Ruh-ul-Quran - Hud : 63
قَالَ یٰقَوْمِ اَرَءَیْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَ اٰتٰىنِیْ مِنْهُ رَحْمَةً فَمَنْ یَّنْصُرُنِیْ مِنَ اللّٰهِ اِنْ عَصَیْتُهٗ١۫ فَمَا تَزِیْدُوْنَنِیْ غَیْرَ تَخْسِیْرٍ
قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اَرَءَيْتُمْ : کیا دیکھتے ہو تم اِنْ كُنْتُ : اگر میں ہوں عَلٰي بَيِّنَةٍ : روشن دلیل پر مِّنْ رَّبِّيْ : اپنے رب سے وَاٰتٰىنِيْ : اور اس نے مجھے دی مِنْهُ : اپنی طرف سے رَحْمَةً : رحمت فَمَنْ : تو کون يَّنْصُرُنِيْ : میری مدد کریگا (بچائے گا) مِنَ اللّٰهِ : اللہ سے اِنْ : اگر عَصَيْتُهٗ : میں اس کی نافرمانی کروں فَمَا : تو نہیں تَزِيْدُوْنَنِيْ : تم میرے لیے بڑھاتے غَيْرَ : سوائے تَخْسِيْرٍ : نقصان
حضرت صالح (علیہ السلام) نے کہا اے میری قوم ! بھلا یہ تو بتائو اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک واضح دلیل پر ہوں اور اس نے اپنی جانب سے رحمت خاص سے بھی مجھے نوازا ہے تو اگر میں اس کی نافرمانی کروں تو اللہ کی پکڑ کے وقت کون میرا مددگار ہوگا۔ سو تم میری بربادی ہی میں اضافہ کروگے۔
قَالَ یٰقَوْمِ اَرَئَ یْتُمْ اِنْ کُنْتُ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَاٰتٰنِیْ مِنْہُ رَحْمَۃً فَمَنْ یَّنْصُرُنِیْ مِنَ اللّٰہِ اِنْ عَصَیْتُہٗ قف فَمَا تَزِیْدُوْنَنِیْ غَیْرَتَخْسِیْرٍ ۔ (سورۃ ہود : 63) (حضرت صالح (علیہ السلام) نے کہا اے میری قوم ! بھلا یہ تو بتائو اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک واضح دلیل پر ہوں اور اس نے اپنی جانب سے رحمت خاص سے بھی مجھے نوازا ہے تو اگر میں اس کی نافرمانی کروں تو اللہ کی پکڑ کے وقت کون میرا مددگار ہوگا۔ سو تم میری بربادی ہی میں اضافہ کروگے۔ ) حضرت صالح (علیہ السلام) کا جواب سوال کی صورت میں گزشتہ آیت کریمہ میں حضرت صالح (علیہ السلام) کے بارے میں قوم نے توقعات پورا نہ ہونے پر جس طرح تأسف کا اظہار کیا اس کے بعد حضرت صالح اور آپ کی قوم کے درمیان ایک کشمکش شروع ہوگئی۔ قوم کی یقینی خواہش ہوگی کہ حضرت صالح جس راستے پر چل نکلے ہیں وہ ان کی اپنی شخصیت اور قوم دونوں کے لیے تباہ کن ہے۔ ہمیں یہ کسی طرح گوارا نہیں کہ ہم اپنی قوم کے ایک ہونہار سپوت کو ضائع کردیں۔ اس لیے انھوں نے شروع میں تو آپ کو سمجھانے کی کوشش کی ہوگی، بڑوں نے آپ پر اپنا اثر ڈالا ہوگا، بڑی بوڑھیوں نے طعنے دیئے ہوں گے لیکن جب دیکھا کہ وہ کسی کی بھی بات سن کے نہیں دیتے تو پھر یقینا انھیں ڈرایا دھمکایا ہوگا، انھیں اونچ نیچ سمجھائی ہوگی اور ان کی روش کا انجام ان پر واضح کیا ہوگا۔ ان تمام باتوں پر حضرت صالح (علیہ السلام) نے نہایت سنجیدگی کے ساتھ ان کے سامنے ایک سوال رکھا کہ تم مجھے یہ بتائو کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے بینہ پر ہوں یعنی اللہ نے مجھے جس نور فطرت اور دل کی جس روشنی کے ساتھ پیدا فرمایا ہے اور میں نے آج تک اپنے اس پیدائشی نور کو بجھنے نہیں دیا وہ برابر مجھے وہ باتیں دکھاتا اور سمجھاتا ہے جو تمہاری نگاہوں نے اوجھل ہیں۔ بس یوں سمجھو، مجھے راز دو عالم دل کا آئینہ دکھاتا ہے وہی کہتا ہوں جو کچھ سامنے آنکھوں کے آتا ہے پھر اس وقت مزید اللہ کی بےپایاں رحمت یہ ہے کہ اللہ نے میرے دل پر وحی اتاری ہے، فرشتہ مجھ پر اس کا کلام لے کر اترتا ہے، میں اس فرشتے کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں، اس کے کلام کو اپنے کانوں سے سنتا ہوں۔ زندگی کے بیشتر حقائق اس طرح میرے سامنے کھولے جاتے ہیں جیسے وہ پیش پا افتادہ حقیقتیں ہیں۔ اس کے بعد تمہاری میرے ساتھ تکرار اور اپنی بات منوانے کے لیے میرے درپے آزار ہونا اور میرے انکار کی صورت میں خطرناک نتائج کی دھمکیاں دینا کیا معنی رکھتا ہے۔ اندھے اگر اکٹھے ہو کر آنکھوں والوں کو ڈرانے لگیں کہ تم چمکتے ہوئے سورج کو دیکھ کر بھی سورج کا انکار کرو، ورنہ ہم تمہارے ساتھ بدترین سلوک کریں گے تو کیا آنکھوں والوں کو اندھوں کی بات مان لینی چاہیے۔ ظاہر ہے کہ اس بات کو مانا نہیں جاسکتا۔ اسی طرح میری حیثیت تم میں چشم بینا رکھنے والے کی ہے اور تم اس اہم خصوصیت سے محروم ہو۔ اس کے باوجود تم دبائو کے ذریعے مجھ سے اپنی بات منوانا چاہتے ہو۔ روحانی، معنوی اور علمی زندگی میں بعض دفعہ ایسے مراحل آتے ہیں کہ ایک شخص یقین کے ساتھ ایک سچائی پر قائم ہے اور دوسرا گروہ جو اس سچائی کو سمجھنے سے قاصر ہے وہ اسے اپنے سامنے جھکانا چاہتا ہے۔ ایسی کشمکش تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف نتائج پیدا کرچکی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مشہور سائنس دان گلیلیو نے بھی جب اپنی سائنسی تحقیق کی بنیاد پر زمین کے بارے میں یہ دعویٰ کیا کہ وہ حرکت کرتی ہے تو کلیسا نے اسے عدالت میں طلب کرلیا۔ اس نے جب اپنی بات پر اصرار کیا تو اسے کہا گیا یہ زہر کا پیالہ تمہارے سامنے پڑا ہے اپنی تحقیق واپس لے لو یا زہر کا پیالہ پی لو۔ اس نے پہلے تو اپنی تحقیق واپس لے لی، جب عدالت سے باہر آیا تو پھر عدالت کی طرف پلٹ گیا اور جا کر جج کے سامنے کہنے لگا کہ میں کیا کروں، میں تو اب بھی زمین کو حرکت کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ اس لیے میں اس کا کیسے انکار کرسکتا ہوں، یہ کہہ کر اس نے زہر کا پیالہ پی لیا اور اپنی تحقیق پر جان دے دی۔ سائنسدانوں کے پاس یقین کی وہ قوت نہیں ہوتی، نہ ان کے پاس فطرت کا نور ہوتا ہے اور نہ وحی الٰہی کی روشنی۔ اس کے باوجود وہ اگر اپنی تحقیق پر جان دے سکتے ہیں تو پیغمبر کا معاملہ تو اس سے بہت بالا و اعلیٰ ہے۔ اس لیے یہ چبھتا ہوا سوال حضرت صالح نے اپنی قوم کے سامنے رکھا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ میں جانتے بوجھتے اگر اس صداقت کا انکار کردوں جس کی طرف میں تمہیں دعوت دے رہا ہوں تو یقیناً اس پر اللہ کی گرفت آئے گی۔ تو بتائو تم میں سے کون ہے جو مجھے اس کی گرفت سے بچا سکتا ہے۔ اس کی گرفت سے تو کوئی کسی کو نہیں بچا سکتا۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ تم میری بربادی اور ہلاکت میں اضافے کا سبب بن سکتے ہو۔ تم نے اگر اپنی تباہی کا فیصلہ کرلیا ہے تو میں تمہیں زبردستی تو نہیں روک سکتا لیکن تمہاری وجہ سے میں اللہ کی نافرمانی کا خطرہ بھی مول نہیں لے سکتا۔ کیونکہ اس سے بڑھ کر زندگی کے لیے تباہی اور کوئی نہیں۔
Top