Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 38
قُلْنَا اهْبِطُوْا مِنْهَا جَمِیْعًا١ۚ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّنِّیْ هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
قُلْنَا : ہم نے کہا اهْبِطُوْا : تم اتر جاؤ مِنْهَا : یہاں سے جَمِیْعًا : سب فَاِمَّا : پس جب يَأْتِيَنَّكُمْ : تمہیں پہنچے مِنِّیْ : میری طرف سے هُدًى : کوئی ہدایت فَمَنْ تَبِعَ : سو جو چلا هُدَايَ : میری ہدایت فَلَا : تو نہ خَوۡفٌ : کوئی خوف عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يَحْزَنُوْنَ : غمگین ہوں گے
ہم نے کہا ! اترو یہاں سے سب، تو اگر آئے تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت تو جو میری ہدایت کی پیروی کریں گے، تو ان کے لیے نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے
قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْھَا جَمِیْعًاج فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِنِّی ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْابِاٰیٰتِنَا اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِج ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ ۔ ” ہم نے کہا ! اترو یہاں سے سب، تو اگر آئے تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت تو جو میری ہدایت کی پیروی کریں گے، تو ان کے لیے نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ اور جو کفر کریں گے اور جھٹلائیں گے میری آیتوں کو وہی لوگ دوزخ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ “ (البقرۃ : 38 تا 39) حکم میں اعادہ کا مفہوم اس آیت کریمہ کا پہلا جملہ گزشتہ سے پیوستہ آیت میں بھی آچکا ہے۔ وہاں بھی اترنے کا حکم دیا گیا تھا۔ یہاں اسی حکم کا پھر اعادہ کیا گیا ہے۔ اس سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ گزشتہ حکم ضرور دیا گیا تھا لیکن اس کا نفاذ نہیں ہوا تھا اگر اس کا نفاذ ہوچکا ہوتا تو دوبارہ حکم دینے کی نوبت نہ آتی اور دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ پہلی دفعہ یہ حکم حضرت آدم کی لغزش کے نتیجے کے طور پر دیا گیا تھا۔ جس میں ناراضگی کا اظہار تھا اور اب یہ حکم اس وقت دیا جارہا ہے جب پروردگار حضرت آدم اور حضرت حوا کی لغزش کو معاف فرماچکے ہیں۔ اور یہ حکم دے کر یہ بتایا جارہا ہے کہ دنیا میں تمہارا بھیجا جانا اس لیے نہیں ہے کہ وہ تمہارے لیے کوئی دارالعذاب ہے۔ بلکہ ہم اپنے سابقہ حکم کو برقرار رکھ کر معافی دینے کے باوجود یہ بتانا چاہتے ہیں کہ زمین پر تمہارا جانا میری حکمت کے مطابق ہے کیونکہ اللہ کی حکمت نے پہلے سے تمہیں خلافت ارضی کے لیے چن لیا تھا۔ اب تمہیں وہاں جانے کا جو حکم دیا جارہا ہے، وہ اس لیے دیا جارہا ہے تاکہ تم اپنی اصل ذمہ داری کے مقام پر پہنچو اور وہاں جاکر اپنے فرائض سنبھالو اور آیت کے دوسرے حصے سے معلوم ہوتا ہے کہ اب آپ کو زمین پر جو اتارا جارہا ہے تو صرف آدم کی حیثیت سے نہیں اتارا جارہا بلکہ آپ کے سر پر نبوت کا تاج بھی رکھ دیا گیا ہے۔ اب آپ زمین پر نبی اور خلیفہ کے پروٹوکول کے ساتھ تشریف لے جائیں گے اور آپ کو وہ ساری آزادیاں اور سہولتیں میسر ہوں گی جو اس منصب کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے ضروری ہیں آیت کے دوسرے حصے فَاِمَّا یَاْتِیَنَّـکُمْ الخ سے ایک نہائت اہم حقیقت واشگاف کی جارہی ہے کہ ہم نے آدم کو زمین پر اگرچہ حواس اور جوہرِ عقل جیسے آلات دے کر بھیجا ہے۔ جن سے وہ کام لے کر زندگی کے بیشتر معاملات کو حل کرسکتے ہیں۔ لیکن حق و باطل، خیر و شر کا معاملہ اتنا آسان نہیں کہ جو انسان کی فطرت اور عقل کے حوالے کرکے چھوڑ دیاجائے۔ اور مزید یہ کہ جنت میں حضرت آدم اور حوا جس طرح شیطان کے بہکاوے کا شکار ہوئے اس سے یہ بات پوری طرح واضح ہوگئی کہ شیطان کے بہکاو وں کا مقابلہ صرف عقل سے ممکن نہیں اسی طرح اللہ کے احکام اور اللہ کی پسند اور ناپسند کا علم اور زندگی کے لیے ایک ایسی رہنمائی جو ہر طرح کی غلطیوں سے پاک ہو صرف حواس اور عقل سے تلاش نہیں کی جاسکتی اس کے لیے ضروری ہے کہ اللہ کی طرف سے وحی کا سلسلہ جاری ہو اور اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل و کرم سے ایک ایسی روشنی کا انتظام کرے جس میں انسان آسانی سے زندگی کا سفر جاری رکھ سکے۔ چناچہ اس آیت کریمہ میں پروردگار یہ وعدہ فرما رہے ہیں کہ تم زمین پر چلے جاؤ لیکن تمہاری زندگی گزارنے کے لیے ہدایت اور رہنمائی میری طرف سے آئے گی۔ میں اس کے لیے پیغمبر بھیجوں گا، ان پر کتابیں نازل کروں گا جو ہر دور میں تمہاری رہنمائی کے لیے کافی ہوں گی۔ لیکن یہ یاد رکھو کہ تمہاری دنیوی سلامتی اور اخروی سرخ روئی کا دارومدار صرف اس بات پر ہوگا کہ تم میری ہدایت کی پیروی کرتے ہو یا نہیں کرتے۔ اگر تم نے خوش دلی اور حسن نیت کے ساتھ میری ہدایت کی پیروی کی تو پھر تمہیں نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ کوئی چیز تمہیں غمگین کرسکے گی۔ خوف مستقبل کے اندیشوں کو کہتے ہیں۔ اور حزن ماضی میں پیش آنے والے صدمات اور فکر مندیوں کو۔ اللہ کی ہدایت کو قبول کرنے کے نتیجے میں دنیاہی میں ایک ایسا معاشرہ تیار ہوجاتا ہے جو مستقبل کے اندیشوں سے کبھی اندیشہ ناک نہیں ہوتا۔ اللہ پر توکل اور اس کی ہدایت پر چلنے کی وجہ سے ان کا مستقبل ہمیشہ محفوظ رہتا ہے۔ اگر کوئی تکلیف آتی بھی ہے تو وہ جنت کے پھولوں کی طرح کھل اٹھتی ہیں اور اگر کبھی کوئی بحران سر اٹھاتا ہے تو یا تو وہ ان کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا کیونکہ اللہ کی تائید ونصرت ان کے ساتھ ہوتی ہے اور یا اس کے نتیجے میں انھیں شہادت کا تمغہ نصیب ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر تم میں سے کسی نے محض اپنی عقل کو اپنی رہنمائی کے لیے کافی سمجھا یا لوگوں کے بتائے ہوئے طریقوں کو اپنا رہنما بنالیایا تم نے اللہ کی دی ہوئی رہنمائی میں پیوند کاری سے کام لیایا تم نے اللہ کی ہدایت کو اپنی خواہشات کے تابع بنالیا یا تم نے اللہ کی ذات کے ساتھ کوئی شریک بنالیے اور انھیں ہدایت اور رہنمائی کا حق دے دیاتو یہ تمام صورتیں اللہ کی رہنمائی سے انکار کے مترادف ہیں۔ کبھی اس انکار کی صورت کفر کی ہوتی ہے اور کبھی تکذیب کی۔ لیکن دونوں صورتوں میں گمراہی ان کا مقدر بن جائے گی۔ یہ گمراہی دنیا میں بھی ایک عذاب بن جاتی ہے۔ لیکن اصل عذاب جو اس گمراہی کے نتیجے میں ملے گا وہ قیامت کے دن جہنم کا عذاب ہے جس میں یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے اور کوئی ان کو نجات دینے والا نہیں ہوگا۔ اس رکوع میں بہت سے حقائق منکشف ہوئے ہیں۔ تشریح کے ضمن میں ہم موقع کی مناسبت سے وضاحت بھی کرتے رہے ہیں۔ لیکن آخر میں چند باتوں کی نشان دہی کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ 1 سب سے پہلے تخلیق آدم کو ایک حقیقت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ انسان کی ابتداء کے بارے میں بعض مفروضوں کے حوالے سے جو کچھ کہا جاتا ہے اس سے قطع نظر یہاں یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ آدم کو اللہ نے دست قدرت سے بنایا اور اسے یہ اعزاز بخشا کہ فرشتوں تک نے اسے سجدہ کیا۔ اس طرح سے وہ اس کائنات کا گل سرسبد ٹھہرا اور اسے بتادیا گیا کہ یہ ساری کائنات تمہارے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن تم خود صرف اللہ کے لیے پیدا کیے گئے ہو۔ تمہیں ہم نے قوت تسخیر دی ہے ارادہ شعور اور عقل سے نوازا ہے۔ پھر تمہیں ان قوتوں کو بروئے کار لانے کی آزادی بھی بخشی ہے۔ لیکن صرف ایک قدغن لگائی گئی ہے کہ تمہارا ہر استعمال اور تمہارا ہر ارادہ اور تمہاری ہر تسخیر کا نتیجہ اللہ کے احکام کے تابع ہونا چاہیے۔ 2 اس زمین پر تمہاری حیثیت اللہ کے نائب اور خلیفہ کی ہے۔ نائب اپنی ذات میں خودمختار نہیں ہوتا، تم بھی اس زمین پر خود مختارانہ زندگی نہیں گزاروگے۔ خلیفہ کے پاس جو بھی اختیارات ہوتے ہیں وہ ذاتی نہیں ہوتے بلکہ ان اختیارات کا سرچشمہ وہ حکمران ہوتا ہے، جس کا وہ خلیفہ اور نائب ہے۔ تمہیں چونکہ اللہ نے اپنا خلیفہ بنایا ہے اس لیے دیکھنا اپنے اختیارات کو آزادانہ استعمال نہ کرنا بلکہ اس طرح استعمال کرنا جس طرح اختیارات دینے والے نے تمہیں ہدایت دی ہے۔ 3 آدم کا اصل امتیازی پہلو اس کی علم میں برتری ہے۔ جن میں سب سے مقدم علم اس ہدایت کا علم ہے جو اللہ کی طرف سے نازل ہوتی ہے اور جس کے مطابق زندگی گزارنے کا انسان کو پابند ٹھہرایا گیا ہے۔ اس کے بعد وہ تمام علوم ہیں جن سے انسانی ضرورتیں وابستہ ہیں اور جن پر انسانیت کی بقا اور مفسدین کے دفاع کا دارومدار ہے۔ اس میں دنیا اور دین کی کوئی تقسیم نہیں۔ دین رہنمائی مہیا کرتا ہے، اس کی رہنمائی میں وجود میں آنے والی دنیا بھی دین بن جاتی ہے۔ امت مسلمہ کو جب دشمن قوتوں سے خطرہ لاحق ہوتا ہے تو تمام دفاعی علوم بھی دین کی طرح فرض اور واجب ہوجاتے ہیں۔ 4 آدم اور ابلیس کی کشمکش سے یہ بات واضح کی گئی ہے کہ غلطی آدم سے بھی ہوتی ہے اور ابلیس سے بھی۔ لیکن آدم کی آدمیت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ غلطی پر کبھی اصرار نہیں کرتا تنبہ ہوجانے کے بعد فوراً توبہ کی طرف لپکتا ہے۔ اپنی اصلاح کرتا اور اللہ کو راضی کرنے میں اس وقت تک لگا رہتا ہے جب تک اس کی رضا کا یقین نہیں ہوجاتا۔ ابلیس کی غلطی کی بنیاد غلط فہمی، سہویا ناواقفیت نہیں ہوتی بلکہ اس کی بنیادذاتی سربلندی کا غرور ہوتا ہے۔ کبھی یہ غرور نام و نسب سے پیدا ہوتا ہے۔ کبھی دولت وامارت سے اور کبھی قوت و شوکت سے۔ گناہ کی یہ بنیاد اتنی مضبوط ہے کہ جس کے نتیجے میں سرکشی پیدا ہوئے بغیر نہیں رہتی اور جب ذہن سرکشی کا شکار ہوجاتا ہے تو پھر اس پر کوئی نصیحت اثر نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اس واقعہ میں دیکھتے ہیں کہ حضرت آدم نے رورو کر نہ صرف مغفرت حاصل کرلی بلکہ نبوت کے سزاوار ٹھہرے۔ لیکن ابلیس سرکشی کا شکار ہوا معارضہ تک جاپہنچا اور راندئہ درگاہ ٹھہرا۔ 5 آدم اور ابلیس کی سرگزشت سے قریش اور یہود کو آئینہ دکھایا گیا ہے کہ اس آئینہ میں غور سے اپنی شکل پہچانو تم جس راستے پر چل رہے ہو یہ ابلیس کا راستہ ہے تو جس طرح ابلیس کو دونوں جہانوں کی رسوائی ملی اور آدم سرافراز ہوئے اسی طرح ذلت اور نکبت تمہارا مقدر بنے گی اور رسول اللہ ﷺ اور مسلمان کامیاب اور کامران ٹھہریں گے۔ 6 قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے یہ حقیقت کھول دی گئی ہے کہ تم محض اپنی فطرت اور عقل کے بل بوتے پر راہ صواب اور صراط مستقیم نہیں پاسکوگے جب تک تم اللہ کی طرف سے آخری پیغمبر پر اترنے والی ہدایت اختیار نہ کرو۔ اسی میں تمہاری دنیا ہے اور اسی میں تمہاری عقبیٰ ۔ اور آج جب کہ دنیا تیزی سے تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے اور مسلمان زوال کی انتہا کو چھو رہے ہیں۔ تو آج اس ہدایت کو آویزہ گوش اور زندگی کی رہنما بنانے کی شائد سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ ؎ یہ بزم آب و گِل جتنی کہ برہم ہوتی جاتی ہے محمد کی شریعت اور محکم ہوتی جاتی ہے
Top