Ruh-ul-Quran - Yunus : 36
وَ مَا یَتَّبِعُ اَكْثَرُهُمْ اِلَّا ظَنًّا١ؕ اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَفْعَلُوْنَ
وَمَا يَتَّبِعُ : اور پیروی نہیں کرتے اَكْثَرُھُمْ : ان کے اکثر اِلَّا ظَنًّا : مگر گمان اِنَّ : بیشک الظَّنَّ : گمان لَا يُغْنِيْ : نہیں کام دیتا مِنَ : سے (کام) الْحَقِّ : حق شَيْئًا : کچھ بھی اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلِيْمٌ : خوب جانتا ہے بِمَا : وہ جو يَفْعَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں
ان میں سے اکثر پیروی نہیں کرتے مگر گمان کی، حالانکہ گمان حق کا بدل ذرا بھی نہیں ہوسکتا۔ بیشک اللہ جاننے والا ہے جو کچھ یہ کررہے ہیں۔
وَمَا یَتَّبِعُ اَکْثَرُھُمُ اِلاَّ ظَنًّا ط اِنَّ الظَّنَّ لاَ یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْائً ط اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ م بِمَا یَفْعَلُوْنَ ۔ (یونس : 36) (ان میں سے اکثر پیروی نہیں کرتے مگر گمان کی، حالانکہ گمان حق کا بدل ذرا بھی نہیں ہوسکتا۔ بیشک اللہ جاننے والا ہے جو کچھ یہ کررہے ہیں۔ ) حق کے مقابلے میں ظن کی پیروی قیامت پر عقیدہ نہ ہونے کی وجہ سے چونکہ زندگی میں سنجیدگی اور فکرمندی پیدا نہیں ہوتی اور آدمی اپنے آپ کو ہر طرح کی داروگیر اور جواب طلبی سے آزاد سمجھتا ہے۔ خواہشاتِ نفس اسے جس طرف کھینچ لے جاتی ہیں اسی طرف چل دیتا ہے۔ ہر طرح کی ہوس مقصد زندگی بن جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی سا فیصلہ کرنے سے پہلے یہ سوچنے کی زحمت ہی نہیں کی جاتی کہ حق کیا ہے اور ناحق کیا ہے۔ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے۔ یہ وہ رویہ ہے جو قیامت کے انکار سے خودبخود جنم لیتا ہے۔ چناچہ یہی رویہ مشرکینِ مکہ میں بھی جنم لے چکا تھا اور ان کے بنیادی عقائد سے انکار کے نتیجے میں اس سے مختلف کسی نتیجے کے ظاہر ہونے کا سوال بھی پیدا نہیں ہوتا۔ چناچہ اسی طرف توجہ دلاتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان کی زندگی کی روش اور ان کے دماغی فیصلوں کی رہنمائی حق کے ہاتھ میں نہیں کیونکہ اسے تو وہ ماننے سے انکار کردیتے ہیں کیونکہ جس طرح وہ قیامت سے انکار کرچکے ہیں اسی طرح وہ اللہ کی طرف سے آنے والی ہدایت کو قبول کرنے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ تو نہ ان کے پاس جوابدہی کی سنجیدگی باقی رہی اور نہ حق کی رہنمائی تو اس کا نتیجہ اس کا سوا اور کیا ہوگا کہ وہ اٹکل پچو سے زندگی گزاریں کہ جو جی میں آئے کر گزریں۔ جدھر لوگ چلنے لگیں وہ بھی چلنے لگیں۔ یہاں ” ظن “ علم، یقین اور حق تینوں کی ضد کے طور پر آیا ہے۔ یعنی انھیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ علم کے تقاضے کیا ہیں، یقین کس طرف ہے اور حق کہاں ہے۔ وہ اپنے لیے جو شرعی احکام تجویز کرچکے ہیں انھوں نے کبھی غور نہیں کیا کہ ان کی کوئی علمی سند بھی ہے یا نہیں۔ جن روایات پر وہ جان دیتے ہیں ان کے لیے ان کے پاس باپ دادا کے سوا کوئی دلیل نہیں۔ ظاہر ہے کہ باپ دادا ہونا تو کوئی دلیل کی بات نہیں۔ دنیا نے حماقتیں پہلے بھی کی ہیں اور آج بھی کررہی ہے۔ انھوں نے جن قوتوں کو اللہ کے شریک بنا رکھا ہے ان کے حوالے سے انھوں نے حق بات کو تلاش کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ ہر معاملے میں ظن اور گمان سے رہنمائی لیتے ہیں حالانکہ ظن اور گمان تو حق کے مقابلے میں کسی طرح بھی زندگی کی رہنمائی کے لیے کافی نہیں۔ یہ تو اپنے آپ کو تاریکیوں میں ڈبو دینے کی ایک کوشش ہے جس کا نتیجہ معلوم ہے۔
Top