Ruh-ul-Quran - Hud : 24
مَثَلُ الْفَرِیْقَیْنِ كَالْاَعْمٰى وَ الْاَصَمِّ وَ الْبَصِیْرِ وَ السَّمِیْعِ١ؕ هَلْ یَسْتَوِیٰنِ مَثَلًا١ؕ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ۠   ۧ
مَثَلُ : مثال الْفَرِيْقَيْنِ : دونوں فریق كَالْاَعْمٰى : جیسے اندھا وَالْاَصَمِّ : اور بہرا وَالْبَصِيْرِ : اور دیکھتا وَالسَّمِيْعِ : اور سنتا هَلْ يَسْتَوِيٰنِ : کیا دونوں برابر ہیں مَثَلًا : مثال (حالت) میں اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ : کیا تم غور نہیں کرتے
مثال ان دونوں فریقوں کی ایسی ہے جیسے ایک اندھا اور بہرہ ہو اور دوسرا دیکھنے والا اور سننے والا۔ کیا یکساں ہے ان دونوں کا حال ؟ کیا تم اس مثال میں غور و فکر نہیں کرتے ؟ )
َمثَلُ الْفَرِیْقَیْنِ کَالْاَعْمٰی وَالْاَصَمِّ وَالْبَصِیْرِ وَالسَّمِیْعِط ہَلْ یَسْتَوِیٰنِ مَثَلاً ط اَفَلاَ تَذَکَّرُوْنَ ۔ (سورۃ ہود : 24) (مثال ان دونوں فریقوں کی ایسی ہے جیسے ایک اندھا اور بہرہ ہو اور دوسرا دیکھنے والا اور سننے والا۔ کیا یکساں ہے ان دونوں کا حال ؟ کیا تم اس مثال میں غور و فکر نہیں کرتے ؟ ) سابقہ آیات کریمہ میں کفار کے اعتقادات اور ان کی بداعمالیوں کا ذکر ہوا اور اس کے نتیجے میں ان کی ناکامی اور محرومی کا بھی تذکرہ ہوا۔ ان کی پوری زندگی کے احوال کو سمیٹتے ہوئے پروردگار نے فرمایا مَاکَانُوْا یَسْتَطِیْعُوْنَ السَّمْعَ وَمَا کَانُوْا یُبْصِرُوْنَ (نہ وہ حق کی آواز کو سن سکتے تھے اور نہ وہ حق کے نور کو دیکھ سکتے تھے۔ ) اس کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے اپنے ایمان و عمل کی خرابی سے اپنی جس محرومی کو دعوت دی اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ان کے ہوش کے کان سلب کرلیے اور ان کی بصیرت کی آنکھیں چھین لیں۔ انھوں نے زندگی اس طرح گزاری کہ جس میں بصیرت کا کوئی موقع نہ تھا اور حق کی قبولیت کا کوئی اثر نہ تھا۔ دنیا میں حیوانوں کی طرح کھانے پینے اور ضروریات کے حصول کو زندگی کا مقصد سمجھا۔ انسانیت کی ایک ایک قدر ان سے رخصت ہوتی چلی گئی۔ اس لیے کہ حیوانوں اور انسانوں میں بنیادی طور پر دو ہی باتوں میں فرق ہے۔ حیوان صرف پیٹ کی آواز سنتا اور معدے کا طواف کرتا ہے اور انسان ہر معاملے کو بصیرت کی نگاہ سے دیکھتا اور ہر نصیحت کو سماع قبول سے سنتا ہے۔ چناچہ پیش نظر آیت کریمہ میں کافروں اور مسلمانوں کو دو گروہوں کے طور پر اور ان میں بنیادی فرق کو ایک تشبیہ کی صورت میں واضح فرمایا ہے۔ ارشاد ہوا کہ دنیا میں دو گروہ ہیں، ایک گروہ اندھوں اور بہروں کا ہے اور دوسرا گروہ سننے والوں اور دیکھنے والوں کا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں گروہ کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔ اللہ تعالیٰ کے تمام رسولوں کی دعوت بالخصوص آنخضرت ﷺ کی سرتا سر عقل و بصیرت پر مبنی ہے۔ اس پر وہی لوگ ایمان لائیں گے جن کے کان اور دل کھلے ہوں اور جنھوں نے اپنی فطری صلاحیتوں کو برباد نہ کیا ہو۔ رہے وہ لوگ جن کے پاس بصیرت ہو اور نہ نصیحت سننے کی طاقت۔ ان کو پہلے لوگوں سے کیا نسبت ہوسکتی ہے۔ پھر تمام لوگوں کو اس حقیقت پر غور وفکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔
Top