Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 217
یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْهِ١ؕ قُلْ قِتَالٌ فِیْهِ كَبِیْرٌ١ؕ وَ صَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ كُفْرٌۢ بِهٖ وَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ١ۗ وَ اِخْرَاجُ اَهْلِهٖ مِنْهُ اَكْبَرُ عِنْدَ اللّٰهِ١ۚ وَ الْفِتْنَةُ اَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ١ؕ وَ لَا یَزَالُوْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ حَتّٰى یَرُدُّوْكُمْ عَنْ دِیْنِكُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا١ؕ وَ مَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَیَمُتْ وَ هُوَ كَافِرٌ فَاُولٰٓئِكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ١ۚ وَ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
يَسْئَلُوْنَكَ : وہ آپ سے سوال کرتے ہیں عَنِ : سے الشَّهْرِ الْحَرَامِ : مہینہ حرمت والا قِتَالٍ : جنگ فِيْهِ : اس میں قُلْ : آپ کہ دیں قِتَالٌ : جنگ فِيْهِ : اس میں كَبِيْرٌ : بڑا وَصَدٌّ : اور روکنا عَنْ : سے سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَكُفْرٌ : اور نہ ماننا بِهٖ : اس کا وَ : اور الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : مسجد حرام وَ اِخْرَاجُ : اور نکال دینا اَھْلِهٖ : اس کے لوگ مِنْهُ : اس سے اَكْبَرُ : بہت بڑا عِنْدَ : نزدیک اللّٰهِ : اللہ وَالْفِتْنَةُ : اور فتنہ اَكْبَرُ : بہت بڑا مِنَ : سے الْقَتْلِ : قتل وَلَا يَزَالُوْنَ : اور وہ ہمیشہ رہیں گے يُقَاتِلُوْنَكُمْ : وہ تم سے لڑیں گے حَتّٰى : یہانتک کہ يَرُدُّوْكُمْ : تمہیں پھیر دیں عَنْ : سے دِيْنِكُمْ : تمہارا دین اِنِ : اگر اسْتَطَاعُوْا : وہ کرسکیں وَمَنْ : اور جو يَّرْتَدِدْ : پھر جائے مِنْكُمْ : تم میں سے عَنْ : سے دِيْنِهٖ : اپنا دین فَيَمُتْ : پھر مرجائے وَھُوَ : اور وہ كَافِرٌ : کافر فَاُولٰٓئِكَ : تو یہی لوگ حَبِطَتْ : ضائع ہوگئے اَعْمَالُهُمْ : ان کے اعمال فِي : میں الدُّنْيَا : دنیا وَ : اور الْاٰخِرَةِ : آخرت وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ اَصْحٰبُ النَّارِ : دوزخ والے ھُمْ : وہ فِيْهَا : اس میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
(تم سے پوچھتے ہیں کہ حرمت والے مہینہ میں لڑنا کیسا ہے ؟ کہہ دیجئے کہ اس میں لڑائی بڑا گناہ ہے۔ اور روکنا اللہ کی راہ سے اور اس سے کفر کرنا اور مسجد حرام سے روکنا اور اس کے رہنے والوں کو وہاں سے نکال دینا اللہ کے نزدیک اس سے بھی بڑا گناہ ہے۔ اور فتنہ قتل سے بھی بڑھ کر ہے۔ اور کفار تو ہمیشہ تم سے لڑتے ہی رہیں گے۔ یہاں تک کہ تم کو تمہارے دین سے پھیر دیں اگر وہ ایسا کرسکیں، اور پھر جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھرجائے (مرتد ہوجائے) اور پھر وہ حالت کفر میں ہی مرجائے تو ایسے لوگوں کے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں دنیا اور آخرت میں یہی لوگ ہیں آگ والے اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے
یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الشَّھْرِالْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْہِ ط قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌط وَصَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَکُفْرٌم بِہٖ وَالْمَسْجِدِالْحَرَامِ ق وَاِخْرَاجُ اَھْلِہٖ مِنْہُ اَکْبَرُ عِنْدَاللّٰہِ ج وَالْفِتْـنَـۃُ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِِ ط وَلَایَزَالُوْنَ یُقَاتِلُوْنَـکُمْ حَتّٰی یَرُدُّوْکُمْ عَنْ دِیْنِکُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا ط وَمَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَیَمُتْ وَھُوَ کَافِرٌ فَاُولٰٓئِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ج وَاُوْلٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ج ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ ۔ (تم سے پوچھتے ہیں کہ حرمت والے مہینہ میں لڑنا کیسا ہے ؟ کہہ دیجئے کہ اس میں لڑائی بڑا گناہ ہے۔ اور روکنا اللہ کی راہ سے اور اس سے کفر کرنا اور مسجد حرام سے روکنا اور اس کے رہنے والوں کو وہاں سے نکال دینا اللہ کے نزدیک اس سے بھی بڑا گناہ ہے۔ اور فتنہ قتل سے بھی بڑھ کر ہے۔ اور کفار تو ہمیشہ تم سے لڑتے ہی رہیں گے۔ یہاں تک کہ تم کو تمہارے دین سے پھیر دیں اگر وہ ایسا کرسکیں اور پھر جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھرجائے (مرتد ہوجائے) اور پھر وہ حالت کفر میں ہی مرجائے تو ایسے لوگوں کے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں دنیا اور آخرت میں یہی لوگ ہیں آگ والے اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے) (217) اشہرِحرم سے متعلق سوال اور اس کا جواب سلسلہ کلام حج سے متعلق جاری ہے۔ اسی کی نسبت سے جہاد اور انفاق کے مسائل کا ذکر آیا۔ جہاد فرض کردیا گیا اور انفاق کی ترغیب دی گئی۔ جہاد کے حوالے سے عربوں کے مسلمہ عقائد کی وجہ سے اشہرحرم کے بارے میں سوال پیدا ہوا۔ مشرکینِ عرب اگرچہ ایک خود ساختہ شریعت پر عمل کر رہے تھے۔ تاہم وہ ملت ابراہیمی کی پیروی کا دعویٰ ضرور کرتے تھے ‘ لیکن ملت ابراہیمی کی روح اور اس کی حقیقت سے یکسر بیگانہ ہوچکے تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) پر نازل ہونے والے صحیفوں میں سے کوئی چیز بھی ان کے پاس محفوظ نہیں تھی۔ البتہ کی حج کی فرضیت اور مناسکِ حج میں سے بیشتر کے بارے میں ان کا رویہ چاہے کیسا ہی ہو لیکن ان کا عمل اب تک صحیح تھا۔ چار مہینوں کے بارے میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شریعت میں خاص احکام دیئے گئے تھے۔ ان میں لڑنا بھڑنا ممنوع قرار دیا گیا تھا اور ان کے احترام کی اس طرح ترغیب دی گئی تھی کہ عرب اپنی ساری گمراہیوں اور بداعمالیوں کے باوجود ان مہینوں کو حرمت والے مہینے قرار دیتے تھے۔ اور حتیٰ الامکان ان کی حرمت کو پامال نہیں ہونے دیتے تھے۔ قرآن کریم نے نہ صرف ان کے اس کے بنیادی عقیدے کی تصویب کی بلکہ اس میں یہ فرما کر اضافہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ارض و سماء کی تخلیق کے وقت ‘ وقت کو بارہ مہینوں میں تقسیم فرمایا تھا۔ اور جن میں چار مہینوں کو خصوصی حرمت اور عزت عطا کی تھی۔ فرمانِ خداوندی کے الفاظ یہ ہیں اِنَّ عِدَّۃَ الشُہُوْرِ عِنْدَاللّٰہِ اِثْنَا عَشَرَشَہَرًا فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْہَا اَرْبَعْۃٌ حُرْمٌ ” کہ بیشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں جس دن اس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا۔ ان میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔ “ جن میں جنگ و قتال کو ممنوع قرار دیا گیا۔ اور یہ چار مہینے رجب “ یقعد ‘ ذی الحج اور محرم ہیں۔ قرآن کریم کی اس تائید و تصویب کے بعد یہ بات اور بھی واضح ہوگئی کہ ان چار مہینوں میں جہاد و قتال کا تو کوئی سوال ہی پید انھیں ہوتا۔ اس پر یہ سوال اٹھایا گیا کہ کعبۃ اللہ چونکہ قریش مکہ کے قبضہ میں ہے ‘ مسلمان وہاں اگر عمرہ اور حج کے لیے جاتے ہیں اور قریش مکہ مزاحم ہوتے ہیں تو عین امکان ہے کہ حدود حرم یا مسجد حرام کے قریب لڑائی چھڑ جائے۔ اور یہ بات تو جانی پہچانی ہے کہ حج کے مہینے بھی حرمت والے مہینوں میں شامل ہیں اور عمرہ عام طور پر رجب میں کیا جاتا ہے جو چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے۔ عربوں کے عقیدے اور قرآن کریم کی تصریح کے بعد اس جہاد کا کیا جواز ہوگا ؟ اگر یہ جہاد نہیں کیا جاتا تو کعبۃ اللہ کی آزادی کی کوئی صورت ممکن نہیں۔ اور اگر جہاد کیا جاتا ہے تو اشہر حرم کی حرمت کی پامالی کا اندیشہ ہے۔ اور حرم کے تقدس کے مجروح ہونے کا بھی امکان ہے۔ ایسی صورت میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے ؟ یہ تو وہ سوال تھا جو خود مسلمانوں کے ذہنوں میں بھی پیدا ہو رہا تھا۔ اور گزشتہ بعض مواقع پر اسی سورة میں اس کا جواب بھی دیا گیا۔ لیکن دو ہجری میں ایک ایسا واقعہ پیش آیاجس کی وجہ سے یہ سوال ایک اعتراض کی شکل میں مشرکین کی جانب سے نہایت شدت سے اٹھایا گیا۔ وہ واقعہ یہ تھا کہ دو ہجری جمادی الثانی کی آخری تاریخوں میں نبی کریم ﷺ نے عبداللہ بن جحش ( رض) کی قیادت میں بارہ افراد پر مشتمل ایک مختصر سا دستہ حالات کی تفتیش کے لیے روانہ فرمایا اور انھیں حکم دیا کہ تم جا کر وادی نخلہ میں ٹھہروجو مکہ معظمہ اور طائف کے درمیان ہے۔ اور وہاں ٹھہر کر قریش کی نقل و حرکت کا اندازہ کرو۔ اور ہمیں اس سے باخبر رکھو۔ اچانک یہ ہوا کہ قریش کا ایک مختصر سا قافلہ تجارت ان کے سامنے سے گذرا۔ مسلمان یہ سمجھے کہ آج جمادی الثانی کی آخری تاریخ ہے۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ رجب کا چاند طلوع ہوچکا تھا جو حرمت والے مہینوں میں سے ایک مہینہ ہے۔ لیکن مسلمانوں کو اس کی خبر نہ تھی۔ مسلمانوں نے اسے جمادی الثانی کی آخری تاریخ سمجھ کر اس قافلہ تجارت پر حملہ کردیا۔ اگرچہ یہ حملہ کرنا بھی بجائے خود حدود سے تجاوز تھا کیونکہ آنحضرت ﷺ نے انھیں ایسا کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ لیکن اگر کوئی شخص غیرجانبداری سے ان بارہ افراد (جو تمام کے تمام مہاجرین تھے) کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کرے تو اس کے لیے یہ بات سمجھنا کوئی مشکل نہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے تیرہ سال تک کفار مکہ کے ظلم برداشت کیے اور ایک سے ایک بڑھ کر اذیت کا سامنا کیا۔ ان میں سے بیشتر اشرافِ قریش سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے۔ لیکن محض ایمان لانے کی پاداش میں ان کی تذلیل کی گئی ‘ ان پر تشدد کیا گیا حتیٰ کہ ان کا گھر اور ان کا وطن ان سے چھین لیا گیا۔ اور اب ایک سال سے مدینہ طیبہ میں بھی انھیں چین سے بیٹھنے نہیں دیا جا رہا۔ عقل یہ کہتی ہے کہ جیسے ہی ان کی نگاہ اس قافلہ تجارت پر پڑی جن کا تعلق قریش مکہ سے تھا۔ جن میں عبداللہ بن مغیرہ کے دو بیٹے عثمان اور نوفل اور عمرو بن حضرمی اور حکیم بن کیسان مولیٰ مغیرہ تھے۔ انھیں دیکھتے ہی مسلمانوں کے اپنے زخم سلگ اٹھے۔ اور برسوں کے صبر کا بند ٹوٹ گیا۔ چناچہ انھوں نے حملہ کیا عمرو بن حضرمی قتل اور عثمان اور حکیم کو گرفتار کرلیا گیا۔ البتہ نوفل بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس کے بعد یہ لوگ دونوں قیدیوں اور سامانِ قافلہ کو لیے ہوئے مدینہ پہنچے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس پر سخت برہمی کا اظہار فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ میں نے تمہیں لڑنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ بڑے بڑے صحابہ بھی اس پر سخت ناراض ہوئے کہ تم نے لڑائی کی آگ بھڑکا دی ہے۔ جبکہ ابھی مسلمانوں کے حالات اس قابل نہ تھے کہ وہ قریش مکہ سے لڑائی چھیڑ سکتے۔ آپ ﷺ نے قریش مکہ کو مقتول کی دیت ادا کرنے کی بھی پیش کش کی اور بعض روایات کے مطابق آپ نے دیت ادا بھی کردی ‘ دونوں قیدیوں کو آزاد کردیا اور آپ ﷺ نے اس قافلہ کے لوٹا ہوا مال بھی لینے سے انکار کردیا۔ اس کے باوجود قریش مکہ اور ان کی حمایت میں مدینے کے یہود اور منافقین نے اس واقعہ کو بنیاد بناکر پر اپیگنڈے کا ایک طوفان کھڑا کردیا۔ اور پورے عرب میں مسلمانوں کی کردار کشی شروع کردی گئی کہ ان مسلمانوں کو دیکھو یہ اپنے آپ کو بڑابااصول قرار دیتے ہیں ‘ دوسروں پر کفر کا الزام رکھتے ہیں اور خود اللہ کے فرمانبردار بندے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ بظاہر انھوں نے درویشی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے اور یہ اٹھتے بیٹھتے اخلاق کا درس دیتے رہتے ہیں ‘ لیکن حال ان کا یہ ہے کہ وہ حرمت والے مہینے جن میں کبھی کوئی لڑنے کی جرأت نہیں کرتا یہ ان مہینوں میں بھی کسی کو قتل کرنے ‘ کسی قافلے کا مال چھیننے اور کسی کو قیدی بنا لینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ ان کا درویشی میں یہ حال ہے تو جب انھیں طاقت ملے گی تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پھر یہ کتنے بڑے ظالم ثابت ہوں گے۔ پیش نظر آیت کریمہ میں ان کے انہی الزامات کا جواب دیا جا رہا ہے۔ لیکن ہم اس جواب کی تفصیل عرض کرنے سے پہلے یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ اشہر حرم کے بارے میں اسلام کا تصور کیا ہے ؟ اشہرِحرم سے متعلق اسلام کا موقف ہمارے محترم مفسرین میں سے ایک گروہ تو یہ کہتا ہے کہ اشہرحرم کے بارے میں جو حکم پہلی شریعتوں میں تھا وہی اب بھی باقی ہے۔ لیکن جمہور فقہاء کے نزدیک یہ حکم اب منسوخ ہوچکا ہے۔ اب کسی مہینہ میں بھی قتال ممنوع نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ حکم منسوخ ہوچکا تو اس کا ناسخ کیا ہے ؟ بعض اہل علم نے بعض آیتوں سے استدلال کرنے کی کوشش کی ہے ‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ آیتیں اس معاملے میں صریح نہیں۔ بعض اہل علم نے آنحضرت ﷺ کی سنت اور آپ ﷺ کے عمل سے استدلال کیا ہے اور اسے اس حکم کے لیے ناسخ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ آپ ﷺ نے طائف کا محاصرہ ذیقعد میں کیا تھا جو حرمت والے مہینوں میں سے ایک مہینہ ہے۔ اور حضرت عامر اشعری ( رض) کو اشہر حرم ہی میں اوطاس کے جہاد کے لیے بھیجا تھا۔ بعض اہل علم تو اس پر امت کا اجماع نقل کرتے ہیں۔ لیکن تفسیر مظہری کے مصنف اشہر حرم کے حکم کی تصریح آیت السیف سے ثابت کرتے ہیں جس کا ذکر ہم اس سے پہلے کرچکے ہیں۔ اسی طرح آنحضرت ﷺ اپنے خطبہ حجۃ الوداع میں بھی اس حکم کا ذکر فرما چکے ہیں۔ جبکہ آپ ﷺ کا یہ خطبہ آپ کی وفات حسرت آیات سے صرف اسّی روز پہلے کا ہے۔ رہا آنحضرت ﷺ کا محاصرہ طائف تو وہ ذیقعدہ میں نہیں شوال میں ہوا۔ اس لیے اسے ناسخ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ تفسیر مظہری کے مصنف کا موقف یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان مہینوں میں قتال کی حرمت کا حکم اب تک علیٰ حالہ قائم ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حق ان دونوں باتوں کے درمیان ہے کہ نہ تو یہ حکم بالکل منسوخ ہوا ہے اور نہ ہی اسی طرح قائم ہے کہ کسی طرح کا جہاد بھی بالکل ممنوع ہو۔ پیش نظر آیت کریمہ میں اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ ان مہینوں میں قتال کرنا واقعی بہت بڑی برائی ہے۔ لیکن اگر قتال شرعی ضرورت بن جائے یا دشمن مسلمانوں پر حملہ کر دے اور مسلمانوں کو اپنی مدافعت کرنی پڑے تو پھر نہ صرف جائز ہے بلکہ ان مہینوں کی حرمت کی بقا اور ظالم کے ظلم کو ختم کرنے کے لیے جہاد و قتال کرنا ان کی حرمت کی پاسداری سے کہیں بڑی نیکی ہے۔ رہے کفار مکہ اور یہود و منافقین کے اٹھائے ہوئے اعتراضات تو قرآن کریم نے ایک ایک کا جواب دیا ہے۔ سب سے پہلی بات یہ ارشاد فرمائی کہ تم ایک سرحدی جھڑپ کا بہانہ بنا کر لوگوں کو یہ تاثر دیتے پھر رہے ہو کہ مسلمانوں نے ایک حرمت والے مہینے میں ایک شخص کا خون بہایا ہے اور اس طرح انھوں نے اللہ کے اس حکم کی نافرمانی کی ہے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے سے لے کر آج تک حکم خداوندی سمجھا جاتا رہا ہے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ واقعی اشہر حرم کی حرمت کی پامالی اللہ کے حکم کی نافرمانی ہے ‘ ہم بھی اس کو بہت بڑا گناہ سمجھتے ہیں لیکن تم یہ بتائو کہ تم جس طرح جو روجبر سے اللہ کے بندوں کو اللہ کے دین کی طرف آنے سے روکتے ہو ‘ اس کی بندگی کا قلادہ گلے میں ڈالنے کی بجائے تم نے جس طرح خود بھی شیطان کی بندگی کا قلادہ اپنے گلے میں ڈال رکھا ہے اور دوسروں کو بھی زبردستی یہ طوق پہنانے کی کوشش کرتے ہو ‘ کیا یہ اللہ کی نافرمانی نہیں ؟ یعنی ایک حکم کا ٹوٹنا تو اللہ کی نافرمانی ہے لیکن اس کے پورے دین کا انکار کرنا اور لوگوں کو اس طرف آنے سے روکنا اور خود کفر کے پشتیبان بن کر کھڑے ہوجانا ‘ حتیٰ کہ وہ مسجد حرام جسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کی بندگی اور اس کی توحید کا مرکز بنایا تھا اور جہاں ہر آدمی کو آنے کی اجازت تھی اور گزشتہ دو ہزار سال میں وہاں کبھی کسی نے کسی کو روکنے کی جرأت نہیں کی ‘ حتیٰ کہ اگر کوئی شخص اپنے باپ کے قاتل کو بھی مسجد حرام میں دیکھ لیتا تو وہ یہ جرأت نہیں کرسکتا تھا کہ وہ اپنے باپ کے قاتل کو کوئی نقصان پہنچائے یا اسے مسجد حرام سے نکال دے۔ لیکن تم نے برسوں سے مسلمانوں کا داخلہ وہاں بند کر رکھا ہے۔ جس پیغمبر کے آنے کی دعائیں اسی گھر کے صحن میں کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مانگی تھیں اور جس امت کو اٹھائے جانے کی استدعا کی تھی تم نے اس گھر کو اسی پیغمبر اور اسی امت کے لیے شجر ممنوعہ قرار دے دیا ہے۔ اور خود تم نے اس پر اس طرح غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے کہ تمہاری مرضی کے بغیر وہاں کوئی قدم رکھنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ تمہارے ظلم اور سنگدلی کا عالم یہ ہے کہ جو لوگ فی الحقیقت اس گھر کے مجاور ‘ اس کے عبادت گزار ‘ اس کے آباد کرنے والے تھے ‘ تم نے نہ صرف اس گھر میں ان کا آنا بند کیا بلکہ تم نے اس شہر سے انھیں نکال باہر کیا۔ حالانکہ یہ شہر انھیں کے لیے آباد کیا گیا تھا۔ وہی اس کان کا اصل نمک تھے ‘ وہی اس قافلے کا ہر اول تھے جنھوں نے یہاں سے ہدایت کا پیغام لے کر دنیائے انسانیت تک پھیلنا تھا۔ یہ جرائم وہ ہیں شب و روز جن کا تم ارتکاب کر رہے ہو ان میں سے ایک ایک جرم اشہر حرم میں لڑنے سے کہیں بدتر ہے اور اللہ کے نزدیک اپنی شناعت اور اپنی بدانجامی کے اعتبار سے سب سے بڑا ہے۔ لیکن تمہارے جرائم کی انتہا یہیں تک نہیں ہوتی تم نے ظلم اور تعدی کی ایک ایسی داستان رقم کی ہے جس نے بڑھتے بڑھتے فتنہ کی شکل اختیار کرلی ہے۔ فتنہ کی حقیقت فتنے سے مراد یہ ہے کہ جو آدمی بھی اللہ کے دین کی طرف آنا چاہتا اور اسلام قبول کر کے اپنی زندگی اور آخرت سنوارنا چاہتا ہے تم سنگدلانہ اذیتوں اور تکلیفوں کے ذریعے اسے اسلام قبول کرنے سے روکتے ہو ‘ بلکہ تمہاری کوشش یہ ہوتی ہے کہ اگر وہ اسلام قبول کرچکا ہے تو اسے اس حد تک تکلیفیں پہنچائی جائیں ‘ دہکتے انگاروں پر لٹایا جائے ‘ تپتی ریت پر گھسیٹا جائے ‘ پیاسا رکھ کر اسے دھونکنی دی جائے اور جب اس کی حالت غیر ہونے لگے تو اس کے سامنے ایک ہی مطالبہ رکھا جائے کہ اسلام سے تعلق توڑ لو اور اللہ اور اس کے رسول کا نام لینے سے بھی انکار کردو۔ یہ وہ فتنہ اور آزمائش ہے جس میں تم نہ جانے کتنے نوجوانوں کو مبتلا کرچکے ہو اور یہ وہ بھٹی ہے نہ جانے کتنی جو انیاں اور کتنے بڑھاپے اس میں قربان ہوچکے ہیں یا کندن بن کر نکلے ہیں۔ یہ وہ فتنہ ہے جو قتل سے بھی بڑا گناہ ہے۔ اور تم اس فتنے کا ارتکاب عین بلد امین اور بلد حرام میں کر رہے ہو۔ تمہیں نہ سرزمینِ حرام کا احترام اس سے روکتا ہے نہ اشہر حرم کی حرمت تمہارے راستے میں حائل ہوتی ہے۔ تو وہ آخر کونسی حرمتیں ہیں جن کی پامالی کا تم شور مچا رہے ہو ؟ تم تو سب سے بڑے حرمتوں کے پامال کرنے والے اور اللہ کی بندگی کے ایک ایک رشتے کو ادھیڑنے والے ہو۔ یوں تو ظلم کا یہ کاروبار اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ مکہ کے کس کس گھر میں ہو رہا تھا لیکن حالات کی ایک کروٹ نے کم از کم ایسے ستر نوجوانوں کو قریش کے ان جرائم کا گواہ بنادیا۔ آنحضرت ﷺ چھ ہجری میں عمرے کے ارادے سے عازم مکہ ہوئے۔ حدود حرم کے کنارے پر حدیبیہ کے مقام پر آپ ﷺ نے پڑائو ڈال دیا۔ لیکن قریش مکہ نے آپ ﷺ کو مکہ معظمہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔ اور دھمکی دی کہ اگر آپ ﷺ نے آگے قدم بڑھایا تو ہم حدود حرم میں برہنہ تلواروں سے آپ ﷺ کا استقبال کریں گے۔ چناچہ جانبین میں مذاکرات شروع ہوئے۔ جو بالآخر ایک معاہدے پر منتج ہوئے۔ جو معاہدہ حدیبیہ کے نام سے معروف ہے۔ اس میں ایک شق یہ طے پائی جو شخص مسلمان ہو کر مدینہ چلا جائے تو مسلمان اسے واپس کرنے کے پابند ہوں گے اور جو کوئی مسلمان مرتد ہو کر مکہ بھاگ آئے تو مکہ والے اسے واپس نہیں کریں گے۔ یہ بالکل یکطرفہ شرط تھی لیکن ازراہِ مصلحت حضور ﷺ نے اسے بھی قبول فرما لیا۔ زبانی طور پر یہ شرائط طے ہوگئیں لیکن ابھی ضبط تحریر میں نہیں آئی تھیں کہ قریش کا وہ سفیر جو اس وقت قریش کی نمائندگی کرتے ہوئے آنحضور ﷺ سے معاہدہ کر رہا تھا ‘ یعنی سہیل ابن عمرو اسی کے بیٹے جن کا نام ابوجندل تھا اپنی بیڑیاں گھسیٹتے ہوئے مسلمانوں میں آپہنچے۔ وہ زیریں مکہ سے نکل کر آئے تھے ‘ انھوں نے یہاں پہنچ کر اپنے آپ کو مسلمانوں کے درمیان ڈال دیا۔ سہیل نے اسے دیکھتے ہوئے کہا کہ میں صلح کا معاملہ کرنے سے پہلے دیکھنا چاہتا ہوں کہ ابھی ہمارے درمیان جو ایک شق طے پائی ہے آپ اس پر عمل کرتے ہوئے اس لڑکے کو واپس کرتے ہیں یا نہیں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ابھی تو ہم نے نوشتہ مکمل نہیں کیا۔ سہیل نے کہا کہ اگر یہ بات ہے تو پھر میں کسی بات پر آپ سے صلح کا معاملہ ہی نہیں کروں گا۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ چلو تم معاہدے کو چھوڑو تم میری خاطر اس لڑکے کو ہمارے ساتھ جانے دو ۔ آپ ﷺ کے باربار کہنے کے باوجود بھی اس نے اس بات کو ماننے سے انکار کردیا۔ بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر اس نے اپنے بیٹے کے چہرے پر چانٹا رسید کیا اور مشرکین کی طرف واپس کرنے کے لیے اس کے کرتے کا گلہ پکڑ کر گھسیٹا۔ ابوجندل نے مسلمانوں کو اپنے زخم دکھائے اور چیختے ہوئے کہا کہ کیا میں اب بھی مشرکین کی طرف واپس کردیا جاؤں گا کہ وہ مجھے میرے دین کے متعلق فتنے میں ڈالیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” ابو جندل ! صبر کرو اور اسے باعث ثواب سمجھو۔ اللہ تمہارے لیے اور تمہارے ساتھ جو دوسرے کمزور مسلمان ہیں ان سب کے لیے کشادگی اور پناہ کی جگہ بنائے گا۔ ہم نے قریش سے صلح کرلی ہے اور ہم نے ان کو اور انھوں نے ہم کو اس پر اللہ کا عہد دے رکھا ہے اس لیے ہم بدعہدی نہیں کرسکتے۔ “ اس ایک واقعے سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں جس فتنہ کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ کیسی سنگدلانہ اذیت تھی۔ نہ جانے کتنے گھروں میں کتنے افراد اس کا شکار تھے۔ ممکن ہے آپ اسے محض ایک انفرادی واقعہ سمجھیں ‘ لیکن یہ ایک انفرادی واقعہ نہیں تھا۔ ایسے مظلوموں کی ایک بڑی تعداد مکہ کے گلی کوچوں میں ظلم کی چکی میں پیسی جا رہی تھی۔ انھیں میں سے ایک شخص ابوبصیر نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔ جب حضور ﷺ نے اسے بھی دوسری مرتبہ واپس کرنا چاہا تو وہ مدینہ سے نکل کر ساحل سمندر پر آ بیٹھا۔ ابو جندل کو پتہ چلا وہ بھی کسی طرح ابوبصیر سے آ ملے۔ اب ان مظلوموں میں سے جس کو بھی موقع ملتا وہ ان کے پاس آجاتا جہاں نہ کوئی رہنے کی جگہ تھی اور نہ زندگی کی ضروریات میسر تھیں۔ البتہ ایمان کی دولت تھی ‘ اللہ کی بندگی کا عشق تھا جس میں وہ شب و روز بسر کر رہے تھے۔ اس طرح آہستہ آہستہ ستر آدمیوں کی ایک جماعت اکٹھی ہوگئی۔ فاقے آخر کب تک برداشت ہوتے۔ انھوں نے تنگ آ کر ملک شام آنے جانے والے قریشی قافلوں سے چھیڑ چھاڑ شروع کردی۔ اپنی ضرورت کے مطابق ان سے مال چھین لیتے۔ قریش نے تنگ آ کر نبی کریم ﷺ کو اللہ کا اور قرابت کا واسطہ دے کر یہ پیغام دیا کہ آپ انھیں اپنے پاس بلا لیں۔ ہم اس شق کو واپس لیتے ہیں۔ اب جو بھی آپ کے پاس آنا چاہے ہمیں اعتراض نہیں ہوگا۔ اس طرح سے یہ لوگ مدینہ آنے کا راستہ پا سکے اور اللہ نے اس فتنے سے ان کو نجات دی ‘ جس فتنے کا یہاں ذکر فرمایا گیا۔ مشرکین کے آئندہ کے عزائم وَلَایَزَالُوْنَ یُقَا تِلُوْنَـکُمْ حَتّٰی یَرُدُّ وْکُمْ عَنْ دِ یْنِکُمْ اِنِ اسْتَطَا عُوْا طیہاں فتنہ کی سنگینی اور اس کی وسعت کو بیان کیا جا رہا ہے۔ کہ اب تک تو مشرکین مکہ نے ہر اس آدمی کو مشق ستم بنایا جس نے بھی ایمان لانے کی کوشش کی۔ اور مسلسل اس پر مشق ستم جاری رکھی اور پوری کوشش کی کہ اسے ہجرت کا موقع نہ دیا جائے۔ اب ان کا ارادہ یہ ہے کہ کسی طرح مدینہ میں مسلمانوں کے لیے جینا ناممکن بنادیا جائے۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس کے لیے انھوں نے یہود کے ایک قبیلے کے سردار کعب بن اشرف سے روابط قائم کیے ‘ عبداللہ بن ابی ٔ رئیس المنافقین سے مراسلت جاری رکھی اور اسے دھمکی دی کہ وہ مسلمانوں کو مدینے سے نکال باہر کرے تاکہ ہم انھیں دوبارہ مظالم کا نشانہ بنا سکیں اور اگر اس نے ایسا نہ کیا تو ہم مدینے پر حملہ کریں گے ‘ مسلمانوں کے ساتھ جو کریں گے سو کریں گے ‘ لیکن تمہارا بھی قتل عام کریں گے ‘ تمہارے بچوں کو غلام بنائیں گے اور تمہارے عورتوں کو لونڈیاں بنالیں گے۔ اور پھر یہ معاملہ صرف دھمکیوں تک محدود نہ رہا بلکہ ان کے فوجی دستوں نے مدینے کے قرب و جوار میں حملے بھی شروع کردیئے۔ کرز بن جابر فہری باقاعدہ دو سو سپاہی لے کر مدینے کے اطراف میں حملہ آور ہوا۔ اس چراگاہ پر شبخون مارا جس میں آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کے جانور چرتے تھے۔ چرواہوں کو قتل کیا اور جتنے جانور ہاتھ آئے انھیں ہانک کرلے گیا۔ مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ انھوں نے جو کچھ اب تک کیا اور جو کچھ وہ مکہ کے مظلوموں کے ساتھ کر رہے ہیں اسے کسی وقتی جوش کا نتیجہ مت سمجھئے یہ ان کے ان عزائم کا حصہ ہے جنھیں آگے بڑھانے میں وہ شب و روز مصروف ہیں۔ ان کا اصل ہدف یہ ہے کہ اگر ان کا بس چلے تو وہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں۔ اللہ نے تمہیں اسلام کی جس دولت سے نوازا ہے وہ دوبارہ ہر ممکن کوشش سے تمہیں اس سے محروم کرنے کی فکر میں ہیں۔ کفار کے ان عزائم کو جاننے اور ان کی ناقابل برداشت جسارتوں کو دیکھ لینے کے بعد بھی کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ ایسے شدید فتنے کے استیصال کے لیے اشہر حرم میں لڑنا گناہ ہے۔ مسلمانوں کو مناسب تنبیہ وَمَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْـکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَیَمُتْ وَھُوَ کَافِرٌ فَاُولٰٓئِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ فِیْ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ج ارتداد کا ذکر آنے کی وجہ سے مناسب سمجھا گیا کہ مسلمانوں کو تنبیہ کردی جائے کہ تم اگر ان کے مظالم سے مرعوب ہو کر خدا نخواستہ کسی کمزوری کا شکار ہوگئے یا اپنی جان بچانے کی خاطر اللہ کے دین ہی کو چھوڑ بیٹھے اور یہ سمجھ بیٹھے کہ ایسے مشکل حالات میں دین کے تقاضے پورا کرنا میرے بس میں نہیں مجھے اپنے اور اپنے بچوں کے بارے میں سوچنا چاہیے تو پھر تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس کے نتائج انتہائی ہولناک ہوں گے۔ دنیا بھی برباد ہوگی اور آخرت بھی برباد ہوگی۔ مرتد کے اعمال ضائع ہوجانے کا مفہوم مرتد کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ ان کے اعمال ضائع ہوجائیں گے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ آخرت میں ضائع ہونا تو ایک واضح سی بات ہے کیوں کہ کسی عمل کا اجر اور صلہ نہیں ملے گا اور اسلام کے لیے ان کی کیسی بھی خدمات ہوں سب رائیگاں جائیں گی۔ کیوں کہ وہ اپنے تمام ذخیرہ حسنات کو خود آگ لگا چکے ہیں۔ اسلام سے نکل جانا اور کفر اختیار کرلینا یہ گویا اسلامی خدمات کو کفر کی دیا سلائی دکھانے کے مترادف ہے۔ البتہ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ دنیا میں ان کے اعمال کس طرح ضائع ہوجائیں گے۔ انسانی اعمال دو طرح کے ہیں۔ ایک تو وہ ہیں جن کا تحفظ خود اس کی اپنی ذات سے ہوتا ہے اور یا معاشرہ ان کی پاسداری کرتا ہے۔ مثلاً وہ اپنے معاشرے اور اہل خانہ کے تعاون سے اپنی عائلی زندگی کا آغاز کرتا ہے۔ ارتداد اختیار کرنے سے پہلا اثر یہ ہوتا ہے کہ اس کی عائلی زندگی شکست و ریخت کا شکار ہوجاتی ہے۔ اس کی بیوی اس کے نکاح سے نکل جاتی ہے ‘ یہ اولاد کا وارث نہیں رہتا اور بطور باپ احترام کے علاوہ اولاد سے کسی طرح کے حق کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔ اور اگر کوئی ایسا شخص مرجاتا ہے جس کی وراثت میں شرعی طور پر اس کا بھی حصہ ہے تو یہ اپنے حصے سے محروم ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اس کے جتنے ذاتی اعمال ہیں مثلاً نماز ‘ روزہ وغیرہ وہ سب کالعدم قرار پاتے ہیں۔ عائلی زندگی کے ٹوٹنے کے بعد معاشرے سے اس کا تعلق خوف بخود ٹوٹ جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کے جنازے میں شریک ہونا اور اس کی تکفین و تدفین ‘ ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ لیکن اس شخص کے مرجانے سے یہ ذمہ داریاں بھی ختم ہوجاتی ہیں۔ نہ اس کی تکفین و تدفین میں کوئی شریک ہوتا ہے اور نہ اس کی نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہیں۔ کیونکہ اس نے خود مسلمان امت سے اپنے آپ کو کاٹ لیا ہے۔ دوسرے حقوق وہ ہیں جن کا تعلق اسلامی ریاست سے ہے۔ اسلام چونکہ ریاستِ اسلامی کا دستور ہوتا ہے جب ایک آدمی اسلام سے بغاوت کرتا ہے تو وہ حقیقت میں اسلامی ریاست کے دستور سے بغاوت کرتا ہے۔ اور دنیا کے متمدن ممالک کا یہ طریقہ ہے کہ دستور اور آئین کا باغی ملک کا باغی سمجھا جاتا ہے اور اسے ہر طرح کے حقوق شہریت سے محروم کر کے پھانسی پر لٹکا دیا جاتا ہے۔ اسلام نے بھی مرتد کو یہی سزا دی ہے۔ اس سے اس کے حقوق شہریت سلب کرلیے جاتے ہیں۔ البتہ اتمام حجت کے لیے اسے جیل میں رکھ کر اس کے اشتباہات دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن اگر وہ اپنی ضد پر قائم رہے تو پھر اسے اس کے انجام کے سپرد کردیا جاتا ہے۔ اور قیامت کے دن یہ ان لوگوں میں سے ہوگا جو ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔
Top