Ruh-ul-Quran - An-Nahl : 93
وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ لٰكِنْ یُّضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ لَتُسْئَلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر شَآءَ اللّٰهُ : اللہ چاہتا لَجَعَلَكُمْ : تو البتہ بنا دیتا تمہیں اُمَّةً وَّاحِدَةً : ایک امت وَّلٰكِنْ : اور لیکن يُّضِلُّ : گمراہ کرتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جسے وہ چاہتا ہے وَ : اور يَهْدِيْ : ہدایت دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جس کو وہ چاہتا ہے وَلَتُسْئَلُنَّ : اور تم سے ضرور پوچھا جائیگا عَمَّا : اس کی بابت كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے تھے
(اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو وہ تم سب کو ایک ہی امت بنا دیتا، لیکن وہ جسے چاہتا ہے راہ بھلا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ راست دکھا دیتا ہے اور تم سے ضرور پوچھا جائے گا جو کام تم کرتے تھے۔
وَلَوْشَآئَ اللّٰہُ لَجَعَلَکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّلٰـکِنْ یُّضِلُّ مَنْ یَّشَآئُ وَیَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ ط وَلَتُسْئَلُنَّ عَمَّا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ۔ (سورۃ النحل : 93) (اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو وہ تم سب کو ایک ہی امت بنا دیتا، لیکن وہ جسے چاہتا ہے راہ بھلا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ راست دکھا دیتا ہے اور تم سے ضرور پوچھا جائے گا جو کام تم کرتے تھے۔ ) جس طرح باقی دنیا کی قومیں اپنی قومی برتری، قومی مفادات کے حصول یا سیاسی وسائل کی فراہمی کے لیے ہر طرح کے فریب ڈپلومیسی کے نام سے کرنا جائز سمجھتی ہیں بلکہ ان کا جو لیڈر غلط سے غلط طریقے سے اپنے ملک کے لیے مفادات کے راستے نکالتا ہے اس کی زیادہ تحسین ہوتی ہے۔ اسے نہایت دانشور اور دنیا کی نبضوں پر ہاتھ رکھنے والا سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح مسلمان بھی دوسری قوموں کی ریس میں بعض دفعہ ایسی خرابیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ البتہ ان کے سامنے مفادات یا وسائل کا حصول نہیں ہوتا، وہ اسلام کی سربلندی اور امت مسلمہ کی توانائی کے لیے بعض دفعہ غلط ذرائع بھی اختیار کرتے ہیں۔ آج ایک قوم سے معاہدہ کیا کل کو دیکھا یہ معاہدہ ہمیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔ خاموشی سے کسی دوسرے ملک سے بالکل اس کے برعکس کوئی سا معاہدہ کرنے سے دریغ نہیں کرتے جسے وہ مسلمانوں کے لیے زیادہ مفید سمجھتے ہیں۔ اور دلیل ان کی یہ ہوتی ہے کہ ہم جو کچھ کررہے ہیں اپنی ذات کے لیے تو نہیں کررہے، پیش نظر صرف اسلام اور مسلمانوں کا مفاد ہے۔ اس آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت یہ ہوتی کہ ساری دنیا میں صرف امت مسلمہ رہے اور وہی سربلند ہو چاہے اس کے لیے کیسے ہی غلط طریقے اختیار کرنا پڑیں تو پھر یہ کام تم پر چھوڑنے کی کیا ضرورت تھی، اللہ تعالیٰ خود یہ کام اپنی قدرت کاملہ سے انجام دے سکتے تھے اور ساری دنیا کی قوموں کے تشخصات کو توڑ کر ایک امت مسلمہ میں تبدیل کرسکتے تھے۔ لیکن یہ بات اللہ تعالیٰ کی مشیت کے خلاف ہے۔ اس نے زمین پر انسانوں کو بھیج کر ان کی عقل اور ان کی قوت تمیز کا امتحان لیا ہے۔ افراد اور قومیں اسی امتحان میں کامیابی یا ناکامی کے باعث گمراہ ہوتے یا ہدایت پاتے ہیں۔ اور اسی حوالے سے کل کو فیصلہ ہونے والا ہے۔ اور یہی وہ اصول ہے جس کے مطابق کل کو تم سے ضرور پوچھا جائے گا کہ تمہارا نامہ اعمال کیا ہے۔
Top