Ruh-ul-Quran - An-Nahl : 9
وَ عَلَى اللّٰهِ قَصْدُ السَّبِیْلِ وَ مِنْهَا جَآئِرٌ١ؕ وَ لَوْ شَآءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِیْنَ۠   ۧ
وَ : اور عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر قَصْدُ : سیدھی السَّبِيْلِ : راہ وَمِنْهَا : اور اس سے جَآئِرٌ : ٹیڑھی وَلَوْ شَآءَ : اور اگر وہ چاہے لَهَدٰىكُمْ : تو وہ تمہیں ہدایت دیتا اَجْمَعِيْنَ : سب
اور اللہ ہی کے ذمہ ہے سیدھا راستہ بتانا جبکہ راستے ٹیڑھے بھی موجود ہیں اگر وہ چاہتا تو سب کو ہدایت دے دیتا
وَعَلَی اللّٰہِ قَصْدُالسَّبِیْلِ وَمِنْھَا جَآئِرٌ ط وَلَوْشَآئَ لَھَدٰکُمْ اَجْمَعِیْنَ ۔ (سورۃ النحل : 9) (اور اللہ تعالیٰ ہی کے ذمہ ہے سیدھا راستہ بتانا جبکہ راستے ٹیڑھے بھی موجود ہیں اگر وہ چاہتا تو سب کو ہدایت دے دیتا۔ ) مزید ایک عظیم نعمت اور احسان کا ذکر قَصْدُکا معنی ہے سیدھا اور قَصْدُالسَّبِیْلِمیں صفت اپنے موصوف کی طرف مضاف ہوگئی ہے۔ اس کا معنی ہے سیدھا راستہ۔ اور جَآئِرٌ کا معنی ہے ٹیڑھا میڑھا۔ گزشتہ آیات کریمہ میں انسان کی تخلیق پھر اس کی عطا کی جانے والی صلاحیتوں اور پھر اس پر کیا جانے والا فیضانِ ربوبیت اور ہر دور میں اسے لاحق ہونے والی ضرورتوں کا مہیا کیا جانا یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر نہایت مہربان ہے۔ انسانوں کو زندگی گزارنے کے لیے جن صلاحیتوں کی ضرورت تھی اور زندگی کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے جن ذرائع کی حاجت تھی اس کی رحمت کا تقاضا ہوا کہ ان میں سے ایک ایک چیز انسان کو مہیا کی جائے۔ چناچہ یہاں ایک سوال پیدا ہوا کہ اگر انسان کو دل و دماغ اور جسم وہ عطا ہوا جو اس کی ضرورت کے مطابق تھا اور نعمتیں وہ دی گئیں جو اس کے جسم کا تقاضا تھیں اور اس طرح وہ سب کچھ عطا کیا گیا جو اس کے احساسات کی مانگ اور ضرورت تھی۔ تو یہ کیسے ممکن تھا کہ پروردگار اسے یہ نہ بتاتا کہ تیرے پروردگار نے تیری زندگی کا مقصد کیا رکھا ہے اور اپنے پروردگار تک پہنچنے کا راستہ کیا ہے۔ اس کی رضا کے حصول کے لیے تمہیں کیا کرنا چاہیے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ عقل کو غلط راستے پر ڈالنے کے لیے بہت سے اسباب موجود ہیں۔ ہدایت کے سیدھے راستے کو گم کرنے کے لیے بہت سے ٹیڑھے میڑھے راستے بھی پیدا کیے گئے ہیں۔ شیطانی قوتیں انسان کو بہکانے کے لیے ہر وقت کوشاں ہیں۔ تو اس کا تو لازمی تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ کوئی ایسا محفوظ راستہ انسانوں کے لیے مہیا کردیتا جس سے انسان آسانی سے صراط مستقیم پر چل سکتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے یہ بات بہت بعید تھی کہ وہ جسمانی ضرورتوں کو تو پورا کرے لیکن اخلاقی اور روحانی ضرورتوں کی طرف توجہ نہ دے۔ وہ فانی ضرورتوں کو تو سامنے رکھے لیکن اخروی ضرورتوں کو نظرانداز کردے۔ وہ زندگی کے اسباب کے لیے تو راستے کھولے لیکن اپنی ذات تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہ بتائے۔ اللہ تعالیٰ فرمایا ہے کہ یہ اس کی شان سے بہت بعید بات تھی۔ چناچہ اس کے اپنے ذمہ یہ لازم کرلیا کہ وہ سیدھا راستہ یعنی صراط مستقیم انسان کے لیے کھولے گا۔ وہ اپنے پیغمبر بھیج کر انسانوں کو بتائے گا کہ تمہاری زندگی کا مقصد کیا ہے اور اسے حاصل کرنے کے صحیح طریقے کیا ہیں۔ کوئی شخص اس کے جواب میں یہ کہہ سکتا ہے کہ کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ پیدائشی طور پر انسان کے اندر ایک دیپ جلا دیتا جس سے انسان کبھی بگاڑ کے راستے پر نہ پڑتا۔ اسے پیدائشی طور پر ہدایت یافتہ اور سیدھی راہ پر چلنے والا بنادیا جاتا۔ تو حق و باطل کی کشمکش جس میں کوئی کامیاب ہوتا ہے اور کوئی ناکام۔ انسان اس امتحان سے بچ جاتا لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ زمین پر انسان کو بھیجنا پھر اسے خلافت ارضی سے نوازنا، شیطانی قوتوں سے اسے باخبر کرنا اور اللہ تعالیٰ کے نبیوں کو بھیجنا اور آسمانوں سے کتابوں کا اتارنا اور اس طرح صراط مستقیم سے انسان کو باخبر کردینا تاکہ وہ اپنی عقل، فہم اور شعور سے صحیح فیصلہ کرنے کی کوشش کرے اور اس امتحان میں پورا اترے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے کھول دیا ہے کہ اگر اس نے وحی الٰہی کی رہنمائی کو قبول کیا اور اس کے مطابق زندگی گزاری تو اللہ تعالیٰ نجات عطا فرمائے گا۔ اور اگر ایسا نہ ہوا تو پھر جزاء و سزا کے قانون کے تحت وہ اپنی بداعمالیوں کے باعث سزا میں گرفتار ہوگا۔ یہ وہ سکیم ہے جو پروردگار نے انسان کو پیدا کرنے سے پہلے منظور فرمائی اور اسے نافذ کردیا۔ اور اگر سب کو ہدایت سے نواز دیا جاتا تو اللہ تعالیٰ کی یہ سکیم ناکام ہوجاتی۔
Top