حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ۔ (التکاثر : 2)
(یہاں تک کہ قبروں میں جا پہنچے۔ )
کثرت کی خواہش موت تک جاری رہتی ہے
یعنی کثرت مال کی کوشش، پھر دوسروں سے آگے بڑھنے کی ہوس اور دوسروں کے مقابلے میں فخر جتنانے کی خواہش میں تمہاری پوری زندگی گزر گئی۔ مثال کے طور پر تم میں سے ایک نے چاہا کہ میرے پاس ایک خوبصورت مکان ہونا چاہیے۔ مکان بن گیا۔ اور جب دوسرے نے بھی اسی خواہش کے تحت ویسا ہی مکان بنا لیا تو پھر بےچینی اور بڑھی تو اس کو نیچا دکھانے کے لیے دوسری منزل اٹھا لی گئی۔ اس نے بھی مقابلے میں دوسری منزل بنا لی۔ اس کی کثرت کی خواہش نے اسے تیسری منزل اٹھانے پر مجبور کیا۔ اور دوسرے کی تکاثر کی ہوس نے بھی تیسری منزل اٹھا لی۔ حتیٰ کہ دونوں مقابلے میں دوسرے کو نیچا دکھانے اور اپنے سر کی کلغی کو بلند کرنے کے لیے منزلوں پر منزلیں اٹھاتے رہے۔ آخر ایک وقت آیا کہ یہ منزلیں دونوں کو ساتھ لے کر زمین بوس ہوگئیں۔ اس ایک مثال سے زندگی کی تمام جہتوں کا تصور کیا جاسکتا ہے کہ کس طرح زندگی کی قدریں، زندگی کی صلاحیتیں، دل و دماغ کی رعنائیاں صرف ایک ہوس کی نذر ہوتی جارہی ہیں۔ اور نتیجہ کیا ہوتا ہے کہ لوگ قبروں میں پہنچ جاتے ہیں لیکن انھیں منزل نصیب نہیں ہوتی۔ ایک دوڑ ہے جس سے کوئی نکلنا پسند نہیں کرتا۔ اکبر نے ٹھیک کہا :
کیا کہیں احباب کیا کار نمایاں کرگئے
بی اے کیا، نوکر ہوئے، پنشن ملی پھر مر گئے