئی۔ حنین کے دن غزوئہ ہوا زن یکم شوال
8
ہجری کو پیش آیا۔ اور رسول اللہ ﷺ نے غنائم میں سے اموال اور عورتوں کی تقسیم چھوڑدی۔ آپ نے اسے تقسیم نہ کیا یہاں تک کہ آپ طائف میں آگئے اور آپ ﷺ نے بیس سے کچھ زائد راتیں ان کا محاصرہ کیے رکھا۔ اور اس کے سوا بھی کہا گیا ہے اور آپ نے ان کے خلاف منجنیق نصب کی اور ان پر اس کے ساتھ پتھر برسائے، جیسا کہ اس غزوئہ میں معروف ہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ جعرانہ کی طرف واپس تشریف لائے اور حنین کے مال غنیمت کو وہ ان تقسیم فرمایا جیسا کہ اس بارے میں امرو خبر مشہو رہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ واپس لوٹے اور الگ الگ ہوگئے۔ اور آپ ﷺ نے اس سال لوگوں کے لیے حضرت عتاب بن اسید کو امیر حج مقرر فرمایا۔ اور آپ پہلے امیر ہیں جنہوں نے اسلام میں حج ادا کروایا۔ مشرکوں نے اپنے طریقہ پر حج کیا۔ اور حضرت عتاب بن اسید انتہائی نیکو کار، فضیلت رکھنے والے، زاہد تھے۔ کعب بن زہبر بن ابی سلمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور آپ کی مدح بیان کی اور آپ کے سامنے اپنا وہ قصیدہ پڑھا جس کا آغاز اس طرح ہے : بانت سعاد فقلبی الیوم متبرل (میری سعاد جدا ہوگئی جس کی وجہ سے آج میرا دل ہلاک ہوا چاہتا ہے) اور اس نے آخر تک یہ قصیدہ کہہ دیا اور اس میں مہاجرین کا ذکر بھی کیا اور ان کی تعریف کی۔ اور اس سے پہلے اس کی حضور نبی کریم ﷺ کے بارے ہجو محفوظ تھی۔ پس انصارنے اس پر نکتہ چینی کی اور اعتراض کیا جب اس نے ان کا ذکر نہ کیا، و وہ دوسرے دن ایک اور قصیدہ لے کر حضور علیہ الصلوٰۃ السلام کی بارگاہ میں آیا اور اس میں وہ انصار کی مدح کرتا ہے۔ پس اس نے کہا : من سرہ کرم الحیاۃ فلا یزل فی مقنب من صالحی الانصار جسے زندگی کی شرافت خوش کرتی ہو تو انصار کی صالح جماعت کے ساتھ رہے۔ ورثوا لمکارم کا برا عن کا بر ان الخیار یہ نسل در نسل بزرگی کے وارث چلے آرہے ہیں، بہترین لوگ تو صرف بہترین لوگوں کی اولاد ہوتے ہیں المکرھین السمھری با ذرع کسوافل الھندی غیر قصار وہ اپنے ہاتھوں سے سمبری نیزے چلاتے ہیں ہندی تلواروں کی طرح جو لمبی ہیں چھوٹی نہیں۔ والناظرین باء عین محمرۃ کالجمر غیر کلیلۃ الابصار وہ سرخ آنکھوں سے دیکھتے ہیں گویا وہ آگ کے انگارے ہیں ان کی آنکھیں تھکی ماندی ہیں۔ والبائعین نفوسھم لئبیھم للموت یوم تعانق و کرار یہ اپنے نبی کی خاطر اپنے نفوس کو موت کے عوض بیچنے والے ہیں اس روز جو لشکروں کے ملنے کا دن ہے اور بار بار حملے کا دن ہے۔ یتطھرون یردنہ نسکا لھم بد ماء من علقوا من الکفار یہ پاکیزگی کرتے ہیں اور اسے اپنی عبادت خیال کرتے ہیں ان کی خوفوں سے جنہیں وہ کفار میں سے قتل کرتے ہیں۔ دربوا کما دربت ببطن خفیۃ غلب الرقاب من الاء سود ضوار یہ عادی ہوگئے ہیں جس طرح خفیہ وادی میں موٹی گردنوں والے اور چیر پھاڑ کرنے والے شکاری شیر عادی ہوگئے ہیں۔ واذا حللت لیمنعوک الیھم اصحت عند معاقل الاء غفار جب تو ان کے پاس اترت تاکہ وہ تیری حفاظت کریں تو گویا تو پہاڑی بکروں کی پناہ گاہ میں پہنچ گیا ہے۔ ضربوا علیا یوم بدر ضربۃ دانت لوقعتھا جمیع نزار انہوں نے بدر کے دن قریش پر ایسا وار کیا جس کے پڑنے سے قبیلہ نزار کے تمام افراد نے اطاعت اختیار کرلی۔ لو یعلم الاء قوام علمی کلہ فیھم لصدقنی الذین اء ماری اگر لوگ ان کے بارے میرے علم جیسا علم رکھیں تو وہ بھی سیری تصدیق کریں جو سیرے بارے میں شک رکھتے ہیں۔ قوم اذا خوت النجوم فانھم للطارقین المنازلین مقاری وہ ایسی قوم ہیں جب ستارے غروب ہونے لگیں تو یہ رات کے وقت آنے والے مہمانوں کی خوب میزبانی کرتے ہیں۔ پھر طائف سے واپس لوٹنے کے بعد حضور نبی مکرم ﷺ ذوالحجہ، صفر، ربیع الاول، ربیع آخر، جمادی الاول، اور جمادی الآخر میں مدینہ طیبہ میں مقیم رہے اور رجب
9
ہجری میں میں مسلمانوں کا لشکر ساتھ لے کر غزوئہ روم، غزوہ تبوک کے لیے تشریف لے گئے۔ یہی وہ آخری غزوہ ہے جس میں آپ ﷺ شریک ہوئے۔ ابن حریج نے حضرت مجاہد (رح) سے بیان کیا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ غزوئہ تبوک سے واپس تشریف لائے تو آپ نے حج کا ارادہ فرمایا کہ ” وہ بیت اللہ شریف میں حاضر “ ہوں ننگے بدن مشرک بیت اللہ شریف کا طواف کررہے ہوں تو میں پسند نہیں کرتا کہ میں حج کروں یہاں تک کہ اس طرح نہ ہو “ چنانچہ آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو امیر الحج بنا کر بھیجا اور ان کے ساتھ سورة براءت کی ابتدائی چالیس آیات بھجیں تاکہ آپ انہیں حاجیوں کے سامنے پڑھیں۔ جب وہ چلے گئے تو حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت علی ؓ کو بلایا اور فرمایا : ” سورة براءت کی ابتدا اسے قصہ کو لے کر جائو اور اس کے بارے لوگوں میں اعلان کردو جب وہ جمع ہوں “ پس حضرت علی ؓ حضور علیہ الصلوٰۃ السلام کی ناقہ عضباء پر سوار ہو کر نکلے یہاں تک کہ مقام ذو الحلیفہ پر انہوں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو پالیا، تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جب انہیں دیکھا تو فرمایا : ” امیر امیر و مامور “ ؟ (کیا امیر ہو یا مامور (تابع ہو) تو انہوں نے جواب دیا : بلکہ میں تو مامور ہوں پھر دوں و اٹھے اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے لوگوں کو حج کے لیے ان مراتب پر کھڑا کیا جن پر وہ دور جاہلیت میں تھے (
1
) ۔ نسائی کی کتاب میں حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت علی ؓ نے یوم ترویہ (آٹھویں ذی الحجہ کا دن) سے ایک دن قبل لوگوں پر سورت براءت پڑھی یہاں تک کہ اسے ختم کیا۔ (یعنی مکمل نے سورت براءت پڑھ کر سنائی) اور یوم عرفہ اور یوم نحر (نویں اور دسویں ذی الحج کے دن) میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا خطبہ ختم ہونے کے بعد تین دنوں میں (اسے پڑھا) اور جب وہاں سے واپس لوٹنے کا پہلا دن تھا حضرت ابوبکر صدیق ؓ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا اور انہیں بتایا کیسے واپس چلیں گے اور کیسے رمی کریں گے، آپ انہیں ان کے مناسک سکھاتے رہے۔ پس جب آپ فارغ ہوئے تو حضرت علی ؓ اٹھے اور لوگوں پر پوری سورت براءت پڑھی (
2
