Ruh-ul-Quran - Al-Kahf : 83
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ١ؕ قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَیْكُمْ مِّنْهُ ذِكْرًاؕ
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں عَنْ : سے (بابت) ذِي الْقَرْنَيْنِ : ذوالقرنین قُلْ : فرمادیں سَاَتْلُوْا : ابھی پڑھتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر۔ سامنے مِّنْهُ : اس سے۔ کا ذِكْرًا : کچھ حال
(وہ آپ ﷺ سے ذو القرنین کے متعلق سوال کرتے ہیں، آپ ﷺ کہہ دیجیے میں ابھی تمہارے سامنے اس کا حال بیان کروں گا۔
وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ ط قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَیْکُمْ مِّنْہُ ذِکْرًا۔ (الکہف : 83) (وہ آپ ﷺ سے ذو القرنین کے متعلق سوال کرتے ہیں، آپ ﷺ کہہ دیجیے میں ابھی تمہارے سامنے اس کا حال بیان کروں گا۔ ) یہود کی انگیخت پر قریش کا سوال ہم اس سے پہلے پڑھ چکے ہیں کہ قریش نے یہود کی انگیخت پر آنحضرت ﷺ سے کچھ سوالات کیے تھے، وہ سوالات ایسے تھے جن کا عرب دنیا سے دور دور تک کوئی تعلق نہ تھا۔ یہود نے قریش کی معرفت یہ چاہا تھا کہ چونکہ ان سوالات کا جواب محمد ﷺ دے نہیں پائیں گے تو قریش کو یقین ہوجائے گا کہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے نبی نہیں کیونکہ وہ پہلے ہی آپ ﷺ پر ایمان لانے میں متردد ہیں۔ اس سے ان کا تردد یقینی انکار میں بدل جائے گا۔ اس طرح سے آنحضرت ﷺ کی دعوت اپنا اثر کھو بیٹھے گی۔ آپ ﷺ نے نہ صرف ان کے سوالوں کو سنا بلکہ ان کے ایک ایک سوال کا جواب دیا۔ یہ آخری سوال ہے جس کا نہایت حتمی انداز میں قرآن کریم نے جواب دینے کا آغاز فرمایا ہے اور قرآن چونکہ آپ ﷺ کی زبان سے ادا ہوتا تھا تو یوں کہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنحضرت ﷺ قریش کے سامنے یہ واقعہ بیان فرما رہے ہیں۔ ذوالقرنین کون ہے ؟ اس واقعہ کا مرکزی کردار چونکہ ذو القرنین ہے۔ اس لیے سب سے پہلے ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ ذوالقرنین کون تھے ؟ ہمارے مفسرین نے ان کے شخصی تعین میں اختلاف کیا ہے۔ قرآن کریم نے تاریخی اور شخصی لحاظ سے ان کا تعین نہیں فرمایا اور یہود نے بھی قریش کے واسطے سے اس تعین پر اصرار نہیں کیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف اسے جانتے تھے بلکہ جس طرح ہم واقعہ معراج کے تاریخی حقائق کے ضمن میں یہ بات پڑھ چکے ہیں کہ ایک بادشاہ نے بخت نصر کے مظالم سے یہود کو نجات دی تھی۔ دوبارہ انھیں یروشلم میں آباد ہونے کی اجازت دی تھی، پھر اسی کی اجازت سے ہیکل سلیمانی ازسرنو تعمیر ہوا تھا اور حضرت عزیر (علیہ السلام) کی پیغمبرانہ کاوش سے ازسرنو تورات کو مدوّن کیا گیا تھا۔ وہ اس بادشاہ کو سائرس کے نام سے جانتے اور اس کو اپنا محسن سمجھتے تھے۔ قرآن کریم نے جب اس کی علامتیں بیان کردیں اور تاریخی کارناموں کی طرف اشارے کردیئے تو وہ اس سے مطمئن ہوگئے اور مزید سوال کرنے کی ہمت نہ کرسکے۔ ہمارے گمان میں یہود کو تو اس بارے میں کوئی شبہ نہ تھا لیکن مؤرخین نے اور انھیں کے زیراثر بعض مفسرین نے ذوالقرنین کے مصداق کے حوالے سے مختلف حکمرانوں کے نام دیئے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ سکندر رومی ہے۔ حالانکہ قرآن کریم کی صراحتوں کو دیکھتے ہوئے سکندر کا تو وہم بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ قرآن کریم ذوالقرنین کے حوالے سے جس حکمران کا ذکر کررہا ہے وہ سچا مومن، عادل اور رعایا پرور ہے۔ اور سکندر میں تو ایسی کوئی بات نہیں پائی جاتی۔ وہ یونان کا باشندہ تھا اور باقی اہل یونان کی طرح وہ بھی بت پرست تھا۔ اور جہاں تک عدل اور رعایا پروری کا تعلق ہے اس کا اندازہ تو اس سے ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے معصوم سوتیلے بھائی کا قاتل تھا اور بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ اپنے باپ کے قتل میں بھی وہ شریک تھا اور رعایا پر اس کے مظالم کی داستانیں تو کوئی چھپی ہوئی باتیں نہیں ہیں۔ اس لیے اسے ذوالقرنین قرار دینا تو بہت بڑی جسارت ہے۔ اور مزید یہ بات بھی کہ سکندر کی فتوحات کا دائرہ اتنا وسیع نہیں تھا جتنا وسیع قرآن نے ذوالقرنین کی فتوحات کا بیان کیا ہے۔ اور پھر یہ بات بھی ہے کہ تاریخ سے کہیں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اسے ذوالقرنین کے نام سے یاد کیا جاتا ہو۔ بعض لوگوں نے ذوالقرنین سے دارا مراد لیا ہے اور اس کی بعض مشرقی اور مغربی مہمات کو دلیل کے طور پر پیش کیا حالانکہ اس راہ میں اس کی حیثیت پیشرو کی نہیں بلکہ وہ درحقیقت سائرس کی ہی قائم کردہ ریاست کو مستحکم کرنے والا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی تحقیق ذوالقرنین کے حوالے سے جس عظیم حکمران کی طرف تاریخ واضح اشارہ کرتی ہے وہ کیخسرو ہے جسے خورس یا سائرس بھی کہا جاتا ہے۔ اس پر ہم کچھ کہنے کی بجائے مولانا ابوالکلام آزاد کی تحقیق، ان کی تفسیر ترجمان القرآن سے بحوالہ ضیاء القرآن نقل کررہے ہیں۔ وہ اس سلسلے میں رقم طراز ہیں کہ پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ کیا قدیم کتابوں میں ذوالقرنین کا لفظ کہیں استعمال ہوا ہے اور اگر ہوا ہے تو ان کے نزدیک اس سے مراد کون ہے۔ پھر یہ دیکھنا ہے کہ اس ذوالقرنین میں وہ صفات پائی جاتی ہیں جو قرآن کریم نے ذکر کی ہیں اور کیا وہ کارنامے اس سے صادر ہوئے جنھیں قرآن نے اس کی طرف منسوب کیا ہے جیسے کہ آپ پڑھ چکے ہیں۔ یہ سوال یہود کی طرف سے اہل مکہ کو سکھایا گیا تھا کہ وہ حضور ﷺ سے پوچھیں کہ ذوالقرنین کون ہے ؟ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ شخص یہود کے نزدیک اس لقب سے معروف تھا۔ اس کے متعلق ہمیں حضرت دانیال (علیہ السلام) کی کتاب کے آٹھویں باب میں یہ آیتیں ملتی ہیں۔ حضرت دانیال (علیہ السلام) اپنا خواب بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں : ” تب میں نے آنکھ اٹھا کر نظر کی تو کیا دیکھتا ہوں کہ دریا کے پاس ایک مینڈھا کھڑا ہے جس کے دو سینگ ہیں۔ اسی باب کی بیسویں آیت میں اس کی تعبیر ان الفاظ میں کرتے ہیں : جو مینڈھا میں نے دیکھا اس کے دونوں سینگ مادی (میڈیا) اور فارس کے بادشاہ ہیں اور وہ جسیم بکرا یونان کا بادشاہ ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مادی (میڈیا) اور فارس کی مملکتوں کو دو سینگوں سے تشبیہ دی گئی ہے اور ان دونوں کے فرمانروا کو مینڈھے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ یہ اس زمانہ کا ذکر ہے جب بخت نصر نے ہیکل کو برباد کیا تھا۔ بیت المقدس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی اور بنی اسرائیل کو قیدی بنا کر بابل لے آیا تھا اور ان کی جمعیت ختم کرنے کے لیے بھیڑبکریوں کی طرح انھیں لوگوں میں تقسیم کردیا تھا۔ حضرت دانیال (علیہ السلام) نبی بھی اسیروں میں تھے۔ آپ ( علیہ السلام) کو خواب میں بنی اسرائیل کی رہائی کی خوشخبری دی گئی تھی کہ دو سینگوں والا مینڈھا کھڑا ہے۔ چناچہ کچھ عرصہ بعد سائرس (SERUS) فارس کا حکمران بنا اور اس نے کچھ عرصہ بعد میڈیا کو فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کرلیا اور اسی کے حکم سے بنی اسرائیل کو آزادی نصیب ہوئی اور اسی کی کوشش اور حکم سے ہیکل کی دوبارہ تعمیر ہوئی۔ جس طرح سورة بنی اسرائیل میں گزر چکا ہے۔ مولانا لکھتے ہیں کہ پہلے تو یہ صرف گمان تھا کہ اس خواب کی وجہ سے یہود سائرس کو ذوالقرنین (سینگوں والا) کے لقب سے ذکر کرتے ہیں لیکن 1938 ء کے ایک انکشاف نے اس قیاس کو ایک تاریخی حقیقت ثابت کردیا اور معلوم ہوگیا کہ فی الحقیقت شہنشاہ سائرس کا لقب ذوالقرنین تھا اور یہ محض یہودیوں کا کوئی مذہبی تخیل نہ تھا بلکہ خود سائرس کا اور باشندگانِ فارس کا مجوزہ اور پسندیدہ نام تھا۔ یہ سائرس کی ایک سنگی تمثال ہے جو اصطخر کے کھنڈروں میں دستیاب ہوئی۔ اس میں سائرس کے دونوں طرف عقاب کے پر بھی ہیں اور سر پر مینڈھے کی طرح دو سینگ ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ میڈیا اور فارس کا شہنشاہ ہونے کے باعث سائرس ذوالقرنین کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ اور ہوسکتا ہے کہ حضرت دانیال (علیہ السلام) کے خواب سے ہی سائرس کو یہ لقب اختیار کرنے کا خیال پیدا ہوا ہو کیونکہ فارس کے بادشاہوں کو بنی اسرائیل کے انبیاء سے بڑی عقیدت تھی۔ سائرس نے بابل کو فتح کیا تو بنی اسرائیل کی اسیری اور جلاوطنی کے دن ختم ہوئے اور اس نے ان کو فلسطین واپس جانے اور ہیکل کو ازسرنو تعمیر کرنے کی اجازت دی اور ہیکل کے سونے چاندی کے جو برتن بخت نصر لوٹ کر لایا تھا اور انھیں اپنے خزانے کی زینت بنایا تھا سائرس نے حکم دیا کہ وہ بھی بنی اسرائیل کو واپس دیئے جائیں اور پہلے کی طرح ہیکل میں داخل کیے جائیں۔ سائرس کا بچپن بڑی گمنامی کی حالت میں گزرا۔ جنگلوں اور پہاڑوں میں سارا وقت بسر ہوا۔ قدرت نے گوشہ گمنامی سے اٹھایا اور فارس کا تاجدار بنادیا۔ تھوڑے عرصہ میں ہی اس نے سب سے بڑی اور مضبوط حکومت میڈیا کو مغلوب کرلیا۔ بابل کو اپنی قلمرو میں داخل کرلیا جس سے اس کی شہرت بام عروج پر پہنچی اور اس کی عظمت سے دل تھرانے لگے۔ یہ ہی وہ چیز ہے جسے قرآن نے انامکنا لہ فی الارض کے جامع الفاظ سے بیان فرمایا۔ تین مہمات اب ہمیں دیکھنا ہے کہ ذوالقرنین کی جن تین مہموں کا قرآن نے ذکر کیا ہے کیا ان کی رہنمائی سائرس نے کی۔ اس کی ایک مہم مغرب الشمس کی طرف، دوسری مطلع الشمس کی طرف، تیسری ایک ایسے مقام کی طرف جہاں کوئی وحشی قوم آباد تھی اور یاجوج و ماجوج آکر لوٹ مار مچایا کرتے تھے۔ سائرس کے مؤرخین بتاتے ہیں کہ جب اس نے میڈیا کو فتح کرکے اپنی سابقہ مملکت فارس کے ساتھ ملایا تو اس کے فوراً بعد ایشیائے کو چک کی ایک ریاست جو لیڈیا کے نام سے مشہور تھی اس کے بادشاہ کرویسس نے اس پر حملہ کردیا اور صلح کے ان تمام ان معاہدات کو بالائے طاق رکھ دیا جو کرویسس اور سائرس کے باپ کے درمیان ہوئے تھے۔ سائرس مقابلہ پر مجبور ہوگیا اور اپنے حریف کو جنگ میں شرمناک شکست دی اور لیڈیا کی ساری حکومت پر قابض ہوگیا۔ اب تمام ایشیائے کو چک بحر شام سے لے کر بحر اسود تک اس کے زیرنگین تھا۔ وہ برابر بڑھتا گیا۔ یہاں تک کہ مغربی ساحل پر پہنچ گیا۔ اس نے فارس سے لے کر لیڈیا تک چودہ سو میل کا فاصلہ طے کرلیا لیکن سمندر نے اس کی پیش قدمی روک دی۔ اس نے بصد حسرت نگاہ اٹھا کر دیکھا تو حدِنظر تک پانی ہی پانی تھا اور سورج اس کی لہروں میں ڈوب رہا تھا۔ ایشیائے کو چک کا مغربی ساحل چھوٹی چھوٹی خلیجوں کا مجموعہ ہے اور سمندر کم گہرا ہونے کی وجہ سے پانی گدلا ہے۔ اسی کو قرآن نے ان الفاظ سے بیان فرمایا وجدھام تغرب فی عین حمئۃ اگرچہ سورج تو اپنے آسمانی مدار میں متحرک رہتا ہے اور کہیں ڈوبتا نہیں لیکن سمندر کے کنارے کھڑے ہو کر غروب آفتاب کا نظارہ کرنے والے کو کیا یہ دکھائی نہیں دیتا کہ سورج آہستہ آہستہ پانی کی گہرائیوں میں غوطہ لگانے کے لیے نیچے اتر رہا ہے۔ جس قوم سے سائرس کو وہاں واسطہ پڑا تھا وہ قوم تھی جنھوں نے کرویسس کی سر کردگی میں اس پر حملہ کیا تھا اور اس کا تاج و تخت چھیننے کی کوشش کی تھی۔ وہ لوگ اس کے قبضہ میں تھے جس طرح چاہتا ان کے ساتھ برتائو کرسکتا تھا لیکن سائرس کے مؤرخین یک زبان ہو کر کہتے ہیں کہ اس نے قطعاً کسی پر زیادتی نہیں کی بلکہ اس نے اپنی حملہ آور فوج کو تاکیدی حکم دیا تھا کہ دشمن کے سپاہی کے سوا کسی پر ہاتھ نہ اٹھانا اور اگر وہ بھی نیزہ جھکا دے تو اس سے بھی تعرض نہ کرنا۔ قرآن کے بیان سے بھی مؤرخین کے اس بیان کی تصدیق ہوتی ہے واما من امن لہ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ خود مومن تھا اور نیک اعمال کا قدردان تھا۔ اس کی دوسری مہم مشرق کی جانب تھی جبکہ مملکت کے مشرقی اطراف میں بعض خانہ بدوش قبائل نے فتنہ و فساد کی آگ بھڑکا دی تو اس کو فروکر نے کے لیے اسے مشرق کا رخ کرنا پڑا اور وہ بلخ اور باختر کے قبائل کی سرکوبی کے لیے بڑھا۔ سب کو مطیع بنایا۔ آگے پہاڑوں کا طویل اور انچا سلسلہ تھا۔ اس کے باعث آگے بڑھنے کے لیے کوئی راستہ نہ تھا۔ لم نجعل لھم من دونھم سترا سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ باغی قبیلہ صحرا نورد تھا۔ قلعوں اور محلات کا تو ذکر ہی کیا وہاں کوئی باقاعدہ بستی ہی نہ تھی جہاں مکانات تعمیر کیے جاتے اور ان میں رہائش کی جاتی۔ کبھی درختوں کے کسی جھنڈ کی آڑ میں وقت بسر کرلیا۔ کبھی کوئی معمولی سا خیمہ تان لیا۔ دھوپ وغیرہ سے بچنے کے لیے ان کے پاس کوئی معقول انتظام نہ تھا۔ تیسری مہم : اس مہم کے متعلق قرآن نے بتایا کہ ذوالقرنین دو پہاڑوں کے درمیانی درہ تک پہنچا تو وہاں اسے ایک قوم ملی جو ان کی بولی سمجھنے سے قاصر تھی۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سدین سے مقصود کا کیشیا کا پہاڑی درہ ہے۔ اس کے داہنی طرف بحر خزر ہے جس نے شمال اور مشرق کی راہ روکی ہوئی ہے۔ بائیں جانب بحر اسود ہے جو شمال مغرب کے لیے قدرتی رکاوٹ ہے۔ درمیانی علاقہ میں اس کا سربفلک سلسلہ کوہ ایک قدرتی دیوار کام دے رہا ہے۔ اس درمیانی درے کے علاوہ شمالی قبائل کے لیے ادھر آنے کا کوئی راستہ نہیں تھا اور یقینا یہیں سے یاجوج و ماجوج آکر ان پر حملہ کرتے اور ان کے علاقہ کو تاخت و تاراج کیا کرتے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں دو پہاڑوں کے درمیان ایک سد (بند) تعمیر کرکے ان کا راستہ بند کردیا گیا۔ جو لوگ اس علاقہ میں آباد تھے اور آئے دن یاجوج ماجوج کے حملوں سے ان کا امن برباد ہوتا رہتا تھا انھوں نے ہی سائرس سے التجا کی ہوگی کہ وہ انھیں اس بلائے بےدرماں سے نجات دلائے۔ قرآن کریم کی تصریحات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ صرف مومن ہی نہ تھا بلکہ بڑا فیاض اور رعایا کا ہمدرد اور خیرخواہ بادشاہ بھی تھا۔ ہمیں اس کے ایمان کے متعلق مطمئن ہونے کے لیے کسی بڑی کدو کاوش کی ضرورت نہیں بلکہ انبیاء بنی اسرائیل کی پیشگوئیاں ہی اس امر کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ وہ مومن تھا۔ حضرت دانیال (علیہ السلام) کی پیشگوئی تو آپ پڑھ آئے ہیں اب حضرت یسعیاہ (علیہ السلام) نبی کی پیشگوئی سنئے۔ جو خورس (سائرس) کے حق میں کہتا ہوں کہ وہ میرا چرواہا ہے اور میری مرضی بالکل پوری کرے گا اور یروشلم کی بابت کہتا ہوں کہ وہ تعمیر کیا جائے گا اور ہیکل کی بابت کہ اس کی بنیاد ڈالی جائے گی۔ (یسعیاہ باب 44: آیت 48) اسی کتاب کے باب 45 کی پہلی آیت بھی ملاحظہ فرمایئے : خداوند اپنے ممسوح خورس کے حق میں یوں فرماتا ہے کہ میں نے اس کا داہنا ہاتھ پکڑا کہ امتوں کو اس کے سامنے زیر کروں اور بادشاہوں کی کمریں کھلوا ڈالوں اور دروازوں کو اس کے لیے کھول دوں اور پھاٹک بند نہ کیے جائیں گے۔ یاجوج ماجوج کون تھے ؟ یاجوج اور ماجوج کا ذکر قرآن کریم میں دو بار آیا ہے۔ ایک یہاں اور دوسرا سورة الانبیاء میں۔ یورپ کی زبانوں میں انھیں (GOG AND MAGOG) کہا جاتا ہے۔ یہ کون سی قوم تھی، تمام تاریخی قرآئن متفقہ طور پر شہادت دیتے ہیں کہ اس سے مقصود صرف ایک ہی قوم ہوسکتی ہے یعنی شمال مشرقی میدانوں کے وہ وحشی اور طاقتور قبائل جن کے مشرقی حملوں کی روک تھام کے لیے چین کے شہنشاہ شین ہوانگ ٹی کو وہ عظیم الشان دیوار بنانی پڑی جو پندرہ سو میل تک چلی گئی ہے اور جو دیوارچین کے نام سے مشہور ہے۔ اس کی تعمیر 214 ق۔ م میں شروع ہوئی اور دس برس میں ختم ہوئی۔ اس نے شمال اور مغرب کی طرف منگولین قبائل کے حملوں کی تمام راہیں مسدود کردیں۔ اس لیے ان کے حملوں کا رخ پھر وسط ایشیا کی طرف مڑ گیا۔ انھیں کے حملوں کو روکنے کے لیے سائرس نے سد تعمیر کی۔ شمال مشرق کے اس علاقہ کا بڑا حصہ اب منگولیا کہلاتا ہے لیکن چینی ذرائع سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا اصلی قدیم نام ” موگ “ ہے جو چھ سو برس ق۔ م یونانیوں میں میگ اور میگاگ پکارا جاتا تھا اور یہی لفظ عبرانی میں ماجوج ہوگیا۔ سدِّذوالقرنین کا محل وقوع آخر میں ہمیں یہ تحقیق کرنا ہے کہ سائرس نے جو سد تعمیر کی تھی اس کا محل وقوع کہاں ہے۔ بحر خزر کے مغربی ساحل پر ایک قدیم شہر دربند آبا ہے۔ یہ ٹھیک اس مقام پر واقع ہے جہاں کا کیشیا کا سلسلہ کوہ ختم ہوتا ہے اور بحر خزر سے مل جاتا ہے۔ یہاں ایک دیوار ہے جس کا طول پچاس میل اور اونچائی انتیس فٹ اور موٹائی دس فٹ ہے۔ (انسائیکلوپیڈیا) اس مقام سے مغرب کی طرف درہ دانیال جو دو بلند پہاڑیوں سے گھرا ہوا ہے یہاں بھی قدیم زمانے سے ایک دیوار ہے اور اسے آہنی دروازہ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے خیال کے مطابق آخری دیوار وہ ہے جو قرآن میں مذکور ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم (یہ تفصیلات بیشتر مولانا ابوالکلام آزاد کی تفسیر ترجمان القرآن سے ماخوذ ہیں) آخری پیرے میں اگرچہ سد ذوالقرنین کی کافی وضاحت آچکی ہے تاہم مزید توضیح و تسہیل کے لیے صاحب تفہیم القرآن کا مندرجہ ذیل نوٹ بھی ملاحظہ کرلینا فائدے سے خالی نہیں ہوگا۔ سد سے متعلق مزید وضاحت ذوالقرنین کی تعمیر کردہ دیوار کے متعلق بعض لوگوں میں یہ غلط خیال پایا جاتا ہے کہ اس سے مراد مشہور دیوارِچین ہے حالانکہ دراصل یہ دیوار قفقاز (Caucasus) کے علاقہ داغستان میں دربند اور داریال (Darial) کے درمیان بنائی گئی تھی۔ قفقاز اس ملک کو کہتے ہیں جو بحیرہ اسود (Black Sea) اور بحیرہ خزر (Caspian) کے درمیان واقع ہے۔ اس ملک میں بحیرہ اسود سے داریال تک تو نہایت بلند پہاڑ ہیں اور ان کے درمیان اتنے تنگ درے ہیں کہ ان سے کوئی بڑی حملہ آور فوج نہیں گزر سکتی۔ البتہ دربند اور داریال کے درمیان جو علاقہ ہے اس میں پہاڑ بھی زیادہ بلند نہیں ہیں اور ان میں کوہستانی راستے بھی خاصے وسیع ہیں۔ قدیم زمانے میں شمال کی وحشی قومیں اسی طرف سے جنوب کی طرف غارت گرا نہ حملے کرتی تھیں اور ایرانی فرمانروائوں کو اسی طرف سے اپنی مملکت پر شمالی حملوں کا خطرہ لاحق رہتا تھا۔ انہی حملوں کو روکنے کے لیے ایک نہایت مضبوط دیوار بنائی گئی تھی جو 50 میل لمبی 290 فیٹ بلند اور 10 فیٹ چوڑی تھی۔ ابھی تک تاریخی طور پر یہ تحقیق نہیں ہوسکا ہے کہ یہ دیوار ابتداً کب اور کس نے بنائی تھی۔ مگر مسلمان مؤرخین اور جغرافیہ نویس اسی کو سدذوالقرنین قرار دیتے ہیں اور اس کی تعمیر کی جو کیفیت قرآن مجید میں بیان کی گئی ہے اس کے آثار اب بھی وہاں پائے جاتے ہیں۔ ابن جریر طبری اور ابن کثیر نے اپنی تاریخوں میں یہ واقعہ لکھا ہے اور یاقوت نے بھی معجم البلدان میں اس کا حوالہ دیا ہے کہ حضرت عمر ( رض) نے آذربائیجان کی فتح کے بعد 22 ہجری میں سراقہ بن عمرو کو باب الابواب (دربند) کی مہم پر روانہ کیا اور سراقہ نے عبدالرحمن بن ربیعہ کو اپنے مقدمۃ الجیش کا افسر بنا کر آگے بھیجا۔ عبدالرحمن جب ارمینیہ کے علاقے میں داخل ہوئے تو وہاں کے فرمانروا شہربراز نے جنگ کے بغیر اطاعت قبول کرلی۔ اس کے بعد انھوں نے باب الابواب کی طرف پیش قدمی کا ارادہ کیا۔ اس موقع پر شہر براز نے ان سے کہا کہ میں نے اپنے ایک آدمی کو سد ذوالقرنین کا مشاہدہ اور اس علاقے کے حالات کا مطالعہ کرنے کے لیے بھیجا تھا، وہ آپ کو تفصیلات سے آگاہ کرسکتا ہے۔ چناچہ اس نے عبدالرحمن کے سامنے اس شخص کو پیش کردیا۔ (طبری، ج 3، ص 235 تا 239 البدایۃ والنہایہ ج 7، ص 122 تا 125۔ معجم البلدان، ذکر باب الابواب) اس واقعہ کے دو سو برس بعد عباسی خلیفہ واثق (227۔ 233 ہجری) نے سد ذوالقرنین کا مشاہدہ کرنے کے لیے سلام الترجمان کی قیادت میں 50 آدمیوں کی ایک مہم روانہ کی جس کے حالات یاقوت نے معجم البلدان میں اور ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں خاصی تفصیل کے ساتھ بیان کیے ہیں۔ ان کا بیان ہے کہ یہ وفد سامرہ (سُرَّمَنْ رَأیٰ ) سے تفلیس، وہاں سے السریر، وہاں سے علی الاعلان ہوتا ہوا فیلان شاہ کے علاقے میں پہنچا، پھر خزر کے ملک میں داخل ہوا اور اس کے بعد دربند پہنچ کر اس نے سد کا مشاہدہ کیا۔ (البدایہ والنہایہ ج 2، ص 111۔ ج 7، ص 122 تا 125۔ معجم البلدان، باب الابواب) اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ تیسری صدی ہجری میں بھی مسلمان عام طور پر قفقاز کی اس دیوار ہی کو سدذوالقرنین سمجھتے تھے۔ یاقوت نے معجم البلدان میں متعدد دوسرے مقامات پر بھی اسی امر کی تصریح کی ہے۔ خزر کے زیرعنوان وہ لکھتا ہے کہ ہی بلادالترک خلف باب الابواب المعروف بالدربند قریب من سد ذی القرنین ” یہ ترکوں کا علاقہ ہے جو سدذوالقرنین کے قریب باب الابواب کے پیچھے واقع ہے جسے دربند بھی کہتے ہیں۔ “ اسی سلسلہ میں وہ خلیفہ المقتدر باللہ کے سفیر احمد بن فضلان کی ایک رپورٹ نقل کرتا ہے جس میں مملکت خزر کی تفصیلی کیفیت بیان کی گئی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ خزر ایک مملکت کا نام ہے جس کا صدر مقام اتل ہے۔ دریائے اتل اس شہر کے درمیان سے گزرتا ہے اور یہ دریا روس اور بلغار سے آکر بحر خزر میں گرتا ہے۔ باب الابواب کے زیرعنوان لکھتا ہے کہ اس کو الباب اور دربند بھی کہتے ہیں۔ یہ بحر خزر کے کنارے واقع ہے۔ بلادکفر سے بلاد مسلمین کی طرف آنے والوں کے لیے یہ راستہ انتہائی دشوار گزار ہے۔ ایک زمانہ میں یہ نوشیروان کی مملکت میں شامل تھا اور شاہان ایران اس سرحد کی حفاظت کو غایت درجہ اہمیت دیتے تھے۔
Top