Ruh-ul-Quran - Yunus : 54
وَ لَوْ اَنَّ لِكُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَا فِی الْاَرْضِ لَافْتَدَتْ بِهٖ١ؕ وَ اَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ١ۚ وَ قُضِیَ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر ہو اَنَّ : ہو لِكُلِّ نَفْسٍ : ہر ایک کے لیے ظَلَمَتْ : اس نے ظلم کیا (ظالم) مَا : جو کچھ فِي الْاَرْضِ : زمین میں لَافْتَدَتْ : البتہ فدیہ دے دے بِهٖ : اس کو وَاَسَرُّوا : اور وہ چپکے چپکے ہوں گے النَّدَامَةَ : پشیمان لَمَّا : جب رَاَوُا : وہ دیکھیں گے الْعَذَابَ : عذاب وَقُضِيَ : اور فیصلہ ہوگا بَيْنَھُمْ : ان کے درمیان بِالْقِسْطِ : انصاف کے ساتھ وَھُمْ : اور وہ لَا يُظْلَمُوْنَ : ظلم نہ کیے جائیں گے
اور اگر ہر شخص جس نے ظلم کا ارتکاب کیا اگر اس کو مل جائے وہ سب کچھ جو زمین میں ہے تو وہ اس کو فدیہ میں دے دے اور وہ ظالم ندامت کو چھپائیں گے جب عذاب کو دیکھیں گے۔ اور ان کے درمیان انصاف سے فیصلہ کردیا جائے گا۔ اور وہ ظلم نہیں کیے جائیں گے۔
وَلَوْ اَنَّ لِکُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَافِی الْاَرْضِ لاَ فْتَدَتْ بِہٖ ط وَاَسَرُّوا النَّدَامَۃَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ ج وَقُضِیَ بَیْنَہُمْ بِالْقِسْطِ وَھُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ ۔ (یونس : 54) (اور اگر ہر شخص جس نے ظلم کا ارتکاب کیا اگر اس کو مل جائے وہ سب کچھ جو زمین میں ہے تو وہ اس کو فدیہ میں دے دے اور وہ ظالم ندامت کو چھپائیں گے جب عذاب کو دیکھیں گے۔ اور ان کے درمیان انصاف سے فیصلہ کردیا جائے گا۔ اور وہ ظلم نہیں کیے جائیں گے۔ ) متکبرین کی اصل حیثیت ہم نے گزشتہ آیت میں دیکھا کہ سوال کرنے والوں میں ایک رعونت ہے جو انھیں بدتمیزی پر اکساتی ہے۔ وہ مسلمانوں کی کم مائیگی اور اسلام کی غربت کی وجہ سے مسلمانوں کے ساتھ توہین آمیز سلوک کرتے ہیں۔ پورا ماحول چونکہ انھیں اپنے اندر سے اکھاڑ دینا چاہتا ہے اس لیے مغرور لوگ حالات کو حسب حال پاتے ہوئے برے سے برا رویہ اختیار کرنے میں بھی کوئی رکاوٹ محسوس نہیں کرتے۔ چناچہ اس آیت کریمہ میں سب سے پہلے ان کے غرور اور تکبر پر ایک چوٹ لگائی گئی ہے۔ اور ان کے سامنے قیامت کا منظر پیش کیا گیا ہے جس سے انھیں بہرحال دوچار ہونا ہے۔ اس دن انھیں اندازہ ہوگا کہ ان کی اصل حقیقت کیا ہے۔ آج وہ اپنے تئیں کچھ بھی سمجھتے رہیں لیکن انھیں احساس ہونا چاہیے کہ زمین ان کے پائوں تلے سے سرک رہی ہے۔ آخرت کا انجام توقطعی اور یقینی ہے اس میں تو کسی قسم کی تبدیلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ البتہ دنیا میں بھی ان کی یہ حالت دیر تک رہنے والی نہیں۔ بہتر یہ ہے کہ آخرت کے انجام سے دوچار ہونے سے پہلے اپنی دنیا ہی کی فکر کرلیں اور اگر یہ نصیب میں نہیں تو پھر آخرت میں تو ان کی اصل حیثیت ان کی آنکھوں کے سامنے آجائے گی۔ اس روز ان کی بےبسی کا عالم یہ ہوگا کہ ان میں سے ایک ایک شخص اپنی بےاعتدالیوں کو نگاہوں میں سمیٹے اپنی بداعمالیوں کا انبار سامنے دیکھ رہا ہوگا جس سے انھیں یہ اندازہ کرلینے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی کہ انھوں نے قدم قدم پر اپنے اوپر ظلم کیے۔ انھیں اس بات کا اعتراف تھا کہ اللہ ہی ان کا خالق ہے۔ اس کے بعد یہ بات سمجھنا کوئی مشکل نہ تھا کہ جب وہ ان کا خالق ہے تو وہ ان کی صلاحیتوں کا بھی خالق ہے۔ ان کے دل و دماغ کی رعنائیاں بھی اسی کی دین ہیں۔ اس کے اعضاء وجوارح کی فعلی قوتیں بھی اسی کی عطا کردہ ہیں۔ اس سے بڑھ کر ظلم اور کیا ہوسکتا ہے کہ جس نے یہ سب کچھ عطا کیا ہے اسی کے خلاف اور اس کی نافرمانی میں انھیں استعمال کیا جائے۔ دماغ اسی کے خلاف منصوبے باندھیں، دل اس کے دشمنوں کی محبت سے آباد ہوں، اعضاء وجوارح کی قوتیں شیطانی اور طاغوتی منصوبوں کی بجاآوری میں صرف ہوں۔ جب ان میں سے ایک ایک چیز پر پروردگار گرفت فرمائے گا اور ان کا جواب طلب کرے گا اس وقت ایک ایک ظالم تمنا کرے گا کاش میرے پاس زمین کی ساری دولت ہوتی اور میں آج اسے فدیہ میں دے کر اپنی جان چھڑا لیتا۔ ایک طرف تو عذاب کی ہولناکی دل ہلادینے کے لیے کافی ہوگی اور دوسری طرف جب ہر شخص اپنی آنکھوں کے سامنے جہنم کو ابلتا ہوا دیکھے گا تو اسے بار بار یہ خیال آئے گا کہ جس عذاب سے ہمیں ڈرایا جاتا تھا اور جس قیامت کے آنے کا ہمیں یقین دلایا جاتا تھا لیکن ہم ان میں سے ہر بات کو ایک افسانہ سمجھتے تھے آج وہ ہماری نگاہوں کے سامنے ہے۔ اس سے ان کے اندر ایک ندامت کا لاوا اٹھے گا۔ لیکن اپنے گزشتہ کرتوت انھیں مجبور کریں گے کہ اس ندامت کو دل میں چھپا کے رکھو۔ سورة انعام ایت نمبر 31 میں بھی اسی مضمون کو بیان کیا گیا ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے ” یہاں تک کہ جب وہ گھڑی ان پر آدھمکے گی وہ کہیں گے ہائے افسوس اس کوتاہی پر جو اس معاملے میں ہم نے کی۔ “ اب جبکہ یہ اسی ندا اور شرمندگی میں گڑے جارہے ہوں گے تو اسی دوران ان کے زندگی بھر کے کرتوتوں کا پشتارہ ان کے سامنے لا رکھا جائے گا اور پھر ایک ایک بات کا فیصلہ عین انصاف کے مطابق چکایا جائے گا۔ انھوں نے اگرچہ زندگی میں ظلم ہی کی فصل بوئی ہوگی اور آج اسی کو کاٹیں گے لیکن ان پر کوئی ظلم نہیں کی جائے گا۔ ہر جرم کی وہی سزا ملے گی جو اس کا جائز حق ہوگا۔ اور آج تک انھوں نے اپنے جن مزعومہ شرکاء اور شفعاء سے امیدیں باندھ رکھی تھیں وہ سب پادرہوا ہوجائیں گی اور وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ آج ان کے سہارے کس قدر بودے ثابت ہوئے ہیں جن کے سہارے انھوں نے اپنی زندگی برباد کی۔ آج ان کا کہیں نام و نشان بھی نہیں ہوگا۔ ایک اللہ کی حکومت ہوگی اور دنیا کے تمام چھوٹے بڑے حکمران اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہوں گے۔ اس کے انبیاء تک نفسی نفسی پکارتے ہوں گے۔ لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْم ” آج کس کی حکومت ہے، کی پکار ہر طرف گونج رہی ہوگی۔ انسان کو اپنی بےثباتی اور بےبسی کا صحیح ادراک میدانِ حشر ہی میں ہوگا۔ لیکن اس وقت یہ ادراک کام نہیں آئے گا۔ چناچہ اسی ادراک اور احساس کو مزید گہرا کرنے کے لیے فرمایا :
Top