) ۔ سلیمان بن موسیٰ نے کہا ہے : جب حضرت ابوبکر صدیق ؓ عرفات میں خطبہ سے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا : اے علی ! اٹھو اور رسول اللہ ﷺ کا پیغام پہنچادو پس حضرت علی ؓ کھڑے ہوئے اور وہ عمل کیا (یعنی سورت براءت پڑھ کر سنائی) فرمایا : میرے دل میں یہ بات آء کہ تمام لوگ تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے خطبہ میں حاضر نہیں، چناچہ میں نے یوم نحر کو خیموں کی تلاش شروع کردی (اورر وہاں جا کر انہیں پیغام پہنچایا) ۔ ترمذی نے زید بن یثیع سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے کہا : میں نے حضرت علی ؓ سے پوچھا : کون سی شے کے ساتھ آپ کو حج پر بھیجا گیا ؟ تو انہوں نے فرمایا : چار چیزوں کے ساتھ بھیجا گیا ہے کہ کوئی ننگے بدن بیت اللہ شریف کا طواف نہ کرے اور وہ جن کے اور نبی مکرم ﷺ کے مابین معاہدہ ہے تو وہ اپنی پوری مدت تک ہے اور جن کا کوئی عہن نہیں تو ان کے لیے مدت چاہ ماہ ہے اور جنت میں سوائے مومن نفس کے کوئی داخل نہ ہوگا اور اس سال کے بعد مسلمان اور مشرک اکٹھے نہ ہوں گے (
3
) ۔ فرمایا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور نسائی نے اسے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ آپ نے فرمایا : پس میں اعلان کرتا رہا یہاں تک کہ میری آواز بیٹھ گئی۔ ابو عمر نے بیان کیا ہے : حضرت علی ؓ کو بھیجا گیا تاکہ آپ ہر عہد والے کے ساتھ اس کا عہد توڑ دیں۔ اور ان سے یہ عہدلیں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک نہیں کرے گا اور نہ کوئی ننگے بدن بیت اللہ شریف کا طواف کرے گا اور اس سال
9
ہجری میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے حج ادا کروایا۔ پھر آئندہ سال حضور نبی رحمت ﷺ نے اپنا وہ حج ادا فرمایا جس کے بغیر آپ نے مدینہ طیبہ سے کوئی حج نہیں کیا اور آپ ﷺ کا یہ حج ذوالحجہ میں ادا ہوا، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” بیشک زمانہ گردش کناں ہے “ الحدیث۔ اس کا بیان آیئہ النسئی میں آئے گا۔ اور حج یوم قیامت تک ذوالحجہ میں ثابت اور پختہ ہوگیا۔ اور حضرت مجاہد (رح) نے ذکر کیا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے
9
ہجری میں ذوالقعد میں حج ادا کیا تھا۔ علامہ ابن عربی (رح) نے کہا ہے : سورت ” براء ۃ “ حضرت علی ؓ کو عطا کرنے کی میں حکمت یہ تھی کہ براءت اس نقض عہد کو متضمن ہے جس کا عقد حضور نبی مکرم ﷺ نے کیا تھا اور عربوں کا عمل اور طریقہ یہ تھا کہ عقد کوئی نہیں کھول سکتا تھا مگر وہی جس نے وہ عقد کیا ہوتا یا پھر اس کے خاندان میں سے کوئی آدمی ایسا کرسکتا تھا۔ پس حضور نبی مکرم ﷺ نے حجت کے ساتھ عربوں کی زبانوں کو بند کرنے کا ارادہ فرمایا اور اپنے اہل بیت میں سے اپنے زاد ہاشمی کو نقض عہد کے اعلان کے لیے بھیجا تاکہ ان کے پاس بات کرنے کے لیے کوئی باقی نہ رہے (
1
) ۔ اس مفہوم کو زجاج نے بیان کیا ہے۔ مسئلہ نمبر
3
۔ علماء نے کہا ہے : یہ آیت ہمارے اور مشرکین کے درمیان عہد توڑنے کے جواز کو متضمن ہے۔ اور اس کی دو حالتیں ہیں : ایک حالت یہ ہے کہ ہمارے اور ان کے درمیان مدت گزر جاتی ہے تو ہم انہیں جنگ کے بارے آگاہ کرتے ہیں۔ ایذان کا معنی اختیار دینا ہوتا ہے۔ اور دوسری یہ ہے : ہمیں ان کی طرف سے دھوکہ دہی کا خوف ہوتا ہے، تو ہم ان کے ساتھ معاہدوں توڑدیتے ہیں جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے : یہ آیت منسوخ ہے، کیونکہ حضور نبی کریم ﷺ نے معاہدہ کیا پھر آپ نے عہد توڑ دیا جب آپ کو قتال کا حکم دیا گیا۔
Top