Ruh-ul-Quran - Al-Kahf : 103
قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًاؕ
قُلْ : فرمادیں هَلْ : کیا نُنَبِّئُكُمْ : ہم تمہیں بتلائیں بِالْاَخْسَرِيْنَ : بدترین گھاٹے میں اَعْمَالًا : اعمال کے لحاظ سے
اے پیغمبر ﷺ کہہ دیجیے ! کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال کے اعتبار سے سب سے زیادہ ناکام و نامراد
قُلْ ھَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالاً ۔ اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا۔ اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمْ وَلِقَـآئِہٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فَلاَ نُقِیْمُ لَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَزْنًا۔ (الکہف : 103 تا 105) (اے پیغمبر ﷺ کہہ دیجیے ! کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال کے اعتبار سے سب سے زیادہ ناکام و نامراد کون لوگ ہیں۔ وہ تمام لوگ کہ بھٹکی رہی جن کی تمام سعی دنیا کی زندگی میں اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ بہت اچھا کام کررہے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کیا، سو برباد گیا ان کا کیا ہوا تو ہم ان کے اعمال (تولنے) کے لیے کوئی ترازو نصب نہیں کریں گے۔ ) سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے دنیا میں ہر شخص اپنی جو ترجیحات مقرر کرچکا ہے اس کے مطابق وہ درجہ بدرجہ وقت صرف کرتا اور محنت کرتا ہے اور جس کام پر اس کی سب سے زیادہ توجہ رہتی ہے۔ اسی میں کامیابی کو حقیقی کامیابی سمجھتا ہے اور ناکامی کو حقیقی ناکامی گردانتا ہے۔ اس کی تمام تر خوشیاں اسی کامیابی سے وابستہ ہوتی ہیں اور اس کے تمام غم اسی ناکامی میں پنہاں ہوتے ہیں۔ دنیا کا ہر شخص اور دنیا کی ہر قوم اسی طلسم ہوشربا کا شکار ہے۔ اشرافِ مکہ بھی اسی فریبِ نظر کے اسیر تھے۔ وہ تمام غلط انسانوں کی طرح یہی سمجھتے تھے کہ انسانی ضروریات کا بہتر سے بہتر اور زیادہ سے زیادہ حصول انسان کا سب سے اہم مقصد ہے۔ وہ اسی لیے زندہ ہے کہ اس کی غذا دوسروں سے بہتر ہو، اس کا معاشرتی مقام دوسروں سے بلند ہو، اس کے مکان کے کنگرے سب سے اونچے ہوں، اس کے پاس دولت کی ریل پیل ہو، اس کے پاس سواریوں کی فراوانی ہو، اس کا قبیلہ سب سے بڑا ہو، اس کی ذات قوت و وجاہت کا پیکر سمجھی جائے۔ قطع نظر اس سے کہ اس کی اخلاقی حالت کیسی ہو۔ اس کے محلات بلند ہونے چاہئیں، چاہے وہ دوسروں کے کھنڈرات پر تعمیر ہوں، اس کی دولت بڑھنی چاہیے، چاہے اس میں اضافے کے لیے کیسے ہی غلط طریقے اختیار کیے جائیں۔ یوں کہنا چاہیے کہ اس کی پوری زندگی پر اس کا معدہ حکمران ہے۔ یہ ایک ایسا کعبہ ہے جس کا طواف کرتے ہوئے اس کی ساری زندگی گزر جاتی ہے۔ چند خواہشات ہیں جن کا حصول ایسا ہدف بن جاتا ہے کہ اس کے لیے انسانیت کی بھی قربانی دینا پڑے تو اس سے بھی دریغ نہیں ہوتا۔ اشرافِ قریش کی زندگی کا یہ ڈھب ہے جس پر انھیں ناز ہے۔ ان کی زندگی کے اس رویئے پر چوٹ لگاتے ہوئے قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ یہ اپنے جن کاموں پر فخر کرتے ہیں انھیں اندازہ نہیں کہ یہی ان کی زندگی کی سب سے بڑی ناکامیاں ہیں۔ آپ تصور کریں کہ ایک انسان زندگی بھر محنت کرکے ایک خوبصورت مکان بناتا ہے، پھر وہ شادی کرتا ہے، بچے پیدا ہوتے ہیں تو ان کی تعلیم، ان تعلیمی اداروں میں دلانے کی کوشش کرتا ہے جو زندگی کے حیوانی تصور پر سب سے زیادہ زور دیتے ہیں۔ ان کے پیش نظر صرف یہ ہے کہ ایسا نوجوان تیار کیا جائے جو فر فر انگریزی بولتا ہو، جو مغربی تہذیب کا دلدادہ ہو، جس کے آداب زندگی پر مغرب کی چھاپ لگی ہو۔ قطع نظر اس کے کہ انسانی رشتوں کو وہ کس نظر سے دیکھتا ہے۔ اس کے پیش نظر صرف یہ بات ہو کہ مجھے ایک ایسی زندگی گزارنی ہے جس میں لذت اور عزت دو سب سے بڑے معبود ہوں۔ میری اپنی ذات میرا مبدا و معاد ہو کہ میری سوچ کی ابتدا بھی اسی سے ہے اور انتہا بھی اسی پر، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایسی زندگی میں خواہشات کا حصول تو ہے چاہے اس کی کوئی سی قیمت ادا کرنی پڑے لیکن اس میں ایثار اور قربانی کا کوئی دخل نہیں۔ ایسا نوجوان جب تعلیم سے فارغ ہو کر گھر میں پہنچتا ہے تو وہ نہ اپنے ماں باپ کے حقوق کو پہچانتا ہے اور نہ ان کے احترام کو۔ وہ گھر کو صرف ایک شب باشی کی جگہ سمجھتا ہے یا زیادہ سے زیادہ ایک عارضی پڑائو۔ اس کے تقدس اور احترام سے اسے دور کا بھی تعارف نہیں۔ اس گھر میں دوسرے اہل قرابت کا آنا جانا اس کی طبیعت پر گراں گزرتا ہے اور ماں باپ کے حوالے سے جو رشتے اس کی ذات سے تعلق رکھتے ہیں وہ محض انھیں جہالت کا نتیجہ سمجھتا ہے۔ ہمسائیگی کے حقوق، انسانوں کا احترام، انسانی اقدار کی اہمیت، ملک و ملت کے حقوق، مذہب اور اس کے دیئے ہوئے عقائد یہ سب کچھ اس کے نزدیک وہ زنجیریں ہیں جنھیں توڑے بغیر آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔ ایسا نوجوان جب شادی کرے گا تو وہ ایک ایسا معاہدہ ہوگا جس کی کوئی اخلاقی قیمت نہیں بلکہ محض جنسی ضرورت ہے، جس میں وقت کے ساتھ ساتھ کمی بھی آتی ہے اور خیانت کے راستے بھی کھلتے ہیں۔ اگر اسے اللہ تعالیٰ نے اولاد دی تو وہ اپنی اولاد کو بھی انھیں راستوں پر چلائے گا۔ چناچہ اولاد بڑی ہو کر اسی کی طرح ہر اخلاق پابندی سے آزاد اور اللہ تعالیٰ اور رسول ﷺ سے بےنیاز ہوگی۔ یہ ایک عجیب گھر ہوگا جس میں باپ کے دل میں وہ شفقت نہیں ہوگی جو اللہ تعالیٰ سے تعلق کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ بچوں کے دل میں وہ احترام نہیں ہوگا جو مذہب پیدا کرتا ہے اور میاں بیوی کے تعلق اور نگاہوں میں وہ پاکیزگی نہیں ہوگی جو تقویٰ عطا کرتا ہے تو ایسا گھر ایک چھت ضرور مہیا کرسکتا ہے لیکن سکون مہیا نہیں کرسکتا۔ اولاد ماں باپ سے بیگانہ، ماں باپ اولاد سے شاکی، میاں بیوی دونوں ایک دوسرے سے بیزار۔ یہ گھر بظاہر خوشیاں جمع کرنے کے لیے بنایا گیا تھا لیکن نفرتوں، الجھنوں اور محرومیوں کا مخزن بن کر رہ جائے گا۔ اسی پر آپ باقی معاشرے اور ریاست کو قیاس کرلیجئے۔ ان افکار، ان خواہشات اور ان اہداف کو آپ کیا کریں گے جس کے نتیجہ میں ایک گھر بھی وجود میں نہیں آسکتا۔ اور ایسے گھروں سے جو معاشرہ بنتا ہے اس میں سوائے جرائم اور نفرتیں پلنے کے اور کسی چیز کی توقع نہیں ہوسکتی۔ اس لیے قرآن کریم نے کہا کہ جو لوگ خدا بیزار زندگی گزارتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے احکام سے فرار میں کامیابی سمجھتے ہیں، انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ بظاہر دنیا میں کیسے بھی اعمال بروئے کار لائیں اس کے نتیجے میں جو فصل تیار ہوگی وہ کانٹے بکھیرنے کے سوا کچھ نہیں کرسکتی۔ غلط فہمی تیسری آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے کہ اس طرح کی زندگی گزارنے والے لوگ دراصل وہ لوگ ہیں کہ جنھیں غلط فہمی یہ ہے کہ ہم دنیا میں خودبخود پیدا ہوگئے ہیں۔ نہ اس کائنات کا کوئی بنانے والا ہے اور نہ ہمیں کسی نے پیدا کیا ہے۔ خدا کا تصور محض جہالت کا نتیجہ ہے یا محض اس لیے اختیار کیا گیا ہے کہ اس کے سوا تخلیقِ کائنات کی گتھی کو سلجھانے کی اور کوئی صورت سمجھ میں نہیں آتی۔ انھیں اس بات سے شدید انکار ہے کہ ایک روز اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضری بھی ہوگی یعنی قیامت آئے گی کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اسے قبول کرلینے سے زندگی کی وہ آزادیاں ختم ہوجاتی ہیں جو حیوانوں کی طرح من مرضی کی زندگی گزارنے کی اجازت دیتی ہیں اور اگر کچھ لوگ خدا کا اقرار کرتے بھی ہیں تو محض یہ سمجھ کر کہ اس کا اقرار کرنا ہماری ایک ضرورت ہے لیکن اس بات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں کہ وہی ہمارا آقا، ہمارا معبود اور ہمارا اِلٰہ بھی ہے جس نے زندگی گزارنے کے لیے ہمیں ایک شریعت دے رکھی ہے اور اس کے احکام کے ہم پابند ہیں۔ دونوں صورتوں کا نتیجہ ایک ہی رہتا ہے کہ ایسی زندگیاں اللہ تعالیٰ کی شریعت سے آزاد رہتی ہیں۔ وہ جو کچھ کرتے ہیں اپنی مرضی سے اور اپنی ترجیحات کے مطابق کرتے ہیں۔ بظاہر وہ دنیا میں بڑے بڑے کارنامے بھی انجام دیتے ہیں۔ محلات بناتے ہیں، یونیورسٹیاں تعمیر کرتے ہیں، لائبریریاں، کارخانے، سڑکیں، ریلیں، مختلف صنعتیں اور علوم و فنون کا جال بچھا دیتے ہیں اور پھر ان پر فخر بھی کرتے ہیں، لیکن چونکہ ان کی تعمیر میں ایک خرابی کی صورت مضمر ہے۔ اس لیے یہ سب کچھ انسان کو اس کے دکھوں میں اضافہ کے سوا اور کچھ نہیں دیتے۔ آخر ایک دن ایسا آئے گا جب یہ سب کچھ تباہ کردیا جائے گا اور انسان کا کیا دھرا سب اکارت ہو کر رہ جائے گا اور وہ لوگ جو اپنے کارناموں پر فخر کرتے تھے اور اپنی عظمتوں کے گن گاتے تھے، وہ قیامت کے دن اس حال میں آئیں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کے کسی کام کو وزن دینے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ اور دوسرا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انھیں اس قابل بھی نہیں سمجھا جائے گا کہ ان کے اعمال کو تولنے کے لیے ترازو نصب کیا جائے۔ صحیح بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہ ( رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے روز ایک آدمی قدآور اور فربہ آئے گا جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مچھر کے برابر بھی وزن دار نہ ہوگا۔ اور حضرت ابوسعید خدری ( رض) فرماتے ہیں کہ قیامت کے روز ایسے ایسے اعمال لائے جائیں گے جو جسامت کے اعتبار سے تہامہ کے پہاڑوں کے برابر ہوں گے، مگر میزانِ عدل میں ان کا کوئی وزن نہ ہوگا۔
Top