Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 37
فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْهِ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ
فَتَلَقّٰى : پھر حاصل کرلیے اٰدَمُ : آدم مِنْ رَّبِهٖ : اپنے رب سے کَلِمَاتٍ : کچھ کلمے فَتَابَ : پھر اس نے توبہ قبول کی عَلَيْهِ : اس کی اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہ التَّوَّابُ : توبہ قبول کرنے والا الرَّحِیْمُ : رحم کرنے والا
پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب کی طرف سے چند کلمات، تو اس نے اس کی توبہ قبول کی۔ کیونکہ وہی توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
فَتَلَقّٰٓی اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْہِط اِنَّہٗ ھُوَالتَّوَّابُ الرَّحِیْمُ (پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب کی طرف سے چند کلمات، تو اس نے اس کی توبہ قبول کی، کیونکہ وہی توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے) (البقرۃ۔ 37) تلقی کا معنی اور مفہوم تلقٰیکامعنی ہے ” سیکھ لینا یا پالینا “ اسی کے فعل متعدی کا معنی ہوتا ہے ” سکھانا “۔ تو اس کا معنی ہوگا کہ آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمات سیکھ لیے۔ یہاں یہ نہیں فرمایا کہ یہ کلمات اللہ نے سکھائے۔ حالانکہ امر واقعہ یہی ہے کہ یہ کلمات اللہ نے عطا فرمائے اور سکھائے۔ تو کلام کی یہ تعبیر یقینا اپنے اندر کوئی معنویت اور حکمت رکھتی ہے۔ حقیقت تو اللہ جانتا ہے، لیکن جو بات بظاہر سمجھ میں آتی ہے، وہ یہ ہے کہ ابلیس کی قسم پر اعتماد اور پروردگار سے گہری محبت کے جوش میں آکر آپ ممنوعہ درخت کا پھل تو کھا بیٹھے لیکن اس نافرمانی کے اثرات ظاہر ہونے پر جب اللہ کی ناراضگی کا خیال آیاتو آپ تڑپ اٹھے آپ کو اس سے پہلے ایسی کسی صورتحال سے چونکہ واسطہ نہیں پڑا تھا اس لیے آپ نہیں جانتے تھے کہ اللہ کی ناراضگی کو دور کرنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ آپ اللہ تعالیٰ کے سامنے معافی کے طلب گار ہونا چاہتے تھے لیکن اللہ کی ناراضگی کے احساس سے ز بان بند ہوچکی تھی۔ دل اس صدمے سے خون خون ہورہا تھا۔ کچھ سمجھ نہیں آتی تھی کہ اللہ کی ناراضگی کا سامنا کریں تو کیسے کریں۔ اس کی بےپایاں عنایات سامنے آتیں تو دل پر اور چوٹ لگتی۔ رات دن آہیں کھینچنے اور آنسو بہانے کے سوا کوئی کام نہ تھا۔ حضرت آدم اور حضرت حوا نے اپنی انابت و استغفار کا سارا سرمایہ آستانہ عالیہ پر ڈھیر کردیا تھا۔ لیکن زبان کو ابھی تک ہمت نہ ہورہی تھی کہ مناسب الفاظ سے اللہ سے بخشش کی دعامانگیں اور اس سے مغفرت کے طلب گارہوں۔ حضرت آدم کی یہ شکست و ریخت اور آپ کی درماندگی اور فروتنی اللہ کے حضور کام آئی رحمت حق کو جوش آیا اور حضرت آدم کو وہ کلمات سکھائے جو ایک طرف اللہ کی شان کے لائق ہیں اور دوسری طرف اس میں اپنی عاجزی اور درماندگی کا انتہائی اعتراف بھی ہے۔ بعض اہل علم نے بعض کمزور روایات کے سہارے مختلف قسم کے کلمات کا ذکر کیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سورة اعراف میں جب پروردگار نے خود حضرت آدم وحوا کے دعائیہ کلمات کو ذکر فرمایا ہے اور اسی پر توبہ کی قبولیت کی نوید بھی سنائی گئی ہے۔ تو اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ یہی وہ کلمات ہیں جو حضرت آدم نے پروردگار سے سیکھے تھے۔ وہ کلمات یہ ہیں۔ قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (دونوں نے دعا کی ” اے ہمارے رب ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا (جو کچھ ہم سے آپ کی نافرمانی ہوئی ہم اس کی کوئی توجیہ نہیں کرتے ہمیں اعتراف ہے کہ ہم نے اپنی ہی جانوں پر ظلم کیا یعنی جن جانوں کو آپ کی فرماں برداری کے سوا کوئی چیز زیب نہیں دیتی تھی ان سے آپ کی نافرمانی کا ارتکاب ہوا) اگر آپ نے ہمیں نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ کھایا تو ہم برباد ہونے والوں میں سے ہوجائیں گے) ان دعائیہ کلمات پر غور کیجئے ! ایک تو اپنی غلطی کا صاف صاف اعتراف ہے، توجیہ کی کوئی کوشش نہیں۔ دوسری یہ بات کہ آپ کی نافرمانی معمولی بات نہیں یہ ہمارے لیے ہلاکت، بربادی اور نامرادی ہے۔ توبہ کے دو بنیادی عناصر اس ہلاکت سے بچنے کے لیے اگر کوئی نسخہ شفا ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ آپ ہی سے مغفرت کی بھیک مانگیں اور آپ ہی سے رحمت کی التجا کریں۔ آپ نے اگر ہماری مغفرت فرمادی اور ہم پر رحم فرمایا تو ہم بربادی سے بچ جائیں گے اور اگر آپ نے کرم نہ فرمایا تو ہماری بربادی میں کوئی دیر نہیں۔ یہ دو تصورات جو حضرت آدم کی توبہ کے سلسلے میں ہمیں عطا ہوئے ہیں یہ انسانیت کی جان ہیں کہ انسان نہ جانے دنیا کی کیسی کیسی کامیابیوں کو زندگی کا حاصل سمجھتا ہے اور کیسی کیسی دنیوی ناکامیوں کو اپنے لیے سم قاتل خیال کرتا ہے، یعنی کامیابیوں اور ناکامیوں کے حوالے سے اس کا محور صرف دنیا اور دنیا کی کامیابیاں اور ناکامیاں ہیں۔ لیکن یہاں فرمایا گیا ہے کہ تمہارا اصل سرمایہ زندگی کے وہ اعمال ہیں جس کے نتیجے میں تمہیں اللہ کی رضا حاصل ہے اور تمہارے لیے اصل نامرادی اس چیز میں ہے جس کے نتیجے میں اللہ ناراض ہوجائے اور تم اس کی رحمت سے محروم کردئیے جاؤ۔ چناچہ ان کلمات کے ساتھ جب حضرت آدم اور حضرت حوا نے توبہ کی تو اللہ فرماتا ہے۔ فَتَابَ عَلَیْہِ اللہ تعالیٰ نے ان پر رجوع برحمت فرمایا اور ان کی توبہ قبول فرمائی۔ تاب کا معنی و مفہوم تَابَ کا اصل معنی ہے۔” لوٹنا اور رجوع کرنا “۔ لیکن جب اس کے ساتھ علیٰ کا صیغہ آتا ہے، تو اس میں رحمت کا مفہوم شامل ہوجاتا ہے۔ پھر اس کا معنی کیا جاتا ہے ” توبہ قبول کرنا “۔ دوسری بات یہ ذہن میں رہنی چاہیے کہ تَابَکا فاعل جب بندہ ہو تو اس کا معنی ہوتا ہے ” توبہ کرنا “ یعنی معصیت سے اطاعت کی طرف لوٹ آنا۔ کفر سے ایمان کی طرف آجانا۔ بد عملی سے نیک عملی کی طرف لوٹ آنا۔ گمراہی سے راہ راست کی طرف پلٹ آنا۔ لیکن جب تَابَ کا فاعل اللہ ہو، تو پھر اس کا معنی ہوتا ہے غضب سے رحمت کی طرف لوٹ آنا، ناراضگی سے خوشنودی کی طرف آجانا۔ یہاں بھی یہی مطلب ہے کہ حضرت آدم نے جب توبہ کی تو اللہ تعالیٰ رحمت کے ساتھ ان کی طرف لوٹ آیا۔ ناراضگی کی بجائے انھیں اللہ کی خوشنودی حاصل ہوگئی۔ اس کے بعد فرمایا انہ ھوالتواب الرحیم ” بیشک وہی بہت توبہ قبول کرنے والا اور بہت رحم کرنے والا ہے “ تَوَّاب تَائب سے اسم مبالغہ ہے۔ بہت توبہ قبول کرنے والا اور یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ التائب کا معنی ہے توبہ کرنے والا یا توبہ قبول کرنے والا۔ لیکن یہ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے تمام نام چونکہ توقیفی ہیں اس لیے تائب کو معنوی مناسبت کے باوجود اللہ کے ناموں میں شمار نہیں کیا جاتا۔ توبہ اسلام کا طرہ امتیاز … اس کی حقیقت آیت کے اس حصے سے بطور خاص اس تصور کی طرف اشارہ ہے جو اسلام کا طرّئہ امتیاز ہے باقی تمام مذاہب یہ تعلیم دیتے ہیں کہ انسان سے جب کوئی گناہ ہوجاتا ہے تو اس گناہ کی سزا ملناضروری ہے۔ کیونکہ جس طرح ہر چیز کا ایک لازمی نتیجہ ہوتا ہے اور وہ نکل کر رہتا ہے اسی طرح گناہ کا لازمی نتیجہ سزا ہے جسے بہرحال گناہ گا رکو بھگتنا ہوگا۔ کوئی آدمی ہزار کوشش کرے کہ میں دنیا میں گناہ کی زندگی چھوڑ کر نیکی کی زندگی اختیار کرلوں اور ایک نیک آدمی کی حیثیت سے باقی زندگی گزاروں۔ لیکن ان مذاہب کے نزدیک اس کا کوئی امکان نہیں۔ عیسائیت نے یہ امکان پیدا کرنے کے لیے کفارے کا عقیدہ اختراع کیا جو سراسر غیر حقیقت پسندانہ بھی ہے اور عقل کے خلاف بھی۔ لیکن ہندو مت نے تو آواگون اور تناسخ کا عقیدہ دے کر انسانیت کو ایک ایسے گورکھ دھندے میں ڈال دیا ہے جس سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں۔ عیسائیت کے غلط تصور نے اگر مذہبی پیشوائی کو غلط رخ پہ ڈالا ہے اور عام عیسائیت پر چلنے والوں کو گناہوں پر دلیر کردیا ہے تو ہندو مت وغیرہ مذاہب نے انسانیت کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ کوئی آدمی جب یہ سوچتا ہے کہ بری زندگی سے نکلنے کا اب کوئی راستہ نہیں ہے تو وہ مایوسی کی دلدل میں اتر جاتا ہے۔ اس کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں رہتا کہ وہ خودکشی کرلے یا گناہ پر گناہ کرتا چلاجائے۔ اسلام نے اس کے بالکل برعکس دو تصورات دئیے۔ ایک تو یہ کہ انسان کی معنوی اور روحانی زندگی پر بھی اسی قانون کی حکومت ہے جو پروردگار کا قانون کائنات کے باقی علاقات میں کارفرما ہے۔ ہم یہاں دیکھتے ہیں انسان بیمار ہوتے ہیں درختوں کو بیماریاں لگتی ہیں حیوانات مختلف امراض کا شکار ہوتے ہیں۔ لیکن کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ اگر بروقت بیماری کے علاج کی صحیح کوشش کی جائے تو شفا نہ ہو۔ مخلوقات میں سے کسی مخلوق کے بھی بیمار ہونے پر کوئی معالج کبھی یہ نہیں کہ تاکہ ہر چیزکا ایک نتیجہ ہوتا ہے اس لیے یہ بیماری بھی نتیجہ خیز ہو کر رہے گی، اسے روکا نہیں جاسکتا۔ تو جس طرح ہر جسمانی بیماری کا علاج ممکن ہے اسی طرح معنوی اخلاقی اور روحانی بیماریوں کا علاج بھی ممکن ہے۔ جس طرح جسمانی بیماریوں کے مختلف نام ہیں۔ اسی طرح معنوی اور روحانی بیماریوں کو بھی گناہ کی مختلف تعبیروں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسلام یہ کہتا ہے کہ کائنات میں پروردگار کا ایک ہی نظام کارفرما ہے، جسمانی بیماریوں میں جس طرح علاج کو اس نے موثر تسلیم کیا ہے اسی طرح روحانی اور اخلاقی بیماریوں میں بھی کوئی شخص اگر اس سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کوشش کی بھی قدر فرمائی ہے۔ اور توبہ کے نام سے اس کا طریقہ بتایا ہے۔ دوسری بات وہ یہ کہتا ہے کہ نیکی پر جزاء اور بدی پر سزا یہ ان کا طبعی نتیجہ نہیں کہ جس کو ہم لازمی قراردیں بلکہ جزا اللہ کا فضل ہے جو سراسر اس کے اختیار میں ہے اور سزا بھی اس کے اختیار میں ہے وہ چاہے تو سز ادے اور چاہے معاف کردے۔ البتہ اس کا فضل اور اس کی رحمت اس کی حکمت کے ساتھ ہم رشتہ ہے۔ وہ چونکہ حکیم ہے اس لیے اپنے اختیارات کو اندھا دھند استعمال نہیں کرتا۔ جب کسی بھلائی پر انعام دیتا ہے تو یہ دیکھ کر ایسا کرتا ہے کہ بندے نے سچی نیت کے ساتھ اس کی رضا کے لیے بھلائی کی تھی۔ اور جس بھلائی کو رد کردیتا ہے اسے اس بناپررد کرتا ہے کہ اس کی ظاہری شکل بھلے کام کی سی تھی، مگر اندر اپنے رب کی رضا جوئی کا خالص جذبہ نہ تھا اسی طرح وہ سزا اس قصور پر دیتا ہے جو باغیانہ جسارت کے ساتھ کیا جائے اور جس کے پیچھے شرمساری کی بجائے مزید ارتکاب جرم کی خواہش موجود ہو۔ اور اپنی رحمت سے معافی اس قصور پر دیتا ہے جس کے بعد بندہ اپنے کیے پر شرمندہ اور آئندہ کے لیے اپنی اصلاح پر آمادہ ہو۔ بڑے سے بڑے مجرم کے لیے بھی اللہ کے ہاں مایوسی اور ناامیدی کا کوئی موقع نہیں بشرطیکہ وہ اپنی غلطی کا معترف اپنی نافرمانی پر نادم اور بغاوت کی روش چھوڑ کر اطاعت کی روش اختیار کرنے پر تیارہو۔
Top