اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرُ ۔ (التکاثر : 1)
(تم کو کثرت مال کی خواہش نے غافل رکھا۔ )
لہو اور تکاثر کا مفہوم اور تکاثر سے مراد
اَلْھٰکُمُ لہو سے ہے۔ یوں تو اس کا معنی کھیل کود اور غفلت سے کیا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ ایک اسلامی اصطلاح ہے۔ اس کا اطلاق ہر اس کام پر ہوتا ہے جس کی مشغولیت اور دلچسپی مقصد زندگی یا فرائض سے غافل کردے۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کل لہوباطل اذا شغلہ عن طاعۃ اللہ ” یعنی ہر لہو جب انسان کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے غافل کردے تو وہ باطل یعنی گناہ ہے۔ “ الھیٰ اسی سے فعل ماضی ہے۔ اس کا معنی ہے اس نے غافل کردیا۔ اور ” کم “ ضمیرمفعول ہے۔ التَّکَاثُرُ یہ اسم فاعل ہے۔ یعنی تمہیں تکاثر نے غفلت میں رکھا۔ تکاثر کا اطلاق تین چیزوں پر ہوتا ہے۔ 1 زیادہ سے زیادہ کثرت حاصل کرنے کی کوشش کرنا، 2 کثرت کے حصول میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا، 3 کثرت حاصل ہوجانے کی صورت میں دوسروں پر فخر جتانا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان صرف کثرت کا خواہش مند نہیں بلکہ وہ ایسی کثرت کا خواہش مند ہے جو اسے دوسروں پر بڑائی کا موقع دے دے۔ اور وہ اس کثرت سے دوسروں پر فخر جتا سکے۔ لیکن اس آیت کریمہ میں یہ تصریح نہیں فرمائی گئی کہ تکاثر میں کس چیز کی کثرت مراد ہے۔ اور نہ یہ بات واضح فرمائی گئی ہے کہ یہاں خطاب کن لوگوں سے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تکاثر کے مفہوم میں بھی وسعت پائی جاتی ہے اور اَلْھٰکُمُ کے مخاطب بھی محدود نہیں بلکہ ہر زمانے کے لوگ اپنی انفرادی حیثیت سے بھی اور اجتماعی حیثیت سے بھی اس کے مخاطب ہیں۔ یعنی نہ تو کثرت کے متعلقات کی کوئی انتہا ہے اور نہ یہ بیماری نوع انسانی میں سے کسی خاص گروہ کو لاحق ہے بلکہ پوری نوع انسانی اس کی مریض ہے۔ اس کی تائید ایک چھوٹے سے واقعہ سے بھی ہوتی ہے۔ علامہ اسد ایک نومسلم ہیں جن کا اصل نام لیوپولڈ تھا۔ جرمن کے رہنے والے اور مذہباً یہودی تھے اور پیشہ ان کا صحافت تھا۔ انھیں اور ان کی بیوی کو بعض حالات کی بناء پر اسلام کے بارے میں تجسس ہوا۔ چناچہ انھوں نے ایک سے زیادہ مرتبہ برصغیر کی تقسیم سے پہلے عرب ملکوں کے سفر کیے۔ ایک دن اچانک انھیں لوگوں سے ملنے ملانے کے بعد احساس ہوا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کی بہت بڑی اکثریت پریشانیوں کا شکار ہے۔ جسے دیکھئے محسوس ہوتا ہے اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار ہیں۔ انھوں نے اپنا یہ گمان اپنی بیوی کے سامنے رکھا۔ انھوں نے بھی انسانی چہروں کے مطالعے کے بعد اس کی تصدیق کی۔ اب دونوں نے تجسس شروع کیا کہ آخر اس کا سبب کیا ہے ؟ لیکن یہ عقدہ ان کے لیے روزبروز لاینحل ہوتا گیا۔ ایک دن اچانک لیوپولڈ نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں نے اس راز کو پا لیا ہے اور اس انکشاف کی وجہ سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور اسلام ایک سچا دین ہے۔ بیوی نے حیران ہو کر پوچھا کہ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ تو لیوپولڈ نے قرآن کریم کا ایک نسخہ اٹھایا اور قرآن کریم کی یہی سورة جو اس وفت ہمارے پیش نظر ہے اپنی بیوی کے سامنے رکھ دی۔ اس نے کہا ذرا غور سے دیکھو یہ کتاب آج سے صدیوں پہلے نازل ہوئی۔ اور جس عظیم شخصیت پر نازل ہوئی اس نے عرب کے باہر کی دنیا کو بہت کم دیکھا تھا۔ اسے یہ بات کیسے معلوم ہوگئی کہ صدیوں بعد بھی انسان ایک ایسی کیفیت کا شکار ہوگا جو اس کے لیے مستقبل میں پریشانی بن جائے گی اور وہ اسی کیفیت میں مبتلا ہونے کی حالت ہی میں موت کی نذر ہوجائے گا۔ لیکن کبھی وہ اس سے جان نہیں چھڑا سکے گا۔ اور وہ کیفیت کیا ہے کثرت کے حصول کی کوشش اور دوسروں سے اس کثرت میں آگے بڑھنے کی خواہش۔ اور پھر اس میں دوسروں پر فخر جتانے کی آرزو۔ یہی وہ چیز ہے جس نے آج کے انسان کو پریشان کر رکھا ہے۔ ہر آدمی یہ چاہتا ہے کہ میرے پاس مال و دولت کی نہ صرف فراوانی ہو بلکہ دوسروں سے بڑھ چڑھ کر مال میرے پاس ہو۔ اور وہ اسی کو اپنے لیے نام و نمود اور عزت و شہرت کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ اسی طرح وہ آئے روز بہتر سے بہتر منصب اور عزوجاہ کی تلاش میں رہتا ہے۔ اس کے نزدیک مال و دولت اور منصب و اقتدار ضرورت کی چیز نہیں۔ اور نہ کوئی ذمہ داری ہے۔ بلکہ بجائے خود یہ ایسا مقصد زندگی ہے جس کا زیادہ سے زیادہ حصول زندگی بھر ایک حقیقت بن کر اس کے دماغ پر سوار رہتا ہے۔ نزولِ قرآن کے وقت قبائلی زندگی میں جس طرح کثرت مال ان کا ہدف ہوتا تھا اسی طرح کثرت اولاد کے لیے بھی وہ کوشاں رہتے تھے۔ کیونکہ قبیلے کا سردار وہ شخص بنتا تھا جس کے نوجوان بیٹے اس کے قوت بازو ثابت ہوتے تھے۔ اور قبیلہ دوسرے قبائل پر تب فوقیت حاصل کرتا تھا جب ان کے پاس افراد کی بھی کثرت ہوتی اور مال کی بھی کثرت ہوتی۔ لیکن آج کثرت اولاد کو اجتماعی زندگی کے بدلے ہوئے نظام اور خاص طور پر خاندانی منصوبہ بندی کے تصور نے معیارِزندگی کے رجحان میں تبدیل کردیا ہے۔ آج ہر شخص معیارِزندگی اونچا کرنے کی دھن میں مصروف اور پریشان ہے۔ پھر اس معیارِزندگی کی بلندی کی کوئی انتہا نہیں۔ اور چونکہ اس کا سارا انحصار مال و دولت پر ہے اس لیے مال و دولت کی کثرت کی بھی کوئی حد نہیں۔ جیسے جیسے زندگی کا معیار اونچا ہوتا جاتا ہے ویسے ویسے مال کی تونس بڑھتی جاتی ہے۔ اسی کو قرآن کریم نے تکاثر کے نام سے یاد کیا ہے۔ چناچہ اس تکاثر کی دھن نے انسان کو نہ صرف مقصدزندگی سے تہی دامن کیا بلکہ اخلاقی حدود اور اخلاقی پابندیوں سے بھی اسے بےتعلق کردیا۔ اللہ تعالیٰ اور بندوں کے حوالے سے عائد ہونے والے فرائض مال و دولت کی ہوس کی نذر ہوگئے۔ اقدارِ انسانیت ہی پامال نہیں ہوئیں بلکہ قرابت کے تمام حقوق نظرانداز ہوگئے۔ دولت، طاقت اور عزت زندگی کی کامیابی کے عنوان بن گئے۔ حکومتوں اور ملکوں کی سطح پر زیادہ سے زیادہ طاقت کا حصول زیادہ سے زیادہ ہتھیار فراہم کرنے کی فکر، چھوٹے ملکوں کی تجارت پر غلبہ اور ان کے پاس قدرتی وسائل پر قبضہ ترقی کی علامت بن گیا۔ اور اس میں تخصیص غیرمسلم کی نہیں، امت مسلمہ بھی اسی کا شکار ہوگئی۔ جسے دیکھو معیارِ زندگی کے بت کی پرستش کر رہا ہے۔ حالانکہ حضور ﷺ نے فرمایا تھا : ازہد فی الدنیا یحبک اللہ وازہد فیما ایدی الناس یحبک الناس ” دنیا سے بےرغبت ہوجا، اللہ تجھ سے پیار کرے گا، جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے بےنیاز ہوجا، لوگوں کے دلوں میں اللہ تیرا احترام پیدا کرے گا۔ “