Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 40
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِیْۤ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْ١ۚ وَ اِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ
يَا بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ : اے اولاد یعقوب اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِیْ : جو اَنْعَمْتُ : میں نے بخشی عَلَيْكُمْ : تمہیں وَاَوْفُوْا : اور پورا کرو بِعَهْدِیْ : میرا وعدہ أُوْفِ : میں پورا کروں گا بِعَهْدِكُمْ : تمہارا وعدہ وَاِيَّايَ : اور مجھ ہی سے فَارْهَبُوْنِ : ڈرو
(اے بنی اسرائیل ! یاد کرو میری اس نعمت کو جو میں نے تم کو عطا کی اور میرے عہد کو پوراکرو۔ میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا اور مجھ ہی سے ڈرو۔
یٰـبَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ اذْکُرُوا نِعْمَتِیَ الَّتِیْ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَاَوْفُوْا بِعَھْدِیْٓ اُوْفِ بِعَھْدِکُمْج وَاِیَّایَ فَارْھَبُوْنَ ۔ (البقرۃ : 40) (اے بنی اسرائیل ! یاد کرو میری اس نعمت کو جو میں نے تم کو عطا کی اور میرے عہد کو پوراکرو، میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا اور مجھ ہی سے ڈرو) گزشتہ رکوع سے پیوستہ رکوع میں انسانوں کو اللہ نے اپنی عبادت اور بندگی کی دعوت دی تھی اور بتایا تھا کہ ہر انسان اپنی ذات میں اللہ کا بندہ اور اس کا غلام ہے اور اللہ اس کا معبود اس کا آقا اور حاکم حقیقی ہے۔ اس کے بعد گذشتہ رکوع میں مزید یہ حقیقت واضح کی گئی کہ تم صرف اللہ کے بندے ہی نہیں ہو بلکہ تم اس زمین پر اللہ کے نائب اور خلیفہ بھی ہو۔ اس کائنات کا خالق ومالک چونکہ اللہ ہی ہے اس لیے یہ بات عقل اور فطرت کا تقاضا ہے کہ باقی کائنات کی طرح زمین پر بھی اللہ کی حاکمیت نافذ ہو اور اسی کے احکام کے مطابق زمین پر رہنے والے زندگی گزاریں۔ البتہ جن وانس اور باقی مخلوقات میں فرق یہ ہے کہ باقی تمام مخلوقات اللہ کے احکامِ تکوینی کے پابند ہیں، لیکن جن وانس چونکہ عقل و شعور کی نعمت کے ساتھ ساتھ اطاعت و معصیت اور شکروکفر کی آزادی سے بھی نوازے گئے ہیں۔ اس لیے ان پر اللہ کا قانون صرف تکوینی نہیں تشریعی بھی نافذ ہوگا اور تشریعی قانون کے لیے اللہ اپنے پیغمبر مبعوث کرے گا اور ان پر اپنی کتابیں اتارے گا۔ پیغمبر اللہ کے خلیفہ ہوں گے اور ان کے بعد اس خلافت کی ذمہ داریوں کو وہ لوگ ادا کریں گے جو پیغمبروں کے پیروکار اور ان کے بتائے ہوئے راستوں پر چلنے والے ہوں گے۔ اس طرح سے انسانوں کی یہ دوہری ذمہ داری ٹھہری کہ وہ انفرادی طور پر اللہ کی بندگی بھی کریں اور اجتماعی طور پر اہل ِ زمین پر اللہ کے احکام کو نافذ کرتے ہوئے خلافت کی ذمہ داریاں بھی ادا کریں۔ اب پیش نظر رکوع میں ایک ایسے گروہ کو خطاب کیا جارہا ہے جو تاریخ کے مختلف ادوار میں اللہ کے نبیوں کے ساتھ مل کر یا ان کی نیابت میں خلافت کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کا ذمہ دار ٹھہرا گیا تھا۔ اور وہ کام جو اللہ کے نبی دنیا میں کرنے کے لیے آتے ہیں یہ گروہ نبیوں کے ساتھ مل کر یا ان کی اقتدا میں اس کام کا مکلف بنایا گیا اور اس وقت کی تمام دنیا کی خیروفلاح کا ذمہ دار انھیں ٹھہراکر حامل دعوت ہونے کا شرف بخشا گیا۔ بظاہر اس کہانی کو بیان کرتے ہوئے تاریخ کے چند اوراق الٹے جارہے ہیں لیکن حقیقت میں چند اہم حقائق کی طرف متوجہ کرنا مقصود ہے۔ 1 آنحضرت ﷺ کی دعوت کے براہ راست مخاطب جو لوگ تھے، وہ تین قسم پر مشتمل تھے۔ (1) قریش، جو حضور کا اپنا خاندان تھا۔ (2) مدینہ منورہ کے اوس و خزرج، (3) اہل کتاب، یعنی بنی اسرائیل۔ ان میں سے یہ تیسرا گروہ یعنی بنی اسرائیل ان تینوں میں اہم حیثیت کا حامل تھا۔ بنی اسرائیل کا مفہوم اور ان کی مذہبی اور منصبی تاریخ ” اسرائیل “ درحقیقت حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا دوسرا نام یا آپ کالقب ہے اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دوسرے فرزند حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے بیٹے ہیں۔ عبرانی زبان میں اسر کا معنی ہے ” بندہ “ اور ایل کا معنی ہے ” اِلٰہ “۔ اس لحاظ سے اسرائیل کا معنی ہے ” عبداللہ یا بندہ خدا “۔ بنی اسرائیل چونکہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے مختلف بیٹوں کی اولاد تھے اس لیے وہ اپنے آپ کو بنی اسرائیل یعنی حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد کہلاتے تھے۔ البتہ اسرائیل کے معنی میں انھوں نے اپنی سرشت کے مطابق تبدیلی کی تھی۔ بجائے اس کو عبداللہ کے معنی میں لینے کے انھوں نے اس کا ترجمہ ” بطل اللہ “ کیا تھا اور اسی کو تقویت دینے کے لیے انھوں نے تورات میں ایک داستان بھی اختراع کردی۔ جس میں یہ دکھایا ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اللہ سے کشتی ہوئی۔ اس طرح سے انھوں نے نبوت کی حقیقت کو پامال کرکے رکھ دیا اور نبی اور اللہ کے درمیان جو تعلق ہے اسے بالکل بدل ڈالا۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں بنی اسرائیل میں اللہ کے نبی پید اہوتے رہے اور پھر ان میں چند ایسے جلیل القدر رسول بھی آئے جن پر اللہ نے اپنی کتابیں نازل فرمائیں۔ اور وہی کتابیں آج محرف شکل میں عہد عتیق اور عہد جدید کے نام سے یہود و نصاری کے پاس موجود ہیں۔ اسی نبوت و رسالت کے باعث اللہ نے اس خاندان کو عظمت بخشی۔ ان میں اگر ایک طرف علم کی ہمہ ہمی رہی تو ساتھ ہی مختلف ادوار میں یہ خاندان حکومتوں پر فائز بھی رہا اور زمین کے بڑے حصے کے لیے اللہ کے دین کا سرچشمہ اسی خاندان میں ابلتارہا اور یہی لوگ توحید کی علم برداری کا فرض انجام دیتے رہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان میں زوال آیا اور آنحضرت ﷺ کے زمانے تک پہنچتے پہنچتے یہ لوگ اس طرح زوال کا شکار ہوئے کہ باوجود اپنے پاس کتاب رکھنے کے کتاب کی روح سے بےبہرہ ہوگئے۔ احکام شریعت میں تبدیلیاں کیں اور اس کے اجتماعی نفاذ سے یکسر منحرف ہوگئے۔ ان کی اپنی عدالتوں اور پنچائیتوں میں ان کے بڑے لوگوں کی خواہشات قانون کی حیثیت اختیار کرگئیں۔ ان کے عوام نے اللہ کی حاکمیت کے تصور کو اس طرح بدل ڈالا کہ اپنے احبارو رہبان کو ربوبیت کے مقام پر فائز کردیا۔ شریعت کے چند وہ احکام باقی رہ گئے جن کا تعلق حاکمیت سے نہیں بلکہ عبودیت سے ہے اور زندگی کا پورا تانا بانارسم و رواج کی پابندیوں سے تیار کرڈالا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ حیرت انگیز حد تک انھیں اہل کتاب ہونے پر ناز تھا۔ اس لحاظ سے وہ اپنے سوا کسی اور کو راہ راست پر نہیں سمجھتے تھے۔ زندگی میں ہر طرح کی بدعملی کے باعث آخرت میں جواب دہی کے احساس سے بچنے کے لیے انھوں نے اس طرح کے اعتقادات اختیار کرلیے تھے کہ ہم انبیاء کی اولاد ہیں بلکہ اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں۔ اس لیے قیامت کی باز پرس کا ہمیں کوئی اندیشہ نہیں۔ ان کا ذکر فرماکر پروردگار گفتہ آید درحدیثِ دیگراں کے طور پر امت مسلمہ کو متوجہ فرمارہا ہے کہ جس طرح تم سے پہلے بنی اسرائیل خلافت کا فرض انجام دینے کے لیے حامل دعوت امت کے طور پر اٹھائے گئے تھے آج تمہیں بھی ان کی اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ناکامی کے باعث اسی ذمہ داری کے لیے اٹھایا جارہا ہے۔ تمہارے لیے ضروری ہے کہ تم اس گذشتہ امت کے احوال پر نظر رکھو۔ ہم تمہارے سامنے ان کی صدیوں پر پھیلی ہوئی تاریخ کے نمایاں ابواب کھولیں گے تاکہ تمہیں اچھی طرح اندازہ ہوجائے کہ جب کوئی قوم اس منصب پر فائز ہوتی ہے۔ تو وہ اگر اللہ کی طرف سے عائد کردہ ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر کس طرح انعامات کی بارش ہوتی ہے اور اگر وہ اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے پہلو تہی کرتی ہے اور حُبِّ دنیا کی اسیر ہو کر دینی تقاضوں کو نظر انداز کرتی ہے تو پھر کس طرح مختلف شکلوں میں اللہ کے عذاب کا کوڑا اس پر برستا ہے۔ 2 بنی اسرائیل چونکہ توحید نبوت اور آخرت کے ماننے والے لوگ تھے اور وہ اللہ کی نازل کردہ کتابوں کو تسلیم بھی کرتے تھے۔ لیکن ان کی بداعمالیاں اور کتاب اللہ میں ترمیم اور تحریف کی جرات اور پھر اللہ کی کتاب کی طرف بلانے والوں سے ان کی دشمنی کے رویے نے انھیں جس حد تک پہنچا دیا تھا اسے دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے دور کے اس حدتک بگڑے ہوئے مسلمان تھے کہ جن میں اسلام کے نام کے سوا کوئی چیز باقی نہ رہی تھی۔ لیکن انھیں اس بات پر فخر تھا کہ ہمیں دنیا میں ہمیشہ ایک خاص مقام حاصل رہا ہے اور مختلف ادوار میں ہم پر اللہ کے انعامات برستے رہے ہیں۔ اس رکوع میں اسی حوالے سے ان سے خطاب فرماکر انھیں ان کا اصل مقام اور منصب یاد دلایا گیا ہے۔ اور پھر انھیں دعوت دی گئی ہے کہ تمہارے مقام اور منصب کا تقاضا یہ ہے کہ تم سب سے پہلے آگے بڑھ کر اسلام کی دعوت کو قبول کرو۔ کیونکہ آنحضرت ﷺ کی دعوت میں کوئی ایسی بات نہیں جو تمہارے لیے اجنبی ہو وہ کسی ایسی بات کا حکم نہیں دے رہے، جو سابقہ آسمانی کتابوں کی ہدایت کے خلاف ہو۔ اور دین کی جو بنیادیں سابقہ آسمانی کتابوں نے پیش کی ہیں ان میں سے کسی بات کا وہ انکار نہیں کررہے۔ اصول دین میں ان کی دعوت تمہاری دینی دعوت سے بالکل ہم آہنگ ہے اور ان میں سے کسی بات کا انکار کرنا تمہارے لیے ممکن نہیں۔ پھر کوئی وجہ نہیں کہ تم اس دعوت کو دوسروں سے آگے بڑھ کر قبول نہ کرو۔ 3 بنی اسرائیل سے مختلف ادوار میں رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کا عہد لیا گیا تھا اور آپ کی اور آپ پر نازل ہونے والی کتاب کی علامتیں ان کی کتاب میں موجود تھیں ان کا حوالہ دے کر انھیں یاد دہانی کرائی جارہی ہے کہ دوسرے لوگ تو اس دعوت کو اس وقت قبول کریں گے جب دعوت ان کے دل و دماغ میں اترے گی لیکن تمہارے لیے یہ دعوت نہ صرف جانی پہچانی ہے بلکہ تم تو عہد و پیمان کے باعث بھی اس دعوت کو قبول کرنے کے پابندہو۔ لیکن تمہیں صرف اس لیے اسے قبول کرنے سے انکار ہے کہ تم نے حب دنیا میں مبتلا ہو کر جو طوراطوار اختیار کرلیے ہیں اور جس طرح تمہارے علماء نے مصنوعی سیادت و قیادت کا ایک بہروپ اختیار کررکھا ہے۔ اور جس طرح تم نے سادہ لوح عوام کو دین کا غلط تصور پیش کرکے اپنی عقیدت میں جکڑ کر اپنے لیے چڑھاؤوں اور نذر نیاز کر انتظام کررکھا ہے تمہیں اندیشہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے سے یہ سب کچھ ختم ہوجائے گا اور تمہارا بھرم کھل جانے سے تمہاری آمدنی کے سارے سلسلے ختم ہوجائیں گے اس لیے تم اس دعوت کو قبول کرنے سے انکاری ہو۔ اس طرح سے ایک تو ان کے ضمیر کو جھنجھوڑا تاکہ ان میں کسی کے ضمیر میں زندگی ہے تو وہ بیدار ہوجائے ورنہ جو لوگ ان کے علم سے متاثر ہونے کے باعث ہمیشہ ان سے رجوع کرتے ہیں ان کے سامنے ان کی اصل حقیقت واضح ہوجائے۔ اور اس طرح سے ان کو غلط فہمیاں پیدا کرنے کا جو موقع ملاہوا ہے وہ ختم ہوجائے۔ ان حقائق کو ذہن میں رکھ کر ہمیں آئندہ آیات کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ پیشِ نظر آیت کریمہ میں چار باتیں تشریح طلب ہیں۔ 1: اُذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ ” اے بنی اسرائیل ! میری نعمت کو یاد کرو “۔ نعمت کا معنی ہوتا ہے ” احسان “ اور کبھی عام عطیہ کو بھی نعمت کہہ دیتے ہیں۔ لیکن یہاں اُذْکُرُوْاکے لفظ سے واضح ہوتا ہے کہ مراد وہ عام نعمتیں نہیں جو عام انسانوں کو میسر ہیں بلکہ وہ خاص افضال و عنایات ہیں جن سے اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں یا خاص قوموں کو نوازتا ہے۔ اس لحاظ سے جب دیکھیں تو قرآن کریم نے مختلف مقامات پر دو طرح کی نعمتوں کا ذکر کیا ہے۔ 1 اس وقت کی معلوم دنیا میں اللہ تعالیٰ نے صرف بنی اسرائیل کو اپنے دین کی سربلندی خلق خدا کی ہدایت اور لوگوں کی اصلاح کے لیے منتخب فرمایا۔ اور انھیں حامل دعوت ہونے کا شرف بخشا، توحید اور شریعت کی امانت ان کے سپرد کی گئی۔ اور انہی میں اللہ کے نبی مبعوث ہوتے رہے اور یہ ایک ایسا شرف ہے جسے حاصل کرنا کسی انسانی گروہ کے اختیار میں نہیں۔ یہ سراسر اللہ کی دین ہے جسے وہ عطاکردے۔ 2 حق و باطل کی کشمکش میں یقینا مشکلات پیش آتی ہیں۔ بنی اسرائیل کو بھی مختلف ادوار میں پیش آئیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی تشریف آوری کے بعد بنی اسرائیل کو بطور خاص حق کی علمبرداری کے لیے اٹھایا گیا۔ پھر جس طرح وقت کی ایک قاہر قوت کے ساتھ ان کا تصادم ہوا اور پھر جس طرح ان کا وطن چھوٹا اور پھر جس طرح ان کو صحرائی زندگی اختیار کرنا پڑی۔ یہ مشکلات کا حوصلہ شکن سلسلہ تھا لیکن قدم قدم پر جس طرح اللہ کی عنایات ان پر برستی رہیں اور جس طرح ہر مشکل میں اللہ نے ان کی دستگیری فرمائی اور پھر رفتہ رفتہ انھیں حکومتوں کا مالک بنادیا۔ اور ایک وقت آیا کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی قوت بن گئے۔ یہ وہ عنایات اور احسانات ہیں جن کا قرآن کریم نے بھی جابجا ذکر کیا ہے۔ 3 الَّتِیْ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ ” میری وہ نعمتیں یاد کرو، جو میں نے تم پر انعام کی ہیں “۔ نعمت بھی اللہ کا انعام ہوتا ہے۔ اور وہ اللہ کے سوا کوئی دوسرا نہیں دے سکتا۔ لیکن اس کے بعد بطور خاص یہ فرمانا کہ میں نے تم پر انعام کیا۔ اس سے بنی اسرائیل کی ایک بہت بڑی گمراہی کی طرف اشارہ ہے۔ بنی اسرائیل کو جن تصورات نے بگاڑا اور جس کے نتیجے میں ان کی دینی زندگی داغ داغ ہوگئی وہ ان کا یہ تصور تھا کہ وہ ہر نعمت کو اپنی اہلیت اور استحقاق کا نتیجہ سمجھتے تھے۔ جب تک کوئی شخص اپنے محسن کی مہربانیوں کو احسانات سمجھتا ہے تو اس کے دل میں اپنے محسن کی قدر و عظمت ہوتی ہے۔ وہ اس کی اطاعت کرنے کا جذبہ رکھتا ہے۔ لیکن جب وہ کسی عنائت کو اپنا حق سمجھ لیتا ہے تو پھر وہ محسن کو محسن سمجھنے سے انکار کردیتا ہے اور احسان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جذبات سرے سے پید اہی نہیں ہوپاتے۔ بنی اسرائیل نے بھی جب اللہ کے انعامات کو اپنے نسب کا نتیجہ سمجھا اور اس کو ذاتی استحقاق قرار دیاتو رفتہ رفتہ اللہ سے ان کا رشتہ ٹوٹتاچلا گیا۔ شروع شروع میں اطاعت کا جذبہ کمزور ہوا، اور پھر بڑھتے بڑھتے اللہ کے دین سے بےنیازی ان کا معمول بن گئی۔ اس سے بنی اسرائیل کو اگر ایک طرف انعامات کی یاد دہانی کرانی ہے تو ساتھ ہی ان کی بدعملی کے اصل سبب پر توجہ بھی دلانی ہے کہ شائد وہ اس طرح سے اپنی گمراہی کے سبب کو سمجھ کرتائب ہونے کی کوشش کریں۔ 4 اَوْفُوْا بِعَھْدِیْٓ اُوْفِ بِعَھْدِکُمْ ’ ’ تم میرے عہد کو پوراکرو، میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا “۔ ان دو جملوں میں پروردگار نے بنی اسرائیل پر اپنے ایک احسان کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے اور ان کی ذمہ داریاں بھی ان کو یاد دلائی ہیں۔ دونوں جملے خود بول رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے کوئی عہد لیا ہے اور اس کے بدلے میں ان سے کوئی عہد کیا ہے۔ عہد ہمیشہ دو برابر کے افراد یا دو برابر کے گروہوں میں ہوتا ہے یا اگر جانبین میں مراتب کا تفاوت بھی ہو تو وہ اتنا نہیں ہو تاکہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کاروباری گفتگو نہ کرسکیں۔ لیکن جانبین اگر اس طرح کے ہوں کہ ایک طرف بادشاہ ہے اور دوسری طرف ایک مزدور۔ یا ایک طرف عطا کرنے والا ہے اور دوسری طرف ہاتھ پھیلانے والا۔ یا ایک طرف حاکم ہے اور دوسری طرف محکوم تو ان کے درمیان کبھی معاہدہ نہیں ہوتا۔ ہاں اس کی ایک ہی صورت ہے کہ بادشاہ، محسن یا حاکم خود کسی کو فریق مان لے اور محض عطا اور بخشش کے طور پر اس سے کوئی معاہدہ کرے کہ تم اگر یہ خدمت انجام دو گے تو ہم تمہیں اس پر یہ عطا کریں گے۔ جب کہ وہ محض ایک حکم کے ذریعے ہر طرح کی خدمت لینے کے مجاز ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی جب بنی اسرائیل پر شریعت نازل کی تو ساتھ ہی ان سے یہ بھی فرمایا کہ اگر تم اس شریعت پر عمل کروگے تو اس کے نتیجے میں ہم تمہیں دنیاوآخرت کی فلاح و کامرانی سے نوازیں گے۔ یا قرآن کریم میں بتایا گیا ہے کہ ہم نے مومنوں سے ایک معاہدہ کیا اور اس معاہدے کا ذکر ہم نے تورات اور انجیل میں بھی کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہی معاہدہ اہل کتاب کے ساتھ بھی تھا۔ وہ معاہدہ کیا ہے ؟ ان اللہ اشتریٰ من المومنین انفسھم واموالھم بان لھم الجنۃ ” بیشک اللہ نے خرید لی ہیں مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس وعدے پر کہ اس کے بدلے میں ان کے لیے جنت ہوگی۔ “ اللہ کا اپنے بندوں سے یہ معاہدہ بندوں کے لیے اتنا بڑا اعزاز ہے کہ اس سے بڑے اعزاز کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن کریم نے اس معاہدے کو سورة مائدہ آیت نمبر 12 میں خود میثاقِ بنی اسرائیل سے یاد فرمایا ہے اور اس میں شریعت کی پابندیوں کے بدلے میں اپنی معیت اور اپنی نعمتوں کا ذکر فرمایا اور دوسرے ایک اور معاہدے کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس کی وضاحت ہمیں تورات کی کتاب استثنا سے بھی ملتی ہے اور قرآن کریم کی سورة اعراف سے بھی۔ میں دونوں کے حوالے عرض کرتا ہوں۔ کتاب استثنا 15-19 میں ہے : (خداوند تیرا خدا تیرے لیے ہی تیرے درمیان سے یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا، تم اس کی سننا ....... میں ان کے لیے انہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا وہی وہ ان سے کہے گا اور جو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے تو میں ان کا حساب اس سے لوں گا) اب قرآن پاک میں اس عہد کی طرف اشارہ دیکھئے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کے لیے رحمت کی جو دعا کی، اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :۔ وَرَحْمَتِیْ َوسِعَتْ کُلَّ شَیئٍط فَسَاَکْتُبُھَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَالَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ ۔ اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَ ھُمْ فِیْ التَّوْرٰۃِ وَالْاِنْجِیْلِز یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَیَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْہِمْط فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوْاالنُّورَالَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ لا اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۔ (الاعراف : 156 تا 157) (اور میری رحمت ہر چیز کو شامل ہے، میں اس کو لکھ رکھوں گا ان لوگوں کے لیے جو تقویٰ اختیار کریں گے، زکوٰۃ دیتے رہیں گے اور جو ہماری آیتوں پر ایمان لائیں گے۔ یعنی جو پیروی کرتے ہیں رسول نبی امی کی جن کو لکھا ہواپاتے ہیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں، وہ ان کو حکم دیتے ہیں نیکی کا اور وہ روکتے ہیں منکر سے۔ اور ان کے لیے جائز کرتے ہیں پاکیزہ چیزیں اور حرام کرتے ہیں ان پر ناپاک چیزیں اور دفع کرتے ہیں ان پر سے بوجھ اور پھندوں کو جو ان پر تھے۔ پس جو ان پر ایمان لائے اور جنھوں نے ان کی حمایت کی اور مدد دی اور اس روشنی کی پیروی کی جو ان کے ساتھ اتاری گئی ہے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں) ان دونوں حوالوں میں آپ نے دیکھا ہے کہ بنی اسرائیل سے شریعت کی پابندی کے ساتھ ساتھ محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کا عہد بھی لیا تھا۔ اسی عہد کی بجاآوری پر حضور کی تشریف آوری کے بعد بنی اسرائیل پر رحمت کرنے کا وعدہ فرمایا تھا۔ اور قرآن کریم میں تو یہ بات بالکل واضح کردی گئی کہ نبی آخرالزمان پر ایمان ان کے ساتھ عقیدت واحترام، ان کا اتباع اور ان کی نصرت ( جس کے نتیجے میں اللہ کا دین غالب آجائے) ہی بنی اسرائیل اور تمام مسلمانوں کے لیے فلاح کی ضامن ہے۔ اسی وعدے کی یاد دلاکر بنی اسرائیل سے کہا جارہا ہے کہ آج اگر تم سلامتی چاہتے ہو اور دنیا اور آخرت کی تمہیں کامیابی درکا رہے تو پھر تمہیں اپنے عہد کو پورا کرنا چاہیے۔ 5 وَاِیَّایَ فَارْھَبُوْنَ ” اور مجھ ہی سے ڈرو “۔ اس جملے میں بھی ضمیر کو فعل سے اسی طرح پہلے لایا گیا ہے جس طرح اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ میں لایا گیا ہے۔ وہاں ہم بتاچکے ہیں کہ جہاں فعل کے مفعول کو فعل سے پہلے ذکر کیا جائے تو اس میں حصر کا معنی پیدا ہوجاتا ہے۔ اور یہ اس فعل کے اہتمام اور اس پر زور دینے کی ایک صورت ہوتی ہے۔ فارھبون اصل میں فارھبونی ہے۔ لیکن ضمیر متکلم کو فعل سے پہلے لاکر معنی میں زور پیدا کردیا گیا ہے۔ اگر فَارھَبُو نِی ہوتاتو اس کا معنی ہوتا ” پس مجھ سے ڈرو “ لیکن اب ضمیرمتکلم کی تقدیم سے معنی میں اہتمام پیدا ہوگیا تو اب اس کا معنی ہوگا ” پس مجھ ہی سے ڈرو “ اللہ کے ساتھ کیے گئے وعدے پورا کرنے میں یقینا مشکلات پیش آئیں گی، یقینا بہت سارے مفادات سے ہاتھ اٹھانا پڑے گا، یقینا بہت سی مراعات سے کنارہ کش ہونا پڑے گا۔ ممکن ہے لوگ تمہارے خلاف اٹھ کھڑے ہوں تمہاری سیادت و ریاست کو نقصان پہنچے۔ لیکن یاد رکھو یہ چیزیں اللہ کے مقابلے میں پرواہ کرنے کی نہیں ہیں۔ یہ ساری چیزیں چھوٹ جائیں اور اللہ راضی ہوجائے تو وہ سب کچھ عطا کرسکتا ہے۔ لیکن اگر وہ ناراض ہوگیا تو ساری ریاستیں اور سیادتیں اور مال و دولت کے انبار اور لوگوں کا رجوع اللہ کے غضب سے نہیں بچا سکے گا۔ اس لیے تمہیں ہر طرح کے خوف سے بےنیاز ہوکرصرف اللہ سے ڈرنا چاہیے اور اللہ سے ڈرنے کا نبی آخرالزمان کی تشریف آوری کے بعد فوری تقاضا یہ ہے۔
Top