الَّذِیْ جَمَعَ مَالاً وَّعَدَّدَہٗ ۔ (الہمزۃ : 2)
(جس نے مال جمع کیا اور اس کو گنتا رہا۔ )
متذکرہ بالا اخلاقی خرابیوں کا اصل سبب
اس آیت میں ان کی اخلاقی خرابیوں کے اصل سبب سے پردہ اٹھایا ہے یعنی جو لوگ مسلمانوں کے ساتھ توہین و تذلیل کا رویہ اختیار کرتے ہیں اس کا حقیقی سبب یہ ہے کہ انھیں اپنی مالداری کا غرور ہے۔ وہ مال کو حقیقی طاقت سمجھ کر اس کی محبت میں اس طرح ڈوبے رہتے ہیں کہ انھیں سوائے دولت کے جمع کرنے کے اور کسی بات کا ہوش نہیں رہتا۔ اور اسے چونکہ طاقت کا حقیقی سبب سمجھتے ہیں اس لیے جن لوگوں کے پاس مال و دولت نہیں اور وہ بظاہر اسبابِ دنیا سے تہی دامن نظر آتے ہیں تو یہ دولت کی طاقت کے زعم میں ان کی تذلیل کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اور مال و دولت کے بارے میں ان کا گمان یہ ہے کہ یہ شاید انسان کو دوام بخش دیتی ہے۔ اس لیے وہ ہر وقت اس کو گنتے رہتے ہیں۔ یعنی ان کے سر پر یہ دھن سوار رہتی ہے کہ میری دولت میں وقت کے ساتھ ساتھ کتنا اضافہ ہوا ہے۔ اور یہ فکر رہتی ہے کہ میرے کسی کاروبار میں کہیں ایسی کمزوری پیدا تو نہیں ہورہی جس میں مال کے کم ہوجانے کا اندیشہ ہو۔ مال میں یہی کمی بیشی کا تصور ان کی زندگی بن کر رہ جاتا ہے۔ وہ اسی کے لیے جیتے اور اسی کے لیے مرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ان کے اندر ایسی خست پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ ایک پائی بھی کسی غریب و یتیم کی امداد کے لیے خرچ کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