Al-Qurtubi - At-Tawba : 49
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ ائْذَنْ لِّیْ وَ لَا تَفْتِنِّیْ١ؕ اَلَا فِی الْفِتْنَةِ سَقَطُوْا١ؕ وَ اِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِیْطَةٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ
وَمِنْهُمْ : اور ان میں سے مَّنْ : جو۔ کوئی يَّقُوْلُ : کہتا ہے ائْذَنْ : اجازت دیں لِّيْ : مجھے وَلَا تَفْتِنِّىْ : اور نہ ڈالیں مجھے آزمائش میں اَلَا : یاد رکھو فِي : میں الْفِتْنَةِ : آزمائش سَقَطُوْا : وہ پڑچکے ہیں وَاِنَّ : اور بیشک جَهَنَّمَ : جہنم لَمُحِيْطَةٌ : گھیرے ہوئے بِالْكٰفِرِيْنَ : کافروں کو
اور ان میں کوئی ایسا بھی ہے جو کہتا ہے کہ مجھے تو اجازت ہی دیجئے۔ اور آفت میں نہ ڈالئے۔ دیکھو یہ آفت میں پڑگئے ہیں اور دوزخ سب کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔
قولہ تعالیٰ : ومنھم من یقول ائذن لی یہ أذن یأ ذن سے ہے۔ اور جب امر بنایا گیا تو اس میں ہمزہ مسکور زائد کیا گیا اور اس کے بعد ایک ہمزہ ہے جو فعل کا فاکلمہ ہے اور دو ہمزے جمع نہیں ہو سکتے۔ پس دوسرے کو ماقبل مکسور ہونے کی وجہ سے یا سے بدل دیا گیا تو تو نے ایذن کہا۔ اور جب یہ وصل کلام میں ہو تودو ہمزوں کے جمع ہونے کی علت ساقط اور زائل ہوجاتی ہے چناچہ وہ یا پھر ہمزہ ہوئی۔ اور تو نے یہ پڑھا : ومنھم من یقول ائذن لی۔ ورش نے حضرت نافع سے روایت کیا ہے : ومنھم من یقول أوذن لی انہوں نے ہمزہ کو مخفف کیا ہے ( یعنی اس کا ماقبل لام مضموم ہونے کی وجہ سے اسے وائو سے بدل دیا ہے) نحاس نے کہا ہے : کہا جاتا ہے ایذن لفلان ثم ایذن لہ پہلے اور دوسرے کے ہجے لکھنے میں ذل سے پہلے الف اور یا کے ساتھ ایک ہیں۔ اور اگر تو کہے : ایذن لفلان و ائذن لغیرہ اس میں دوسرا بغیر یا کے ہے اور اسی طرح فاکلمہ بھی ہے۔ اور ثم اور وائو کے درمیان فرق یہ ہے کہ ثم پر وقف کیا جاتا ہے اور کلام منفصل ہوجاتی ہے اور وائو اور فا ان دونوں پر وقف نہیں کیا جاتا اور نہ یہ دونوں جدا ہوسکتے ہیں۔ محمد بن اسحاق نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب غزوئہ تبوک کے لیے نکلنے کا ارادہ فرمایا تو بنی مسلمہ کے بھائی جدبن قیس کو فرمایا :” اے جد ! کیا تیرے لیے بنی الا صفر کی اونٹنیوں میں رغبت ہے تو ان سے لونڈیاں اور خدمت گار غلام بھی پالے گا “۔ تو جدنے کہا : میری قوم جانتی ہے کہ میں عورتوں کا دلدادہ ہوں اور بلاشبہ مجھے یہ خوف ہے کہ اگر میں نے بنی الاصفر کو دیکھ لیا تو پھر میں ان سے صبر نہیں کرسکوں گا ‘ اس لیے آپ مجھے آزمائش اور فتنہ میں نہ ڈالیے اور مجھے گھر پر ہی بیٹھے رہنے کی اجازت عطا فرما دیجئے اور میں آپ کے ساتھ مالی تعاون کروں گا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے اعراض فرمالیا اور فرمایا : تیرے لیے اجازت ہے “ تب یہ آیت نازل ہوئی ‘ یعنی آپ مجھے ان کے چہروں کی چمک اور خوبصورتی کے ساتھ فتنہ میں نہ ڈالیے۔ اور اس کا سبب نفاق کے سوا اور کچھ نہیں۔ مہدوی نے کہا ہے : اصفر حبشہ میں رہنے والا ایک آدمی تھا اس کی بیٹیاں تھیں ان کے وقت میں ان سے زیادہ خوبصورت کوئی نہ تھا اور اس کی رہائش بلادروم میں تھی۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : انہیں یہ نام اس لیے دیا گیا کیونکہ حبشہ والے روم پر غالب آگئے اور ان کے ہاں بیٹیاں پیدا ہوئیں پس انہوں نے روم کی سفیدی اور حبشہ کی سیاہی اپنے سمولی نتیجۃ وہ سیاہی مائل سرخ رنگ کی ہوگئیں۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : ابن اسحاق کے قول میں فتور اور کمزوری ہے۔ طبری نے اپنی سند کے ساتھ بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” تم جہاد کرو تم بنات اصفر کو غنیمت میں پائو گے “۔ تو جد نے آپ کو کہا : آپ ہمیں اجازت عطا فرمادیجئے اور عورتوں کے ساتھ ہمیں فتنہ میں مبتلانہ کیجئے۔ یہ قول پہلے کے سوا اور سے نکالا گیا ہے اور یہ نفاق اور عداوت کے زیادہ مشابہ ہے۔ اور جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضور نبی مکرم ﷺ نے بنی سلمہ کو کہا۔۔۔۔۔ اور جد بن قبس ان میں تھا :” اے بنی سلمہ ! تمہارا سردار کون ہے ؟ “ انہوں نے کہا : جد بن قیس ‘ مگر وہ بخیل اور بزدل ہے۔ تو حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا :” کون سا عیب ہے جو بخل سے بڑھ کر قبیح ہو بلکہ تمہارا سردار خود برونوجوان بشر بن براء بن معرور ہے “۔ پس حضرت حسان بن ثابت انصاری ؓ نے اس کے بارے میں فرمایا : وسود بشر بن البراء الجودہ وحق لبشر بن البراء أن یسودا اذا ما أتاہ الوفد ٹذھب مالہ وقال خدوہ اننی عائد غدا الا فی الفتنۃ سقطوا یعنی وہ گناہ اور معصیت میں واقع ہوچکے۔ اور وہ نفاق اور حضور نبی مکرم ﷺ سے پیچھے رہنا ہے۔ وان جھنم لمحیطۃ بالکفرین یعنی بلاشبہ ان کا سفر جہنم کی آگ کی طرف ہے اور وہ انہیں چاروں طرف سے گھیرلے گی۔ قولہ تعالیٰ : ان تصبک حسنۃ تسؤھم یہ شرط و جزا ہے اور اسی طرح وان تصبک مصیبۃ یقولوا قد اخذنآ امرنا من قبل ویتولوا اس پر معطوف ہے۔ اور الحسنۃ سے مراد غنیمت اور کامیابی ہے۔ اور املصیبۃ سے مراد شکست اور پسپائی ہے۔ اور ان کے اس قول : اخذنآ امرنا من قبل کا معنی ہے ہم نے اپنے نفسوں کے بارے احتیاط برتی ہے اور ہم نے انتہائی حزم و احتیاط کو لازم پکڑا ہے ہم قتال کی طرف نہیں نکلے۔ ویتولو اور وہ ایمان سے پیٹھ پھر لیتے ہیں۔ وھم فرحون درآنحا لی کہ وہ اس پر اتراتے اور اظہار فخر کرتے ہیں۔
Top