Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 216
كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِتَالُ وَ هُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ١ۚ وَ عَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْئًا وَّ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ١ۚ وَ عَسٰۤى اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّ هُوَ شَرٌّ لَّكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
كُتِبَ عَلَيْكُمُ : تم پر فرض کی گئی الْقِتَالُ : جنگ وَھُوَ : اور وہ كُرْهٌ : ناگوار لَّكُمْ : تمہارے لیے وَعَسٰٓى : اور ممکن ہے اَنْ : کہ تَكْرَھُوْا : تم ناپسند کرو شَيْئًا : ایک چیز وَّھُوَ : اور وہ خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے وَعَسٰٓى : اور ممکن ہے اَنْ : کہ تُحِبُّوْا : تم پسند کرو شَيْئًا : ایک چیز وَّھُوَ : اور وہ شَرٌّ : بری لَّكُمْ : تمہارے لیے وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے وَاَنْتُمْ : اور تم لَا تَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
تم پر جنگ فرض کی گئی اور وہ تمہارے لیے ایک ناگوار شے ہے۔ ممکن ہے تم ایک شے کو ناگوار خیال کرو حالانکہ وہ تمہارے لیے بہتر ہو اور ممکن ہے کہ تم ایک شے کو پسندیدہ سمجھو اور وہ تمہارے لیے بری ہو۔ اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے)
کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ وَھُوَکُرْہٌ لَّـکُمْ ج وَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّھُوَ خَیْرٌلَّـکُمْ ج وَعَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَھُوَ شَرٌّلَّـکُمْ ط وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَاتَعْلَمُوْنَ ۔ ع (تم پر جنگ فرض کی گئی اور وہ تمہارے لیے ایک ناگوار شے ہے۔ ممکن ہے تم ایک شے کو ناگوار خیال کرو حالانکہ وہ تمہارے لیے بہتر ہو اور ممکن ہے کہ تم ایک شے کو پسندیدہ سمجھو اور وہ تمہارے لیے بری ہو۔ اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے) ( 216) جہاد و قتال کا مفہوم اس سے پہلے میں عرض کرچکا ہوں کہ انفاق اور جنگ دونوں ایک ہی سلسلے کی باتیں ہیں۔ پہلے انفاق کا ذکر فرمایا اب قتال کا ذکر فرمایا جا رہا ہے۔ جہاد و قتال کا مفہوم سمجھنے سے پہلے ایک اور حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے جس کا اس آیت کریمہ میں اظہار فرمایا گیا ہے۔ وہ یہ کہ جنگ اور قتال انسانوں کے لیے کوئی خوشگوار معاملہ نہیں۔ کوئی بھی مہذب آدمی جنگ کو پسند نہیں کرسکتا۔ اور آج تو یہ بات عام کہی جاتی ہے کہ جنگ مسائل کا حل نہیں۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مختلف ادوار میں جہاد و قتال کو فرض کیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے جانشین حضرت یوشع (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر لڑائیاں لڑیں۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کو لڑائی کا موقع نہیں ملا اس لیے کہ نہ وہ کوئی حکومت قائم کرسکے اور نہ لوگوں کی کوئی بڑی تعداد ان پر ایمان لائی۔ ورنہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ اللہ تعالیٰ ان پر جہاد و قتال کو فرض نہ کرتا۔ یہاں اس حقیقت کو واشگاف فرمایا جا رہا ہے کہ انسان جنگ کے بارے میں کوئی بھی رائے قائم کریں ‘ لیکن دیکھنا تو یہ ہے کہ جنگ انسانی اور اخلاقی نقطہ نگاہ سے کیا حیثیت رکھتی ہے۔ انسانوں کا بھی عجیب معاملہ ہے کہ ان کے دانشور اور ان کا مہذب طبقہ ہمیشہ جنگ کی مخالفت کرتا رہا ہے ‘ لیکن یہی وہ طبقہ ہے جو اپنے قومی تفوق اور نسلی برتری کی خاطر ہمیشہ انسانوں کو جنگوں میں جھونکتا رہا ہے۔ کوئی مذہبی لڑائی آج تک جنگ عظیم نہیں بنی۔ جبکہ نسلی اور قومی لڑائیاں ہماری قریبی تاریخ میں دو دفعہ جنگ عظیم کی شکل اختیار کرچکی ہیں۔ کسی صحیح مذہب نے کوئی سکندر پیدا نہیں کیا ‘ چنگیز خان اور ہلاکو جہالت کی پیداوار ہیں۔ مذہب نے ابوبکر و عمر اور خالد بن ولید پیدا کیے ہیں ‘ جنھوں نے جنگ کو تہذیب سکھائی اور لوگوں کی گردنوں کی بجائے دل فتح کیے ‘ ان کے دکھوں کا علاج کیا ‘ جو اپنے مذہب پر بھی قائم رہے ‘ ان کے مذہب سے کبھی تعرض نہیں کیا۔ اور اگر کبھی سیاسی مجبوری سے ان کے علاقوں کو چھوڑنا پڑاتو شہر کے شہر روتے ہوئے باہر نکل آئے کہ آپ پھر ہمیں ہمارے ہم مذہب درندوں کے سپرد کر کے جا رہے ہیں۔ اس لیے یہاں قرآن کریم یہ آگاہی دے رہا ہے کہ جنگ ایک ناگوار چیز ہے لیکن تم اس بات کو نہیں جانتے کہ بعض ناگواریاں خوشیوں کا پیغام لاتی ہیں۔ اور بعض بظاہر بھلی باتیں کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہیں۔ اس لیے انسان کو اختیار نہیں دیا گیا کہ وہ اپنے لیے فوزوفلاح اور عروج و کمال کا راستہ خود طے کرے ‘ کیونکہ اگر اسے یہ اختیار دیا جاتا تو وہ ایسی چیزوں کو اختیار کرتا جس میں اس کی خواہشاتِ نفس کی پیروی ہوتی ‘ جس میں اس کے اپنے نفس کی دل پسند چیزیں ہوتیں ‘ نفس پر شاق گذرنے والی ہر چیز کو وہ اپنے لیے مکروہ قرار دیتا۔ کسی بڑے آدمی نے ٹھیک کہا کہ انسانی فطرت کا یہ عجیب رمز ہے کہ جو چیزیں اس کے نفس کو مرغوب ہیں وہ اس کو پست کرنے والی ہیں اور جو چیزیں اس کو بلند کرنے والی ہیں وہ اس کے نفس پر عموماً بہت شاق ہیں۔ اس وجہ سے اس کی فلاح کی راہ بتانے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر لی ہے۔ اور اپنے رسولوں اور کتابوں کے ذریعے سے اس کی راہنمائی کی ہے۔ اقبال مرحوم نے ٹھیک کہا : آدمی اندر جہانِ خیر و شر کم شناسد نفع خود را از ضرر اس آیت کریمہ میں قتال فرض کیا گیا ہے۔ اس لیے اس سلسلے میں چند باتوں کا سمجھنا بہت ضروری ہے۔ قتال جہاد بالسیف کا دوسرا نام ہے۔ اصل لفظ جہاد ہے جو اسلام کی ایک وسیع اصطلاح ہے۔ جہاد کا اصل مفہوم تو یہ ہے کہ اللہ کے کلمے کی سر بلندی ‘ اس کے دین کی نشرواشاعت ‘ اس راستے میں پیش آنے والی مشکلات کا مقابلہ ‘ خلق خدا کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش ‘ لوگوں کو جہالت سے نکالنے کی مساعی ‘ غرضیکہ ہر خیر کو بروئے کار لانے کی جدوجہد کرنے کو جہاد کہتے ہیں۔ لیکن اگر مسلمانوں کے ملک پر حملہ ہوجائے تو مسلمان ملک کو اس لیے بچانا کہ مسلمانوں کی زندگیاں محفوظ رہ سکیں اور وہاں اللہ تعالیٰ کے دین کے غالب اور نافذ ہونے کے امکانات باقی رہیں ‘ اسے قتال یا جہاد بالسیف کہا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر مسلمانوں کے کسی ملک پر حملہ ہوجائے اور وہ اپنے ملک کا دفاع کرنے پر پوری طرح قادر نہ ہوں تو ان کے ہمسایہ ملک پر بھی قتال فرض ہوجاتا ہے۔ یعنی ان کے ہمسائے ملک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ہمسائے کو اتنا سپورٹ کرے جس سے وہ اپنے بیرونی حملہ آور کو روکنے میں کامیاب ہوجائیں۔ اور ان کا ملک ہر طرح سے خطرات سے محفوظ ہوجائے۔ یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ یہ قتال ہر شخص پر فرض نہیں ہوتا۔ بلکہ عموماً یہ فرضِ کفایہ ہوتا ہے فرضِ کفایہ کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک جماعت اس فرض کو ادا کر دے تو باقی مسلمان اس ذمہ داری سے سبکدوش سمجھے جائیں گے۔ ہاں کسی زمانہ یا کسی ملک میں کوئی جماعت فریضہ جہاد ادا کرنے والی نہ رہے تو سب مسلمان ترک فرض کے گنہگارٹھہریں گے۔ مسلمانوں کی اصل تقسیم یہ ہے کہ مسلمان یا مجاہد ہونا چاہیے یا مجاہدین کا سپورٹر ہونا چاہیے۔ یعنی جو لوگ جہاد کے لیے جا رہے ہیں باقی مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی ضروریات کا انتظام کریں اور پیچھے ان کے اہل و عیال کی ذمہ داریاں قبول کریں۔ جہاد کی دوسری قسم فرضِ عین ہے۔ کہ اگر ایک ایسا وقت آجائے کہ جب مسلمان وطن یا اسلام کو بچانے کے لیے ملک کے ہر صحت مند آدمی کی ضرورت محسوس کریں اور ملک کا امیرنفیر عام کر دے۔ یعنی ہر ایک کو جہاد کے لیے نکلنے کا حکم دے دے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے جنگ تبوک میں حکم دیا تھا۔ اِنْفِرُوْا خِفَافًاوَّثِـقَالاً وَّجَاہِدُوْا بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ فِیْ سَبِیْلَ اللّٰہِ ” کہ نکلو اللہ کے راستے میں تم ہلکے ہو یا بوجھل ‘ اور جہاد کرو اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے “ اور مزید فرمایا اِلاَّ تَنْفِرُوْا یُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا وَّیَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ” کہ اگر تم نہ نکلے جہاد کے لیے تو اللہ تمہیں عذاب الیم دے گا اور تمہاری جگہ کسی اور قوم کو بدل کے لے آئے گا۔ “ ایسی صورت میں ہر شخص پر جہاد میں شریک ہونا فرض عین ہوجاتا ہے۔ جہاد جب فرضِ عین ہوجائے تو پھر اولاد کو ماں باپ کی اجازت کی ضرورت بھی نہیں رہتی ‘ لیکن اگر فرض کفایہ ہو اور لوگ اتنی تعداد میں جہاد میں شریک ہوں جس سے ضرورت پوری ہو رہی ہو تو ماں باپ کی اجازت کے بغیر جہاد میں جانا گناہ ہے۔ صحیح بخاری اور مسلم کی ایک حدیث ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت ﷺ سے شرکت جہاد کی اجازت چاہی تو آپ ﷺ نے اس سے دریافت کیا کہ کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں ؟ اس نے عرض کیا کہ ہاں زندہ ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا پھر جاؤ ماں باپ کی خدمت کرو اور جہاد کا ثواب حاصل کرو۔
Top