Ruh-ul-Quran - Maryam : 73
وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا١ۙ اَیُّ الْفَرِیْقَیْنِ خَیْرٌ مَّقَامًا وَّ اَحْسَنُ نَدِیًّا
وَاِذَا : اور جب تُتْلٰى : پڑھی جاتی ہیں عَلَيْهِمْ : ان پر اٰيٰتُنَا : ہماری آیتیں بَيِّنٰتٍ : واضح قَالَ : کہتے ہیں الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا لِلَّذِيْنَ : ان سے جو اٰمَنُوْٓا : وہ ایمان لائے اَيُّ : کون سا الْفَرِيْقَيْنِ : دونوں فریق خَيْرٌ مَّقَامًا : بہتر مقام وَّاَحْسَنُ : اور اچھی نَدِيًّا : مجلس
جب ان پر ہماری آیات وضاحت سے تلاوت کی جاتی ہیں تو جن لوگوں نے کفر کیا وہ ایمان والوں سے سوال کرتے ہیں کہ فریقین میں سے کس کی رہائش گاہ آرام دہ ہے اور کس کی نشست گاہ خوبصورت ہے۔
وَاِذَا تُتْلٰی عَلَیْھِمْ اٰیٰـتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا لا اَیُّ الْفَرِیْقَیْنِ خَیْرٌمَّقَامًا وَّ اَحْسَنُ نَدِیًّا۔ (مریم : 73) ( جب ان پر ہماری آیات وضاحت سے تلاوت کی جاتی ہیں تو جن لوگوں نے کفر کیا وہ ایمان والوں سے سوال کرتے ہیں کہ فریقین میں سے کس کی رہائش گاہ آرام دہ ہے اور کس کی نشست گاہ خوبصورت ہے۔ ) مقام اور ندی کا مفہوم ” مقام “ اور ” ندی “ کا ہم نے ترجمہ رہائش گاہ اور نشست گاہ کیا ہے۔ قرطبی نے اسی کو علامہ جوہری سے روایت کیا ہے، لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ” مقام “ مرتبہ کے معنی میں اور ” ندی “ سوسائٹی پر بھی بولا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے ان کے معنی میں عموم پایا جاتا ہے۔ کفار کی مغرورانہ ذہنیت اس آیت کریمہ میں قیامت اور آخرت کا انکار کرنے والوں کی ذہنیت کو اجاگر کیا جارہا ہے یعنی ان کا انکار صرف عقلی استبعاد کی وجہ سے نہیں بلکہ اصل سبب اس کا یہ ہے کہ ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ ہم دنیا میں جس طرح عیش و آرام اور ٹھاٹ باٹ کی زندگی گزار رہے ہیں اور ہمیں معاشرے میں عزت کا جو مقام حاصل ہے اور جس طرح ہمارے دروازوں پر ضر ورت مندوں کا ہجوم رہتا ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ لوگ ہیں۔ کیونکہ یہ دنیا اس کی دنیا ہے، وہ یہ کیسے پسند کرسکتا ہے کہ اپنے ناپسندیدہ لوگوں کو دنیوی مال و دولت اور آرام و راحت سے نوازے۔ اور جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ ہم واقعی اس کی نگاہوں میں پسندیدہ ہیں تو اس سے خودبخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر واقعی قیامت کا ظہور ہو ہی گیا تو وہاں بھی ہم اسی مقام و مرتبہ کے مالک سمجھے جائیں گے کیونکہ یہ بات سراسر نامعقول ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں جن کو محبوب رکھتا تھا انھیں آخرت میں عذاب کی نذر کردے۔ اسی طرح وہ مسلمانوں کے بارے میں اس کے مفہوم ِمخالف سے استدلال کرتے تھے کہ تم جو اپنے آپ کو جنت کا وارث سمجھتے ہو اور خود کو اللہ تعالیٰ کا محبوب گردانتے ہو، تمہیں نہ کوئی دنیا کا آرام میسر ہے نہ معاشرے میں تمہیں عزت کا مقام حاصل ہے، تم بےنوائوں اور بےکسوں کا ایسا ٹولہ ہو جن کی اللہ تعالیٰ کے یہاں کوئی قدر و قیمت نہیں۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ قیامت میں بھی تمہیں کوئی مقام و مرتبہ حاصل نہیں ہوگا۔ جس طرح یہاں تم ذلت کی زندگی گزار رہے ہو، وہاں بھی تمہیں ایسی ہی صورتحال سے واسطہ پڑے گا۔ مشرکینِ مکہ دو مغالطوں کا شکار تھے۔ ایک تو یہ کہ آخرت دنیوی زندگی کا عکس ہے۔ جو شخص یہاں جس حالت میں ہے قیامت میں بھی اسی حالت میں ہوگا اور دوسرا مغالطہ یہ تھا کہ ظاہری مال و دولت، خدم و حشم اور ریاست و حکومت یہ اللہ تعالیٰ کے تقرب کی علامتیں ہیں۔ اشرافِ مکہ اس طرح کے دلائل کا سہارا لے کر مسلمانوں سے کہتے تھے کہ تم خود موازنہ کرکے دیکھو کہ تم اور ہم دو فریق ہیں، دونوں میں سے بہتر حالت میں کون ہے، بس جنت کو بھی اسی کا عکس سمجھو، اگر تم واقعی جنت میں جانا چاہتے ہو تو ہماری پیروی کرو تاکہ ہماری طرح دنیا میں بھی عیش کرو اور آخرت میں بھی تمہیں عیش کی زندگی ملے۔ لیکن تم بجائے اس بات کو سمجھنے کے ہمیں دعوت دیتے ہو کہ ہم تمہاری زندگی جیسی زندگی اختیار کرلیں، تو اس سے بڑھ کر حماقت اور کیا ہوگی کہ ہم اپنی دنیا بھی گنوا لیں اور آخرت میں بھی عذاب بھگتیں۔ قرآن کریم نے جابجا ان دونوں مغالطوں کا رد فرمایا ہے۔ اس کے نزدیک یہ کوئی بڑی بات نہیں کہ یہاں کے گدا، وہاں منعم بنا دیئے جائیں اور یہاں کے حکمران اور دولت مند وہاں جہنم کی پست ترین وادیوں میں پھینک دیئے جائیں، کیونکہ اس کے نزدیک قدر و قیمت، مال و دولت اور مقام و مرتبہ کی نہیں بلکہ ایمان اور حُسنِ عمل کی ہے۔ وہاں نسب و حسب نہیں، کردار کو اہمیت ملے گی۔ فراعنہ اور نماردہ ذلت کی وادیوں میں ہوں گے اور حضرت بلال اور حضرت خباب ؓ جیسے عزت کے تحت پر براجمان ہوں گے۔
Top