Ruh-ul-Quran - Maryam : 87
لَا یَمْلِكُوْنَ الشَّفَاعَةَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَهْدًاۘ
لَا يَمْلِكُوْنَ : وہ اختیار نہیں رکھتے الشَّفَاعَةَ : شفاعت اِلَّا : سوائے مَنِ اتَّخَذَ : جس نے لیا ہو عِنْدَ الرَّحْمٰنِ : رحمن کے پاس عَهْدًا : اقرار
لوگ شفاعت و سفارش کا اختیار نہیں رکھتے مگر جس نے لے لیا ہے رحمن سے وعدہ۔
لاَ یَمْلِکُوْنَ الشَّفَاعَۃَ اِلاَّ مَنِ اتَّخَذَعِنْدَالرَّحْمٰنِ عَھْدًا۔ (مریم : 78) (لوگ شفاعت و سفارش کا اختیار نہیں رکھتے مگر جس نے لے لیا ہے رحمن سے وعدہ۔ ) عَھْدًا کا مفہوم قیامت کے دن کفار اور مشرکین جب جہنم کی طرف ہانکے جارہے ہوں گے اور کوئی ان کا پرسانِ حال نہیں ہوگا تو وہ شدید تمنا کریں گے کہ کاش آج ہمیں کوئی بچانے والا ہوتا۔ وہ جن فرشتوں اور جنات کو اس لیے پکارتے رہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کرتے رہے کہ وہ قیامت کے دن ان کی سفارش کریں گے، وہ دیکھیں گے آج ان کی کوئی سفارش کرنے کی جرأت نہیں کررہا، کیونکہ آج اگر کسی کے حق میں شفاعت ہوسکتی ہے تو وہ، وہ شخص ہے جس نے رحمن سے کوئی عہد لے لیا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی سفارش کی جرأت کرسکتا ہے تو وہ بھی وہ شخص ہے جس نے اللہ تعالیٰ سے عہد لے لیا ہے۔ کیونکہ اتَّخَذ کے لفظ میں یہ دونوں مفہوم شامل ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ کون شخص ہے جس نے اللہ تعالیٰ سے عہد لیا ہے۔ اس کے بارے میں امام ابن جریر نے کہا کہ عہد سے مراد اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا، اس کے رسول کی تصدیق کرنا اور رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے پاس سے جو کچھ لے کر آئے ہیں، اس کا اقرار کرنا اور جو کچھ آپ ﷺ نے حکم دیا، اس پر عمل کرنا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود ( رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے صحابہ ( رض) سے یہ بیان کرتے ہوئے سنا، کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات سے عاجز ہے کہ وہ ہر صبح اور شام اللہ تعالیٰ سے عہد لے۔ صحابہ ( رض) نے پوچھا، یارسول اللہ ﷺ وہ کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا وہ ہر صبح و شام کو یہ کہے ” اے اللہ ! آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والے، غیب اور شہادت کو جاننے والے، میں تیری طرف اس دنیا کی زندگی میں یہ عہد کرتا ہوں کہ میں یہ شہادت دوں گا کہ تیرے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے، تو واحد ہے اور تیرا کوئی شریک نہیں اور بیشک محمد ﷺ تیرے بندے اور تیرے رسول ہیں۔ تو مجھے میرے نفس کی طرف نہ سونپ دینا، کیونکہ اگر تو نے مجھے میرے نفس کی طرف سونپ دیا تو وہ مجھے خیر سے دور اور شر کے قریب کر دے گا اور میں تیری رحمت کے سوا اور کسی چیز پر اعتماد نہیں کرتا۔ تو میرے لیے اپنے پاس عہد کرلے جس کو تو قیامت کے دن پورا کرے گا، بیشک تو وعدہ کے خلاف نہیں کرتا۔ “ پس جب وہ یہ کلمات پڑھ لے گا تو اللہ تعالیٰ ان کلمات پر مہر لگا کر ان کو عرش کے نیچے رکھ دے گا اور جب قیامت کا دن ہوگا تو ایک منادی یہ ندا کرے گا، کہاں ہیں وہ لوگ جن کا اللہ تعالیٰ کے پاس عہد ہے۔ پھر وہ لوگ کھڑے ہوجائیں گے اور جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث 8917، المستدرک رقم الحدیث 3418) شفاعت کا مفہوم شفاعت سے متعلق قرآن و سنت سے ہمیں جو رہنمائی ملتی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ شفاعت کا مقام انبیائے کرام، شہدائے عظام، اولیائے امت اور چھوٹی عمر میں انتقال کرجانے والے اور نیک لوگوں کو نصیب ہوگا۔ شفاعتِ کبریٰ پر صرف نبی کریم ﷺ فائز ہوں گے۔ شفاعت کے لیے کوئی شخص بھی پیش قدمی نہیں کرسکے گا، صرف وہ شخص شفاعت کرے گا جسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت ملے گی۔ اسی طرح شفاعت ان کے لیے کی جائے گی جن کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت عنایت ہوگی۔ قرآن و سنت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شفاعت کی اجازت ان لوگوں کے لیے دی جائے گی جنھوں نے زندگی ایمان کے ساتھ اور شرعی احکام کے مطابق گزاری ہوگی۔ اس کے باوجود ان سے جو کو تاہیاں رہ جائیں گی اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل و کرم سے ان کی بخشش کے لیے اپنے بندوں میں سے کسی کو شفاعت کی اجازت مرحمت فرمائیں گے۔ رہے وہ لوگ جو محض اس لیے شریعت کے احکام کو پامال کرتے اور بدعملی کو اپنا رویہ بنا لیتے ہیں کہ قیامت کے دن ہمیں رسول اللہ ﷺ یا اولیائے کرام کی شفاعت میسر آئے گی اور ہم ان تمام کمزوریوں کی سزا سے بچ جائیں گے۔ فرائض اور حقوق کی بازپرس ساقط ہوجائے گی اور محض شفاعت کے باعث ہمیں جنت میں بھیج دیا جائے گا اور کبھی یہ سہارا انھیں اللہ تعالیٰ سے بغاوت پر اکساتا اور جرأ ت دیتا ہے۔ ایسے لوگ یقینا کسی بھی اللہ تعالیٰ کے نیک بندے کی شفاعت کی عزت نہیں پاسکیں گے۔
Top