Ruh-ul-Quran - Hud : 52
وَ یٰقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِ یُرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْكُمْ مِّدْرَارًا وَّ یَزِدْكُمْ قُوَّةً اِلٰى قُوَّتِكُمْ وَ لَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِیْنَ
وَيٰقَوْمِ : اور اے میری قوم اسْتَغْفِرُوْا : تم بخشش مانگو رَبَّكُمْ : اپنا رب ثُمَّ : پھر تُوْبُوْٓا اِلَيْهِ : اس کی طرف رجوع کرو يُرْسِلِ : وہ بھیجے گا السَّمَآءَ : آسمان عَلَيْكُمْ : تم پر مِّدْرَارًا : زور کی بارش وَّيَزِدْكُمْ : اور تمہیں بڑھائے گا قُوَّةً : قوت اِلٰي : طرف (پر) قُوَّتِكُمْ : تمہاری قوت وَلَا تَتَوَلَّوْا : اور روگردانی نہ کرو مُجْرِمِيْنَ : مجرم ہو کر
اے میری قوم ! اپنے رب سے مغفرت طلب کرو، پھر اسی کی طرف لوٹو، وہ آسمان سے تم پر موسلادھار بارش اتارے گا اور تمہیں بڑھا دے گا قوت میں تمہاری پہلی قوت سے، اور اللہ تعالیٰ سے منہ نہ موڑو جرم کرتے ہوئے۔
وَیٰـقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْآ اِلَیْہِ یُرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا وَّیَزِدْکُمْ قُوَّۃً اِلٰی قُوَّتِکُمْ وَلاَ تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِیْنَ ۔ (سورۃ ہود : 52) (اے میری قوم ! اپنے رب سے مغفرت طلب کرو، پھر اسی کی طرف لوٹو، وہ آسمان سے تم پر موسلادھار بارش اتارے گا اور تمہیں بڑھا دے گا قوت میں تمہاری پہلی قوت سے، اور اللہ تعالیٰ سے منہ نہ موڑو جرم کرتے ہوئے۔ ) استغفار و توبہ کی ترغیب حضرت ہود نے اللہ کی الوہیت کی دعوت دینے اور عقلی دلیل کے ذریعے سے ثابت کرنے کے بعد قوم کو استغفار کرنے اور پھر اسی کی طرف لوٹ جانے کی ترغیب دی۔ اللہ تعالیٰ کے نبیوں کی دعوت کا ایک امتیازی پہلو یہ ہے کہ وہ انسانی احساسات سے بالا ہوتی ہے۔ پیغمبر جب کسی بگڑی ہوئی قوم کی طرف مبعوث ہوتے ہیں تو ان کے بگاڑ کا تقاضا تو یہ ہوتا ہے کہ انھیں آتے ہی وارننگ دے دی کہ تم اپنی گمراہیوں میں جس حد تک پہنچ چکے ہو اب اس کے بعد کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ تم فوراً اس سے تائب ہو کر اللہ تعالیٰ کی طرف پلٹ آئو۔ اور اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو پھر عذاب تمہارے سر پر تلا کھڑا ہے لیکن اللہ کے نبی ہمیشہ نہایت ہمدردی اور خیرخواہی کے ساتھ ترغیب کے انداز میں اپنی دعوت پیش کرتے ہیں۔ نہ انھیں اشتعال دلاتے ہیں، نہ انھیں مایوس کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کی امید دلا کر آخری حد تک انھیں مائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حضرت ہود (علیہ السلام) نے بھی اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنے کی ترغیب دی اور اس کے بعد توبہ کا حکم دیا۔ استغفار اور توبہ ایک ہی سفر کے دو مقام ہیں۔ ایک منفی ہے، دوسرا مثبت ہے۔ استغفار سے مراد یہ ہے کہ آدمی نے جو غلط عقائد و اعمال اختیار کر رکھے ہیں ان سے دستبردار ہوجائے اور توبہ یہ ہے کہ ان کی جگہ صحیح عقائد و اعمال اختیار کرے۔ آدمی سب سے پہلے اپنی خطائوں اور غلط عقائد کا احساس پیدا کرے۔ جب تک کسی گمراہی اور خطا سے نفرت پیدا نہیں ہوتی اور دل میں یہ بات نہیں اتر جاتی کہ میں اب تک جو کچھ کرتا رہا ہوں وہ واقعی غلط اور قابل نفرت تھا اس وقت تک انسان ان برائیوں سے نجات حاصل نہیں کرسکتا۔ چناچہ جیسے جیسے بری باتوں کی نفرت بڑھتی جائے گی ویسے ویسے آدمی ان کے چھوڑنے پر قادر ہوتا جائے گا۔ لیکن برائیوں کا چھوڑ دینا اصلاح کے عمل کے لیے کافی نہیں۔ یہ اس کا پہلا مرحلہ ہے۔ دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ انسان ان تمام منکرات اور برائیوں سے نکل کر اس صراط مستقیم پر چل پڑے جس کی طرف اللہ تعالیٰ کے نبی دعوت دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا حصول منزل قرار پائے۔ چناچہ ہر وہ بات اور ہر وہ احساس جو اس منزل کی طرف لے جانے میں معاون ہو آدمی اس کی طرف لپکتا ہوا جائے اور اللہ تعالیٰ کے اس آستانے سے ایسا والہانہ تعلق پیدا ہوجائے کہ کسی طرح بھی اس کی رغبت دل میں مدھم نہ ہونے پائے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ( رح) نے ایک شخص کو دیکھا جسے مسجد حرام میں یہ آواز سنائی دے رہی تھی کہ تم یہاں سے نکل جاؤ، ہمیں تمہارا آنا منظور نہیں۔ حضرت شیخ ( رح) نے اس سے فرمایا کہ بھائی جب آپ کو یہ حکم دیا جارہا ہے تو آپ نکل کیوں نہیں جاتے۔ اس نے نہایت تعجب سے شیخ کی طرف دیکھا اور کہا کہ آپ ہی مجھے بتادیں کہ میں اس دروازے سے نکل کر کہاں جاؤں۔ اگر اس کے علاوہ کوئی اور دروازہ ہوتا تو میں ضرور چلا جاتا، لیکن جب دروازہ ہی ایک ہی تو پھر جو کچھ بھی ہو زندگی اسی آستانے پر گزرے گی۔ امید ہے ایک نہ ایک دن اللہ کی رحمت کا مستحق سمجھا جاؤں گا۔ قسم آستاں کی نہ اٹھیں گے ہرگز یہیں دن چڑھے گا یہیں رات ہوگی ایک غلط فہمی کا ازالہ حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ چند دنوں کے بعد میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر رحم فرمایا۔ اسے نہ صرف معافی مل گئی بلکہ اسے کھوئے ہوئے مقامات پر بھی فائز کردیا گیا۔ یہ استغفار اور توبہ ہر نبی کی دعوت کا لازمی حصہ رہا ہے۔ چناچہ حضرت ہود (علیہ السلام) نے بھی سب سے پہلے اسی کی طرف توجہ دلائی اور ساتھ ہی یہ بھی یقین دلایا کہ یہ مت سمجھو کہ تم اگر اللہ تعالیٰ کے راستے پر آجاؤ گے اور شیطان کا اتباع چھوڑ کر نیکی کی زندگی اختیار کرلو تو تمہاری دنیوی خوشحالی میں کوئی فرق آجائے گا، یہ سراسرغلط فہمی ہے جو ہمیشہ شیطان پیدا کرتا ہے اور اسی سے ڈرتے ہوئے لوگ اسلامی شریعت سے دور رہتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ اور اس کی رسول کی اطاعت کرنے سے آخرت تو مل سکتی ہے لیکن دنیا میں آسائش کی زندگی نصیب نہیں ہوسکتی۔ اس غلط فہمی نے نہ جانے کتنے لوگوں کو اسلامی زندگی سے محروم کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ زندگی جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے وجود میں آتی اسے اختیار کرنے سے صرف آخرت ہی میں سرخروئی نہیں ہوگی بلکہ دنیا میں بھی ہر طرح کی عزت، وجاہت اور خوشحالی نصیب ہوتی ہے۔ اس لیے اس آیت کریمہ میں صاف صاف فرمایا گیا کہ اگر تم ایمان لے آئو اور اس طرح زندگی گزارو جس طرح اللہ تعالیٰ کا رسول تمہیں تعلیم دے رہا ہے تو اللہ تم پر آسمان سے موسلادھا بارش ناز ل فرمائے گا جس سے بنجر زمین سیراب ہو کر سونا اگلنے لگے گی۔ ہر طرف سرسبز کھیت لہلہانے لگیں گے۔ یہ بجائے خود معاشی خوشحالی کی طرف اشارہ ہے لیکن قرآن کریم کے یہ الفاظ ہر طرح کے رزق و فضل میں زیادتی کی تعبیر ہیں۔ اس سے مراد صرف زرعی خوشحالی نہیں بلکہ خوشحالی کے جتنے شعبے ہیں ان تمام میں اللہ کی طرف سے ایک بہتری اور افزدوگی پیدا ہونے لگتی ہے کیونکہ رزق و فضل میں برکت دو طرح سے ہوتی ہے۔ ایک تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہ وسائل کی فراہمی میں اضافہ فرما دے اور دوسرے انسانوں کی طرف سے کہ کام کرنے والے ہاتھ محنت کرنے لگیں اور سوچنے والے دماغ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے لگیں اور ہر جگہ ہر کام کرنے والا دیانت و امانت کا پیکر بن جائے تو آپ دیکھیں گے کہ ملوں اور کارخانوں کی پیداوار دنوں میں کہاں تک پہنچ جاتی ہے۔ جب قدم قدم پر بددیانت لوگ موجود ہوں اور مزدوری کرنے والا طبقہ مالک کے ساتھ ہمدردی سے محروم ہو اور ہر شخص کو صرف اپنا مفاد عزیز ہو تو چلتے ہوئے کام بھی رک جاتے ہیں اور ہر چیز میں بےبرکتی پیدا ہوجاتی ہے لیکن اسلامی زندگی آنے کے بعد دونوں طرف سے برکتوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور مزید یہ فرمایا کہ ہم تمہیں صرف معاشی خوشحالی عطانھیں کریں گے بلکہ تمہاری سیاسی قوت میں بھی اضافہ کردیں گے۔ اس کے جو جو اسباب بھی ضروری ہوتے ہیں سب بروئے کار آنا شروع ہوجائیں گے۔ ملک کی آبادی ذہنی یکسوئی میں مبتلا ہونے کے بعد اتفاق اور اتحاد کی دولت سے مالا مال ہوجائے گی۔ اس طرح سے قوم کو ایک ہمہ گیر ترقی و خوشحالی کا موقع ملے گا لیکن شرط یہ ہے کہ تم اللہ سے منہ موڑنے کی بجائے اس کے سامنے سر ڈال دو ۔
Top