Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 7
اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ١۫ وَ اِنْ اَسَاْتُمْ فَلَهَا١ؕ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ لِیَسُوْٓءٗا وُجُوْهَكُمْ وَ لِیَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوْهُ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ لِیُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِیْرًا
اِنْ : اگر اَحْسَنْتُمْ : تم نے بھلائی کی اَحْسَنْتُمْ : تم نے بھلائی کی لِاَنْفُسِكُمْ : اپنی جانوں کے لیے وَاِنْ : اور اگر اَسَاْتُمْ : تم نے برائی کی فَلَهَا : تو ان کے لیے فَاِذَا : پھر جب جَآءَ : آیا وَعْدُ الْاٰخِرَةِ : دوسرا وعدہ لِيَسُوْٓءٗا : کہ وہ بگاڑ دیں وُجُوْهَكُمْ : تمہاری چہرے وَلِيَدْخُلُوا : اور وہ گھس جائیں گے الْمَسْجِدَ : مسجد كَمَا : جیسے دَخَلُوْهُ : وہ گھسے اس میں اَوَّلَ مَرَّةٍ : پہلی بار وَّلِيُتَبِّرُوْا : اور برباد کر ڈالیں مَا عَلَوْا : جہاں غلبہ پائیں وہ تَتْبِيْرًا : پوری طرح برباد
اگر تم نے بھلائی کی تو وہ تمہارے اپنے ہی لیے بھلائی تھی، اور برائی کی تو وہ تمہاری اپنی ذات کے لیے برائی ثابت ہوئی، پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے دوسرے دشمنوں کو تم پر مسلط کردیا تاکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور مسجد (بیت المقدس) میں اسی طرح گھس جائیں جس طرح پہلے دشمن گھسے تھے اور جس چیز پر ان کا ہاتھ پڑے اسے تباہ کرکے رکھ دیں۔
عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یَّرْحَمَکُمْ ج وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا م وَجَعَلْنَا جَھَنَّمَ لِلْکٰفِرِیْنَ خَصِیْرًا۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 8) (ممکن ہے تمہارا رب تم پر رحم کرے لیکن اگر تم نے پھر اپنی سابق روش کا اعادہ کیا تو ہم بھی اپنی سزا کا اعادہ کریں گے اور کافرِنعمت لوگوں کے لیے ہم نے جہنم کو قیدخانہ بنا رکھا ہے۔ ) بنی اسرائیل کے لیے آخری موقعہ اس آیت کریمہ میں بنی اسرائیل سے مخاطب ہو کر پروردگار ارشاد فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی بعثت تمہارے لیے ایک آخری موقع ہے۔ اگر تم نے اس سے فائدہ اٹھایا تو عجب نہیں کہ اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے، لیکن اگر تم نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا یعنی اللہ تعالیٰ کے آخری رسول پر ایمان لانے کی سعادت حاصل نہ کی تو پھر اللہ تعالیٰ کا عذاب دوبارہ بھی حرکت میں آسکتا ہے۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہود کی ایک مختصر تعداد کے سوا اس موقع سے فائدہ اٹھانا تو دور کی بات ہے۔ انھوں نے اس کی دشمنی پر کمر باندھ لی اور یہ عہد کرلیا کہ ہم جیتے جی آنحضرت ﷺ کی بات چلنے نہیں دیں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب بھڑکا اور اس نے وارننگ کے مطابق انھیں اس طرح ازسرنو سزا دی کہ قبیلہ بنی قینقاع اور قبیلہ بنونضیر جلاوطن کیے گئے اور انھوں نے خیبر میں جا کر پناہ لی اور پھر نبی کریم ﷺ کی ہدایت کے مطابق انھیں خیبر سے بھی نکال دیا گیا اور حکم دیا گیا کہ جزیرہ عرب کے باہر جا کر پناہ ڈھونڈو۔ البتہ بنو قریظہ 5 ہجری تک مدینہ منورہ میں رہے لیکن پھر جنگ خندق میں انتہائی خطرناک عہد شکنی کے نتیجے میں قتل کیے گئے۔
Top