Ruh-ul-Quran - Al-Kahf : 84
اِنَّا مَكَّنَّا لَهٗ فِی الْاَرْضِ وَ اٰتَیْنٰهُ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ سَبَبًاۙ
اِنَّا مَكَّنَّا : بیشک ہم نے قدرت دی لَهٗ : اس کو فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَاٰتَيْنٰهُ : اور ہم نے اسے دیا مِنْ : سے كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے سَبَبًا : سامان
ہم نے اس کو زمین میں بڑا اقتدار بخشا تھا اور ہم نے اسے ہر چیز (تک رسائی حاصل کرنے) کا سازوسامان دیا تھا
اِنَّا مَکَّـنَّا لَـہٗ فِی الْاَرْضِ وَاٰتَیْنٰـہُ مِنْ کُلِّ شَیْ ئٍ سَبَبًا۔ فَاَتْبَعَ سَبَبًا (الکہف : 84، 85) (ہم نے اس کو زمین میں بڑا اقتدار بخشا تھا اور ہم نے اسے ہر چیز (تک رسائی حاصل کرنے) کا سازوسامان دیا تھا۔ پس وہ درپے ہوا اسباب و وسائل کے۔ ) سَبَبْ …کا معنی تفسیر مظہری کے مطابق مَایُوْصَلُ اِلَیْہِ مِنَ الْعِلْمِ وَالْقُدْرَۃِ وَالْآلاَتِاور کبھی یہ لفظ راستہ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ ذوالقرنین پر اللہ تعالیٰ کے احسانات کا ذکر اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین پر اپنے احسانات کا ذکر فرمایا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس طرح ایک معمولی حیثیت سے اٹھا اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس وقت کی معلوم دنیا کا سب سے بڑا حکمران بن گیا۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ذوالقرنین جسے کیخسرو کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کا اصل نام کو رش تھا۔ یہ چھٹی صدی قبل مسیح کے وسط میں اپنے والد کمبوچیہ کی چھوٹی سی ریاست انشان کا والی مقرر ہوا۔ اپنی طبعی ذہانت اور بیدار مغزی سے حالات کا جائزہ لیا۔ سرحدوں کی حفاظت کے لیے جو بن پڑا اس میں کوتاہی نہیں کی۔ پڑوس کے حکمرانوں نے اس ابھرتی ہوئی طاقت سے خوف محسوس کیا۔ چناچہ مادہ کے حکمران نے اس پر حملہ کردیا۔ اس نے نہایت مستعدی سے حملہ آور کا مقابلہ کیا اور فتح پائی۔ یہ فتح اس کی آئندہ فتوحات کے لیے تمہید ثابت ہوئی۔ چناچہ آہستہ آہستہ اس نے چند ہی سالوں میں تمام بڑی ریاستوں کو زیر کرلیا اور بلخ اور مکران سے لے کر بحیرہ روم تک اس کی حکمرانی کا پھریرا لہرانے لگا۔ اس دور میں اور اس سے پہلے بھی اس سے زیادہ وسیع اور پر شکوہ سلطنت کوئی اور قائم نہیں ہوئی۔ فَاَتْبَعَ سَبَبًا…” پس وہ درپے ہوا اسباب و وسائل کے۔ “ اتباع کا مفہوم اتبع، اتباع اس کا مصدر ہے۔ اس کا معنی ہوتا ہے، تعاقب کرنا، درپے ہونا اور پیچھے لگنا۔ اَتْبَعَ سَبَبًا کا مفہوم یہ ہوگا کہ وہ فتوحات کے لیے اسباب و وسائل کی فراہمی میں لگ گیا۔ اور یا اس کا یہ مفہوم ہے کہ اس نے اپنے پاس وسائل و ذرائع کا جائزہ لیا اور اس کا اہتمام کیا۔ پھر یہیں سے ترقی کرکے یہ محاورے کے طور پر استعمال ہونے لگا اور اسے کسی مہم کی تیاری کے معنی میں بولا جانے لگا۔ یہاں یہ تمام معانی مراد ہوسکتے ہیں کہ اس نے ارادہ کرلیا کہ جہاں تک میرے وسائل اجازت دیں افرادی قوت اور جنگی استعداد جہاں تک ساتھ دے سکے میں فتوحات کا پھریرا لہراتا ہوا آگے بڑھتا جاؤں۔ اور اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو تمام ممالک کو مسخر کرلوں۔ چناچہ اس نے مغرب، مشرق اور شمال کی طرف باری باری مہمات کا آغاز کیا۔
Top