Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 37
فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْهِ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ
فَتَلَقّٰى
: پھر حاصل کرلیے
اٰدَمُ
: آدم
مِنْ رَّبِهٖ
: اپنے رب سے
کَلِمَاتٍ
: کچھ کلمے
فَتَابَ
: پھر اس نے توبہ قبول کی
عَلَيْهِ
: اس کی
اِنَّهٗ
: بیشک وہ
هُوَ
: وہ
التَّوَّابُ
: توبہ قبول کرنے والا
الرَّحِیْمُ
: رحم کرنے والا
پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب کی طرف سے چند کلمات، تو اس نے اس کی توبہ قبول کی۔ کیونکہ وہی توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
فَتَلَقّٰٓی اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْہِط اِنَّہٗ ھُوَالتَّوَّابُ الرَّحِیْمُ (پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب کی طرف سے چند کلمات، تو اس نے اس کی توبہ قبول کی، کیونکہ وہی توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے) (البقرۃ۔ 37) تلقی کا معنی اور مفہوم تلقٰیکامعنی ہے ” سیکھ لینا یا پالینا “ اسی کے فعل متعدی کا معنی ہوتا ہے ” سکھانا “۔ تو اس کا معنی ہوگا کہ آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمات سیکھ لیے۔ یہاں یہ نہیں فرمایا کہ یہ کلمات اللہ نے سکھائے۔ حالانکہ امر واقعہ یہی ہے کہ یہ کلمات اللہ نے عطا فرمائے اور سکھائے۔ تو کلام کی یہ تعبیر یقینا اپنے اندر کوئی معنویت اور حکمت رکھتی ہے۔ حقیقت تو اللہ جانتا ہے، لیکن جو بات بظاہر سمجھ میں آتی ہے، وہ یہ ہے کہ ابلیس کی قسم پر اعتماد اور پروردگار سے گہری محبت کے جوش میں آکر آپ ممنوعہ درخت کا پھل تو کھا بیٹھے لیکن اس نافرمانی کے اثرات ظاہر ہونے پر جب اللہ کی ناراضگی کا خیال آیاتو آپ تڑپ اٹھے آپ کو اس سے پہلے ایسی کسی صورتحال سے چونکہ واسطہ نہیں پڑا تھا اس لیے آپ نہیں جانتے تھے کہ اللہ کی ناراضگی کو دور کرنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ آپ اللہ تعالیٰ کے سامنے معافی کے طلب گار ہونا چاہتے تھے لیکن اللہ کی ناراضگی کے احساس سے ز بان بند ہوچکی تھی۔ دل اس صدمے سے خون خون ہورہا تھا۔ کچھ سمجھ نہیں آتی تھی کہ اللہ کی ناراضگی کا سامنا کریں تو کیسے کریں۔ اس کی بےپایاں عنایات سامنے آتیں تو دل پر اور چوٹ لگتی۔ رات دن آہیں کھینچنے اور آنسو بہانے کے سوا کوئی کام نہ تھا۔ حضرت آدم اور حضرت حوا نے اپنی انابت و استغفار کا سارا سرمایہ آستانہ عالیہ پر ڈھیر کردیا تھا۔ لیکن زبان کو ابھی تک ہمت نہ ہورہی تھی کہ مناسب الفاظ سے اللہ سے بخشش کی دعامانگیں اور اس سے مغفرت کے طلب گارہوں۔ حضرت آدم کی یہ شکست و ریخت اور آپ کی درماندگی اور فروتنی اللہ کے حضور کام آئی رحمت حق کو جوش آیا اور حضرت آدم کو وہ کلمات سکھائے جو ایک طرف اللہ کی شان کے لائق ہیں اور دوسری طرف اس میں اپنی عاجزی اور درماندگی کا انتہائی اعتراف بھی ہے۔ بعض اہل علم نے بعض کمزور روایات کے سہارے مختلف قسم کے کلمات کا ذکر کیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سورة اعراف میں جب پروردگار نے خود حضرت آدم وحوا کے دعائیہ کلمات کو ذکر فرمایا ہے اور اسی پر توبہ کی قبولیت کی نوید بھی سنائی گئی ہے۔ تو اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ یہی وہ کلمات ہیں جو حضرت آدم نے پروردگار سے سیکھے تھے۔ وہ کلمات یہ ہیں۔ قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (دونوں نے دعا کی ” اے ہمارے رب ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا (جو کچھ ہم سے آپ کی نافرمانی ہوئی ہم اس کی کوئی توجیہ نہیں کرتے ہمیں اعتراف ہے کہ ہم نے اپنی ہی جانوں پر ظلم کیا یعنی جن جانوں کو آپ کی فرماں برداری کے سوا کوئی چیز زیب نہیں دیتی تھی ان سے آپ کی نافرمانی کا ارتکاب ہوا) اگر آپ نے ہمیں نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ کھایا تو ہم برباد ہونے والوں میں سے ہوجائیں گے) ان دعائیہ کلمات پر غور کیجئے ! ایک تو اپنی غلطی کا صاف صاف اعتراف ہے، توجیہ کی کوئی کوشش نہیں۔ دوسری یہ بات کہ آپ کی نافرمانی معمولی بات نہیں یہ ہمارے لیے ہلاکت، بربادی اور نامرادی ہے۔ توبہ کے دو بنیادی عناصر اس ہلاکت سے بچنے کے لیے اگر کوئی نسخہ شفا ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ آپ ہی سے مغفرت کی بھیک مانگیں اور آپ ہی سے رحمت کی التجا کریں۔ آپ نے اگر ہماری مغفرت فرمادی اور ہم پر رحم فرمایا تو ہم بربادی سے بچ جائیں گے اور اگر آپ نے کرم نہ فرمایا تو ہماری بربادی میں کوئی دیر نہیں۔ یہ دو تصورات جو حضرت آدم کی توبہ کے سلسلے میں ہمیں عطا ہوئے ہیں یہ انسانیت کی جان ہیں کہ انسان نہ جانے دنیا کی کیسی کیسی کامیابیوں کو زندگی کا حاصل سمجھتا ہے اور کیسی کیسی دنیوی ناکامیوں کو اپنے لیے سم قاتل خیال کرتا ہے، یعنی کامیابیوں اور ناکامیوں کے حوالے سے اس کا محور صرف دنیا اور دنیا کی کامیابیاں اور ناکامیاں ہیں۔ لیکن یہاں فرمایا گیا ہے کہ تمہارا اصل سرمایہ زندگی کے وہ اعمال ہیں جس کے نتیجے میں تمہیں اللہ کی رضا حاصل ہے اور تمہارے لیے اصل نامرادی اس چیز میں ہے جس کے نتیجے میں اللہ ناراض ہوجائے اور تم اس کی رحمت سے محروم کردئیے جاؤ۔ چناچہ ان کلمات کے ساتھ جب حضرت آدم اور حضرت حوا نے توبہ کی تو اللہ فرماتا ہے۔ فَتَابَ عَلَیْہِ اللہ تعالیٰ نے ان پر رجوع برحمت فرمایا اور ان کی توبہ قبول فرمائی۔ تاب کا معنی و مفہوم تَابَ کا اصل معنی ہے۔” لوٹنا اور رجوع کرنا “۔ لیکن جب اس کے ساتھ علیٰ کا صیغہ آتا ہے، تو اس میں رحمت کا مفہوم شامل ہوجاتا ہے۔ پھر اس کا معنی کیا جاتا ہے ” توبہ قبول کرنا “۔ دوسری بات یہ ذہن میں رہنی چاہیے کہ تَابَکا فاعل جب بندہ ہو تو اس کا معنی ہوتا ہے ” توبہ کرنا “ یعنی معصیت سے اطاعت کی طرف لوٹ آنا۔ کفر سے ایمان کی طرف آجانا۔ بد عملی سے نیک عملی کی طرف لوٹ آنا۔ گمراہی سے راہ راست کی طرف پلٹ آنا۔ لیکن جب تَابَ کا فاعل اللہ ہو، تو پھر اس کا معنی ہوتا ہے غضب سے رحمت کی طرف لوٹ آنا، ناراضگی سے خوشنودی کی طرف آجانا۔ یہاں بھی یہی مطلب ہے کہ حضرت آدم نے جب توبہ کی تو اللہ تعالیٰ رحمت کے ساتھ ان کی طرف لوٹ آیا۔ ناراضگی کی بجائے انھیں اللہ کی خوشنودی حاصل ہوگئی۔ اس کے بعد فرمایا انہ ھوالتواب الرحیم ” بیشک وہی بہت توبہ قبول کرنے والا اور بہت رحم کرنے والا ہے “ تَوَّاب تَائب سے اسم مبالغہ ہے۔ بہت توبہ قبول کرنے والا اور یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ التائب کا معنی ہے توبہ کرنے والا یا توبہ قبول کرنے والا۔ لیکن یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے تمام نام چونکہ توقیفی ہیں اس لیے تائب کو معنوی مناسبت کے باوجود اللہ کے ناموں میں شمار نہیں کیا جاتا۔ توبہ اسلام کا طرہ امتیاز … اس کی حقیقت آیت کے اس حصے سے بطور خاص اس تصور کی طرف اشارہ ہے جو اسلام کا طرّئہ امتیاز ہے باقی تمام مذاہب یہ تعلیم دیتے ہیں کہ انسان سے جب کوئی گناہ ہوجاتا ہے تو اس گناہ کی سزا ملناضروری ہے۔ کیونکہ جس طرح ہر چیز کا ایک لازمی نتیجہ ہوتا ہے اور وہ نکل کر رہتا ہے اسی طرح گناہ کا لازمی نتیجہ سزا ہے جسے بہرحال گناہ گا رکو بھگتنا ہوگا۔ کوئی آدمی ہزار کوشش کرے کہ میں دنیا میں گناہ کی زندگی چھوڑ کر نیکی کی زندگی اختیار کرلوں اور ایک نیک آدمی کی حیثیت سے باقی زندگی گزاروں۔ لیکن ان مذاہب کے نزدیک اس کا کوئی امکان نہیں۔ عیسائیت نے یہ امکان پیدا کرنے کے لیے کفارے کا عقیدہ اختراع کیا جو سراسر غیر حقیقت پسندانہ بھی ہے اور عقل کے خلاف بھی۔ لیکن ہندو مت نے تو آواگون اور تناسخ کا عقیدہ دے کر انسانیت کو ایک ایسے گورکھ دھندے میں ڈال دیا ہے جس سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں۔ عیسائیت کے غلط تصور نے اگر مذہبی پیشوائی کو غلط رخ پہ ڈالا ہے اور عام عیسائیت پر چلنے والوں کو گناہوں پر دلیر کردیا ہے تو ہندو مت وغیرہ مذاہب نے انسانیت کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ کوئی آدمی جب یہ سوچتا ہے کہ بری زندگی سے نکلنے کا اب کوئی راستہ نہیں ہے تو وہ مایوسی کی دلدل میں اتر جاتا ہے۔ اس کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں رہتا کہ وہ خودکشی کرلے یا گناہ پر گناہ کرتا چلاجائے۔ اسلام نے اس کے بالکل برعکس دو تصورات دئیے۔ ایک تو یہ کہ انسان کی معنوی اور روحانی زندگی پر بھی اسی قانون کی حکومت ہے جو پروردگار کا قانون کائنات کے باقی علاقات میں کارفرما ہے۔ ہم یہاں دیکھتے ہیں انسان بیمار ہوتے ہیں درختوں کو بیماریاں لگتی ہیں حیوانات مختلف امراض کا شکار ہوتے ہیں۔ لیکن کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ اگر بروقت بیماری کے علاج کی صحیح کوشش کی جائے تو شفا نہ ہو۔ مخلوقات میں سے کسی مخلوق کے بھی بیمار ہونے پر کوئی معالج کبھی یہ نہیں کہ تاکہ ہر چیزکا ایک نتیجہ ہوتا ہے اس لیے یہ بیماری بھی نتیجہ خیز ہو کر رہے گی، اسے روکا نہیں جاسکتا۔ تو جس طرح ہر جسمانی بیماری کا علاج ممکن ہے اسی طرح معنوی اخلاقی اور روحانی بیماریوں کا علاج بھی ممکن ہے۔ جس طرح جسمانی بیماریوں کے مختلف نام ہیں۔ اسی طرح معنوی اور روحانی بیماریوں کو بھی گناہ کی مختلف تعبیروں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسلام یہ کہتا ہے کہ کائنات میں پروردگار کا ایک ہی نظام کارفرما ہے، جسمانی بیماریوں میں جس طرح علاج کو اس نے موثر تسلیم کیا ہے اسی طرح روحانی اور اخلاقی بیماریوں میں بھی کوئی شخص اگر اس سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کوشش کی بھی قدر فرمائی ہے۔ اور توبہ کے نام سے اس کا طریقہ بتایا ہے۔ دوسری بات وہ یہ کہتا ہے کہ نیکی پر جزاء اور بدی پر سزا یہ ان کا طبعی نتیجہ نہیں کہ جس کو ہم لازمی قراردیں بلکہ جزا اللہ کا فضل ہے جو سراسر اس کے اختیار میں ہے اور سزا بھی اس کے اختیار میں ہے وہ چاہے تو سز ادے اور چاہے معاف کردے۔ البتہ اس کا فضل اور اس کی رحمت اس کی حکمت کے ساتھ ہم رشتہ ہے۔ وہ چونکہ حکیم ہے اس لیے اپنے اختیارات کو اندھا دھند استعمال نہیں کرتا۔ جب کسی بھلائی پر انعام دیتا ہے تو یہ دیکھ کر ایسا کرتا ہے کہ بندے نے سچی نیت کے ساتھ اس کی رضا کے لیے بھلائی کی تھی۔ اور جس بھلائی کو رد کردیتا ہے اسے اس بناپررد کرتا ہے کہ اس کی ظاہری شکل بھلے کام کی سی تھی، مگر اندر اپنے رب کی رضا جوئی کا خالص جذبہ نہ تھا اسی طرح وہ سزا اس قصور پر دیتا ہے جو باغیانہ جسارت کے ساتھ کیا جائے اور جس کے پیچھے شرمساری کی بجائے مزید ارتکاب جرم کی خواہش موجود ہو۔ اور اپنی رحمت سے معافی اس قصور پر دیتا ہے جس کے بعد بندہ اپنے کیے پر شرمندہ اور آئندہ کے لیے اپنی اصلاح پر آمادہ ہو۔ بڑے سے بڑے مجرم کے لیے بھی اللہ کے ہاں مایوسی اور ناامیدی کا کوئی موقع نہیں بشرطیکہ وہ اپنی غلطی کا معترف اپنی نافرمانی پر نادم اور بغاوت کی روش چھوڑ کر اطاعت کی روش اختیار کرنے پر تیارہو۔
Top