Ruh-ul-Quran - Maryam : 60
اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاُولٰٓئِكَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ شَیْئًاۙ
اِلَّا : مگر مَنْ : جو۔ جس تَابَ : توبہ کی وَاٰمَنَ : وہ ایمان لایا وَعَمِلَ : اور عمل کیے صَالِحًا : نیک فَاُولٰٓئِكَ : پس یہی لوگ يَدْخُلُوْنَ : وہ داخل ہوں گے الْجَنَّةَ : جنت وَلَا يُظْلَمُوْنَ : اور ان کا نہ نقصان کیا جائیگا شَيْئًا : کچھ۔ ذرا
مگر جس نے توبہ کی اور ایمان اور عمل صالح کی روش اختیار کی، یہی لوگ ہیں جو جائیں گے جنت میں، اور ان کی ذرا بھی حق تلفی نہ ہوگی۔
اِلاَّ مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاُوْلٰٓئِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ وَلاَ یُظْلَمُوْنَ شَیْئًا۔ جَنّٰتِ عَدْنِ نِ الَّتِیْ وَعَدَالرَّحْمٰنُ عِبَادَہٗ بِالْغَیْبِ ط اِنَّـہٗ کَانَ وَعْدُہٗ مَاْتِیًّا۔ (مگر جس نے توبہ کی اور ایمان اور عمل صالح کی روش اختیار کی، یہی لوگ ہیں جو جائیں گے جنت میں، اور ان کی ذرا بھی حق تلفی نہ ہوگی۔ ہمیشگی کے باغ جن کا خدائے رحمن نے اپنے بندوں سے عالم غیب میں وعدہ کر رکھا ہے، بیشک اس کا وعدہ پورا ہو کے رہے گا۔ ) (مریم : 60، 61) جنت میں جانے کا ذریعہ ایمان و عمل ہے کفر، شرک اور اتباع شہوات کا نتیجہ تو یہ ہوگا کہ قیامت کے دن ایسے لوگ جہنم کی اس وادی میں پھینکے جائیں گے جسے غَیٌّ کا نام دیا گیا ہے اور یا یوں کہہ لیجئے کہ وہ اپنی گمراہی کے انجام کو پہنچیں گے، یعنی جس طرح کی گمراہی میں جس حد تک وہ آلودہ ہوں گے، ویسا ہی ان کو سخت عذاب دیا جائے گا۔ ہاں اگر کوئی شخص یا کوئی قوم یا انسانوں کا کوئی گروہ گمراہی اور گمراہی کے انجام سے بچنا چاہتا ہے تو اس کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے آخری رسول پر ایمان لائے اور ان تمام صداقتوں کی تصدیق کرے جنھیں ایمانیات کہا جاتا ہے اور پھر شریعت کے تمام احکام پر شریعت کے سکھائے ہوئے آداب کے مطابق عمل کرے۔ اور اپنے دل کو خشوع و خضوع سے آباد رکھے، تو ایسے لوگوں کے بارے میں یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ ان کا حسب و نسب کیا ہے۔ یا وہ کس طرح کی مالی حیثیت اور معاشرتی سٹیٹس رکھتے ہیں بلکہ ان کا ایمان و عمل صالح اللہ تعالیٰ کے یہاں سرخروئی کے لیے کافی ہوگا۔ آخرت میں چلنے والا سکہ ایمان و عمل کے سوا کچھ نہیں۔ وہاں وہ چیز جو انسان کی قدر و قیمت کا تعین کرتی ہے وہ ایمان اور عمل صالح ہے۔ ایک کالا کلوٹا مومن جو اعمالِ صالحہ کا خزانہ رکھتا ہے، وہ اس گورے چٹے خاندانی نجابت کے حامل شخص سے ہزار درجہ بہتر ہے جو ایمان اور عمل صالح میں اس سے فروتر ہے۔ اس لیے پیش نظر آیت کریمہ میں فرمایا گیا کہ جس نے توبہ کی یعنی جو کفر اور شرک اور بدعملی سے ایمان و اطاعت کی طرف لوٹ آیا ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور وہاں ایسا نہیں ہوگا کہ جو کسی کا حق بنتا ہو اسے وہ حق نہ دیا جائے یا حق سے کم دیا جائے۔ دنیا میں دونوں طرح کی زیادتیاں ہوتی ہیں۔ حقدار کو حق نہیں ملتا یا جتنا ملنا چاہیے اس میں کمی کردی جاتی ہے۔ اہل جنت کے ساتھ ایسا نہیں ہوگا۔ وہاں چونکہ حسب و نسب کا سکہ نہیں چلے گا بلکہ ایمان و عمل کی بات چلے گی۔ اس لیے جیسا کوئی ایمان و عمل صالح کا سرمایہ لے کر جائے گا اسے ویسے ہی اجر اور صلہ سے نوازا جائے گا۔ ایمان و عمل کے حامل لوگوں کو کس طرح کی جنت دی جائے گی، اس کا حقیقی علم تو اللہ تعالیٰ کو ہے، لیکن قرآن کریم نے جابجا اس کا ایک مرقع پیش کیا ہے اور ہر جگہ یہ بات تکرار کے ساتھ فرمائی گئی ہے کہ جنت میں باغات ہوں گے اور وہ بھی ہمیشہ رہنے والے باغات، جن پر کبھی خزاں کا سایہ نہیں پڑے گا، جن پر موسم اثرانداز نہیں ہوں گے، سدابہار باغات اور ہمیشہ لطف و لذت سے معمور اور عجیب بات یہ ہے کہ اہل ایمان نے ہمیشہ اسی جنت کی طلب میں جانیں دی ہیں اور دنیا کی دلفریبیوں سے منہ پھیرا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کی قدرافزائی کے طور پر فرمایا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے جنت دینے کا وعدہ فرمایا، ایسے حال میں کہ یہ جنت سے غیب میں ہیں یعنی جنت کو دیکھ نہیں سکتے، محض اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ کے بتانے پر یقین رکھتے ہیں اور اس وعدہ کو مزید موکد کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ وعدہ ضرور پورا ہوگا اور اس موعود تک اللہ تعالیٰ کے تمام حقدار بندوں کی یقینا رسائی ہوگی۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہمیں وعدہ فردا سے بہلایا جارہا ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں۔
Top