Al-Qurtubi - At-Tawba : 40
اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ هُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا١ۚ فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلَیْهِ وَ اَیَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَ جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِیْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰى١ؕ وَ كَلِمَةُ اللّٰهِ هِیَ الْعُلْیَا١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
اِلَّا تَنْصُرُوْهُ : اگر تم مدد نہ کرو گے اس کی فَقَدْ نَصَرَهُ : تو البتہ اس کی مدد کی ہے اللّٰهُ : اللہ اِذْ : جب اَخْرَجَهُ : اس کو نکالا الَّذِيْنَ : وہ لوگ كَفَرُوْا : جو کافر ہوئے (کافر) ثَانِيَ : دوسرا اثْنَيْنِ : دو میں اِذْ هُمَا : جب وہ دونوں فِي : میں الْغَارِ : غار اِذْ : جب يَقُوْلُ : وہ کہتے تھے لِصَاحِبِهٖ : اپنے س ا تھی سے لَا تَحْزَنْ : گھبراؤ نہیں اِنَُّ : یقیناً اللّٰهَ : اللہ مَعَنَا : ہمارے ساتھ فَاَنْزَلَ : تو نازل کی اللّٰهُ : اللہ سَكِيْنَتَهٗ : اپنی تسکین عَلَيْهِ : اس پر وَاَيَّدَهٗ : اس کی مدد کی بِجُنُوْدٍ : ایسے لشکروں سے لَّمْ تَرَوْهَا : جو تم نے نہیں دیکھے وَجَعَلَ : اور کردی كَلِمَةَ : بات الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوا : انہوں نے کفر کیا (کافر) السُّفْلٰى : پست (نیچی) وَكَلِمَةُ اللّٰهِ : اللہ کا کلمہ (بول) ھِىَ : وہ الْعُلْيَا : بالا وَاللّٰهُ : اور اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اگر تم پیغمبر ﷺ کی مدد نہ کرو گے تو خدا ان کا مددگار ہے (وہ وقت تم کو یاد ہوگا) جب انکو کافروں نے گھر سے نکال دیا (اس وقت) دو (ہی شخص تھے جن) میں (ایک ابوبکر ؓ تھے) دوسرے (خود رسول اللہ ﷺ جب وہ دونوں غار (ثور) میں تھے اس وقت پیغمبر ﷺ اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو خدا ہمارے ساتھ ہے۔ تو خدا نے ان پر اپنی تسکین نازل فرمائی اور ان کو ایسے لشکروں سے مدد دی جو تم کو نظر نہیں آتے تھے اور کافروں کی بات کو پست کردیا۔ اور بات تو خدا ہی کی بلند ہے اور خدا زبردست (اور) حکمت والا ہے۔
اس میں گیارہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: قولہ تعالیٰ : الا تنصروہ اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے : اگر تم غزوئہ تبوک میں آپ ﷺ کی معیت میں نکل کر آپ کی مدد نہ کرو گے۔ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی مکرم ﷺ کے غزوہ تبوک سے واپس لوٹنے کے بعد ان کو عتاب کیا۔ نقاش نے کہا ہے : پہلی آیت ہے جو سورة براءت میں میں سے نازل ہوئی۔ اور اس کا معنی یہ ہے : اگر تم نے آپ ﷺ کی مدد کرنا چھوڑ دیا تو اللہ تعالیٰ آپ کا ضامن اور کفیل ہے ‘ جب کہ اللہ تعالیٰ نے قلت کے مواقع میں آپ کی مدد و نصرت فرمائی اور آپ کو اپنے دشمن پر عزت و غلبہ کے ساتھ واضح غلبہ عطا فرمایا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : تحقیق اللہ تعالیٰ نے غار میں آپ کے صاحب اور رفیق کے ساتھ آپ کی مدد فرمائی اس طرح کہ وہ آپ کیساتھ مانوس تھے ‘ انہوں نے آپ کو کندھوں پر اٹھایا ‘ آپ کے ساتھ وفا کی اور اپنی جان کے ساتھ آپ کی حفاظت کی اور اپنے مال کے ساتھ آپ کے لیے اظہار ہمدردی کیا (1) ۔ لیث بن سعد (رح) نے کہا : ہے ‘ انبیاء (علیہم السلام) کے اصحاب حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی مثل تھے۔ اور سفیان بن عیینہ نے کہا ہے : حضرت ابوبکر صدیق ؓ اس آیت کے ساتھ اس عتاب سینکل گئے جس کا ذکر الا تنصروہ کے ارشاد میں ہے۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ قولہ تعالیٰ : اذا اخرجہ الذین کفروا حالانکہ آپ ﷺ بذات خود ان سے دور ہو کر نکلے تھے ‘ لیکن انہوں نے آپ ﷺ کو اس پر مجبور کردیا تھا یہاں تک کہ آپ نے ایسا کیا ‘ پس رب کریم نے فعل کی نسبت ان کی طرف کی اور اس میں حکم ان پر مرتب کیا۔ پس اسی وجہ سے قتل پر مجبور کرنے والے کو قتل کیا جاتا ہے اور بالا کراہ ضائع ہونے والے مال کا ضامن بکرہ کو بنایا جاتا ہے ‘ کیونکہ وہی قاتل کو قتل پر اور مال ضائع کرنے والوں کو مال ضائع کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ قولہ تعالیٰ : ثانی اثنین یعنی دو میں سے ایک۔ اور یہ اسی طرح ہے ثالث ثلاثۃ (تین میں سے ایک) اور رابع اربعۃ (چار میں سے ایک) اور جب لفظ مختلف ہوں تو یہ کہے : رابع ثلاثۃ و خامس اربعۃ تو اس کا معنی ہے تین کو اپنی ذات کے ساتھ چار بنانے والا اور چار کو پانچ بنانے والا۔ اور ترکیب کلام میں یہ حال ہونے کی بنا پر منصوب ہے یعنی انہوں نے آپ ﷺ کو نکالا اس حال میں کہ آپ تمام لوگوں سے منفر داور الگ تھے سوائے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے (یعنی وہ آپ کے ساتھ تھے) ۔ اس میں عامل نصرہ اللہ ہے نصرہ منفرد اونصرہ أحد اثنین (اللہ تعالیٰ نے آپ کی مدد کی اس حال میں کہ آپ منفرد تھے اور اس حال میں کہ آپ دو میں سے ایک تھے ) ۔ حضرت علی بن سلیمان نے کہا ہے : تقدیر عباررت ہے فخرج ثانی اثنین (پس دو میں سے دوسرا نکلا) جیسا کہ واللہ انبتکم من الارض نباتا۔ (نوح) (اور اللہ نے تم کو زمین سے عجب طرح اگایا ہے) اور جمہور لوگوں نے ثانی یا کی نصب کے ساتھ پڑھا ہے۔ ابو حاتم نے کہا ہے : اس کے سوا کوئی معروف نہیں۔ اور ایک جماعت نے ثانی یا کو سکون کے ساتھ پڑھا ہے۔ ابن جنی نے کہا ہے : ابو عمر و بن علاء نے اسے بیان کیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے یا کو الف کے مشابہ قرار دیتے ہوئے ساکن پڑھا ہے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : پس یہ حسن کی قرأت کی طرح ہے مابقی من الریا اور اسی طرح جریر کا قول ہے : ھوالخلیفۃ فارضوا مارضی لکم ماضی العزبیۃ مافی حکمہ جنف مسئلہ نمبر 4 ۔ قولہ تعالیٰ : اذھما فی الغار ‘ الغار سے مراد پہاڑی کی کھوہ ہے ‘ مراد غار ثو رہے۔ جب قریش نے دیکھا کہ مسلمان مدینہ طیبہ کی طرف چلے گئے ہیں تو انہوں نے کہا : یہ ایسا مضبوط شر ہے جس کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ پس انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو قتل کرنے پر اتفاق کرلیا ‘ پس انہوں نے آپ کے لیے رات مرقر کردی اور طویل رات آپ ﷺ کے کاشانہ اقدس کے دروازے پر آپ کی تاک میں رہے تاکہ جب آپ باہر نکلیں تو وہ آپ کو قتل کردیں۔ پس حضور نبی مکرم ﷺ نے حضرت علی بن ابی طالب ؓ کو اپنے بستر پر سونے کا حکم ارشاد فرمایا اور اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی کہ وہ ان پر اپنا اثر ڈال دے ‘ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ‘ پس آپ ﷺ نکلے اس حال میں کہ ان پر نیند چھائی ہوئی تھی ‘ پس آپ ﷺ نے ان کے سروں پر مٹی ڈال دی اور چلے گئے ‘ جب صبح ہوئی تو حضرت علی ؓ ان کے پاس باہر تشریف لائے اور انہیں بتایا کہ گھر میں کوئی نہیں ہے ‘ تب انہیں معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ تو نکل گئے اور نجات پا گئے۔ اور حضور نبی مکرم ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ساتھ ہجرت کا وعدہ فرمارکھا تھا۔ اور ان دونوں نے اپنی سواریاں عبد اللہ بن ارقط کے حوالے کی ہوئی تھیں۔ اسے ابن اریقط بھی کہا جاتا ہے ‘ وہ کافر تھا لیکن ان دونوں کو اس پر اعتماد اور یقین تھا اور یہ راستہ دکھھانے کے لیے راہبر تھا۔ پس ان دونوں نے اسے اجرت پر لیا تاکہ وہ مدینہ طیبہ کی طرف ان کی رہنمائی کرے۔ رسول اللہ ﷺ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے اس گھر کے پچھلے دروازے سے نکلے جو بنی جمح میں تھا اور دونوں جبل ثور میں غار کی طرف چلے اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اپنے صاجزادے عبد اللہ کو حکم ارشاد فرمایا کہ وہ وہ باتیں سنے جو لوگ کریں اور اپنے غلام عامر بن فہیرہ کو حکم دیا کہ وہ اپنا ریوڑ چرائے اور رات کے وقت وہ اسے ان کے پاس لے آئے پس وہ اس طرح ان کی حاجت اور ضرورت کو وپرا کرتا رہا۔ پھر وہ دونوں چلے اور غار میں داخل ہوگئے۔ حضرت اسماء بن ابی بکر صدیق ؓ ان کے پاس کھانا لاتی تھیں اور حضرت عبد اللہ بن ابی بکر ؓ خبریں لے کر آتے تھے ‘ پھر ان کے پیچھے عامر بن فہیرہ ریوڑ لے آتا اور وہ ان کے نشانات کو مٹا دیتا تھا۔ پس جب قریش نے آپ ﷺ کو مفقود اور گم پایا تو وہ آپ بن فہیرہ ریوڑ لے کر آتا اور وہ ان کے نشانات کو مٹا دیتا تھا۔ پس جب قریش نے آپ ﷺ کو مفقود اور گم پایا تو وہ آپ ﷺ کو قیافہ شناسوں کے ساتھ تلاش کرنے لگے ایسے قیافہ شناس جو نشانات قدم کی پہچان میں بڑے معروف اور مہارت رکھتے تھے ‘ یہاں تک کہ وہ (چلتے چلتے) غار پر جا ٹھہرے اور کہا : یہاں نشان ختم ہوگیا ہے پھر انہوں نے دیکھا تو مکڑی نے غار کے منہ پر اس وقت جالا سا بن رکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے اسے مارنے سے منع فرمایا ہے۔ پس جب انہوں نے مکڑی کا جالادیکھا تو انہوں نے یقین کرلیا کہ اس میں کوئی نہیں ہے ‘ چناچہ وہ واپس لوٹ گئے اور انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ کے بارے میں اس آدمی کے لیے سو اونٹوں کا انعام مقرر کردیا جو آپ کو ان کے پاس لوٹا کر لائے گا۔ یہ خبر مشہور ہے۔ اور سراقہ بن مالک بن جعشم کا قصہ اس میں مذکور ہے۔ اور حضرت ابو الدرداء اور حضرت ثوبان ؓ سے مروی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کبوتری کو حکم ارشاد فرمایا تو اس نے مکڑی کے جالے پر انڈے دے دیئے اور وہ اپنے انڈوں پر بیٹھنے لگی ‘ پس جب کفار نے اس کی طرف دیکھا تو اس نے انہیں غار سے واپس لوٹا دیا (1) ۔ مسئلہ نمبر 5 ۔ بخاری نے حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے بنی دیل کے ایک آدمی کو اجرت پر لیا اور وہ ماہر راہبر تھا اور وہ کفار قریش کے دین پر تھا ‘ پس دونوں نے اپنی سواریاں اس کے حوالے کردیں اور اس سے تین راتوں کے بعد غار ثور آنے کا معاہدہ کیا ‘ پس وہ تیسری صبح کو دونوں کی سواریاں لے کر آگیا اور دونوں نے وہاں سے رخت سفر باندھا اور آپ کی معیت میں عامر بن فہیرہ اور دیلی راہبر بھی چلا اور وہ انہیں لے کر ساحل (ایک جگہ کا نام ہے) کے راستہ پر چلا۔ مہلب نے کہا ہے : اس میں فقۃ کا مسئلہ یہ ہے کہ اہل شرک کو راز اور مال پر امین بنانا جائز ہے ‘ بشرطیکہ ان کے بارے وفا اور مروت کا یقین ہو جیسا کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے اس مشرک کو مکہ مکرمہ سے اپنے نکلنے کے بارے اور اونٹنیوں پر امین بنایا۔ ابن منذر نے کہا ہے : اس میں یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کو راستے کی رہنمائی کے لیے کفار کو اجرت پر لینا جائز ہے۔ اور امام بخاری (رح) نے اپنے عنوان میں کہا ہے :” باب استئجار المشرکین عند الضرورۃ أواذالم یوجد اھل الاسلام ابن بطال نے کہا ہے : امام بخاری (رح) نے اپنے عنوان میں کہا ہے اواذالم یوجد اھل الاسلام یا جب اہل اسلام میں سے کوئی نہ پایا جائے۔ اس وجہ سے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے بلاشبہ اہل خیبر کے ساتھ معاملہ کیا کہ وہ وہاں کی زمین پر کام کریں گے جب مسلمانوں میں سے ایسے نہ پائے گئے جو زمین پر کام کرنے میں ان کے نائب بن سکتے ہوں ‘ یہاں تک کہ اسلام قوی ہوگیا اور ان کی ضرورت باقی نہ رہی ‘ تو حضرت عمر ؓ نے انہیں جلاوطن کردیا۔ اور عام فقہاء ضرورت کے وقت اور اس کے بعد بھی انہیں اجرت پر لینا جائز قرار دیتے ہیں۔ اور اس میں یہ بھی ہے کہ دو آدمیوں کا ایک آدمی کو اس شرط پر اجرت پر لینا کہ وہ ان دونوں کے لیے کام کرے گا ( یہ بھی جائز ہے) اور اس میں دشمن کی خوف سے دین کے ساتھ فرار اختیار کرنے کے جواز پر بھی دلیل ہے۔ اور غیرت وغیرہ کے معاملہ میں حقیر جاننے کے خوف سے فرار اختیار کرنا بھی جائز ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اور اس کے لیے صلح اور سلامتی چاہتے ہوئے بذات خود دشمن کے حوالے نہ ہوجائے۔ اور اگر تمہارے رب نے چاہا تو وہ اسے ان کے ساتھ ہونے کے باوجود اس سے محفوظ رکھے گا ‘ یہ انبیاء اور دیگر لوگوں کے لی اللہ کا طریقہ ہے (1) اور تو اللہ کے طریقہ کو ہر گز بد لا ہوا نہ پائے گا۔ اور جس نے اس سے منع کیا ہے اس کے نظریہ کے فاسد ہونے پر یہ بہت بڑی دلیل ہے اور کہا ہے : جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے غیر سے بھی ڈرے تو یہ اس کے توکل میں نقص ہے اور اس کا تقدیر پر ایمان نہیں۔ اور یہ سب کا سب آیت کے معنی میں ہے ‘۔ وللہ الحمد والہدا یۃ۔ مسئلہ نمبر 6 ۔ قولہ تعالیٰ : اذ یقول لصاحبہ لا تحزن ان اللہ معنا یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے فضائل کو متضمن ہے۔ اصبغ اور ابزید نے ابن القاسم سے اور انہوں نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے کہ ثانی اثنین اذ ھما فی الغار اذیقول لصاحبہ لا تحزن ان اللہ معنا میں صاحب سے مراد حضر تابو بکر صدیق ؓ ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے لیے آپ ﷺ کے قول کو اپنے کلام کے ساتھ ثابت کردیا ہے اور اپنی کتاب میں آپ کے وصف صحابیت کو بیان کیا ہے۔ بعض علماء نے کہا ہے : جو کوئی حضرت عمر ‘ حضرت عثمان یا صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں سے کسی ایک کے رسول اللہ ﷺ کا صاحب ہونے کا انکار کرے تو وہ کذاب اور بدعتی ہوگا۔ اور جس نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے رسول اللہ ﷺ کا صاحب ہونے کا انکار کردیا تو وہ کافر ہے ‘ کیونکہ اس نے قرآن کریم کی نص کا رد کیا ہے۔ اور ان اللہ معنا کا معنی ہے یعنی مدد و نصرت کرنے ‘ لحاظ رکھنے اور حفاظت و نگہبانی کرنے کے اعتبار سے بیشک اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ ترمذی اور حارث بن ابی اسامہ دونوں نے بیان کیا ہے کہ ہمیں عفان نے بیان کیا ‘ اس نے کہا ہمیں ہمام نے بیان کیا اس نے کہا ہمیں ثابت نے حضرت انس ؓ سے خبردی کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے انہیں بیان کیا کہ میں نے حضور نبی کریم ﷺ سے عرض کی اس حال میں کہ ہم غار میں تھے ‘ اگر ان میں سے کس ینے اپنے قدموں کی طرف دیکھا تو وہ یقینا ہمیں اپنے قدموں کے نیچے دیکھ لے گا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا : یا ابا بکر ماظنک با ثنین اللہ ثالثھم ( اے ابوبکر تیرا ان دو کے باے کیا خیال ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ تعالیٰ ہے) (1) ۔ محاسبی نے کہا ہے : یعنی اللہ تعالیٰ مدد و نصرت اور دفاع کے اعتبار سے ان دو کے ساتھ ہے نہ کہ اس معنی کی بنا پر جس کے ساتھوہ ساری مخلوق کو شامل ہے۔ پس فرمایا : مایکون من نجوی ثلثۃ الا ھورابعھم (المجادلہ :7) (نہیں ہوتی کوئی سرگوشی تین آدمیوں میں مگر وہ ان کا چوتھا ہوتا ہے) تو اس کا معنی عام ہے کہ وہ کفار اور مومنین میں سے سبھی کی سنتا ہے اور انہیں دیکھتا ہے۔ مسئلہ نمبر 7 ۔ علامہ ابن عربی نے کہا ہے : امامیہ نے کہا ہے : غار میں حضرت ابوبکرصدیق ؓ کا غمزدہ اور پریشان ہونا ان کے جہل ‘ نقص اور دل اور رائے کی کمزوری پر دلیل ہے۔ تو ہمارے علماء نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ آپ کی طرف جزن اور پریشانی کی نسبت کرنا یہ نقص نہیں ہے ‘ جیسا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) میں کوئی نقص نہیں جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں یہ فرمایا ہے : نکرھم واو جس منھم خیفۃ ط قالوا لاتخف (ہود :70) ( تو اجنبی خیال کیا انہیں اور دل ہی دل میں ان سے اندیشہ کرنے لگے ‘ فرشتوں نے کہا : ڈریئے نہیں) اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) میں اس قول سے کوئی نقص نہیں : فاوجس فی نفسہ خیفۃ موسیٰ ۔ قلنا لا تخف (طہ) (موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے دل میں کچھ خوف محسوس کیا ہم نے فرمایا (اے کلیمض مت ڈروض اور حضرت لوط (علیہ السلام) کے بارے میں ہے : لاتحزن انا منجوک واھلک (العنکبوت :33) ( اور نہ رنجیدہ خاطر ہم نجات دینے والے ہیں تمہیں اور تیرے کنبہ کو) پس یہ وہ عظیم انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات ہیں جن میں (خوف تقیہ) نصاپایا گیا ہے۔ اور یہ نہ ان پر طعن ہے اور نہ ان کے لیے ایسا وصف ہے جو باعث نقص ہو۔ تو اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی ذات میں بھی ہے۔ پھر یہ بھی یکہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے اس اظہار میں احتمال ہے ‘ کیونکہ انہوں نے یہ کہا تھا : اگر ان میں سے کسی نے اپنے قدموں کے نیچے (جھک کر) دیکھا تو یقیناً وہ ہمیں دیکھ لے گا۔ اور دوسرا جواب یہ ہے کہ بلاشبہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا یہ حزن و ملال حضور نبی مکرم ﷺ کے بار یاس خوف کی وجہ سے تھا کہ آپ کو کوئی ضرر اور تکلیف پہنچے اور اس وقت حضور ﷺ معصوم اور محفوظ نہ تھے ‘ بلاشبہ یہ ارشاد گرامی واللہ یعصمک من الناس (المائدہ : 67) (اور اللہ تعالیٰ بچائے گا آپ کو لوگوں (کے شر) مدینہ طیبہ میں نازل ہوا۔ مسئلہ نمبر 8 ۔ علامہ ابن عربی (رح) نے کہا ہے : ابو الفضائل العدل نے ہمیں کہا ہے کہ جمال الاسلام ابو القاسم نے ہمیں کہا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : کلا ان معی ربی سیھدین۔ (الشعرائ) ( ہرگز نہیں ‘ بلاشبہ میرے ساتھ میرا رب ہے ‘ وہ ضرور میری رہنمائی فرمائے گا) اور حضور نبی مکرم محمد مصطفیٰ ﷺ نے : لاتحزن ان اللہ معنا ‘ تو یقیناً جب اللہ تعالیٰ اکیلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ہے تو ان کے اصحاب ان کے بعد مرتد ہوگئے پس جب وہ اپنے رب کے پاس سے واپس لوٹ کر آئے تو انہیں پایا کہ وہ بچھڑے کی عبادت کررہے ہیں۔ اور جب حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے فرمایا : لاتحزن ان اللہ معنا تو پھر حضرت ابوبکر صدیق ؓ ہدایت یافتہ ‘ موحد ‘ عالم اور امر کے ساتھ یقیناً قائم رہنے والے باقی رہے اور کوئی خلل و فساد آپ تک راہ نہ پاسکا۔ (1) ٓمسئلہ نمبر 9 ۔ ترمذی نے عبیط بن شریط کی حدیث نقل کی ہے انہوں نے حضرت سالم بن عبید ؓ سے (انہیں شرف صحبت بھی حاصل ہے) بیان کی انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ پر غشی طاری کردی گئی۔۔۔۔۔ الحدیث۔ اور اس میں ہے : مہاجرین مشورہ کرنے کے لیے جمع ہوئے اور کہنے لگے : چلو ہمارے ساتھ ہماے انصار بھائیوں کی طرف ہم انہیں اس معاملہ میں اپنے ساتھ شامل کرتے ہیں پھر انصار نے کہا : ایک ایمر ہم میں سے ہوگا اور ایک امیر تم میں سے ہوگا۔ تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا : کون ہے ج سکے لیے اس کی مثل تین وصف ہوں ؟ ثانی اثنین اذھما فی الغار اذیقول لصاحبہ لاتحزن ان اللہ معنا کو ن ہے جو ان دو کی مثل ہو ؟ راوی کا بیان ہے : پھر آپ نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ہاتھ پر بیعت کی اور پھر لوگوں نے بھی انتہائی حسین و جمیل انداز میں آپ کی بیعت کرلی۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اسی لیے بعض علماء نے کہا ہے کہ قول باری تعالیٰ : ثانی اثنین اذھما فی الغار اس پر دلالت کرتا ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ کے بعد خلیفہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ ہیں ‘ کیونکہ خلیفہ ہمیشہ ثانی (دوسرا) ہیہوتا ہے۔ اور میں نے ہمارے شیخ امام ابو العباس احمد بن عمر (رح) کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ اس کے مستحق ہیں کہ ان کے لیے ثانی اثنین کہا جائے کیونکہ حضور نبی مکرم ﷺ کا جب وصال ہوا تو سارا عرب مرتد ہوگیا اور مکہ مکرمہ ‘ مدینہ طیبہ اور جعواث (بحرین میں ایک جگہ ہے) کے بغیر کہیں اسلام باقی نہ رہا۔ پس حضرت ابوبکر صدیق ؓ اٹھے اور لوگوں کو اسلام کی دعوت دی اور آپ نے انہیں دین میں داخل کرنے کے لیے ان کے ساتھ قتال کیا جیسا کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے کیا تھا۔ پس اس اعتبار سے آپ اس کے مستحق ہیں کہ آپ کے حق میں ثانی اثنین (دو میں سے دوسرے) کہا جائے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : احادیث صحیحہ موجود ہیں ‘ جن کا ظاہر اس پر دلالت کرتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ حضور ﷺ کے بعد خلیفہ ہیں اور اس پر اجماع منعقد ہوچکا ہے اور کوئی مخالف باقی نہیں رہا۔ اور آپ کی خلافت میں شک اور جرح ‘ قدح کرنے والا بالیقین خطا کار اور فاسق ہے۔ کیا وہ کافر ہے یا نہیں ؟ اس میں اختلاف ہے۔ اس کا مزید بیان سورة الفتح میں آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ کتاب و سنت اور اقوال علماء سے جو بات قطعی ہے اور واجب ہے کہ دل اس کے ساتھ ایمان لائیں وہ یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ تمام صحابہ کرام سے افضل و اعلیٰ ہے اور اہل تشیع اور اہل بدعت کے اقوال کی کوئی پرواہ نہیں ہے ‘ کیونکہ وہ ان کفر کرنے والوں جن کی گردنیں ماردی جاتی ہے اور بدعت و فسق کا ارتکابکرنیوالوں کے درمیان ہیں ان کی کوئی بات قبول نہ کی جائے گی۔ پھر حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے بعد حضرت عمر فاورق ؓ اور پھر ان کے بعد حضرت عثمان ؓ افضل ہیں۔ امام بخاری (رح) نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت بیان کی ہے انہوں نے فرمایا : ہمیں رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مقدس میں لوگوں کے درمیان چنائو اور انتخاب کا اختیار دیا جاتا تھا تو ہم حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو پہلے پھر حضرت عمر فاروق ؓ کو اور پھر حضرت عثمان ؓ کو چنتے تھے۔ انئمہ اہل سلف نے حضرت عثمان اور حضرت علی ؓ کے بارے میں اختلاف کیا ہے ؟ ان میں سے جمہور حضرت عثمان ؓ کو مقدم جانتے ہیں۔ اور امام مالک کے بارے روایت بیان کی گئی ہے کہ انہوں نے اس بارے میں توقف کیا ہے۔ اور ان کے بارے یہ بھی مروی ہے کہ انہوں نے جمہور کے موقف کی طرف رجوع کرلیا ہے اور یہی وصح ہے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر 10 ۔ قولہ تعالیٰ : فا نزل اللہ سکینتہ علیہ اس میں دو قول ہیں : ان میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم ﷺ پر اپنی تسکین نازل فرمائی۔ اور دوسرا قول یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ پر۔ علامہ ابن عربی (رح) نے کہا ہے : ہمارے علماء نے کہا ہے : یہی زیادہ قوی ہے ‘ کیونکہ آپ کو حضور نبی کریم ﷺ کے بارے قوم سے خوف لاحق ہوا ‘ تو اللہ تعالیٰ نے نبی مکرم ﷺ کو امن عطا فرماکر آپ پر تسکین اور راحت کو نازل فرمایا اور آپ کا اضطراب پر سکون ہوگیا ‘ آپ کا ڈر اور خوف ختم ہوگیا اور امن و سکون حاصل ہوگیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے ثمانہ (ایک بوٹی کا نام ہے) کو آگا دیا اور اس میں کبوتری کے گھونسلا بنانے کا الہام کیا۔ اور مکڑی کو بھیجا پس اس نے اس پر جالابن دیا۔ تو ظاہر دکھائی دینے میں یہ لشکر کتنا کمزور ہے اوباطنی معنی کے اعتبار سکے یہ کتنا قوی ہے۔ اسی معنی کے اعتبار سے حضور نبی مکرم ﷺ نے حضرت عمر ؓ کو اس وقت فرمایا جب انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ساتھ جھگڑا کیا :” کیا تم میرے لیے میرے صاحب (رفیق) کو چھوڑ دو گے ‘ بیشک تمام لوگوں نے کہا : آپ جھوٹے ہیں اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ ‘ نے کہا آپ سچے ہیں “۔ اسے ابو درداء ؓ نے روایت کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 11 ۔ قولہ تعالیٰ : وایدہ بجنودلم ترو ھا یعنی ملائکہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد فرمائی۔ أیدہ میں ضمیر حضور نبی مکرم ﷺ کی طرف لوٹ رہی ہے۔ اور دونوں ضمیریں مختلف ہیں۔ اور قرآن کریم اور کلاب عرب میں یہ کثیر الاستعمال ہے۔ وجعل کلمۃ الذین کفروا السفلی اس سیمراد کلمہ شرک ہے۔ وکلمۃ اللہ ھی العلیا کہا گیا ہے کہ مراد لآ الہ الا اللہ ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد مدد و نصرت کا وعدہ ہے۔ اعمش اور یعقوب نے کلمۃ اللہ کو جعل پر محمول کرتے ہوئے منصوب پڑھا ہے۔ اور باقیوں نے استئنناف کی بنا پر مرفوع پڑھا ہے۔ اور فراء نے یہگمان کیا ہے کہ نصب کی قرأت بعید ہے۔ انہوں نے کہا : کیونکہ تیرا قول یہ ہوتا ہے أعتق فلان غلام أہیہ (فلاں نے اپنے باپ کا غلام آزاد کیا) اور تہ یہ نہیں کہتا : غلام ابی لان اور ابو حاتم نے جو کہا ہے وہ اس کے قریب قریب ہے۔ انہوں نے کہا : واجب ہے کہ کہا جائے : وکلمتہ ھی العلیا۔ نحاس نے کہا ہے : جو کچھ فراء نے کہا ہے وہ آیت سے مشابہت نہیں رکھتا ‘ لیکن سیبویہ نے جو شعر بیان کیا ہے وہ اس سے مشابہت رکھتا ہے : لاأری الموت یسسمق الموت شویٔ نغص الموت ذا الغنی والفقیرا پس یہ بہت اچھا ہے اس میں کوئی اشکال نہیں ‘ بلکہ ماہر نحوی کہتے ہیں : اس طرح کے محل میں دوبارہ ذکر کرنا فائدہ مند ہے اور وہ یہ ہے کہ اس میں تعظیم کا معنی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (الزلزلۃ) پس اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ اور کلمہ کی جمع کلم ہے۔ اور تمیم کہتے ہیں : ھی کلمۃ یعنی کاف کے کسرہ کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ اور فراء نے اس میں تین لغات بیان کی ہیں : کلمۃ و کلمۃ جیسا کہ کبد ‘ کبد اور کبذ اور ورق ‘ ورق اور ورق ہے۔ اور الکلمہ ایک طویل قصیدہ بھی ہے ‘ اسے جوہری نے کہا ہے۔
Top