بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ruh-ul-Quran - Al-Humaza : 1
وَیْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِۙ
وَيْلٌ : خرابی لِّكُلِّ : واسطے، ہر هُمَزَةٍ : طعنہ زن لُّمَزَةِۨ : عیب جو
ہلاکت ہے ہر اس شخص کے لیے جو (روبرو) طعنے دیتا ہے اور پیٹھ پیچھے عیب جوئی کرتا ہے
وَیْلٌ لِّـکُلِّ ھُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِ نِ ۔ (الہمزۃ : 1) (ہلاکت ہے ہر اس شخص کے لیے جو (روبرو) طعنے دیتا ہے اور پیٹھ پیچھے عیب جوئی کرتا ہے۔ ) ھُمَزَۃٍ اور لُمَزَۃِ کا مفہوم ھُمَزَۃٍاور لُمَزَۃِ دونوں مبالغہ کے صیغے ہیں ھُمَزَۃٍ کا معنی ہے اشارہ باز، اور لُمَزَۃِ کا معنی ہے عیب جو اور عیب چیں۔ یہ دونوں معنی کے اعتبار سے ایک دوسرے کے اتنے قریب ہیں کہ کبھی دونوں کو ایک ہی معنی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور کبھی دونوں ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ یعنی ھُمَزَۃٍ کا معنی عیب جو اور لُمَزَۃِ کا معنی اشارہ باز کیا جاتا ہے۔ یعنی دونوں کے معنی میں گہری مناسبت ہے۔ اشارہ بازی کا تعلق زیادہ تر حرکتوں اور ادائوں سے ہے۔ اور عیب جوئی کا تعلق زبان سے۔ جہاں کسی غریب یا کمزور سے آمنا سامنا ہو تو اس کے منہ پر ایسی حرکتیں کی جاتی ہیں کہ جس سے اشاروں ہی اشاروں میں اس کی توہین کی جاتی ہے۔ اور جہاں یہ اندیشہ ہو کہ اگر میں نے اس شخص کے سامنے کوئی ایسی ویسی بات کہی تو سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تو پھر سامنے یا تو خاموشی اختیار کی جاتی ہے اور یا تعریف کی جاتی ہے۔ اور اس کے چلے جانے کے بعد اس کے عیب تلاش کیے جاتے ہیں اور اس کی غیبت کی جاتی ہے۔ ایسی صورت میں چونکہ کسی ردعمل کا اندیشہ نہیں ہوتا اس لیے یہ سلسلہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ معنی کے اعتبار سے دونوں میں فرق بھی ہو جب بھی یہ دونوں ایک ہی کردار کے دو پہلو ہیں اور دونوں کا الگ الگ استعمال کم کم ہی ہوتا ہے۔ عموماً ایک سے بات شروع ہوتی ہے تو دوسرے سے بات آگے بڑھتی ہے۔ اور پھر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جو شخص اس طرح کی حرکتیں کرتا ہے وہ عام طور پر اس کا عادی ہوتا چلا جاتا ہے اور پھر معاملہ اشارہ بازی اور عیب جوئی تک محدود نہیں رہتا بلکہ ایسے شخص میں وہ تمام خرابیاں جمع ہوجاتی ہیں جو اس وقت مکہ کے چھوٹے بڑے لوگوں میں عمومی طور پر اور طبقہ امراء میں خصوصی طور پر عام ہوچکی تھیں جس کا ذکر قرآن کریم نے مسلمانوں کو ان برائیوں سے بچانے کے لیے ایک ہی آیت میں کیا ہے جس کے مصداق بظاہر الگ الگ معلوم ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ ایک ہی کردار کے مختلف اظہار ہیں۔ سورة القلم میں ارشاد فرمایا گیا : وَلاَ تُطِعْ کُلَّ حَلاَّفٍ مَّھِیْنٍ ۔ ھَمَّازٍمَّشَآئٍ م بِنَمِیْمٍ ۔ مَّنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ مُعْتَدٍ اَثِیْمٍ ۔ عُتُلٍم بَعْدَ ذٰلِکَ زَنِیْمٍ ۔ اَنْ کَانَ ذَا مَالٍ وَّبَنِیْنَ ۔ (اور تم ہر لپاٹیے ذلیل کی بات کا دھیان نہ کرو، اشارہ باز اور لگانے بجھانے والے کا، بھلائی سے روکنے والا، حدود سے تجاوز کرنے والا اور حق کو تلف کرنے والا، اجڈ مزید برآں چاپلوس، بوجہ اس کے کہ و مال و اولاد والا ہوا) جس طرح ہر نیکی کے بطن سے کئی نیکیاں جنم لیتی ہیں، اسی طرح آیت میں مذکور دو برائیوں سے وہ ساری برائیاں پیدا ہوتی ہیں جن کا ذکر سورة القلم میں کیا گیا ہے۔ اور آنحضرت ﷺ نے بھی اسی طرح کی بعض برائیوں کی مذمت فرمائی ہے جو ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ ارشاد فرمایا : شرارعباد اللہ تعالیٰ المشاء ون بِالْـنَّمِیْمَۃِ المفرقون بین الاحبۃ الباعون البراء العنت ” اللہ کے بندوں میں بدترین وہ لوگ ہیں جو چغل خوری کرتے ہیں اور دوستوں کے درمیان فساد ڈلواتے ہیں اور بےگناہ لوگوں کے عیب تلاش کرتے ہیں۔ “ قریش اور دیگر مخالفین کا معمول یہ تھا کہ وہ آنحضرت ﷺ اور دیگر مسلمانوں کا مذاق اڑانے، توہین و تذلیل کرنے اور دوسروں کی نگاہوں سے انھیں گرانے کے لیے کبھی سامنے رودررو مختلف حرکتوں اور اشاروں سے کام لیتے تھے۔ اور کبھی پیٹھ پیچھے ان کی عیب جوئی کرتے۔ قرآن کریم نے ان کی اخلاقی برائیوں کو ذکر فرما کر ان کے پر اپیگنڈے کو کمزور کرنے کی کوشش فرمائی۔ اور ان میں سے جن لوگوں نے بظاہر حُسنِ اخلاق کا نقاب پہن رکھا تھا ان کے چہرے سے ان کا نقاب اتار دیا ہے۔ اور یہ بھی اشارہ کردیا ہے کہ ان کی اخلاقی خرابیاں صرف یہیں تک محدود نہیں بلکہ ان کا سلسلہ دور تک پھیلا ہوا ہے۔
Top