Ruh-ul-Quran - Hud : 110
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ فَاخْتُلِفَ فِیْهِ١ؕ وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ لَقُضِیَ بَیْنَهُمْ١ؕ وَ اِنَّهُمْ لَفِیْ شَكٍّ مِّنْهُ مُرِیْبٍ
وَ : اور لَقَدْ اٰتَيْنَا : البتہ ہم نے دی مُوْسَى : موسیٰ الْكِتٰبَ : کتاب فَاخْتُلِفَ : سو اختلاف کیا گیا فِيْهِ : اس میں وَلَوْ : اور اگر لَا : نہ كَلِمَةٌ : ایک بات سَبَقَتْ : پہلے ہوچکی مِنْ : سے رَّبِّكَ : تیرا رب لَقُضِيَ : البتہ فیصلہ کردیا جاتا بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان وَاِنَّهُمْ : اور بیشک وہ لَفِيْ شَكٍّ : البتہ شک میں مِّنْهُ : اس سے مُرِيْبٍ : دھوکہ میں ڈالنے والا
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب دی، پس اس میں اختلاف کیا گیا۔ اور اگر ایک بات پہلے طے نہ کردی گئی ہوتی تو ان کے درمیان فیصلہ کردیا گیا ہوتا۔ بیشک وہ ایسے شبہ میں مبتلا ہیں جو الجھن میں ڈال دینے والا ہے۔
وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰی الْکِتٰبَ فَاخْتُلِفَ فِیْہِ ط وَلَوْلاَ کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّکَ لَقُضِیَ بَیْنَھُمْ ط وَاِنَّھُمْ لَفِیْ شَکٍ مِّنْہُ مُرِیْبٍ ۔ (سورۃ ہود : 110) (اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب دی، پس اس میں اختلاف کیا گیا۔ اور اگر ایک بات پہلے طے نہ کردی گئی ہوتی تو ان کے درمیان فیصلہ کردیا گیا ہوتا۔ بیشک وہ ایسے شبہ میں مبتلا ہیں جو الجھن میں ڈال دینے والا ہے۔ ) آنحضرت ﷺ کو تسلی اس آیت کریمہ میں تین باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں اور یہ تینوں باتیں جاری سلسلہ بیان سے مربوط ہیں۔ گزشتہ آیات سے آنحضرت ﷺ کو معاندین اور مخالفین کی بڑھتی ہوئی دشمنی کے حوالے سے تسلی دی جارہی ہے اور مخالفین کو گزشتہ تاریخ کا آئینہ دکھایا جارہا ہے تاکہ وہ اگر اندھے نہیں ہوگئے ہیں تو اپنا انجام دیکھ سکیں۔ اس آیت میں بھی ارشاد فرمایا گیا ہے کہ آپ اس بات پر کیوں دل گرفتہ ہوتے ہیں کہ آپ کی ایک ایسی دعوت جس میں کوئی پیچیدگی نہیں آپ کی ہر بات عقل اور انصاف کے ترازو میں تلنے کے لائق ہے۔ آپ کی ہر دلیل محکم ہے، آپ کا لب و لہجہ یقین کی خبر دیتا ہے۔ آپ کا کردار یہ کہنے کی اجازت نہیں دیتا کہ آپ کوئی غلط بات بھی کہہ سکتے ہیں۔ بایں ہمہ مخالفین آپ کی ہر بات میں کیڑے ڈالتے اور مختلف راستے نکالتے ہیں، مختلف باتیں کہتے اور عجیب و غریب تبصرے کرتے ہیں۔ ہر بات میں اختلاف کے دروازے کھول دیتے ہیں۔ پروردگار تسلی دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ ان اختلافی باتوں اور مخالفین کے رویئے سے دل گرفتہ نہ ہوں۔ یہ ایک ایسا رویہ ہے جو ہمیشہ سے چلا آیا ہے۔ جب بھی کسی پیغمبر نے اپنی قوم کو اللہ کا پیغام پہنچانے کی کوشش کی ہے اور ان میں اصلاح کا آغاز کیا ہے تو کبھی ایسا نہیں ہوا کہ قوم نے یکسو ہو کر اسے قبول کرلیا ہو۔ قوم کے مختلف طبقات اپنے اپنے فہم کے مطابق اور بقدر ہمت اللہ کے نبی کا راستہ روکنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے۔ بہت کم ایسی خوش نصیب قومیں گزری ہیں جو ہدایت سے بہرہ ور ہوئی ہوں ورنہ عموماً رسول کی بعثت کے بعد اس کی برسہابرس کی مساعی جمیلہ کے ناکام ہوجانے کے بعد اتمامِ حجت ہوجاتا ہے اور قوم اللہ کے عذاب کا شکار ہوجاتی ہے۔ جو شخص بھی تاریخ پر نظر رکھتا ہے وہ اس حقیقت کو کھلی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے۔ اس لیے آپ کو اطمینان رکھنا چاہیے کہ آپ کی تبلیغی مساعی میں بفضلہ تعالیٰ کوئی کمی نہیں، لیکن آپ کی قوم اسی راستے پر بڑھتی جارہی ہے جس راستے پر پہلی قومیں چل کر تباہ ہوئی ہیں۔ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ممکن ہے آپ کی طرف سے اتمامِ حجت ہوجانے کے بعد ان کا انجام بھی گزشتہ قوموں کی طرح ہو۔ اس لیے آپ کو ہرگز فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔ رہی یہ بات کہ اگر ان کا رویہ ایسا ہی مایوس کن ہے تو پھر ان پر اللہ کا عذاب کیوں نہیں آجاتا۔ یہ وہ دوسری بات ہے جسے اس آیت کریمہ میں نمایاں کیا جارہا ہے۔ نہایت اختصار سے سابقہ تاریخی حقیقت کی طرح اس تاریخی حقیقت کی طرف بھی توجہ دلائی جارہی ہے کہ اللہ کا قانون یہ ہے کہ وہ قوموں کی اصلاح کے لیے رسول بھیجتا اور کتابیں اتارتا ہے اور رسول دنیا میں آکر ہر ممکن کوشش کرتا ہے کہ لوگ اس کی دعوت کو قبول کرکے اللہ کی خوشنودی حاصل کرلیں اور اس کے غضب سے بچ جائیں لیکن جب قوم کسی طرح بھی راہ راست اختیار نہیں کرتی تو پھر ان پر عذاب بھیجنے کا فیصلہ کردیا جاتا ہے لیکن عذاب کے بارے میں اللہ کی سنت یہ ہے کہ وہ اس میں جلد بازی کبھی نہیں کرتا۔ قوموں کو مہلت پہ مہلت دیتا ہے تاکہ اگر وہ بچنا چاہیں تو بچ جائیں۔ ان کے کرتوت دیکھنے والوں کی نگاہ میں اس قابل ہوتے ہیں کہ انھیں ایک دن کی مہلت نہ دی جائے بلکہ اللہ کا عذاب آکر ان کو تباہ کردے لیکن اللہ فرماتا ہے کہ عذاب اپنے وقت سے کبھی پہلے نہیں آتا۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ عذاب کے نزول کا وقت کون سا ہے۔ کیونکہ کسی شخص کے علم میں یہ بات نہیں آسکتی کہ قوم میں قبولیت کی صلاحیت مکمل طور پر کب ختم ہوتی ہے۔ کیونکہ دلوں کے حال اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اللہ مہلت عمل اس لیے دیتا ہے کہ اگر کسی میں تھوڑی بہت بھی قبولیت ایمان کی استعداد باقی ہے تو اسے بروئے کار آنے کا موقع دینا چاہیے لیکن جب وہ دیکھتا ہے کہ مکھن کا آخری شمہ بھی نکالا جا چکا ہے اور اب پیچھے لسی کے سوا کچھ نہیں، تب اس کی طرف سے نزول عذاب کا حکم آتا ہے۔ اس لیے فرمایا جارہا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اپنا یہ قانون طے نہ کرچکے ہوتے تو ممکن تھا کہ بہت پہلے ان پر عذاب آچکا ہوتا۔ لیکن اللہ نے چونکہ اپنے اوپر یہ پابندی قبول کر رکھی ہے، اس لیے وقت مقرر آنے سے پہلے وہ کبھی عذاب نازل نہیں فرماتا، اور جب وقت مقرر آجاتا ہے تو پھر ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں ہوتی۔ تیسری بات اس آیت کریمہ میں یہ فرمائی گئی ہے کہ مخالفین ایک ایسے شک میں مبتلا ہیں جو الجھن میں ڈال دینے والا ہے۔ مریب اسم صفت ہے۔ اس کا معنی ہے الجھن میں ڈال دینے والا یا بےچین کردینے والا۔ حقیقت کا علم تو اللہ کو ہے لیکن جو بات بظاہر اس سے سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ مخالفین اپنے شک میں بھی یکسو نہیں ہیں۔ انھیں اس بات پر پورا اطمینان نہیں کہ ہم جو رویہ اللہ کے پیغمبر کے بارے میں اختیار کرچکے ہیں وہ سو فیصد صحیح ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی جب کسی حقیقت کا انکار کرتا ہے تو حقیقت پسندانہ رویہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ اس حقیقت کا اچھی طرح جائزہ لے۔ اور اگر وہ اس بارے میں یکسو ہوجائے کہ یہ حقیقت نہیں، محض واہمہ یا فریب ہے تو پھر اسے پوری جرأت سے اس کا انکار کردینا چاہیے۔ لیکن اگر اس کا یہ حال ہو کہ یا تو وہ اصل حقیقت پر توجہ ہی نہ دے، لوگوں نے مخالفت کا جو ہنگامہ کھڑا کر رکھا ہے یہ ان کی اڑائی ہوئی دھول میں گم ہوجائے۔ اور یا توجہ تو دے لیکن مکمل طور پر اسے سمجھ کر حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرنے کی کوشش نہ کرے۔ اور اگر اس کا انکار کرے تو اپنے انکار کے بارے میں یکسو نہ ہو تو ایسا شخص یقینا دوہرے عذاب میں مبتلا ہوتا ہے۔ ایک حقیقت کا انکار اور دوسرا انکار کے بارے میں شک اور تردد۔ مشرکینِ مکہ بھی ایسی ہی صورتحال سے دوچار معلوم ہوتے ہیں کہ جب وہ نبی کریم ﷺ کی دعوت کو سنتے ہیں تو اپنے پشتوں کے عقائد کی مخالفت انھیں ناگوار گزرتی ہے۔ بجائے غور و فکر کرنے کے اندھی عصبیت اور غیرحقیقت پسندانہ جذباتیت کا شکار ہو کر ماننے سے انکار کردیتے ہیں۔ لیکن جب وہ آنحضرت ﷺ کی شخصیت کو دیکھتے ہیں تو اپنے انکار کے بارے میں انھیں تردد ہونے لگتا ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ ایک ایسا شخص جس نے زندگی بھر کبھی جھوٹ نہیں بولا کیا اب وہ ڈھلتی عمر میں جھوٹ بولے گا۔ جس کی سیرت و کردار میں آج تک کبھی کوئی جھول نہیں پڑا، جس نے کبھی کوئی کمزور بات نہیں کہی، جس نے کبھی معاملات میں خیانت نہیں کی، جس نے کبھی کسی کو فریب نہیں دیا، آخر وہ اپنی قوم کو اتنا بڑا فریب کیسے دے سکتا ہے۔ پھر وہ مزید دیکھتے ہیں کہ وہ ہماری ہی طرح کا ایک امی عرب ہے جسے کہیں سے علم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا، اس کے پاس معلومات کا وہی ذخیرہ ہے اور وہی ذرائع ہیں جو ہر عرب کے پاس ہیں۔ بایں ہمہ وہ باتیں وہ کہتا اور ان حقائق کو بیان کرتا ہے جس سے بڑے سے بڑا صاحب علم بےبہرہ ہے۔ اس نے ان تاریخی حقائق کو صحت کا لباس پہنایا ہے جن میں دنیا آج تک ٹھوکریں کھا رہی تھی۔ اس نے اشاروں میں ایسی گتھیاں سلجھا دی ہیں جو انسانوں کے لیے لاینحل بنی ہوئی تھیں تو وہ سوچنے لگتے ہیں کہ آخر ایسے حقائق کی خبر اس کو کون دیتا ہے۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود وہ انکار پر اس لیے قائم ہیں کہ خاندانی عصیبت سے وہ الگ نہیں ہوسکتے۔ لیکن یہی انکار ان کے شک و تردد میں بار بار الجھن بھی پیدا کرتا ہے کہ تمہارے انکار کی کوئی دلیل بھی تو ہونی چاہیے۔ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ تم اس لیے پیغمبر اور اس کی دعوت کی صداقت کے بارے میں شک کررہے ہو کہ تمہارا قبیلہ مان کے نہیں دے رہا۔
Top