Al-Qurtubi - At-Tawba : 41
اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَّ جَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
اِنْفِرُوْا : تم نکلو خِفَافًا : ہلکا۔ ہلکے وَّثِقَالًا : اور (یا) بھاری وَّجَاهِدُوْا : اور جہاد کرو بِاَمْوَالِكُمْ : اپنے مالوں سے وَاَنْفُسِكُمْ : اور اپنی جانوں فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ ذٰلِكُمْ : یہ تمہارے لیے خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
تم سبکبار ہو یا گراں بار (یعنی مال و اسباب تھوڑا رکھتے ہو یا بہت گھروں سے) نکل آؤ اور خدا کے راستے میں مال اور جان سے لڑو۔ یہی تمہارے حق میں بہتر ہے بشرطیکہ سمجھو !
اس میں سات مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ حضرت سفیان نے حصین بن عبدالرحمن سے انہوں نے ابو مالک غفاری سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے کہا : سورة برائت میں سے جو آیت سب سے اول نازل ہوئی وہ انفرو اخفا فا وثقالا ہے۔ اور ابو الضحاء نے بھی اسی طرح کہا ہے۔ انہوں نے کہا ہے : اس کے بعد اس کا اول اور اس کا آخر نازل ہوا ہے۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ قولہ تعالیٰ : انفروا خفافاوثقالا یہ حال ہونے کی بنا پر منصوب ہے اور اس میں دس اقوال ہیں : (1) حضرت ابن عسا ؓ سے انفرواثبات کا معنی ذکر کیا گیا ہے ‘ متفرق جماعتوں اور دستوں کی صورت میں نکلو (2) حضرت ابن عباس ؓ سے بھی اور حضرت قتادہ ؓ سے مروی ہے : نکلو اس حال میں کہ چست ہو اور غیر چست ہو (3) حفیف سے مراد غنی اور امیر ہے اور ثقیل سے مراد فقیر اور مفلس ہے۔ یہ حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے (4) خفیف سے مراد جو ان ہے اور ثقیل سے مراد بوڑھا ہے۔ یہ حسن (رح) کا قول ہے۔ (5) خفیف سے مراد وہ ہے جو کاروبار میں لگا ہوا ہو اور ثقیل سے مراد وہ جس کا کوئی کاروبار نہ ہو۔ یہ زید بن علی اور حکم بن عثیبہ نے کہا ہے (6) ثقیل سے مراد وہ ہے جس کے اہل و عیال ہوں اور خفیف سے مراد وہ ہے جو عیال دارنہ ہو ‘ یہ زید بن اسلم نے کہا ہے (7) ثقیل وہ ہے جس کی جائید اد اور زمین ہو جسے چھوڑنا وہ ناپسند کرتا ہو اور خفیف وہ ہے جس کی جائید اد اور زمین نہ ہو۔ یہ ابن زید نے کہا ہے (8) خفاف سے مراد پیدل ہیں اور ثقال سے مراد گھڑ سوار ہیں۔ یہ امام اوزاعی نے کہا ہے (9) خفاف سے مراد وہ لوگ ہیں جو جنگ کی طرف آگے بڑھ جاتے ہیں جیسا کہ مقدمۃ الجیش ویغرہ اور ثقال سے مراد سارے کا سارا لشکر ہے (01) خفیف سے مراد شجاع اور بہادر ہے اور ثقیل سے مراد بزدل ہے۔ اسے نقاش نے بیان کیا ہے۔ آیت کے معنی میں صحیح یہ ہے کہ تمام لوگوں کو حکم دیا گیا ہے ‘ یعنی نکلو تم پر حرکت کرنا سہل اور آسان ہو یا مشکل۔ روایت ہے کہ حضرت ابن مکتوم ؓ رسول اللہ ﷺ کی بار گاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی : کیا مجھ پر بھی نکلنا لازم ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا :” ہاں “ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : لیس علی الا عمی حرج (النور :61) (نہ اندھے پر کوئی حرج ہے) اور یہ اقوال بلاشبہ ثقل و حفت میں مثال کے معنی کی بنا پر ہیں۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ اس آیت کے بارے میں اختلاف ہے۔ کہا گیا ہے کہ یہ آیت اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے منسوخ ہے : لیس علی الضعفآء ولا علی المرضی (التوبۃ :91) (نہیں ہے کمزوروں پر اور نہ بیماروں پر ) بعض نے کہا ہے : اس کے لیے ناسخ یہ ارشاد گرامی ہے : فلو لا نفر من کل فرقۃ منھم طآئفۃ (التوبہ : 122) (تو کیوں نہ نکلے ہر قبیلے سے چند آدمی۔ اور صحیح یہ ہے کہ یہ منسوخ نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے حضرت ابو طلحہ ؓ سے اس قول باری تعالیٰ : انفروا خفافا و ثقالا کے بارے میں روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا : مراد جو ان اور بوڑھے ہیں ‘ اللہ تعالیٰ نے کسی عذر نہیں سنا ‘ پس وہ شام کی طرف نکلے اور جہاد کیا یہاں تک کہ فوت ہوگئے ؓ ۔ حماد نے ثابت اور علی بن زید سے اور انہوں نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ ابو طلحہ ؓ نے سورت برائت پڑھی پس وہ اس آیت پر پہنچے انفروا خفافا و ثقالا تو فرمایا : اے میرے بچو ! میرے لیے تیاری کرو میرے لیے سامان جہاد تیار کرو۔ تو آپ کے بیٹوں نے کہا : اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے ‘ تحقیق آپ حضور نبی مکرم ﷺ کی معیت میں جہاد کرتے رہے یہاں تک کہ آپ کا وصال ہوگیا اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی معیت میں یہاں تک کہ ان کا بھی وصال ہوگیا اور آپ حضرت عمر ؓ کی معیت میں مصروف جہاد رہے یہاں تک کہ وہ بھی وصال فرما گئے پس اب ہم آپ کی طرف سے جہا کریں گے۔ تو انہوں نے فرمایا : نہیں ‘ بلکہ تم میرے لیے سامان جہاد تیار کرو۔ چناچہ انہوں نے سمندر میں جہاد کیا اور سمندر میں ہف فوت ہوئے۔ تو مسلمانوں نے ان کے لیے کوئی جزیرہ نہ پایا جس میں انہیں دفن کرتے مگر سات دن گزرنے کے بعد۔ اور پھر انہوں نے آپ کو اس میں دفن کیا اور آپ میں کوئی تغیر اور تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ ؓ ۔ (1) علامہ طبری نے اس آدمی کی سند سے بیان کیا ہے جس نے حضرت مقداد بن اسود ؓ کو حمص میں صراف کے تابوت پر دیکھا اور وہ اپنے موٹا ہونے کے سبب تابوت پر بھاری تھے اور وہ جہاد کی تیاری کررہے تھے۔ تو آ پکو عرض کی : تحقیق اللہ تعالیٰ نے آ پکو معذور قرار دیا ہے۔ تو انہوں نے فرمایا : ہمارے پاس سورة البعوث انفروا خفافا و ثقالا آچکی ہے۔ اور زہری نے کہا ہے : حضرت سعید بن میب ؓ غزوے کی طرف نکلے در آنحا لی کہ آپ کی ایک آنکھ کی بینائی ختم ہوچکی تھی۔ آپ کو کہا گیا : بلاشبہ آپ بیمار ہیں۔ تو انہوں نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ہر خفیف (صحت مند) اور ثقیل (بیمار) کو نکلنے کے لیے فرمایا ہے۔ پس اگر اس نے مجھے جنگ لڑنے کی قدرت نہ دی تو میں تعداد میں اضافہ کروں گا اور سامان کی حفاظت کروں گا۔ اور یہ روایت بھی ہے کہ بعض لوگوں نے شام کے غزوات میں ایک آدمی کو دیکھا بڑھاپے کی وجہ سے اس کے دونوں ابرو اس کی آنکھوں پر ڈھلکے ہوئے تھے ‘ تو اس آدمی نے اسے کہا : اے چچا ! بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تجھے معذور قرار دیا ہے۔ تو اس نے جواب دیا : اے میرے بھتیجے ! تحقیق ہمیں جہاد کے لیے نکلنے کا حکم دیا گیا ہے اس حال میں کہ ہم خفیف (جوانض ہوں یا ثقیل (بوڑھے) ہوں۔ حضرت ابن ام مکتوم ؓ نے غزوہ احد کے دن کہا۔ ان کا اسم گرامی عمرو تھا : میں نابینا آدمی ہوں ‘ تو انہوں نے جھنڈا میرے سپرد کردیا ‘ کیونکہ جب علمبر دار شکست کھا جائے تو پورا لشکر شکست سے دو چار ہوجاتا ہے اور میں نہیں جانتا تھا کہ کون اپنی تلوار کے ساتھ میرا قصد کرے گا پس میں کھڑا رہا۔ اس دن علم حضرت مصعب بن عمیر ؓ نے پکڑا تھا اس کا بیان سورة آل عمران میں پہلے گزر چکا ہے۔ پس اس وجہ سے اور جو کچھ اس کی مثل صحابہ کرام اور تابعین علیہم الرضوان سے مروی ہے ہم نے کہا ہے کہ نسخ کا بیان صحیح نہیں ہے۔ اور کبھی ایسی حالت پیدا ہوجاتی ہے کہ اس میں تمام کا نکلنا واجب ہوجاتا ہے اور وہ یہ ہے : مسئلہ نمبر 4 ۔ جب جہاد ملک کے حصص میں سے کسی حصہ میں دشمن کے غلبہ پا لینے کے سبب یا اس کے اپنا لشکر اتار لینے کے سبب متعین ہوجائے (یعنی فرض عین ہوجائے) تو ایسے حالات میں اس ملک کے جملہ باسیوں پر واجب ہے کہ وہ اس کی طرف نکلیں ‘ کوچ کریں ہلکے ہوں یا بوجھل ‘ جو ان ہوں یا بوڑھے ‘ ہر کوئی اپنی طاقت کے مطابق شریک ہوگا ‘ جس کا باپ ہو وہ اس کی اجازت کے بغیر نکلے اور وہ بھی جس کا باپ (زندہ) نہ ہو ‘ جو بھی خروج کی قدرت رکھتا ہے وہ پیچھے نہیں رہے گا ‘ چاہے وہ جنگجو ہو یا تعداد میں اضافہ کرنے والا۔ اور اگر اس ملک کے باسی اپنے دشمن کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہوں تو پھر جو ان کے قریب رہ ہے ہیں اور ان کے پڑوس اور جوار میں واقع ہیں ان پر اسی طرح خرچ لازم ہے جس طرح اس ملک کے اپنے باسیوں پر یہاں تک کہ وہ جان لیں کہ ان میں دشمن کے سامنے کھڑا ہونے اور ان کا دفاع کرنے کی طاقت آگئی ہے۔ اور اسی طرح ہر اس پر خروج لازم ہے جسے دشمن کے مقابلے میں ان کی کمزوری کا علم ہو اور وہ یہ جانتا ہو کہ وہ انہیں پالے گا اور ان کے لیے ان کی مدد کرنا ممکن ہوگا تو اس پر بھی ان کی طرف نکلنا لازم ہے۔ پس مسلمان تمام کے تمام ان کے خلاف ایک دوسرے کے معاون و مددگار ہیں جو ان کے سوا ہیں ‘ یہاں تک کہ جب اس علاقے کے لوگ دشمن کو روکنے پر قادر ہوگئے جہاں دشمن اترا ہوا تھا تو پھر دوسروں سے وہ فرض ساقط ہوجائے گا۔ اگر دشمن دار الاسلام کے قریب آگیا اور وہ اس میں داخل نہ ہوا تو پھر بھی اس کی طرف خروج کرنا ان پر لازم ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا دین غالب آجائے ‘ ملک بچا لیا جائے ‘ سرحدیں محفوظ ہوجائیں اور دشمن کو ذلیل و رسوا کرلیا جائے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ (1) واجب جہاد میں دوسری قسم یہ ہے کہ امام وقت پر یہ بھی فرض ہے کہ وہ ہر سال ایک بار ایک طائفہ دشمن کی طرف بھیجے اور بذات خود ان کے ساتھ نکلے یا اسے بھیجے جس پر اسے مکمل یقین اور وثوق ہو تاکہ وہ انہیں اسلام کی طرف دعوت دے اور انہیں رحبت دلائے اور ان کی اذیتوں کو روکے اور اللہ تعالیٰ کے دین کو ان پر کھول کر بیان کرے ‘ یہاں تک کہ وہ اسلام میں داخل ہوجائیں یا وہ (احسان کے بدلیض جزیہ دینے کے لیے تیار ہوجائیں۔ اور جہاد میں ایک قسم یہ بھی ہے کہ وہ نفل ہے۔ اور وہ امام وقت کا یکے بعد دیگرے مختلف دستے روانہ کرنا اور غفلت و بیخبر ی کے اوقات میں اور فرصت کے لمحات میں سرایا بھیجنا ہے ‘ ایسی جگہوں میں چھائونیاں بنا کر ان کی تاک میں رہنا ہے جہاں سے دشمن کے حملے کا خطرہ ہو اور اپنی قوت و طاقت کا اظہار کرنا ہے۔ پس اگر کہا جائے : ایک آدمی کیسے کرسکتا ہے جب بقیہ تمام کوتاہی اور غفلت برت رہے ہوں۔ تو وہ یہ ہے۔ مسئلہ نمبر 5 ۔ اس کے بارے کہا گیا ہے : وہ ایک قیدی کا قصد کرسکتا ہے اور وہ اس کا فدیہ دے سکتا ہے ‘ کیونکہ جب اس نے ایک کا فدیہ دے دیا تو اس نے ایک کے بارے میں اس سے زیادہ ذمہداری ادا کردی جو پوری جماعت پر لازم تھی ‘ کیونکہ اگر اغنیاء قیدیوں کا فدیہ تقسیم کرلیں تو ان میں سے ہر ایک فقط درہم سے کم ہی ادا کرے گا۔ اور وہ آدمی بنفس نفیس جنگ میں شریک ہوگا اگر وہ اس پر قادر ہو ورنہ وہ لڑنے کے لیے ایک آدمی تیار کرے۔ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا :” جس نے کسی لڑنے والے کو سازوسامان کے ساتھ تیار کیا تحقیق اس نے خود جنگ میں حصہ لیا اور جس نے خیر اور بھلائی کے ساتھ اس کے گھر والوں کی خبر گیری اور دیک بھال کی تحقیق وہ بھی جنگ میں شریک ہوا “ (1) اسے الصحیح نے نقل کیا ہے۔ اور یہ اس لیے ہے ‘ کیونکہ اس کا مکان اسے مستغنی نہیں کرسکتا اور اس کا مال اس کے لیے کافی نہیں ہوسکتا۔ مسئلہ نمبر 6 ۔ روایت ہے کہ کسی بادشاہ نے کافروں کے ساتھ معاہدہ کیا اس شرط پر کہ وہ کسی کو قیدی بنا کر محبوس نہیں کریں گے ‘ پھر مسلمانوں میں سے کوئی آدمی ان کے کسی شہر میں گیا اور اس کا گزر ایک بند گھر کے پاس سے ہوا ‘ تو اسے ایک عورت نے آواز دی : میں قیدی ہوں ‘ تو اپنے امیر تک میری خبر پہنچا دینا۔ پس وہ اس (امیر) سے ملا اور اسے اپنے پاس کھانے کی دعوت دی اور دونوں باتوں کے ضمن میں کش مکش کرنے لگے ‘ تو اس نے بالآخر اس قیدی عورت کی خبر اس تک پہنچائی ‘ ابھی اس کی بات مکمل نہ ہوئی تھی کہ امیر اپنے پائوں پر کھڑا ہوا اور بالفور لڑنے کے لیے نکل پڑا اور سرحد کی طرف پیدل چل کر گیا یہاں تک کہ اس قیدی عورت کو نکال لایا اور اس جگہ کو اپنی ولایت میں لے لیا۔ ؓ ۔ اسے علامہ ابن عربی (رح) عنہ نے ذکر کیا ہے اور کہا ہے : تحقیق 527 ھ میں دشمن ہماری طرف آنکلا (اللہ اسے ہلاک و برباد کرے) اور لوٹ مار کے لیے ہمارے گھروں میں آگھسا ‘ اس نے ہمارے شرفاء کو قیدی بنا لیا اور وہ ہمارے شہروں میں اتنی تعداد میں داخل ہوا جس نے لوگوں کو خوفزدہ کردیا اور وہ تعداد بہت زیادہ اور کثیر تھی اگرچہ وہ اس حد کو نہ پہنچے جو انہوں نے بیان کی۔ تو میں نے والی اور مولی علیہ کو کہا : یہ اللہ تعالیٰ کا دشمن ہے تحقیق یہ جال اور پھندے میں آچکا ہے ‘ پس چاہیے کہ تمہارے پاس برکت ہو اور چاہیے کہ تم سے دین کی مدد و نصرت کا اظہار ہو تم پر حرکت کرنا (نکلنا) فرض عین ہوچکا ہے ‘ پس چاہیے کہ اس کی طرف مقابلے کے لیے تمام لوگ نکلیں یہاں تک کہ تمام اطراف میں لوگوں میں سے کوئی بھی باقی نہ رہے اور اس کا گھیرائو کرلیا جائے ‘ کیونکہ یہ لامحالہ ہلاک ہوگا اگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس کے سبب خوش کرنا ہے۔ پس گناہ غالب آگئے اور دل گناہوں کے سبب کا نپ گئے اور لوگوں میں سے ہر کوئی لومڑ کی مثل ہوگیا جو اپنی بل میں پناہ لیتا ہے اگرچہ وہ اپنے پڑوس میں فریب اور جال دیکھ بھی لے۔ انا للہ وانآ الیہ رجعون ‘ وحسنا اللہ و نعم الوکیل۔ (2) مسئلہ نمبر 7 ۔ قولہ تعالیٰ : وجاھدوا یہ جہاد کے بارے حکم ہے اور یہ امر الجھد سے مشتق ہے۔ باموالکم و نفسکم ابو دائود نے حضرت انس ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” تم مشرکوں کے ساتھ اپنے مالوں ‘ اپنی جانوں اور اپنی زبانوں کے ساتھ جہاد کرو “۔ اور یہ وصف ہے جو جہاد کو کامل بناتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسے نفع بخش بناتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے کمال اوصاف پر برانگیختہ کیا اور ذکر میں مال کو اس لیے مقدم کیا ‘ کیونکہ یہ جہاد کی تیاری میں پہلے خرچ ہونے والا ہے ‘ لہٰذا امر کو اسی طرح مرتب کیا جیسے وہ فی نسہ ہے۔
Top