Al-Qurtubi - At-Tawba : 64
یَحْذَرُ الْمُنٰفِقُوْنَ اَنْ تُنَزَّلَ عَلَیْهِمْ سُوْرَةٌ تُنَبِّئُهُمْ بِمَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ١ؕ قُلِ اسْتَهْزِءُوْا١ۚ اِنَّ اللّٰهَ مُخْرِجٌ مَّا تَحْذَرُوْنَ
يَحْذَرُ : ڈرتے ہیں الْمُنٰفِقُوْنَ : منافق (جمع) اَنْ تُنَزَّلَ : کہ نازل ہو عَلَيْهِمْ : ان (مسلمانوں) پر سُوْرَةٌ : کوئی سورة تُنَبِّئُهُمْ : انہیں جتا دے بِمَا : وہ جو فِيْ : میں قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل (جمع) قُلِ : آپ کہ دیں اسْتَهْزِءُوْا : ٹھٹھے کرتے رہو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ مُخْرِجٌ : کھولنے والا مَّا تَحْذَرُوْنَ : جس سے تم ڈرتے ہو
منافق ڈرتے رہتے ہیں کہ ان (کے پیغمبر ﷺ پر کہیں کوئی ایسی سورت (نہ) اتر آئے کہ ان کے دل کی باتوں کو ان (مسلمانوں) پر ظاہر کردے۔ کہہ دو کہ ہنسی کیے جاؤ جس بات سے تم ڈرتے ہو خدا اس کو ضرور ظاہر کردے گا۔
آیت نمبر : 64۔ اس آیت میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” یحذر المنفقون “ یہ خبر ہے اور امر نہیں ہے اور یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ یہ خبر ہے اس کی جو اس کے بعد قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ان اللہ مخرج ما تحذرون “۔ ہے کیونکہ انہوں نے عناد کی وجہ سے کفر اختیار کیا اور سدی (رح) نے کہا ہے کہ منافقوں میں سے ایک نے کہا : میں تو پسند کرتا ہوں اگر مجھے آگے لایا جائے اور سو کوڑے مجھے مارے جائیں لیکن ہمارے بارے میں کوئی ایسی شے نازل نہ ہو جو ہمیں رسوا کر دے (2) (اسباب النزول، صفحہ 130) تب یہ آیت نازل ہوئی، یحذر بمعنی یتحرز وہ بچتے ہیں، اور زجاج نے کہا ہے : اس کا معنی ہے چاہیے کہ وہ ڈرے پس یہ امر ہے (3) (المحرر الوجیز، جلد 3، صفحہ 54 دارالکتب العلمیہ) جیسے کہا جاتا ہے : یفعل ذالک (چاہیے کہ وہ کرے) مسئلہ نمبر : (2) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ان تنزل علیھم “ اس میں ان محل نصب میں ہے، یعنی من ان تنزل اور سیبویہ کے قول کی بنا پر یہ بھی جائز ہے کہ یہ من کے حذف ہونے کی بنا پر محل جر میں ہو، اور یہ بھی جائز ہے کہ یہ یحذر کا مفعول ہونے کی وجہ سے محل نصب میں ہو (4) (المحرر الوجیز، جلد 3، صفحہ 54 دارالکتب العلمیہ) کیونکہ سیبویہ نے اسے جائز قرار دیا ہے : حذرت زیدا اور یہ شعر بھی بیان کیا ہے : حذر امورا لا تضیر وامن مالیس منجیہ من الاقدار : اور مبرد نے اسے جائز نہیں قرار دیا، کیونکہ حذر (ڈرنا) ہئیت میں ایک شی ہے اور علیہم کا معنی ہے علی المومنین۔ سورة یعنی ایک ایسی سورت جو منافقین کی شان میں ہو جو انہیں ان کی عداوت وددشمنی، ان کی برائی اور ان کے عیوب ونقائص کے بارے آگاہ کردے، اسی وجہ سے اس کا نام الفاضحۃ المثیرہ اور المبعثرہ کا نام دیا گیا ہے جیسا کہ سورت کی ابتدا میں گزر چکا ہے اور حسن نے کہا ہے : مسلمان اس سورت کو الحفارہ کا نام دیتے تھے، کیونکہ جو کچھ منافقین کے دلوں میں تھا اس نے اسے کھود کر ظاہر کردیا۔ مسئلہ نمبر : (3) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” قل استھزء وا “۔ یہ امر وعید اور تہدید کے لیے ہے۔ (آیت) ” ان اللہ مخرج “ بیشک اللہ تعالیٰ ظاہر کرنے والا ہے۔ (آیت) ” ماتحذرون “۔ اسے جس کے ظاہر ہونے سے تم ڈرتے ہو، حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے منافقین کے اسماء نازل کیے اور وہ ستر آدمی تھے، پھر رافت و رحمت کے سبب انہیں قرآن کریم سے مٹا دیا، کیونکہ ان کی اولاد مسلمان تھی اور لوگ آپس میں ایک دوسرے کو عار دلاتے رہتے ہیں، پس اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ اسے ظاہر کر کے پورا فرما دیا جب کہ ارشاد فرمایا : (آیت) ” ان اللہ مخرج ماتحذرون “۔ یہ بھی کہا گیا ہے : اللہ تعالیٰ کے ظاہر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے محبوب ﷺ کو ان کے احوال اور ان کے اسماء سے آگاہ کردیا نہ یہ کہ وہ قرآن کریم میں نازل ہوئے، تحقیق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” ولتعرفنھم فی لحن القول “۔ (محمد : 30) (اور آپ ضرور پہچان لیا کریں گے انہیں ان کے انداز گفتگو سے) اور یہ الہام کی قسم ہے، اور منافقین میں سے کچھ ستردد تھے نہ وہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی تکذیب کا اعتقاد رکھتے تھے اور نہ آپ کی تصدیق کا اور ان میں بعض وہ تھے جو آپ کی سچائی کو پہچانتے تھے اور آپ کے ساتھ عناد رکھتے تھے۔
Top