Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 125
وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًا١ؕ وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى١ؕ وَ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَهِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَ الْعٰكِفِیْنَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوْدِ
وَاِذْ : اور جب جَعَلْنَا : ہم نے بنایا الْبَيْتَ : خانہ کعبہ مَثَابَةً : اجتماع کی جگہ لِلنَّاسِ : لوگوں کے لئے وَاَمْنًا : اور امن کی جگہ وَاتَّخِذُوْا : اور تم بناؤ مِنْ : سے مَقَامِ : مقام اِبْرَاهِيمَ : ابراہیم مُصَلًّى : نماز کی جگہ وَعَهِدْنَا : اور ہم نے حکم دیا اِلٰى : کو اِبْرَاهِيمَ : ابراہیم وَاِسْمَاعِيلَ : اور اسماعیل اَنْ طَهِّرَا : کہ پاک رکھیں بَيْتِيَ : وہ میرا گھر لِلطَّائِفِينَ : طواف کرنے والوں کیلئے وَالْعَاكِفِينَ : اور اعتکاف کرنے والے وَالرُّکَعِ : اور رکوع کرنے والے السُّجُوْدِ : اور سجدہ کرنے والے
اور یاد کرو ! جب کہ ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لیے مرکز اور امن کی جگہ بنایا اور حکم دیا کہ مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنالو اور ابراہیم اور اسمعیل کو ذمہ دار بنایا کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔
وَاِذْ جَعَلْنَاالْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًاط وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰاہٖمَ مُصَلًّیط وَعَھِدْنَآاِلٰٓی اِبْرٰاھِیْمَ وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَھِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّـآئِفِیْنَ وَالْعٰـکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ ۔ (اور یاد کرو ! جب کہ ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لیے مرکز اور امن کی جگہ بنایا اور حکم دیا کہ مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنالو اور ابراہیم اور اسماعیل کو ذمہ دار بنایا کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو) (البقرۃ : 125) البیت کا مفہوم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی امامت کا ذکر کرنے کے بعد یہ بتایا جارہا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جو قبلہ بنایا آپ کی اولاد بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل دونوں کے لیے اسے قبلہ ٹھہرایا گیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جس گھر کی تعمیر کی قرآن کریم نے اسے البیت سے تعبیر کیا ہے جس سے مراد ” بیت اللہ “ یعنی ” خانہ کعبہ “ ہے۔ تورات کی کتاب پیدائش باب بارہ میں اس کو ” بیت ایل “ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ایل عبرانی میں ” اللہ “ کو کہتے ہیں تو ” بیت ایل “ کا ترجمہ ہوگا ” بیت اللہ “۔ قرآن کریم نے اس گھر کو سب سے قدیم گھر قراردیا ہے۔ اس لیے اسے البیت العتیق سے تعبیر فرمایا مسیحیت کو کعبہ کی تقدیس و برکت کے ساتھ ساتھ کعبہ کی قدامت بھی نہائت گراں گزرتی ہے، لیکن ان کے لیے مشکل یہ ہے کہ آج تک وہ انکار کی کوئی ایسی دلیل پیش نہ کرسکے جوقابلِ تسلیم ہوتی بلکہ انیسیویں صدی عیسوی کے ربع آخر میں انگریز مصنف باسورتھ سمتھ کو لکھنا پڑا : ” یہ وہ معبد ہے جس کی قدامت عہد تاریخ سے پرے ہے۔ “ (محمڈ اینڈ محمڈن ازم : صفحہ 166) پھر آگے مشہور وقدیم رومی مورخ ڈایوڈگورس سکولس جس کا زمانہ خود حضرت مسیح سے ایک صدی قبل کا ہے کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس وقت بھی یہ معبد قدیم ترین تھا اور ساری نسل عرب کا نہائت مقدس مرجع تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ بیت اللہ کا قدیم ہونا اور سب کا قبلہ ہونا یہ خود تورات کے مطالعہ سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ تورات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہود کو شروع ہی سے یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ اپنی قربانیوں کا قبلہ مکہ معظمہ کی سمت کو قرار دیں۔ اسی طرح جس قربانی کا نام ان کے ہاں قدس الاقدس ہے، اس کا رخ جنوب کی طرف ہونا ضروری تھا۔ سالانہ قربانی جو ان کے ہاں سب سے بڑی قربانی خیال کی جاتی تھی اس کا رخ بھی جانب جنوب ہی ہوتا۔ ان کے خیمہ عبادت کا رخ بھی جانب جنوب ہی ہوتا تھا۔ بیت المقدس کی تعمیر بھی اس طرح ہوئی تھی کہ اس کا رخ جنوب کی جانب تھا اور یہ بات یاد رہے کہ بیت المقدس سے مکہ معظمہ جنوب کی جانب ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جس طرح ہم خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے نمازیں پڑھتے ہیں اسی طرح ابراہیم (علیہ السلام) کی تمام ذریت کی عبادت و قربانی کا قبلہ بھی خانہ کعبہ ہی تھا۔ اسی رخ پر ان کا خیمہ عبادت بھی تھا اور جیسا کہ عرض کیا گیا ہے اسی رخ پر بیت المقدس کی تعمیر ہوئی تھی۔ یہود کی تحریفات پر تنقید یہود نے حضرت ابراہیم کا تعلق خانہ کعبہ سے توڑنے کے لیے عجیب و غریب تحریفات سے کام لیا ہے۔ انھوں نے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی کہ حضرت ابراہیم نے جس بیٹے کی قربانی کی وہ حضرت اسمعیل نہیں بلکہ حضرت اسحاق ہیں اور جس جگہ قربانی کی وہ جبل یروشلم ہے نہ کہ مروہ اور اللہ کی عبادت کے لیے انھوں نے جو گھر بنایا وہ بیت المقدس ہے نہ کہ بیت اللہ اور حضرت ابراہیم نے ہجرت کے بعد جس جگہ سکونت اختیار کی وہ جوار بیت اللہ نہیں وہ کنعان ہے۔ اور ان باتوں کو ثابت کرنے کے لیے حقائق کی وہ قطع وبرید کی کہ الآمان والحفیظ۔ مولانا حمید الدین فراہی کو اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے، انھوں نے اپنے رسالہ مَن ھُوَالذَّبِیْح میں ان تحریفات کا پردہ چاک کرکے رکھ دیا اور تورات ہی کے بیانات سے یہ ثابت کیا کہ حضرت ابراہیم نے اپنے وطن سے نکلنے کے بعد حضرت اسحاق کی والدہ کو تو کنعان میں چھوڑا اور خود حضرت اسماعیل اور ان کی والدہ کے ساتھ بیرسبع کے بیابان میں قیام کیا۔ یہ جگہ غیرآباد جگہ تھی۔ اس وجہ سے انھوں نے سات کنویں کھودے اور درخت لگائے۔ یہیں ان کو خواب میں اکلوتے بیٹے کی قربانی کا حکم صادر ہوا اور وہ حضرت اسماعیل کو لے کر مروہٰ کی پہاڑی کے پاس آئے اور اس حکم کی تعمیل کی۔ اسی پہاڑی کے پاس انھوں نے حضرت اسماعیل کو آباد کیا۔ پھر یہاں سے لوٹ کر وہ بیرسبع گئے اور اپنے قیام کے لیے ایسی جگہ منتخب کی جو خانہ کعبہ سے قریب بھی ہو اور جہاں سے وقتاً فوقتاً حضرت اسحاق کو دیکھنے کے لیے بھی جانا آسانی سے ممکن ہو۔ ظاہر ہے کہ جب حضرت ابراہیم نے قیام اسی علاقہ میں فرمایا نہ کہ شام میں تو ان کو نماز کے لیے ایک مرکز کی تعمیر بھی اسی علاقے میں کرنے کا حکم ہونا چاہیے تھا چناچہ آپ نے اللہ کے حکم سے مکہ معظمہ میں بیت اللہ کی تعمیر کی۔ جہاں تک بیت المقدس کا تعلق ہے، اس کی تعمیر تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ہاتھوں ہوئی اور ان کا زمانہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے سینکڑوں سال بعد کا ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاتھوں بیت اللہ کی تعمیر پہلی تعمیر نہیں تھی بلکہ یہ سابقہ تعمیر کی تجدید تھی۔ اس بارے میں کوئی حتمی بات کہنا مشکل ہے کہ سب سے پہلے بیت اللہ کو کس نے تعمیر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلی تعمیر فرشتوں نے کی دوسری تعمیر حضرت آدم (علیہ السلام) نے۔ طوفانِ نوح کے وقت بیت اللہ کو اٹھالیا گیا یا مسمار ہوگیا۔ اس کے بعد اس کی تاریخ کیا ہے، تاریخ سے کوئی بات ثابت نہیں۔ قرآن کریم سے اشارۃً یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس جگہ ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنے بیوی اور بچے کو ٹھہرانے کا حکم دیاوہ بیت اللہ کے قریب جگہ تھی۔ وَاِذْ بَوَّأ نَالِاِبْرَاھِیْمَ مَکَانَ الْبَیْتِ ” اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے ابراہیم کو بیت اللہ کی جگہ بتلادی “۔ روایات میں کہا گیا ہے کہ اس وقت اللہ کا گھر ایک ٹیلے کی شکل میں تھا اس ٹیلے کے نیچے اس کی بنیادیں مدفون تھیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس ٹیلے کی مٹی کو ہٹایا تو بیت اللہ کی بنیادیں نکل آئیں اور انھیں پر بیت اللہ کی تعمیر ہوئی۔ اس لیے میں نے عرض کیا کہ یہ تعمیر درحقیقت سابق تعمیر کی تجدید تھی۔ اس کے بعد بیت اللہ کی تاریخ پوری روشنی میں ہے۔ کسی عمارت بلکہ کسی بھی تاریخی جگہ کے وجود اور اس کے حالات کے بارے میں اتنی بڑی تعداد میں اور اس تواتر میں شہادتیں موجود نہیں ہوں گی جس طرح بیت اللہ کے بارے میں ہیں۔ پورا عرب بیت اللہ سے عقیدت رکھتا تھا اور دنیا بھر کے مخالفین اس کے اثرات کی ہمہ گیری کو دیکھ کر تلملاتے رہے۔ ان تاریخی شہادتوں کے علاوہ خود اس گھر کی اندورنی شہادتیں اسے اللہ کا گھر ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اس آیت کریمہ میں ان شہادتوں میں سے دو کا ذکر کیا گیا ہے۔ 1:۔ مثابۃ 2:۔ امنا۔ اب ہم اس کی مختصر سی وضاحت کرتے ہیں۔ مثابۃ کا مفہوم مثابۃ :۔ مصدر ” ثوب “ کے معنی میں ہے اس کا معنی ہے کسی چیز کا اپنی اصلی حالت یا حالت مقصود کی طرف لوٹنا۔ جب کچھ لوگ کسی مقام کی طرف لوٹتے ہیں تو کہا جاتا ہے ثاب القوم اور اسی سے مثابۃ اسم ظرف ہے۔ اس میں ” ۃ “ مبالغہ کی ہے۔ جس سے اس کے معنی میں زور اور تاکید پیدا ہوگئی ہے۔ اس لحاظ سے مثابۃ کا معنی ہوگا وہ مقام جس کی طرف انسان بار بار رجوع کرے اور پھر بھی جی نہ بھرے۔ اندازہ لگایئے ! حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب اس گھر کی تعمیر فرمائی تو اس کے چاروں طرف خشک پہاڑوں کے سوا کچھ نہ تھا چند خانہ بدوشوں کے خیمے تھے اور چند ببول کے درخت۔ خاردار جھاڑیوں کے سوا کوئی سرسبز چیز دکھائی نہ دیتی تھی۔ چشمہ زم زم جاری ہونے کی وجہ سے بنو جرہم کے کچھ لوگ آباد ہوگئے تھے اور کھجور کے چند درخت اگ آئے تھے۔ اس حال میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا جاتا ہے کہ آپ ایک ٹیلے پر کھڑے ہو کر مخلوقِ خدا کو پکاریں کہ وہ اس گھر کی زیارت کے لیے آئیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حیران ہو کر عرض کی یا اللہ ! میری آواز تو ان ٹیلوں میں گم ہو کر رہ جائے گی، کون سنے گا اور کون آئے گا ؟ لیکن حکم دیا گیا، جس طرح سورة حج میں اس کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ اَذِّنُ فِی النَّاسِ یَأ تُوکَ رِجَالًا الخ ” ابراہیم لوگوں کو پکارو، لوگ تمہاری پکار پر آئیں گے، پیدل بھی اور دبلی سواریوں پر سوار ہو کر بھی، وہ ہر تنگ گھاٹی اور دروں سے نکلتے ہوئے آئیں گے “۔ راستے تو ان سے آباد ہوں گے ہی پہاڑ بھی ان کا راستہ نہ روک سکیں گے۔ چار ہزار سال سے زیادہ عرصہ بیت گیا جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے یہ ندا دی تھی۔ اسلام سے پہلے بھی اور اسلام کے بعد بھی اللہ کی مخلوق کا ہجوم ہے جو کشاں کشاں بیت اللہ کی طرف چلاآتا ہے اور یہ ہجوم صرف حج ہی کے موقع پر نہیں بلکہ سارا سال بھی اس گھر کی زیارت کے لیے زائرین کا ایک تانتا بندھا رہتا ہے۔ روئے زمین کے ہر خطے، ہر علاقے اور ہر ملک میں رہنے والے لوگ اس گھر کی حقیقت سے بہرہ ور اور اس کی زیارت کے لیے بےتاب رہتے ہیں۔ اس پر مزید تعجب کی بات یہ ہے کہ جو ایک دفعہ زیارت سے مشرف ہوتا ہے وہ باربار آنے کے لیے تڑپتا ہے حالانکہ جب یہ گھر بنایا گیا تھا تو اس گھر کی زیارت کے لیے آنا جاناجان جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف تھا اور آج بھی اس گھر کے گردوپیش ایسے کوئی قدرتی مناظر نہیں جنھیں دیکھنے کے لیے لوگ لپکتے ہوئے آئیں لیکن اس کے باوجود لوگوں کا ہجوم ہے کہ دنیا کی کسی خوبصورت ترین جگہ پر بھی یہ ہجوم دیکھنے کو نہیں ملے گا۔ اس کی وجہ سوائے اس کے کچھ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مثابہ بنایا ہے کہ لوگ اس میں جمع ہوں گے ہجوم اس کی طرف امڈ کر آئے گا اور جو ایک دفعہ آئے گا وہ بار بار آنے کی آرزو کرے گا۔ ایک سیدھا سادہ مکان ہے جو سیاہ قبا پہنے کھڑا ہے بظاہر اس میں خوبصورتی اور دلکشی کی کوئی صورت نہیں لیکن دل ہیں کہ اس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ لوگ دیوانہ وار اس کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ حجرِ اسود کو چومنے کے لیے بےقرار ہوتے ہیں۔ آدمی حیران ہو کر سوچتا ہے ؎ کوئی بات تو ہے آخر مے کدے میں ضرور جو دور دور سے مے خوار آ کے پیتے ہیں اٰمنا کا مفہوم اور اس کی وضاحت اس کی دوسری صفت ” امناً “ بیان کی گئی ہے۔ امناً ،” مامن “ کے معنی میں ہے۔ یعنی امن کی جگہ۔ جس شخص کی نگاہوں میں نبی کریم ﷺ کی بعثت سے قبل کی تاریخ ہے وہ خوب جانتا ہے کہ جس قدر بد امنی، سفاکی، ظلم، لوٹ مار، اور جان ومال کا غیر محفوظ ہونا جزیرہ عرب میں تھا شائد دنیا کے کسی علاقے میں نہ تھا۔ جزیرہ عرب کی سرزمین بدامنی کا ایک جہنم تھی۔ جس کی لپٹوں میں قبیلے کے قبیلے جل رہے تھے۔ اکیلے وکیلے سفر کرنے کا تو تصور ہی نہیں کیا جاسکتا تھا قافلے بھی محافظوں کی موجودگی کے باوجود لٹنے سے محفوظ نہیں تھے۔ اس حالت میں ہم بیت اللہ کو ہی نہیں بلکہ پورے حرم کو دیکھتے ہیں کہ بدامنی کے دہکتے ہوئے جہنم میں یہ حفظ وامان اور محبت اور آشتی کا ایک ایسا جزیرہ تھا جسے چیلنج کرنے کی کسی میں ہمت نہ تھی۔ وحشی اور منہ زور عرب قبیلے حرم کی حدود میں پہنچتے ہی عجز و انکسار کے پیکر بن جاتے تھے۔ وہ اگر اپنے باپ کے قاتل کو بھی اس جگہ دیکھ لیتے تو اس کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہ کرتے تھے۔ وحشی قبائل بھی حرم کی حدود میں کبھی ایک دوسرے پر حملہ کرنے کی جسارت نہیں کرسکتے تھے۔ وہ عام جنگ و قتال کو حرم کی حدود میں حرام سمجھتے تھے۔ ان دو صفات پر ہی غور کرلیا جائے تو یہ صفات بجائے خود بیت اللہ کے اللہ کے گھر ہونے کی ایسی دلیلیں ہیں جن کا انکار ممکن نہیں۔ ایک ایسا ملک جس میں کوئی قانون نہ ہو، ایک ایسا شہر جس کی کوئی پولیس نہ ہو، کوئی احتسابی ادارہ نہ ہو جو کسی کا احتساب کرسکے، ایسے شہر میں ہزارہا آدمیوں کا جمع ہوناجن میں دشمن قبائل کی کمی بھی نہ ہو، لیکن ان کا کسی سے نہ الجھنا اور حرم کی حدود میں رہتے ہوئے اپنے آپ کو ہر طرح کی لڑائی اور سرکشی سے صرف اس لیے دور رکھنا کہ وہ حرم کی حدود میں ہیں اور یہاں اللہ نے ان باتوں کو حرام ٹھہرایا ہے۔ غور فرمائیے ! دلوں کی گہرائیوں تک اترجانے والی یہ تاثیر اللہ کے گھر کے سوا کسی اور گھر میں بھی ہوسکتی ہے ؟ مقام ابراہیم سے کیا مراد ہے ؟ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰاہِیمَ مُصَلًّی ” اور مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنالو “۔ اس گھر کے بیت اللہ ہونے کی یہ ایک تیسری ضمنی دلیل ہے۔ یہ ایک پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کھڑے ہو کر بیت اللہ کی دیواروں کی تعمیر کی تھی۔ اس پتھر کی عجیب خصوصیت تھی کہ یہ دیوار کی بلندی کے ساتھ ساتھ ” گو “ کی طرح بلند ہوتا جاتا تھا اور اس میں مزید حیران کن بات یہ ہے کہ یہ پتھر نبوت کے جلال سے پگھل گیا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دونوں پائوں کے نشانات اس میں ثبت ہوگئے۔ چارہزار سال کا زمانہ گزر گیا آج بھی یہ پتھر خلیل اللہ کے پائوں کے نشانات سمیت بیت اللہ کے سامنے موجود ہے اور قوموں کی شہادت اس کے وجود اور اس کی حیثیت کی گواہ ہے۔ آیت کریمہ کے اس جملے میں اسی پتھر کو مقام ابراہیم کہا گیا ہے اور اسے مصلیٰ بنانے کا حکم دیا گیا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اپنے قول اور عمل سے اس پتھر کو مقام ابراہیم قرار دیا۔ حجۃ الوداع کے موقعہ پر جب آپ طواف سے فارغ ہوئے تو آپ مقام ابراہیم کے پاس تشریف لائے اور آیت کے اس جملے کی تلاوت فرمائی اور پھر مقام ابراہیم کے پیچھے اس طرح دو رکعت نماز پڑھی کہ منہ تو بیت اللہ کی طرف رہا لیکن درمیان میں مقام ابراہیم بھی تھا۔ اس لیے فقہائے امت نے لکھا ہے کہ طواف کے بعد دونفل پڑھنااحناف کے نزدیک واجب ہیں اور شوافع کے نزدیک سنت۔ البتہ ان دو نوافل کا مقام ابراہیم کے پیچھے ادا کرنا واجب نہیں سنت ہے۔ اگر اس کے پیچھے جگہ نہ ملے اور حرم کی کسی دوسری جگہ پڑھ لے تو نوافل ادا ہوجائیں گے۔ صاف رکھنے کا مفہوم وَعَھِدْنَآاِلٰٓی اِبْرٰاھِیْمَ وَاِسْمٰعِیْل۔ ” عھد “ جب الیٰ کے صلہ کے ساتھ آتا ہے تو اس کا معنی ہوتا ہے کسی پر کوئی ذمہ داری ڈالنا یا اس کو کسی شرط کا پابند بنانا۔ یہاں یہ فرمایا جارہا ہے کہ ہم نے ابراہیم اور اسمعیل پر ذمہ داری ڈالی یعنی انھیں بیت اللہ کی تولیت سپرد کی اور ان کی یہ ذمہ داری ٹھہرائی کہ وہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع اور سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی اللہ کے گھر کا متولی ہو چاہے کوئی فرد یا خاندان ہو یا حکومت اللہ کے گھر کی صفائی اور اس کی تطہیر ان کی پہلی ذمہ داری ہے۔ یہی حال مساجد کا بھی ہے، متولیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مساجد کو بھی اللہ کے گھر کی طرح صاف ستھرا رکھیں۔ اب سوال یہ ہے کہ صاف ستھرا رکھنے سے کیا مفہوم ہے ؟ اس سے مراد ہر اس چیز سے صفائی اور پاک صاف رکھنے کی کوشش ہے جو اس گھر کے مقصد تعمیر کے منافی ہے۔ طواف، اعتکاف اور نماز کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کا جسم، آدمی کے کپڑے، آدمی کا گرد وپیش اور ماحول ہر طرح کی گندگی سے پاک وصاف ہو۔ اس لیے حکم دیا گیا کہ ناپاکی کی حالت میں مسجدوں میں داخل نہ ہونا چہ جائیکہ خانہ کعبہ میں وہاں تو اور بھی احتیاط کی ضرورت ہے۔ ناپاک کپڑے پہن کا نہ آنا، منہ سے بدبو نہیں آنی چاہیے، اس لیے سگریٹ، سگاریا حقہ پی کر اللہ کے گھروں میں جانے سے ممانعت کردی گئی اور اللہ کے گھر اور مساجد میں کوئی ایسی گندگی نہیں ہونی چاہیے جس سے طبیعتیں کراہت کرتی ہوں کیونکہ یہ تو دل جمعی اور اللہ سے لو لگانے کی جگہیں ہیں۔ ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے مسجد کی دیوار کے ساتھ بلغم لگا ہوا دیکھا آپ نے خود اسے کھرچا اور وہاں پر خوشبو منگوا کرلگائی۔ دوسری چیز جس سے تطہیر کرنی ہے وہ یہ ہے کہ وہاں لہو ولعب کے ہنگامے نہ ہوں آوازیں بلند نہ ہوں دنیا داری کی باتیں نہ ہوں، کوئی ایسی چیز نہ ہو جو اللہ سے لولگانے میں مانع ہو اور جس سے طبیعتوں کی یکسوئی میں خلل واقع ہو اور سب سے اہم بات یہ کہ اللہ کے گھر کو غیر اللہ کی بندگی اور عبادت سے محفوظ رکھا جائے۔ وہاں اصنام و اوثان نہ ہوں۔ کوئی ایسی حرکت نہ ہو جس سے اللہ کی عبادت کی حقیقت کو نقصان پہنچے۔ مختصر یہ کہ اللہ کے گھر کو ہر نجاستِ ظاہری، معنوی اور اعتقادی سے پاک صاف رکھا جائے اور ان لوگوں کے لیے اسے تیار رکھا جائے جو اس گھر کے مقصد تعمیر سے واقف اور اس سے وابستہ رہنا چاہتے ہیں۔ انھیں تین ناموں سے تعبیر فرمایا، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس گھر کی تعمیر کا مقصد یہی تین باتیں ہیں۔ 1:۔ طواف۔ 2:۔ اعتکاف۔ 3:۔ نماز۔ طواف : بیت اللہ کے اردگرد پھیرے لگانے کا نام ہے۔ سات پھیرے لگانے سے ایک طواف مکمل ہوتا ہے۔ حجرِ اسود سے طواف کا آغاز ہوتا ہے اور یہیں پر اختتام ہوتا ہے۔ طواف ایک ایسی عبادت ہے جو سب عبادات سے افضل ہے اور وہ صرف بیت اللہ کے ہی ساتھ ممکن ہے۔ اس کے علاوہ ہر طرح کی عبادت اور نیکی کہیں بھی کی جاسکتی ہے۔ دنیا کے کسی خطے میں نما زبھی پڑھی جاسکتی ہے روزہ بھی رکھا جاسکتا ہے زکوٰۃ بھی دی جاسکتی ہے قربانیاں بھی کی جاسکتی ہیں لیکن طواف صرف بیت اللہ ہی کا ہوتا ہے کسی اور بڑی سے بڑی بارگاہ کا طواف حرام ہے۔ کسی مسجد کا طواف بھی جائز نہیں۔ حتی کہ رسول اللہ ﷺ کے مرقد مبارک کا طواف بھی ناجائز ہے نماز سب سے زیادہ اللہ سے تعلق پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ لیکن طواف اگر پورے شعور کے ساتھ کیا جائے تو اس میں محبت الہٰی کے جذبات جس طرح ابھرتے ہیں وہ کسی اور عبادت میں ممکن نہیں۔ اس میں تو آدمی ایسی کیفیت اپنے اندر محسوس کرتا ہے، جیسے پروانہ شمع کے گرد منڈلاتا ہے اور بالآخر اسی پر قربان ہوجاتا ہے۔ یہ دراصل ایک استعارہ ہے، جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ مسلمان کی ساری عبادتیں سارے اعمال اور ساری زندگی کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ وہ اللہ کے گرد گھومتی ہے۔ اس کا آغاز بھی اللہ پر ایمان سے ہوتا ہے اور اس کا اختتام بھی اللہ پر قربان ہوجانے سے ہوتا ہے۔ عاکفین، عاکف کی جمع ہے۔ عکوف کا لفظی معنی کسی جگہ کے رہنے کو تعظیماً لازم کرلینا ہے۔ اور اس کی اصل روح دوسری چیزوں سے صرف نظر کرکے کسی خاص چیز کو پکڑلینا ہے۔ اصطلاحِ شریعت میں اعتکاف نام ہے مسجد کے اندر بہ نیت عبادت قیام کو کسی مدت کے لیے لازم کرلینا۔ بجز بشری ضرورتوں کے اور کسی حال میں باہر نہ نکلا جائے۔ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف سنت کفایہ موکدہ ہے۔ اس آیت کریمہ میں عاکف سے مراد وہ عکوف یا اعتکاف کرنے والا ہے جو ہر طرف سے کٹ کر اللہ کی یاد کے لیے اس گھر کا ہو کر رہ جائے۔ اس کی شکل رمضان میں اعتکاف کی بھی ہوسکتی ہے اور اس کے علاوہ کسی اور وقت میں اللہ سے لو لگانے کی بھی۔ پائوں توڑ کرلو لگا کر بیٹھ جانا اور شدید ضرورت کے بغیر کہیں نہ جانا یہ وہ چیز ہے جو اللہ کی محبت کے جذبات ابھارنے کے لیے نہائت موثر ہے۔ اس میں اپنی عبدیت کی عاجزی بھی کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ عقل کی حدود بھی واضح ہوجاتی ہیں اور دل کے احساسات بھی آہستہ آہستہ محبت الٰہی میں ڈھلنے لگتے ہیں۔ رکعٌ، راکعٌ کی جمع ہے اور سجود، ساجد کی جمع ہے۔ رکوع اور سجود سے نماز مراد ہے۔ کیونکہ یہ دونوں نماز کے اہم ارکان ہیں۔ کبھی تو اللہ کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا اس کی بندگی کے اقرار کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہوتا ہے اور یہ عزیمت اور استقامت کی ایک علامت بھی ہے اور کفر اور باطل کے مقابلے میں حمیت حق کا اظہار بھی۔ لیکن آدمی جب عجز ونیاز کا سرمایہ اللہ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہے تو پھر اس کی سرخوشی کا اظہار رکوع سے شروع ہوتا ہے اور سجدے پر تکمیل پذیر ہوجاتا ہے۔ یہاں ان دونوں کا ذکر کرکے ایک تو بندگی کی تمام صورتوں کو جمع کرنا مقصود ہے اور دوسرا اہل کتاب پر شائد تعریض بھی ہے کیونکہ یہ دونوں چیزیں ان کی نماز کا بھی لازمی ستون تھیں انھوں نے پہلے ان دونوں کا ضائع کیا اور پھر نماز ہی ضائع کرڈالی۔ لیکن اسلام چونکہ ایک مکمل دین ہے، وہ اگرچہ روح دین اور باطن کی اصلاح پر سب سے زیادہ زوردیتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی بندگی کی مخصوص صورت وہیئت کو بھی باقی رکھنے پر اصرار کرتا ہے کیونکہ جس طرح ظاہر باطن کی اصلاح کا محتاج ہے، اسی طرح ظاہر بھی باطن کی اصلاح کی دلیل اور مؤید ہے۔ اس آیت کریمہ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا بھی ذکر آیا ہے۔ بیت اللہ کی تولیت دونوں کے سپرد کی گئی تھی۔ لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد حضرت اسماعیل ہی کو یہ ذمہ داری سونپی جانے والی تھی اور انھیں کی پشت سے آنحضرت ﷺ کا ظہور اور امت مسلمہ وجود میں آنے والی تھی۔ اس لیے مناسب ہوگا کہ ان کے تعارف میں بھی چند باتیں عرض کردی جائیں۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا تعارف حضرت اسماعیل حضرت ابراہیم کے فرزنداکبر تھے، آپ کی مصری بیوی حضرت ہاجرہ کے بطن سے تھے۔ سالِ ولادت غالباً 2074 ق م ہے۔ سالِ وفات غالباً 1937 ق م ہے۔ تورات میں ہے کہ عمر 137 سال کی پائی۔ آپ کے بارہ فرزند ہوئے اور ان سے بارہ نسلیں چلیں۔ تورات میں ان بارہ فرزندوں کے نام درج ہیں اور یہ تصریح ہے کہ ( یہ اپنے قبیلوں کے بارہ رئیس تھے۔ پیدائش : 25، 12) عرب کا مشہور عالی نسب قبیلہ قریش آپ ہی کی نسل سے ہے۔ اس لیے آپ رسول اللہ ﷺ کے بھی مورث اعلیٰ ہوئے۔ اہل کتاب کہلانے والوں نے آپ کے خلاف زہر اگلنے اور اپنے خبث وعناد کا مظاہرہ کرنے میں کوئی کسر اٹھانھیں رکھی۔ تاہم اپنی کتاب کی تصریحات کو کیا کریں گے، جو تحریف وتلبیس کی ہر ممکن کوشش کے بعد بھی نہ مٹ سکیں۔ ان میں ابراہیم خلیل کی دعا بھی شامل ہے اور خداوند کریم کے وعدے بھی اور تاریخ کا بیان بھی۔ ( اور ابراہام نے خدا سے کہا کہ کاش ! اسماعیل تیرے حضور جیتا رہے۔ (پیدائش : 17، 18) ۔ اسماعیل کے حق میں میں نے تیری سنی دیکھ میں اسے برکت دوں گا اور اسے آبرو مند کروں گا اور اسے بہت بڑھائوں گا۔ (پیدائش، 17: 20) ۔ اسے اپنے ہاتھ سے سنبھال کہ میں اسے ایک بڑی قوم بنائوں گا۔ (پیدائش 21: 18) ۔ اور خدا اس لڑکے کے ساتھ تھا اور وہ بڑھا اور بیابان میں رہا کیا اور تیر انداز ہوگیا) (پیدائش 21: 21) آپ کی والدہ ماجدہ حضرت ہاجرہ شاہ مصر کی صاحبزادی تھیں اور مصر کا شاہی خاندان حضرت ابراہیم کے خاندان کی ایک شاخ تھا۔ عراق سے منتقل ہو کر مصر میں آباد ہوگیا تھا۔ جب حضرت ابراہیم اپنے سفر میں ادھر سے گزرے تو بحیثیت ایک شیخ قبیلہ کے آپ کو شاہ مصر نے اپنا مہمان بنایا اور رخصت کے وقت آپ کے اعزاز واکرام میں اپنی صاحبزادی کو بطور تحفہ کے پیش کیا اور تواضع و انکسار کی راہ سے کہ مشرقی میزبانی کا خاصہ ہے۔ کہا کہ یہ آپ کی کنیزی کے لیے ہدیہ ہے، اردو زبان میں یہ محاورہ آج تک چلا ہوا ہے۔ شادی بیاہ کے موقع پر بڑے سے بڑا معزز شخص بھی اپنی لڑکی کو کنیز ہی کہہ کر داماد اور سمدھی کے سامنے پیش کرتا ہے۔ لیکن مشرقی تواضع کے اس عام پیرایہ بیان کے باوجود معاندین اس لفظ کو ایک بڑی معتمد اور مستند دستاویز سمجھتے ہیں اور امِ اسماعیل ان کے ہاں آج تک کنیز ہی چلی آرہی ہے۔ واقعات بہرحال واقعات ہیں انھیں کوئی کہاں تک جھٹلا سکتا ہے۔ اسی جیوش انسائکلوپیڈیا میں اکابر احبار یہود کے حوالہ سے ہے : (ہاجرہ فرشتہ ہی کو دیکھ کر ہیبت زدہ ہوئی ان کی عصمت مآبی اس سے ظاہر ہے کہ ابراہیم نے انھیں اپنے پاس سے الگ کردیاجب بھی ان کی وفاداری میں فرق نہ آیا۔ ان کے نام کے ایک معنی آراستہ بھی بیان ہوئے ہیں اور یہ اس بنا پر کہ وہ زیور اخلاق وحسن عمل سے آراستہ تھیں) (جلد 6، صفحہ 138) ” اور اسی میں ایک دوسری جگہ یہ روایت بھی درج ہے : ” بادشاہ نے خود اپنی صاحبزادی بطور کنیز ہدیہ کردی۔ “ (جلد 11، صفحہ 55) اور قصص یہود کا جو مجموعہ گینز برگ نے چار جلدوں میں مرتب کرکے شائع کیا ہے اس میں ہے : (بادشاہِ مصر نے عہد کرلیا کہ وہ ابراہیم کو ہر طرح پر قوت و شوکت بنا کررہے گا، چناچہ اپنی بیٹی تک ہدیہ دے دی۔ سارہ کی تعلیم و تربیت میں رہ کر وہ بھی ویسی ہی باخدا بن گئیں اور ہر طرح سے ابراہیم کی رفاقت کے قابل) (جلد 1 صفحہ 428 و 237) (ماخوذ از تفسیر ماجدی)
Top